محبتِ ناتمام — ثوبیہ امبر

گھر سے نکلتے ہی اس نے اپنے گرد لپیٹی شال کو تھوڑاکھینچ کر اور لپیٹا تھا۔ یہ مزاحمت ہوا کے اس جھونکے کے خلاف تھی جس نے دروازے پر اس کا استقبال کیا تھا۔ مری کی سڑکیں اس وقت اکتوبر کی ٹھنڈی ہواؤں کی زد میں تھیں جو اپنی رت پر پتوں کو شاخوں سے جدا کرنے کا کام پورے زورشور سے کر رہی تھیں۔ اپنے کندھے پر لٹکے بیگ میں چابیاں ڈال کر اس نے ہواؤں کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھیں جب انسان اپنے اختلافات کی ساری تلواریں نیام میں رکھ دیتا ہے۔ سارے چاقو، چھریاں، ڈنڈے اور چھڑیاں کونے میں پڑی بے وقعت ہو جاتی ہیں اور انسان کو سمجھ آجاتی ہے کہ اختلافات کے مابین ناآمادگی کی جنگوں میں صرف وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ لوگ آپ کے لیے تبدیل نہیں ہوتے اور اس کوشش میں کیے جانے والے سارے وعدے پتھر پر پڑے ہوئے پانی جیسے بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ عموماً لوگ زندگی جیسے شروع کرتے ہیں، ویسے ہی اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ پھر انسان ان بکھیڑوں سے نکل کر جینے کو ترجیح دینا چاہتا ہے اور اپنے وہ سارے خواب جو الماری میں پڑی بیش قیمت، لیکن وقت کی عدم دستیابی کے باعث نہ پڑھی جانے والی کتابوں کی طرح روز اس کا منہ تکتے ہیں، انہیں نکال کر ان کی گرد جھاڑ کر پڑھنا چاہتا ہے۔اس مقام پر انسان جھگڑا کرنے پر بر حق بھی ہو تو ایک قدم پیچھے ہٹ کر واپسی اختیار کر لیتا ہے۔
سرمئی تارکول کی سڑک،برف کے ٹکڑے کی طرح ٹھنڈی پڑی تھی اور اس پر موسم کی بے اعتنائی سے ٹوٹے پتے حیران آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔اس کے ذہن میں مبہم سے الفاظ گونجتے اور اس کے اندر درو دیوار سے سر پٹختے۔
’’ماما کیا لکھیں گی آپ؟ ایک ڈاکٹر کا لکھنے سے کیا تعلق؟‘‘فہد کی آواز اس کے ذہن میں گونجی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ لمحے بھر کو روشنی بن کر چمکی تھی۔
’’واقعی کیا لکھوں گی میں؟لکھنا تو محبت جیسا ہوتا ہے اور محبت تو تازہ ذہنوں پر مرتسم ہوتی ہے۔ یہ تو عمر کی تھالی پر اترنے والی آرتی ہوتی ہے۔محبت اور لکھنا خواب ہوتا ہے اور خواب تو ڈھلتی آنکھوں کو بند دروازے سمجھ کر نہیں آتے۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’کیا میں بوڑھی ہو گئی ہوں یا میں نے وقت سے ابھی شکست تسلیم نہیں کی کہ کسی خواب کی آس میں ،میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں آ بسی ہوں ؟‘ــ‘ کشمیر پوائنٹ کے رستے میں زرد، نارنجی اور بھورے سرخ پتے ایسے گررہے تھے جیسے کسی دلہن کے آمد پر گل پاشی کی جاتی ہے۔
بڑھتے قدموں نے اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ اس نے کافی کا آرڈر دیا اور لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گئی جس کے آگے پتھر کا بنا ٹیبل تھا۔ دوسری طرف بھی لکڑی کا بنچ تھا۔یہ کافی شاپ اسے بہت پسند تھی۔ چبوترے کی شکل میں کافی شاپ کا وہ حصہ تھا جہاں کافی بنتی اورحساب کتاب وغیرہ کیا جاتاتھا جب کہ بیٹھنے کے لیے یہ کھلا حصہ تھا جہاں پر لگے پتھر ایک عجیب خوب صورتی کا احساس دیتے تھے۔
سامنے سڑک سے لوگ اس کے آگیسے ایسے گزر رہے تھے جیسے وقت گزرتا ہے جس کا گزرنا ضروری بھی ہوتا ہے اور احساس بھی نہیں ہوتا۔ہجوم جو نہ نظر آئے تو انسان تنہا محسوس کرتا ہے اور ہجوم میں خود تنہا اور بے وقعت ہو جاتا ہے۔ کوئی اس احاطے میں داخل ہوا تھا۔ وہ جو سڑک کے ساتھ چلتی گہرائی کو جانچنے کے لیے وہاں دیکھ رہی تھی ،کسی کی نظر کا ارتکاز تھا،وہ چونکی تھی ۔
’سمیع!‘
انسان بھی ایک لمحے میں کہاں کہاں اور کیسے کیسے احساسات سے گزر جاتا ہے۔بیٹھے بیٹھے اس پر کیا کچھ بیت جاتا ہے کہ وہ اندر چلنے والے جھکڑوں سے پتھر ہو جاتا ہے۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا ہے، تو کبھی ریزہ ریزہ جمع ہونے لگتا ہے۔ گردش ایام نے اسے پھر سامنے لا کھڑا کیا تھا۔کیسا ظلم کیا تھا۔
وہ اب سامنے بیٹھ چکا تھا۔ وہ ایک مرتبہ پھر آداب میزبانی نبھا نہ سکی تھی۔
’’آئیے بیٹھیے!‘‘ اپنایت جیسے اس کے حلق میں اٹک گئی تھی۔
وہ بھولا ہوا لمحہ سامنے تھا جو اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہ رکھتا تھا اور جس سے آنکھیں ملانے کی ہمت اس میں نہ تھی۔ اس لمحے میں ان دونوں کی تہی دامنی تھی جس نے ماضی کی کوئی گونج چھپا رکھی تھی۔ بھولا ہوا لمحہ بہت شدت سے تمام جزئیات کے ساتھ یاد آیا تھا۔
’’میرے دل میں ہمیشہ تم ہی رہو گی۔‘‘ محبت اور جملے دونوں نئے نہیں تھے۔ بس اس کے دل پر پہلا احساس تھا جس کی گواہی بھی پہلی تھی۔
اور پھر وہی مجبوریوں،خاندانی شرافت،کہیں اور طے شدہ بچپن کی منگنی اور بڑوں کی دی گئی زبان میں وہ گواہی کب اپنا وجود کھو بیٹھی،کب معدوم ہوئی اور کب حرفِ مکرر کی طرح مٹی،کب کسی زخم کی طرح بھری اور دل پر زخم بھرنے کا بھی نام و نشان نہ رہا، اسے پتا نہ چلا۔
وہاں جس جگہ پر صدا سو گئی ہے
ہر اک سمت اونچے درختوں کے جھنڈ
ان گنت سانس روکے ہوئے چپ کھڑے ہیں
جہاں ابر آلود شام اڑتے لمحوں کو روکے ابد بن گئی ہے
وہاں عشق پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا اک مکاں ہو!
اگر میں کبھی راہ چلتے ہوئے اس مکاں کے دریچوں
کے نیچے سے گزروں
تو اپنی نگاہوں میں اک آنے والے مسافر کی
دھندلی تمنا لیے تو کھڑی ہو!
کچھ دن پہلے اس نے وہ کارڈ کسی پرانی فائل سے نکالا تھا جس پر منیر نیازی کی یہ نظم لکھی ہوئی تھی اور لکھ کر دینے والا آج اس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’تم یہاں کہاں؟‘‘ اس کی آواز بھی بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔
’’کیسی ہو؟ ‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی لکیر اسے دیکھ کر آئی تھی کہ عمر رفتاں نے آنکھوں میں پانی بھر دیا تھا۔
’میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو اور یہاں…؟‘‘ اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑا کہ اس کی بابت جان سکے۔
’’میری تو کافی عرصہ سے یہاں پوسٹنگ ہے۔ تمہیں دیکھ کو بہت حیرت اور خوشی ہوئی ہے۔‘ ‘ وہ اپنے اندر شاید آنسو گرا رہا تھا۔ وہ دونوں خاموش ہو گئے اور اکتوبر کی جھکڑ بن کر چلتی ہوائیں پھر شائیں شائیں کرنے لگی تھیں۔ ظلم تو یہ تھا کہ جھکڑ اندر چلنے لگے تھے اور گزرے سال زرد، نارنجی اور قرمزی رنگ کے پتوں کی صورت ہواؤں میں اِدھر اُدھر اُڑ رہے تھے۔ جب انسان محبت سے دست بردار ہوتا ہے، تو اسے یہی لگتا ہے کہ یہ کوئی دنیا کی آخری محبت تو نہیں تھی کہ اس کا روگ ہی لگا لے، لیکن جب اپنے ہاتھوں سے زندگی سرکتی ہے، تو اسی محبت کی شدت بڑھنے لگتی ہے۔
ان دونوں کی خاموشی کو کوئی جملہ توڑ بھی دیتا، تو وہ ایسے الفاظ نہ تھے جو گزرے سالوں کی خلیج پار کر کے انہیں میڈیکل کالج کے کلاس فیلوز بنا دیتے جن کے لیے زندگی کا ہر رنگ نیا تھا۔ اب ذہن کی اسکرین پر عمر بڑھنے کے ساتھ رنگ ماند پڑ رہے تھے۔
وہ کافی نہیں پی سکی، ابھی وہ اپنے آنسو پی رہی تھی جو کسی بھی طلب کو پورا کرنے کو ناکافی تھے۔ وہ دونوں کچھ کہے بغیر اٹھے تھے۔ اپنے ہوسٹل کے باہر ایسی ہی ایک دو یادگار واک تھیں جنہیں آج وہ دونوں دوبارہ جینا چاہتے تھے، لیکن دونوں کے کندھے جھکے ہوئے ۔
ستمبر کے شروع میں جب پتے گرنا شروع ہوتے ہیں، تو انسان بھی آہستہ آہستہ اپنی یادوں کے درختوں سے گرتے پتے دیکھتا ہے۔ ستمبر کے شروع سے آخر تک ہر حساس انسان ایک مرتبہ اپنی یادوں اور بچھڑے لوگوں کی اداسیوں سے اندر سے مر جاتا ہے۔
ان دونوں کے پاؤں کے نیچے پتا نہیں کتنے پتے چرمراتے رہے تھے ۔ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا، کیرئیر ، شادی سے لے کر بچوں کے کیرئیر ،ان کی منگنیوں اور شادیوں تک بہت کچھ۔
راستہ شاید اتنا طویل نہ تھا جتنی باتیں لمبی تھیں۔ وہ دونوں کہاں کہاں ، کب کب بدل گئے، کب، کہاں اور کس بات پر انہوں نے اپنی ذات چھوڑی تھی، دونوں نے جی بھر کر بتایا تھا۔ رستے میں اسے ٹھوکر لگی، تو اس کے مضبوط ہاتھ نے اسے تھاما، تو پھر چھوڑا نہیں۔ یہ تو ایک راستہ تھا، وہ زندگی میں اسے ایسے گرنے سے بچانے کے لیے کیوں نہیں تھا؟
دوپہر سے سہ پہر ہوئی اور اب تو شام نے بھی آنے کا عندیہ دے دیا تھا، لیکن وہ اس راستے پر چلتے ہی چلے جانا چاہتی تھی۔ اپنے شوہر کی کچھ سال پہلے وفات کا قصہ اور سمیع کی اس کزن کی اس سے طلاق، دونوں کے پاس گزرے دنوں کی باتیں تھیں اور کچھ ادھورے رشتوں کی زخم خوردہ داستانیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے (عالمی افسانہ)

Read Next

تین سوال — لیو ٹالسٹائی (مترجم: سعادت حسن منٹو)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!