’’عورت کا کوئی ذاتی گھر کیوں نہیں ہوتا؟مجھے طلاق سے بڑا ڈر لگتا ہے۔میں کہاں جاؤں گی؟‘‘ پینو نے سسکتے سسکتے سوال کیا۔ ’’ عورت کی تو ہستی اپنی نہیں ہوتی، تم گھر کی بات
بوا بیگم کی سرمئی، گدلی ، بوڑھی پتلیاں ، موتیا کے قبضہ مافیا کے آگے سرنڈر کرچکی تھیں، لیکن ناامیدی سے ہار ماننے کو تیار نہ تھیں۔ وہ گھنٹوں انجان منزلوں کی سمت جاتی پٹڑیوں
چلنے کو تو شاید وہ دونوں ہمیشہ کے لیے یونہی چلتے رہتے، لیکن راستے ختم نہ بھی ہوں، ہمت جواب دے جاتی ہے اور انسان کا وجود، اس کے جذبات، اس کی امنگیں اور خواب
چند برس قبل برانیزا میں ایک کٹریہودی رہتا تھا۔ وہ اپنی دانائی، خوفِ خدا اور عقل مندی کے باوجود اپنی حسین بیوی کی وجہ سے زیادہ مشہور تھا۔ اُس کی بیوی پورے برانیزا میں حسن
لوگوںکا ایک چھوٹا سا گروہ قبرستان میں جمع تھا۔ کچھ لوگ تدفین میں مصروف تھے اور باقی ٹکڑیوں میں بٹے اِدھر اُدھر قبروں پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں لوگ تدفین
یونیورسٹی کے گیٹ نمبر6 کے بالکل سامنے فوڈ سٹریٹ پر جاتی سڑک پر آج بہت زیادہ رونق تھی۔ آسمان پر کالے سیاہ بادل اُمڈتے چلے آ رہے تھے جو اس بات کی نوید دے رہے