بانجھ — میمونہ صدف

سحر کی بلوریں ضیا میں لہلہاتے کماد کے کھیتوں میں ساربانوں کی آواز بڑی دور تک پھیلتی ایسی دل دوز لے پیدا کرتی کہ دوڑ دوڑ کر چوبارے چڑھتی بیراگن مست ہو کر بھی اس ساعت ِ احترام میں باادب سی ہو جاتی ۔قیمتی زربفت جو زمانوں کی گرد کے سبب حسن کھو چکا تھا ، ہو اکے سپرد کرتی وہ جیسے اِنھی ساربانوں میں سے ہو جاتی ۔ضوخانوں کی پروا وہاں کسے تھی؟ وہ تو شب ِ دیجور بھی چوبارے چڑھی ملتی اور بوہے باریوں کے پار ٹکٹکی لگائے تکتی ملتی ۔ ایسے میں مہران ماں حقے کی نے گھما کر گڑ گڑ کرتیں پوچھنے لگتیں۔
’’تیرے بہت چکر نہیں لگنے لگے اوپر کے؟ جب دیکھو اوپر ہی پائی جاتی ہے ۔ کہیں کوئی اور چکر تو نہیںہے؟‘‘ پہلا جملہ اونچا اور بعد کا ذرا آہستہ کہا گیا لیکن دونوں ہی اُس نے سُن لئے ۔ سُن تو لیے لیکن لسی بلوتے شیرو کے لیے کشتی بھرتے اس نے اَن سنا کر دیا ۔یہ سب تو معمول کی باتیں تھیں اس کے لیے۔ اسے اس سب کی عادت ہو چلی تھی۔مہران ماں بولتی رہتیں اور وہ بنا جواب دیے گھر میں گھومتی رہتی ۔ بس ضرورتاً جواب دے دیا کرتی۔ اُسے دیکھ کر اکثر لگتا کہ وہ بہری ہو گئی ہے اور اگر بہری نہیں ہے تو گونگی تو ضرور ہی ہو گی تبھی اُس کے منہ سے لفظ نہیں پھوٹ کر دیتے۔بس چپ چاپ اپنا کام کرتی پائی جاتی جیسے کسی سے اُس کا کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔یوں جیسے وہ ا س گھر کا حصہ ہو کر بھی نہ ہو ۔
کبھی تو وہ دن بھر کام میں جتی رسوئی میں سِل بٹے پر مسالا جات کوٹے جاتی، برتن مانجھے جاتی ، صحن میں جم جم پونچھے لگائے جاتی، دیوار پہ اُپلے تھپ تھپ کر اُنھیں سکھائے جاتی اور پھر جلا جلا کر مٹی کا چولھا جلاتی ، رَلیاں دھو دھو کر بچھاتی، کنویں سے ڈول بھر بھر کر مٹکے ، بالٹیاں بھرتی جاتی۔
اور پھر یکدم کون سا طلسم پھونکا جاتا کہ سب کام وہیں چھوڑ چھاڑکر چوبارے کی ہو جاتی۔ پھر سب بھول جاتی… کام بھی، نام بھی۔ جند بھی، جان بھی ۔
اِدھر مہران ماں نیچے پکار پکار کر تھک جاتیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’نیناں اری او نیناں جوگیا بنی پھرتی ہے ، نیچے کیوں نہیں ٹکتی ؟ ‘‘
’’ نیچے کس کے لیے ٹکوں ماں ؟‘‘ وہ خواب کی سی کیفیت میںسوال کرتی ۔
’’ کیا رکھا ہے اوپر کی تپتی دھوپ میں ؟‘‘
’’جو نیچے کی ٹھنڈی چھاؤں میں نہیں رکھا ۔‘‘
’’ اے ہے باؤلی ہوئی ہے کیا ۔کیسی باتیں کرتی ہے؟ ‘‘
’’تو اور کیسی باتیں کروں؟ ماں مجھے گھرکی ویرانی کاٹتی ہے۔ یوں جیسے کوئی آسیب مجھے نگل جائے گا ۔‘‘ اور مہران ماں منہ پر ہاتھ رکھے ہا ہائے کرنے لگتیں ۔
’’بھرے پرے گھر میں کیسی ویرانی؟ اور اوپر کے خالی چوبارے میں کہاں کی آبادی؟‘‘ انہیں حد درجے حیرت ہوتی اس بات پر۔
’’بھرا پرا گھر انسان سے ہوتاہے، سامان سے نہیں ۔ تیرا بیٹا اپنی مٹی کی فصل تو اُگا لیتا ہے لیکن اِس کھیتی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔‘‘ مہران ماں کے کچھ پلے نہ پڑتا کہ وہ کیا کہتی ہے ، کیا سوچتی ہے؟ وہ ان پڑھ ساس اس پانچویں پاس بہو کی باتیں نہ سمجھ پاتی۔بس اِتنا سمجھ جاتیں کہ بیٹا بہو سے بیگانہ سا رہتا ہے ۔یوں جیسے گھر کے کسی کونے میں مٹی کی مورت رکھ کر انسان بھول جاتا ہے تو وہ نیناں کو بھول گیا تھا۔ اُس کا زیادہ تر وقت گھر کی چار دیوار ی سے باہر ہی گزرتا تھا ۔شاید اسی لیے نیناں ایسی تھی ، ایسی تھی نہیں ایسی ہو گئی تھی ۔
پھر اُنھوں نے بیٹے کے لتے لیے ۔
’’اے شیرو کبھی اپنی دلہن کی بھی خبر لے لیا کر … کیسا کسان ہے کہ اپنی کھیتی کو بنجر چھوڑ رکھا ہے۔ دیکھ تو کیسا سوکھا آیا ہے۔ کچھ ہوش کر، آبیاری کر… شادی کو سات سال ہونے کو آئے ہیں لیکن ابھی تک اس کی کھوکھ کیوں خالی ہے ؟ کس ڈاکٹرنی کو دکھا، علاج کروا اُس کا ۔ تو ایسا بے پروا کیوں ہے اپنی دلہن سے ؟‘‘
لیکن شیرو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا ۔اسے ان باتوں کی پروا نہیں تھی۔ اُسے بس جیسے مٹی کی فصل کی پروا تھی ، اپنی نسل کی نہیں۔
مہران ماں پان منہ میں رکھے ، ہونٹوں پر لاکھا جمائے، سارا دن چارپائی پہ پڑی دلہن کو گھورتی رہتیں اور جوں ہی پڑے پڑے اونگھنے لگتیں، دلہن اپنے محبوب ٹھکانے پر پہنچ جاتی ۔نجانے کون سی کشش تھی جو اسے اوپری منزل پر کھینچتی تھی۔ مہران ماں کتنی قیاس آرائیاں کر کے تھک گئی تھیں ۔
’’مان لے اِسے کچھ تو ہے۔‘‘ وہ شیرو سے اس کی شکایت کرتیں، کان بھرتیں۔
’’کیا ہے ماں؟‘‘ وہ زچ ہو چکا تھا ماں کی روز روز کی اِن باتوں سے۔یہ اُس کا ناپسندیدہ ترین موضوع تھا ۔ نہ اسے سننا پسند تھا اور نہ ہی بات کرنا پسند تھا۔
’’یہ تو تُو بتا … پہلے تو ایسی نہ تھی ۔ اب کیوں ایسے بھاگتی پھرتی ہے ۔ گم صم رہتی ہے ۔ کام کرنے پر آئے تو مہینوں کا کام منٹوں میں کرلے اور جب کام سے ہاتھ ہٹا لے تو مجال ہے کہ کر کے دے۔ پھر تو جیسے بت بن جاتی ہے۔ یوں جیسے سانس لیتی کوئی گڑیا ہو بس۔ ہلنے جلنے سے قاصر… ایسے لگتا ہے جیسے کوئی سایہ ہو گیا ہے۔کسی پیر کو دکھا ، دم درود کروا۔کیا پتا کوئی بھوت پریت عاشق ہو گیا ہو۔ ہے بھی تو رج کے سوہنی ۔‘‘ شیرو نے ناگواری سے کرتا جھاڑا اور کھیتوں کا رخ کیا۔اس نے ایک نظر بھی اس ’ رج کے سوہنی ‘ پہ نظر ڈالنا گوارا نہ کی ۔اُس کے پاس ماں کے اُن فضول سوالوں کا جواب تھا، لیکن وہ دینانہیں چاہتا تھا ۔
اُسی رات ماں کی زبان بندی کے لیے وہ چوبارے پر قفل لگا کر لمبی تا ن کر سو گیاکہ چلو اوپر جانے کا رستہ بند ہو گا، تو ماں کو باتیں بنانے کا موقع تو نہیں ملے گا۔اس کے کان ٹھنڈے رہیں گے اور ماں کا دل ، لیکن قفل تو نیناں کی زبان کو لگا تھا ۔ زبان بندی ماں کی نہیں اُس کی ہوئی تھی ۔وہ پہلے سے کہیں زیادہ خاموش ہو گئی تھی اور گم صم بھی ۔ یوں جیسے اوپر نہ جانے کا دکھ ہر سکھ پر ہاوی ہو گیا ہو۔جیسے اس کے پروانۂ زندگی کو کسی نے موت کی سزا سناڈالی ہو ۔ اب وہ کبھی زندہ نہیں ہو گی اور زندگی کبھی اس کی حسین صورت نہیں دیکھ پائے گی ۔وہ پہلے والے حالوں سے بھی گئی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

یاد دہانی — الصی محبوب

Read Next

کھیل ختم — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!