مجرم — ماہتاب خان

چودھری افضل اپنے چھوٹے بھائی چودھری انور اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھا تھا۔ جب نذیرا ایک کتے کو لیے اس کے قریب آیا۔ اسی وقت ایک بوڑھا شخص جو پھٹے پرانے لباس میں ہاتھ جوڑے چودھری افضل کے قریب آیا۔
’’تو تو پیچھے مر۔‘‘ اس نے غصے سے اسے دیکھا۔
’’ہاں تو بتا وہ اس کا کیا مانگ رہے ہیں؟‘‘ چودھری افضل نے نذیرے سے پوچھا۔
’’دو لاکھ مانگ رہا ہے چودھری صاحب، مگر میرا خیال ہے ڈیڑھ میں سودا ہو جائے گا۔‘‘ نذیرے نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا۔
’’سن نذیرے اس کی تیاری تیری ذمہ داری ہو گی۔ اس بار ہماری ہار نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
’’خوراک آپ کی، محنت میری پھر کیسے ہارے گا؟ نسل دار کتا ہے چودھری صاحب۔‘‘ نذیرے نے عاجزی سے کہا۔
’’کیا خیال ہے نکے؟‘‘ اس نے چھوٹے بھائی انور کی طرف دیکھا۔
’’لگتا تو ٹھیک ہے بھائی! میرا خیال ہے یہ آپ کو پسند آ گیا ہے۔ ایسا کر نذیرے اگر وہ ڈیڑھ میں نہ مانے تو کچھ اوپر دے دینا، مگر سودا آج ہی کر لینا۔‘‘ نذیرے نے سر ہلایا۔ بوڑھا جو پاس ہی کھڑا تھا دوبارہ چودھری افضل کے قریب آیا۔
’’اس کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘افضل نے کڑے تیوروں سے ایک ملازم سے پوچھا۔
’’اس کی بیٹی بیمار ہے سرکار کچھ پیسے لینے آیا ہے۔‘‘ملازم نے کہا۔
’’منشی بابا جان کے ساتھ شہر گیا ہوا ہے۔ بغیر کھاتے میں اندراج کیے کیسے دے دیں اسے پیسے؟‘‘
’’چل بھئی پیچھے ہٹ آج تجھے پیسے نہیں مل سکتے۔ سنا نہیں منشی شہر گیا ہوا ہے۔‘‘ ملازم نے بوڑھے کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور پیچھے دھکیل دیا۔
’’نکے ایک تو یہ کمی ہمیں سا نئیں لینے دیتے جہاں بھی دیکھو منہ اٹھائے اور جھولی پھیلائے چلے آتے ہیں۔‘‘ افضل نے ناگواری سے کہا۔
’’آپ کے مزارعے ہیں چودھری صاحب! آپ کے پاس نہیں آئیں تو اورکہاں جائیں؟‘‘ بوڑھا رندھی ہوئی آواز میں بولا۔
’’جا جا یہاں سے، جان چھوڑ ہماری۔ جگو لے کر جا اسے ۔‘‘ انور نے ایک ملازم کو اشارہ کیا۔ جگو اس کے قریب گیا اور کہا:
’’سنا نہیں چودھری صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ کملے بڑے لوگوں کے بڑے خرچے ہوتے ہیں۔ منشی آ جائے گا تو مل جائیں گے پیسے ۔ آ میرے ساتھ۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ لے گیا۔
افضل جو کتے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی زمین پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔
’’دیکھ نذیرے! اس کی تیاری بہت اچھی ہونی چاہے۔ سمجھ گیا نہ تو۔‘‘
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر چودھری صاحب!‘‘ نذیر نے کہا۔
’’چل اب لے جا اسے۔‘‘ نذیرے نے زنجیر کھینچی اور اسے لے کر چلا گیا۔ افضل دور تک اسے جاتے دیکھتا رہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دو تین دن گزرے تھے جب بڑے چودھری صاحب اس سہ پہر حویلی پہنچے۔ ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ تقریباً ساٹھ سالہ چودھری غفور نے جو سفید براق شلوار قمیص اور بڑی سی اونچے شملے والی پگڑی باندھے زمین پر اس طرح قدم رکھا کہ اِن کا کرو فر ہی نرالا تھا۔ پچاس سالہ دبلا پتلا، لیکن پھرتیلا منشی بھی لپک کر پچھلی سیٹ سے اترا اور ان کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
’’زمین کے کاغذات والا بیگ سنبھال لیا منشی؟‘‘چودھری غفور نے کہا۔
’’جی چودھری صاحب! یہ رہا بیگ۔‘‘ اس نے ہاتھ میں تھا ما بریف کیس دکھاتے ہوئے کہا ۔
وہ جیسے ہی مہمان خانے میں داخل ہوئے۔ دونوں بیٹے لپک کر ان کے قریب آ گئے۔
’’اسلام و علیکم بابا جان!‘‘ افضل ان سے بغلگیر ہوتا ہوا بولا۔
و علیکم السلام! سب خیریت ہے نا؟‘‘چودھری غفور ان دونوں سے مل کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’یہاں سب خیریت ہے۔ ہم تو آپ کی طرف سے فکر مند تھے۔ ایک ہفتہ ہو گیا آپ کو شہر گئے کچھ خیر خبر ہی نہیں تھی۔‘‘ افضل نے کہا۔
’’دو دن سے آپ کا فون بھی نہیں مل رہا تھا۔‘‘ انور نے کہا۔
’’تم دونوں کے لیے ہی تو شہر گیا تھا۔ کچہری کے معاملات آسان نہیں ہوتے۔ میں نے تمام جاگیر اور زمینیں تقسیم کر دی ہیں۔‘‘ پھر کچھ دیر ٹھہر کر انہوں نے کہا۔
’’تم لوگ اپنی مرضی سے اپنی بہن کا حصہ اسے دے دیتے تو اچھا تھا۔‘‘
’’بابا جان یہ ہماری روایت کے خلاف ہے۔ عورتوں کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا جاتا پھر آپ نے بھی تو…‘‘
’’بس! گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ وہی بوڑھا اندر داخل ہوا اور چودھری غفور کی جانب بڑھا۔
’’اوئے، تو پھر آ گیا۔ سا تو لینے دے بابا جان کو۔ جگو، شیرا کہاں مر گئے سارے ۔ نکالو اسے یہاں سے۔ کس نے اسے اندر آنے دیا؟‘‘ افضل پھرتی سے اٹھ کر بوڑھے کے قریب گیا۔
’’میری بات تو سنو چودھری! مجھے بڑے چودھری صاحب سے بات کرنے دو۔‘‘ وہ گھگیا تا ہوا بولا۔
’’سنتے ہیں، ابھی سنتے ہیں۔ کہہ دیا نا کچھ کرتے ہیں۔ اُدھر بیٹھو جا کر۔‘‘ اس نے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ بوڑھا مایوسی سے سر جھکائے دیوار کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
’’چمٹ ہی جاتے ہیں جان کو ۔‘‘ وہ بڑ بڑاتا ہوا بڑے چودھری صاحب کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ اسی وقت اچانک حویلی کے اندر سے چیخنے چلانے کی بلند آوازیں آنے لگیں۔
’’اللہ خیر کرے۔‘‘ چودھری غفور مضطرب انداز میں کھڑے ہو گئے۔ وہاں موجود سب افراد ہکا بکا تھے۔ حویلی کے اندر سے ایک ملازمہ دوڑتی ہوئی آئی۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور الفاظ صحیح طور سے اس کے منہ سے نہیں نکل رہے تھے۔ وہ پورے وجود سے کانپ رہی تھی۔
’’بڑے چودھری صاحب! وہاں حویلی میں میراں بی بی…‘‘
’’کیا ہوا میراں کو؟‘‘ وہ تیزی سے اندر بھاگے۔ ان کے پیچھے افضل اور انور بھی متوحش انداز میں لپکے۔ جوں جوں وہ حویلی کی سمت بڑھ رہے تھے۔ چیخ و پکار اور آہ و بکا کی صدائیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ جیسے ہی صحن میں پہنچے وہاں ایک جانب حویلی کی عورتوں اور ملازمین کا جمگھٹا نظر آیا۔ وہ تیزی سے وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ ان کی بیٹی میراں زمین پر پڑی تھی اس طرح کہ اس کے آس پاس خون کا چھوٹا سا تالاب بن گیا تھا۔
’’کیا ہوا میری میراں کو؟‘‘ وہ تیورا کر وہیں گرنے والے تھے کہ افضل نے انہیں سنبھال لیا۔ انور میراں کے قریب بیٹھ گیا اور اسے ہلایا جلایا اس کی نبض چیک کی، مگر وہاں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ میراں مر چکی تھی۔
’’میراں گئی بھائی، میراں مر گئی۔ سارے جھگڑے ختم ہو گئے۔‘‘ میراں کی لاش کے پاس بیٹھی ایک ادھیڑ عمرعورت چودھری غفور کی طرف دیکھ کر چلائی تھی۔ وہ سارا معاملہ سمجھ گیا۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میراں اس کی واحد بیٹی تھی۔
’’اس نے چھت سے کود کر جان دے دی۔ سارے جھگڑے مک گئے۔ ہائے میری بچی تو نے یہ کیا کیا؟‘‘ بوڑھی عورت دوبارہ بین کرنے لگی۔ وہ زا ر و قطار رو رہی تھی۔ دیگر عورتیں بھی آہ و بکا کر رہی تھیں۔ افضل اور انور کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ دونوں سکتے کے عالم میں تھے۔ پھر افضل نے چونک کر بوڑھی عورت سے کہا۔
’’ایسی بات نہ کر پھوپھی ، وہ غلطی سے گری ہو گی۔‘‘
’’وہ غلطی سے نہیں گری۔‘‘ چودھری غفور نے گمبھیر مگر دھیمے لہجے میں آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
ذرا سی دیر میں پوری حویلی آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گئی اور آن کی آن میں یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ چودھری غفور کی بیٹی اور چودھری افضل اور انور کی اکلوتی بہن حویلی کی چھت سے گر کر مر گئی۔ رات گئے تک اسے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر میراں کا شوہر اس کی ساس اور اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا بھی موجود تھا۔ اس کی جوان سال موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ رات کا وہ نہ جانے کون سا پہر تھا جب چودھری غفور گاؤں کے اس واحد تھانے میں آیا تھا۔ ایک حوالدار وہاں موجود تھا جو زمین پر چادر بچھائے سو رہا تھا۔ چودھری جھکا اور اسے جگانے کے لیے اس کا کندھا ہلایا۔
’’کون …کون ہے رات کے اس پہر ؟‘‘وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔
’’میں ہوں چودھری غفور ۔‘‘
’’اوہ! چودھری صاحب آپ؟‘‘ وہ پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آئیے آئیے سرکار۔‘‘ حوالدار نے انہیں کرسی پیش کی۔
’’بیٹھیے، سب خیر تو ہے نا؟‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اچانک — عائشہ احمد

Read Next

اب اور نہیں — ایمان عائشہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!