بت شکن ۔۔۔ ملک حفصہ

’’سنو! سنو،جان ڈالو نا مجھ میں۔ دیکھو دیکھو یہ ہاتھ نہیں ہل رہے۔ دیکھو یہ آنکھیں، میری آنکھیں۔ جھپکنی ہیں میں نے۔ سنو اٹھو، اٹھو نا۔‘‘
’’نہیں… نن نہیں۔‘‘
چیخ کی آواز سے رضیہ بیگم دوڑتی ہوئی اُس کے کمرے میں آئیں۔
’’کلمہ پڑھ میرے بچے… بیٹا کچھ نہیں ہے۔ کیا ہوا اٹھ بیٹا۔‘‘فکر مندی سے اسے ہلایا، پسینے سے تر پیشانی ہتھیلی صاف کی۔ سائیڈ ٹیبل سے پانی انڈیلتے اس کے ہاتھ کو تھاما۔ جب سے گھر آیا تھا چپ چپ تھا جیسے کوئی چیز دماغ میں چل رہی ہواور میں تھکاوٹ سمجھتی رہی۔ پتا نہیں کیا ہوا ہے۔ دل ہی دل میں سوچا اور پریشانی سے اُس کی کمر سہلانے لگی۔
یہ غالباً پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ اس طرح چیختا ہوا اٹھا تھا۔
٭…٭…٭
شان سلطان اسکول، کالج اور اب یونیورسٹی کا ذہین ترین طالب علم تھا۔ شوق آرٹسٹ بننے کا تھا، لیکن ماں باپ کی سوچ تھی کہ آرٹسٹ بس صفحات بھرتے ہیں پیسے نہیں۔ اس لیے اسے آئی ٹی میں داخلہ دلوایا۔ ذہین تھا یہاں بھی ٹاپ کیا اور اب پورے ڈیپارٹمنٹ میں شان سلطان کے چرچے ہوتے تھے۔
ذہانت اپنی جگہ وہ نہ صرف خوش شکل تھا بلکہ خوش مزاج بھی ثابت ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ اردگرد ہجوم لیے پھرتا تھا۔ آرٹسٹ کا شوق دبایا نہیں تھا، فارغ وقت میں مزید اپنے ٹیلنٹ کو تراشنے کی کوششوں میں لگا رہتا اور آج کل میں اُس کا ایک مجسمہ تیار ہونے والا تھا جس کا اس سے زیادہ اُس کے دوستوں کو انتظار تھا۔
شان سلطان کی دوستی حیدر سے ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ہوئی تھی۔ پڑھائی میں مدد لینے کے لیے اس کے پاس ویسے بھی ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے لڑکیاں جمع رہتے۔ سیمینار میں یا پھر ڈیپارٹمنٹ کے پارک میں شان کسی کو کچھ نہ کچھ سمجھا رہا ہوتا پر حیدر سے اس کی کافی اچھی دوستی کی وجہ دونوں کا آرٹ میں شوق تھا۔ جیسے پیاسے کو پانی کی تلاش ہو ویسے ہی شان کو اپنے ہی جیسے کسی کی تلاش تھی۔
پانی اور مٹی ہر جگہ بکھری ہوئی تھی۔ آج تو باریکیوں پر کام کرنا تھا، بالوں اور چہرے پر بھی کہیں کہیں مٹی کے آثار تھے۔
گھر میں اکیلا تھا اور اسے خاموشی ہی چاہیے تھی۔
شاہکار مکمل ہونے کو تھا۔ اسے لگا وہ اسے دیکھنے لگا ہے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

’’یار شان میں دو دن یونیورسٹی نہیں آؤں گا، کام زیادہ ہوا تو سمجھا دینا یار۔‘‘حیدر کی کال تھی اس نے پچھلے مہینے میں بھی دو دن ایسے ہی چھٹی کی تھی۔
’’اوئے یہ دو دو دن کر کے کیا کرنے جاتا ہے تو؟‘‘ شان کو اب واقعی تجسس ہوا۔
’’کچھ نہیں نا۔‘‘حیدر کا یہ ٹالنے کا انداز تھا۔
’’نہیں بتانا پڑے گا بتا۔‘‘ شان ضد پر اڑ گیا۔ حیدر جانتا تھا اب یہ جان کے ہی دم لے گا۔
’’یار میں دو دن جماعت کے ساتھ گزارتا ہوں۔ ہمارے محلے کی مسجد میں اگر کوئی جماعت آتی ہے تو ان کی نصرت میں یا پھر دور پرے کہیں پتا لگتا ہے تو وہاں چلا جاتا ہوں۔
’’سیکھنے کو ملتا ہے یار اور دین کا جتنا جانو کم ہے۔ عمل کی بھی ہمت کرتا ہوں۔ جماعت والوں کی خدمت، دور پرے کے اللہ کے مہمان مسافر اور پھر مسجد میں ٹھہرے ہوؤں کی تو بس اسی لیے۔‘‘
’’ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔ یہ تو اچھی بات ہے، چل کچھ سیکھے تو مجھے بھی سکھانا۔‘‘
’’ہاں ہاں ضرور، تو چاہے تو آسکتا ہے۔‘‘
’’ارے پرفیکٹ، ویسے تو میں جاتا نہیں ہوتا۔ ایسے مطلب تم جانتے ہو نا…پر صحیح ہے یہ بھی کرلیتے ہیں۔ ہوپ اٹ وڈ بی گریٹ،کب آنا ہے؟‘‘ایکسائیٹمنٹ سے بھری آواز تھی۔
’’کل صبح فجر کے بعد۔‘‘ حیدر باقاعدہ طور پر اس کے نہ صرف اعتراض نہ کرنے پر بلکہ ساتھ چلنے پر حیران تھا۔ موڈ ہوتے ہوئے بھی اس کا یہ رویہ اُس کے لیے خوشی کا باعث تھا۔
٭…٭…٭
’’آنکھیں دیکھیں تو میں دیکھتا رہ گیا۔‘‘
بیک گراؤنڈ میوزک لگا کر آج آنکھیں بنانی تھیں۔ اپنی طرح، گہری اور بولتی آنکھیں۔
وہ جانتا تھا آج جو آنکھیں وہ بنانے لگا ہے، اگر اس میں وہ کامیاب ہوگیا تو یہ اُس کا پہلا ہی مجسمہ بہترین شاہکار ہوگا۔
ہاتھوں پر مٹی تھی اور بال بکھرے ہوئے۔
اسے آج آنکھوں پر محنت کرنی تھی۔ چہرے کے خدوخال میں آنکھیں ہی تھیں جو اسے ہمیشہ سے بھاتی تھیں اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔
ایسی آنکھیں جو دنیا سے لمحے کے لیے بیگانا کردیں۔
ایسی آنکھیں جو خاموش رہنا نہ جانتی ہوں۔
ایسی آنکھیں جن پر موجود پہرے دار پلکیں، دریا میں موج مستی سے گھومتے شفاف ٹھنڈے پانی کی طرح بل کھاتی ہوں۔
جیسے شاہی لبادہ اوڑھے کوئی سپاہی کسی بہت خوبصورت و قیمتی خزانے کی رکھوالی کے لیے کھڑا کیا گیا ہو۔
ایسی آنکھیں جن میں سحر ہو۔ سانس روک لینے اور روح کھینچ لینے کا سحر۔ ایسی آنکھیں جو ساحر کی آنکھیں ہونے کا اعزاز رکھتی ہوں۔
٭…٭…٭
’’شان بھائی مولوی صاحب کہہ رہے تھے آج عصر کی اذان آپ دیجیے۔‘‘ چھوٹے سے بچے نے آکر شان کو کہا۔ وہ وہاں مائیک کی آواز ٹھیک کر رہا تھا جو کافی دیر سے خراب تھی۔ منٹوں میں شان نے سیٹنگ کی اور ٹھیک کردیا۔
مولوی صاحب دور بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ خدا کی شان ہے اور یہ بھی خدا کا شان ہے۔ مسکراتے ہوئے سوچا اور بچے کو کہہ دیا۔
’’ہیں لیکن میں؟ میں نے تو کبھی اذان نہیں دی۔‘‘
شان ہکلایا۔
’’پر سنی تو ہے نا۔‘‘ دور سے مسکراتے مولوی صاحب قریب آئے۔
’’جی۔‘‘ آنکھیں بند کیے اذان دیتا شان الگ ہی دنیا میں تھا۔
٭…٭…٭
وہاں ساری طرف گارا اور مٹی بکھری ہوئی تھی، وہ کچھ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
باریکیوں کو غور سے دیکھتا اور ٹھیک کرتا، جیسے تنقیدی جائزہ لے رہا ہو۔
کمرے میں آج کوئی بیک گراؤنڈ میوزک نہ تھا۔ اسے آج مکمل کر کے جانا تھا، پر وہ مکمل نہ کر سکا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ہم زاد — سحرش رانی

Read Next

جو ملے تھے راستے میں — سما چوہدری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!