کھیل ختم — ماہ وش طالب

میں عاشق مزاج سا بندہ نجانے اب تک کتنوں کے دل سے کھیل چکا تھا اور یہ شغل جاری ہی رہتا اگر وہ پری وش میرے خوابوں سے نکل کر حقیقت میں میرے حواسوں پر نہ سوار ہوگئی ہوتی۔ محض ایک سال تک ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہے مگر مجھے اس کی ایسی عادت پڑ گئی تھی جیسے وہ میرے جنم جنم کی ساتھی ہو۔
پہلی بار اپنے جگری یار وقاص کی شادی پر میں نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ بھی ایک جھلک دکھا کر دوبارہ نہ نظر آئی۔ میں نے دوست سے پوچھا تو اس نے کہا کہ دور کی کوئی کزن ہوگی۔ شادی کی تصویروں میں بھی وہ نہیں تھی کہ ان میں سے دیکھ کر نشاندہی کروا دیتا۔ دو ہفتوں تک اس نازنین کے چہرے کو تصور میں دیکھتے رہنے کے بعد بالآخر حیرت انگیز طور مجھے وہ دوبارہ نظر آگئی۔ وہ اس بار بھی اکیلی تھی اور بک شاپ کی اوپری منزل پر تاریخ کی کتابیں کھنگال رہی تھی۔ میں نواز کے ساتھ گپیں ہانک رہا تھا جب یکدم اس کے سیاہ بالوں کی ناگن چٹیا میں الجھ گیا اور اس سے پہلے کہ اس کے قریب جاپاتا، وہ لفٹ کے ذریعے نیچے جاچکی تھی۔ میں نے مین مارکیٹ تک اسے تلاش کیا لیکن پر اسے ملنا تھا، نہ وہ ملی۔ اب تو میری رنگین مزاجی میں بھی ایک ہی رنگ ٹھہر سا گیا تھا، اُداسی کا رنگ۔ پڑھائی سے تو پہلے بھی خاص شغف نہ تھا مگر اب تو ٹوٹی فروٹی سی لڑکیاں بھی اپنی جانب مائل نہ کرتی تھیں۔ وہ نازک اندام حسینہ جو اپنی سادگی سے میرے سکون کا قتل کرگئی تھی، مکڑی کے جالے کی طرح اُلجھے ہوئے دنوں میں نے اسے تیسری بار کوئین میری کالج کے گیٹ کے باہر دیکھا۔ سفید وردی پر گلابی دوپٹا اوڑھے اپنے دراز قد میں وہ کوئی غنچہ ہی لگ رہی تھی۔ میں ٹریفک کی پروا کیے بغیر سحر زدہ سا اسے دیکھتا گیا پھر ستم یہ ہوا کہ اس نے بھی اپنی نظرِ التفات مجھ پر ڈالی مگر کم بخت لینڈکروزر والے کو شاید جہنم میں جانے کی جلدی تھی جو ہارن پہ ہارن دیے جارہا تھا۔ اسے راستہ دینے کے چکر میں وہ ایک بار پھر میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ خیر یہ تسلی ہو رہی کہ وہ لاہور میں ہی رہتی ہے۔ اس کے بعد میں تین دن تک اسی کالج کے قریب جاتا رہا مگر مجھے وہ نظر نہ آسکی۔
میری بے سدھ ہوتی حالت کو دیکھ کر شاید قدرت کو مجھ پر رحم آہی گیا اور بہار کی پہلی شام میں آنے والی اس فون کال نے میرے ارد گرد بھی جیسے سبزہ اگادیا۔
’’پہچانا نہیں؟‘‘ انجان نمبر سے آنے والی کال لینے کے بعد میں نے ’’کون ہے‘‘ پوچھا تو ایک سریلی سی آواز میرے کانوں میں رس گھول گئی۔
’’بھئی حد کرتے ہو۔ ویسے بڑے میرے دیوانے بنے پھرتے ہو۔‘‘ وہ نروٹھے پن سے بولی۔ میں ہکلا ہی تو گیا تھا۔
’’اب کچھ بولو بھی۔‘‘ اب کے شاید وہ حق جتانے والے انداز میں خفا ہوئی تھی۔
’’کیا تم وہی کوئین میری کالج والی ہو؟‘‘میرے کھوئے کھوئے سے حواس بحال ہونے لگے۔
’’ہاں!‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’میرا نمبر کیسے ملا؟‘‘ یہی سوال سب سے پہلے میرے ذہن میں آیا۔
’’ایک نمبر کے بھلکڑ ہو۔ اپنی بائیک کے پیچھے ہی تو لکھ کر ساری دنیا کی لڑکیوں کو دعوت دیتے ہو۔‘‘ اس نے یوں کہا جیسے منہ پر بات ماری ہو۔ میں تو کھسیا گیا۔
’’اب شرمندہ کیوں ہورہے ہو؟ زندگی کی رنگینیوں پر تو سب کا ہی حق ہوتا ہے۔‘‘ وہ مجھے ڈھیٹ کررہی تھی مگر میں اب سنبھل چکا تھا۔
’’بڑی بے باکی ہے اس میں تو۔‘‘مجھے یکدم لطف آنے لگا۔
’’ہاں! بس۔‘‘ میں نے دانستہ بات چھوڑی اور یوں اپنے سر پر خود ہی چپت لگائی جیسے وہ میرے سامنے ہو۔
’’کیابس؟‘‘
’’میں سوچ رہا تھا خوب بنے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔‘‘ میں نے بات بنائی۔
’’ہاں بالکل! چلو بعد میں بات ہوگی۔ اب رکھتی ہوں فون۔‘‘ اور اس دن کے بعد مجھے بے چینی سے اس کے اگلے فون کا انتظار تھاجو صد شکر کہ ہر گز زیادہ لمبا نہ تھا۔ اگلی شام اسی وقت پر اس نے کال کی تھی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ ہمیشہ وہی ایک مخصوص وقت پر فون کرتی تھی۔ آگے پیچھے کال کرنے سے اس نے مجھے منع کیا تھا۔ میرے استفسار پر بتایا کہ :
’’کچھ مجبوریاں ہیں جنہیں تم نہیں سمجھو گے۔‘‘
’’کیوں کیا کوئی اور بھی ہے؟‘‘ میرے لبوںسے یہ سوال پھسلا جو اسے تپا گیا۔
’’دکھادی نا اپنی اصلیت۔ تم مردوں کی گھٹیا ذہنیت بس یہیں تک سوچ سکتی ہے ۔اپنا پتا نہیں کہ ایک وقت میں کتنیوں کے دلوں سے کھیلتے ہوں اور کتنی حسیناؤں کی زلفوں کو آلودہ کرتے ہوں۔ ایک بار پھر بغلیں جھانکنے لگا۔ میرے اپنے لیے یہ بات بہت حیران کن تھی کہ اس کی اس قدر بدزبانی اور صاف گوئی بھی مجھے بری نہیں لگتی تھی۔ تقریباً ہر روز ہی بات کرتے ہوئے بالواسطہ وہ مردوں کی اور بلاواسطہ میری ذات پر طنز کے تیر چلادیتی۔ مگر میں خود پر جبر کرکے سن لیتا۔ کچھ اس کے لہجے کی شیرینی مجھے اس کی طرف کھینچتی ہی جاتی تھی کیوں کہ وہ بڑے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کوئی نہ کوئی چبھتی بات کرنے کے بعد کوئی ایسا موضوع زیرِ بحث لے آتی جس کا پچھلی کی گئی تلخ بات سے کوئی تعلق نہ ہوتا اور پھر اپنی ہی باتوں کے سحر میں مجھے بھی لے ڈوبتی۔
’’تم مجھ سے ملتی کیوں نہیں؟‘‘
دو ماہ کی صرف ٹیلی فون تک محدود رہنے والی گفتگو اب مجھے بیزار کرنے لگی تھی کہ خالی خولی چٹ چیٹ میرے لیے وقت کا ضیاع تھی۔
’’میں تمہیں ملو گی بھی نہیں جانِ من!‘‘ اُف اس کا یہ طرزِ تخاطب ہی تو مجھے مار ڈالتا تھا کہ چاہ کر بھی میں اس سے الگ نہیں ہوپارہا تھا۔
’’نیلماں کوئی نشے کی گولی نہیں کہ آرام سے نگلی جاسکے۔‘‘ اس بار اس مدحوش سا لہجہ ذومعنی تھا۔
’’تو کتنا وقت چاہیے تمہیں۔‘‘ میں بھی ڈھٹائی پر اتر آیا۔
’’یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘‘
لائن کٹ چکی تھی۔ میں نے غصے میں سیل فون بستر پر پٹخا۔ اب مجھے کل کا انتظار تھا کہ آر یا پار۔ اگر وہ مجھ سے ملاقات کرسکتی ہے تو ٹھیک ورنہ میں اپنا راستہ الگ کروں۔ جتنا وقت میں نے اس پر ضائع کرنا تھاکرلیا۔ اتنے عرصے میں تو میں آرام سے اپنا وقت کسی اور کی صحبت میں مزید خوشگوار بنا سکتا تھا۔ خوامخواہ اس کے دیدار کی تڑپ میں اپنی مہکتی راتوں کو خزاں کی نذر کیا مگر اب اور نہیں۔ پھر اگلی شام میں نے دوبارہ اس سے ملنے کی درخواست کی۔
’’میرے پیچھے مت بھاگو۔ مجھے بس محسوس کرو۔‘‘ اس کی مدھر سی آواز مجھے خوشگوار احساس سے بھگو گئی۔
’’نیلماں! تم سمجھتی کیوں نہیں؟جتنا میں تمہیں محسوس کرتا ہوں، اتنی ہی تم کو چھونے کی طلب بڑھتی جاتیہے۔‘‘ میں نے بھی جذبات کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
’’ہاں! مرد جو ہوئے تم۔ اس لیے ہر چمکتی شے کے پیچھے بھاگنا اپنا فرض ہی سمجھ لیتے ہو۔‘‘ وہ پھر سے مجھے ذلیل کرنے لگی۔
’’تمہیں مسئلہ کیا ہے سامنے آنے میں۔‘‘
’’کیونکہ میں اک سراب ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کال بند کردی جبکہ میں اس کی ذومعنی باتوں میں ہمیشہ کی طرح الجھ کر رہ گیا۔ پھر مجھے اس کے عروجِ شباب اور جلیبی کی مانند الجھی ہوئی میٹھی باتوں نے بالکل اپنا اسیر کرلیاکہ اس سے بات کیے بنا اب کوئی گزارا نہیں تھا۔
ایک رات مجھے اس کے نمبر سے پیغام موصول ہوا، جس میں نیلماں سے ملاقات کا مکمل پتا درج تھا۔ مجھے تو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے تک اپنی موٹر سائیکل اس سنسان سی سڑک پر دوڑانے کے بعد میں نے بالآخر وہاں کے اکلوتے ٹریفک کانسٹیبل سے مطلوبہ مقام کا پوچھا تو اس نے ایک نظر مجھے گھورا جس کی وجہ مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔
’’ویسے یہ پتا نامکمل ہے، مگر میں چونکہ یہاں قریب ہی رہتا ہوں اس لیے اندازہ لگالیا۔ یہاں سے اگلا چوک اور وہیں سے دائیں مڑ جانا۔‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے میری رہنمائی کی اور اس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد جب میں اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا تو لرز کر رہ گیا۔ وہ ایک پرانا قبرستان تھا۔ میں سوچے سمجھے بغیر اندر بڑھتا رہا جیسے کوئی نادیدہ قوت میری رہنمائی کررہی ہو۔ وہاں پر بہت سی قبریں تو اجڑی ہوئی لگتی تھی۔
مجھے گرمی میں بھی ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ چلتے چلتے میں اچانک ایک قبر کے پاس آکر رکا۔
اس قدرے خستہ حال قبر کے اوپر کتبہ نصب تھا جس پر جلی حروف میں درج تھا ’’نیلماں‘‘ تاریخ پیدائش دیکھ کر میں ٹھٹک گیا۔
صرف تاریخ پیدائش دیکھ کر نہیں بلکہ تاریخ وفات کے نہ ہونے پر بھی اور اس کتبے کے کونے پہ لگی نیلماں کی چھوٹی سی تصویر دیکھ کر بھی۔
مجھے یکدم محسوس ہوا جیسے کسی نے میرے قدم جکڑ لیے ہیں۔ من من بھر کے قدم لیے کس مشکل سے میں اس جگہ سے نکلا، یہ میں ہی جانتا ہوں۔ مہینہ بھر مجھے شدید بخار چڑھا رہا۔ آنکھیں سرخ بتی کی پھیلی روشنی کی مانند لال رہتیں اور حواس اکثر خلاؤں کے سفر پر نکلے ہوتے۔
پھر اتفاق سے دوسال بعد کوئین میری کالج کے پاس سے میرا گزر ہوا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ گرمیوں کی سرگوشی کرتی ہوا اور درختوں کی سرسراہٹ مجھے جیسے ہراساں کر رہی تھی۔ میں خاموشی سے وہاں سے گزرجانا چاہتا تھا مگر نجانے کیوں اور کیسے کسی احساس کے تحت میں نے نظر اٹھا کر اطراف میں دیکھا۔
اِکا دکا لڑکیاں گراؤنڈ اور سیڑھیوں پر نظر آئی تھیں۔ پھر اچانک میری موٹر رش میں پھنس گئی۔ یونہی دوبارہ عمارت کی اوپری منزل پر نظرڈالی تو ایک نئے چہرے والی دوشیزہ مجھے ہی تک رہی تھی۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ اب دوبارہ اسے دیکھنے کی سنگین غلطی نہ کرنے کی خاطر میں سرپٹ وہاں سے دوڑا
اب یہ حال ہے کہ کسی لڑکی کا نام سن کر بھی مجھے وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ دوست یار نت نئی ترغیبیں دیتے ہیں مگر میں غیر محسوس طریقے سے ان سے کنارہ کش ہوتا جارہا ہوں۔ دل لگی کے سارے کھیل ختم ہوچکے ہیں کہ وہ لڑکی جو سراب تھی جو خود بھٹکتی ہوئی روح تھی، اس نے حقیقتاً میری ڈولتی زندگی کی سمت بدل دی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بانجھ — میمونہ صدف

Read Next

احساس — صبغہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!