اب اور نہیں — ایمان عائشہ

ان دنوں زندگی کی ٹرین بھی کیسے چھکا چھک کرتی گزرتی جارہی تھی۔ عمر رفتہ کے ڈبے بھی تیزی سے آنکھوں کے آگے سے گم ہوتے چلے جارہے تھے۔ میری عمر کی ڈور میں یکے بعد دیگرے گزرتے سالوں کی ان گنت گرہیں لگتی جارہی تھیں۔
ارے لڑکی ذات ہوتے ہوئے کیسے کہتی اور کیوں کر کہہ سکتی تھی میں؟ ان ہی دنوں میرے لیے انجینئر کا رشتہ آیا، کیا عمر تھی میری؟صرف اٹھارہ سال۔
’’ارے جاؤ کیا ہم اتنی سی عمر میں اپنی بیٹی کو اتنے بڑے کنبے میں جھونک دیں۔‘‘ پاپا نے ان دنوں ممی کے مجبور کرنے پر ہاتھ جھٹک کے گویا اس رشتہ سے صاف انکار ہی تو کردیا تھا ، پھر تو جیسے بیری کے درخت پر پتھروں والی بات کے مصداق یکے بعد دیگرے رشتوں کی لائن ہی لگتی چلی گئی تھی۔
’’وہ لڑکا تو ایک دم چھڑا چھانٹ ہے۔ خاندان کا پتا نہیں، نہ کوئی آگے ہے نہ پیچھے، ارے ! ہم تو یہاں نہ دیں گے اپنی بیٹی۔‘‘ یوں ان ہی دنوں ایک اچھے رشتے پر پاپا کی طرف سے معاملہ ختم کردیا گیا۔
ابھی کچھ مہینے ہی آگے سرکے ہوں گے کہ پھر کسی اور ہی رشتے کے بارے میں گھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔
’’اے شکل تو دیکھو لڑکا آدھا تو گنجا ہے۔ ہماری بیٹی کے آگے کہاں جچے گا ، حالانکہ کاروبار تو اچھا خاصا ہے ۔‘‘
اور پھر بات وہیں ختم۔
’’ان نو دولتیوں کے لچھن تو دیکھو ان کی عورتیں سونے میں نہا گئیں، پر پہننے اوڑھنے کے ڈھنگ نہیں آئے، ہونہہ ! ایسے لوگوں سے تو اللہ بچائے ۔‘‘
یوں ان ہی دنوں پاپا کی طرف سے دبئی پلٹ رشتے سے بھی انکار کردیا گیا ۔ زندگی کے پہیے نے تو چلنا تھا وہ کہاں رکتا ہے یوں ہی عمر کا تیسواں سال شروع ہوگیا جب میری زندگی میں وہ آیا۔
وہ بہار بن کر آیا یا خزاں بن کر، کچھ خبر نہیں، لیکن اس کے آنے سے مجھ پر یہ دو موسم آج بھی طاری ہیں۔
بیک وقت بہار اور خزاں کے یہ دو موسم جیسے مجھ پر مرتے دم تک طاری ہی رہیں گے۔ میں ان موسموں کے حصار سے کبھی خود کو نہیں نکال سکی۔
یہ بات بھی ان دنوں کی ہے جب خاندان میں منعقد ایک شادی کی رسم میں انہوں نے مجھے اپنی نظروں کے حصار میں قید کرلیا ، اس کی خبر تو مجھے جب ہوئی جب میرے لیے ان کا رشتہ آیا۔
ان ہی دنوں ڈرائنگ روم میں لہراتے پردے کی اوٹ سے جب ڈرتے ڈرتے چھپ کر میں نے ممی پاپا کی باتیں سنیں، تو پاپا ممی سے کہہ رہے تھے :
’’یہ لڑکا فرمان مجھے بالکل پسند نہیں، مرتا مر جاؤں گا پر یہاں رشتہ نہیں کروں گا۔‘‘
ان کی باتیں سن کر ایسا لگا جیسے میرا دل مٹھی میں لے کر بھینچ دیا گیا ہو۔ اب نہیں تو کب اور کب؟ کب ہاں کریں گے۔
میں نے پردے کی اوٹ میں کھڑے کھڑے کرب سے آنکھیں میچتے ہوئے سوچا۔
اب تو سہیلیوں کے سوالات بھی تیر کی طرح دل میں پیوست ہوجاتے تھے۔ جب وہ انتہائی حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھتی اور پوچھتیں۔
’’کیا واقعی تمہاری اب تک شادی نہیں ہوپائی؟ ‘‘
یہ بات بھی تو ان ہی بے مقصد سے دنوں کی ہے، جب موبائل پر اجنبی نمبر سے کال آئی۔
’’ہیلو میں فرمان ہوں۔ پلیز فون بند مت کیجیے گا، بہت ضروری بات کرنی ہے۔ اتنی ضروری ہے کہ اگر نہ کی تو شاید میں مر ہی جاؤں۔‘‘
کال اٹینڈ کرنے کے بعد کسی کی بھاری آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ وہ فرمان نامہ تھا یا شدتوں کی ایک داستان ، کے دل کی کشتی اسی سمت بہنے لگی ، من باغی ہوتا چلا گیا۔ ایک دن ممی سے بھی ڈرتے ڈرتے فرمان سے جڑے رشتے کا ذکر کر ہی ڈالا کہ عمر کا بھی تو اب اکتیسواں سال شروع ہوچکا تھا اور پاپا کا وہی رویہ …
’’تمہیں یہ قدم ضرور اٹھانا ہوگا۔‘‘ ایک دن فرمان نے جیسے بم ہی تو پھوڑ دیا تھا۔
’’کیا! کورٹ میرج؟‘‘
’’نہیں نہیں میں بہت شریف خاندان سے ہوں۔‘‘ میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔
’’میں بھی شریف خاندان سے ہوں، لیکن ہمیں یہ قدم لازمی اٹھانا ہوگا۔‘‘فرمان کی طرف سے زور دیا جاتا۔
رفتہ رفتہ عشق کا زہر رگ و پے میں سرایت کرتا جارہا تھا۔ اس کے تریاق کے لیے آخر ایک دن فرمان اور میں، ممی کو رازدان بناکر کورٹ کی طرف چل پڑے۔ ممی جوکہ پہلے ہی پاپا کے رویے سے خائف سی رہتی تھیں۔ ایک بڑے طوفان کی آمد کے خدشات سے یکدم سہم سی گئیں۔
میری عمر کا پینتیسواں سال۔
ان کی بیٹی بھاگ گئی۔ بیٹی بھاگ گئی؟ سنا تم نے اشرف صاحب کی بیٹی بھاگ گئی۔‘‘
’’ہاہ ہاہ۔‘‘
’’ارے ان شریفوں کا حال تو دیکھو اندر سے پھپھوند لگی ہوتی ہے ان میں، کیڑے پڑے ہوتے ہیں کیڑے۔‘‘ اشرف صاحب مسجد میں صف میں کھڑے ہوتے تو پیچھے سے کسی نمازی کی کریہہ آواز سنائی دیتی۔
ان دنوں پاپا کو تو جیسے چپ سی لگ گئی تھی۔ گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہوگیا تھا جہاں جاتے تمسخر شدہ نگاہیں طنز بھرے لہجے، آخر پاپا بہت جلد اس دنیا سے چلے گئے۔
’’میں نے غم بھی تو اتنا شدید دیا تھا نا۔ پھر کیسے جی سکتے تھے وہ۔‘‘
آج میری پانچ بیٹیاں ہیں۔ آج بھی میں گھر سے بھاگی ہوئی عورت کہلائی جاتی ہوں، کبھی کبھی میری بڑی بیٹی بولتی ہے :
’’ماما میں نے ایک جگہ پڑھا تھا گھر سے بھاگی ہوئی عورت کا سر ڈھانپنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اس نے کئی سوراخوں والی چادر اوڑھ رکھی ہو۔‘‘
ایسے میں میرا ہاتھ بے اختیار اپنے سر پر جمی چادر کو دوبارہ ٹھیک کرنے کے لیے اٹھ جاتا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا میں کنواری بیٹھی رہ جاتی جہاں پینتیس کی ہوگئی تھی، وہاں چالیس کی بھی ہوجاتی۔ اکثر آنسو بہاتے ہوئے میں سوچا کرتی ہوں۔ جیسے جیسے عمر گزرتی جارہی ہے مکافات عمل کی اندیشے مجھے رات دن ڈستے رہتے ہیں کہ کل جو میرے والدین نے میری شکل میں ذلت دیکھی کہیں آج مجھے بیٹیوں کی شکل میں بھگتنی نہ پڑجائے۔
میری بڑی بیٹی خیر سے اٹھارہ کی ہوگئی ہے۔ اچھا رشتہ آتے ہی ہاتھ پیلے کردوں گی پھر اس سے چھوٹی بیٹیاں بھی بانس کی طرح قد نکال رہی ہیں۔
’’نہیں نہیں ! بس اب اور نہیں میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی جو کبھی میرے ساتھ ہوا۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مجرم — ماہتاب خان

Read Next

ہم زاد — سحرش رانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!