چند برس قبل برانیزا میں ایک کٹریہودی رہتا تھا۔ وہ اپنی دانائی، خوفِ خدا اور عقل مندی کے باوجود اپنی حسین بیوی کی وجہ سے زیادہ مشہور تھا۔ اُس کی بیوی پورے برانیزا میں حسن
لوگوںکا ایک چھوٹا سا گروہ قبرستان میں جمع تھا۔ کچھ لوگ تدفین میں مصروف تھے اور باقی ٹکڑیوں میں بٹے اِدھر اُدھر قبروں پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں لوگ تدفین
یونیورسٹی کے گیٹ نمبر6 کے بالکل سامنے فوڈ سٹریٹ پر جاتی سڑک پر آج بہت زیادہ رونق تھی۔ آسمان پر کالے سیاہ بادل اُمڈتے چلے آ رہے تھے جو اس بات کی نوید دے رہے
سات سال قبل جب وہ بیاہ کر اُس آنگن میں آئی تھی تو افشاں سی بکھر گئی۔ حنا کی سرخی ہاتھوں پیروں پر چڑھائے ، جھانجر کی چھن چھن کرتی ، قلقل ہنستی وہ نیناں
’’ارم ارم میرے کپڑے استری نہیں کیے؟ تم نے میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں۔‘‘ عامر نے اپنی بیوی ارم کو نیند سے جگاتے ہوئے کہا۔ ’’جی میری آنکھ نہیں کھلی پلیز آج آپ
’’کیا ہوا تھا اسے گوہر بتاؤ مجھے گوہر۔‘‘ اسد اس کے منہ پر ہاتھ مارتے اسے ہوش میں لا رہا تھا۔ کبھی پانی کے چھینٹے مارتا ۔ گوہر ہڑبھڑا کر اٹھا۔ اسد اس کے چہرے
مولوی صاحب اور جماعت کے ساتھیوں کے درمیان بیٹھا وہ ہر طرح کی ذہنی فکر سے آزاد تھا۔ خیال بھی نیک اور اعمال بھی نیک ہوں، تو انسان ایسے ہی ہلکا ہوا میں پنچھی کی