ذاتی — نظیر فاطمہ

’’عورت کا کوئی ذاتی گھر کیوں نہیں ہوتا؟مجھے طلاق سے بڑا ڈر لگتا ہے۔میں کہاں جاؤں گی؟‘‘ پینو نے سسکتے سسکتے سوال کیا۔
’’ عورت کی تو ہستی اپنی نہیں ہوتی، تم گھر کی بات کر رہی ہو۔ باپ، بھائی، شوہر اور پھر بیٹے ، اِن سب کو اللہ نے عورت کا محافظ بنایا ہے کہ وہ اللہ کی اس نازک تخلیق کی حفاظت کریں مگریہ سب اپنے فرائض بھول کر اس کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عورت کی سانسیں بھی اس کی ذاتی ملکیت نہیں رہتیں۔‘‘ اس کی بڑی بہن رجی کے سلگتے لہجے نے پینو کے اندر بھڑکتی آگ کی شدت میں یوں اضافہ کیا جیسے بھڑکتی آگ پر تیل چھڑک دیا جائے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ پینو نے رجی کے سامنے دل بھر آنسو بہاکراپنے دل کا بوجھ توہلکا کر لیا، مگررجّی کے دل کا بوجھ کئی گنا بڑھا دیا تھا۔
٭…٭…٭
نہ جانے کیسی بد نصیب تھیں یہ چاروں بہنیں۔ عام سی شکل و صورت کے ساتھ حد سے زیادہ سیدھی سادھی جنھیں بچپن میں کسی نے پیار کرنا تو درکنار پیار بھری نظروں سے بھی دیکھنے کی زحمت نہ کی۔ پہلے دو بھائی پھر اُوپر تلے یہ چار بہنیں ۔ بھائیوںکی شادیاں ہو گئیں۔ ایک بڑی بہن کی شادی کی تھی کہ سال بعد ہی ان کے ماں باپ ایک مہینے کے وقفے سے عدم سدھارے اور ان تینوں بہنوں پر گھر تنگ ہو گیا۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد سال کے اندر اندر بغیر کسی چھان پھٹک کے رجی اور پینو کی شادی کر کے ان سے جان چھڑا لی گئی۔ سب سے چھوٹی جو سب سے زیادہ سیدھی تھی، وہ گیند کی طرح کبھی اس بھائی کے گھر تو کبھی اس بہن کے گھر رلنے لگی۔
رجی کی قسمت پھر بھی قدرے بہتر تھی کہ اس کا شوہر اچھا انسان تھا۔ غربت تھی مگر سکون تھا۔ لیکن پینو کی قسمت نے اسے یہاں بھی پچھاڑا تھا۔اس کی ساس تو مانو سو ڈائنوں سے بھی بڑھ کر تھی کہ ڈائنیں بھی سو گھر چھوڑ دیتی ہیں، مگر یہ تو اپنی ہی اولادکی دشمن تھی ۔ نہ جانے کیسا خبط تھا اسے طلاقو ں کا کہ آٹھ بچّے پیدا کر کے پہلے اپنے شوہر سے طلاق لے کر اسے گھر سے نکالا ۔ اس کا شوہر عزت شرم والا انسان تھا جو بچوں کی دربدری کے خیال سے گھر بیوی کے نام کر کے خود اپنے گاؤں چلا گیااورزمینوں کے ساتھ دل لگا لیا۔ زمینوں کی آمدنی اچھی تھی سو بچّوں کا خرچہ بھی اُٹھایا۔ پھر اولاد جوان ہوئی تو ان کی شادیاں کروا دیں۔ اس بھلے مانس نے اپنے سارے فرائض ادا کیے۔ مگر اس عو رت نے پہلے اپنے سب سے بڑے بیٹے کی بیوی کو طلاق دلوائی اور پھر اپنی دو بیٹیوں کو طلاق دلوا کر گھر بٹھا لیا۔ دوسرے بیٹے کی شادی ہوئی تو اس کی ازدواجی زندگی خراب کی، مگر وہ ایک سمجھ دار انسان تھا۔ ماں اور بیوی دونوں کے حقوق کی اہمیت جانتا تھا سو اپنی بیوی اور بچّے کو لے کر الگ جا بسا۔
پھر پینو کا نمبر تھا۔ اس کا شوہر رُکن دین جس نے پہلے دن ہی پینو پر اپنی ناپسندیدگی جتا دی تھی ۔ پینو شوہر کی دل چڑھی نہیں تھی، سو ہر لمحہ ساس کے عتاب کا نشانہ بنی رہتی۔ بھلی بُری گزرنے لگی ۔ پینو سب کچھ برداشت کرتی گئی۔ پیچھے کیا دیکھتی کہ جنھوں نے جان چھڑائی تو پلٹ کر خبر نہ لی۔ یہ بہنیں ہی ایک دوسرے کا سہارا تھیں۔ کوئی بہت ہی بڑی بات ہوجاتی تو بھائی بھابھیوں کی بجائے ان کے ایک ماموں ممانی آگے آتے کہ آج کل کے دور میں یہ ان افراد میں سے تھے جن کے دلوں میں خوفِ خدا تھا۔
پھر جیسے موت ان بہنوں کے پیچھے ہاتھ جھاڑ کر پڑ گئی۔ سب سے چھوٹی کو تو جانے کی سب سے زیادہ جلدی تھی۔ وہ فٹ بال کی طرح اِدھر اُدھر لڑھکتے ہوئے گھٹ کر مر گئی۔
’’ارے کون شادی کرے گا اس سے۔‘‘
’’نہ کوئی کرے گا نہ اس بیماری سے جان چھوٹے گی۔‘‘
لوگوں کے سوال، بھابھیوں کے جلے جواب اس کے کانوں میں پڑتے اور اس کے دل پر سلگتے ہوئے نشان چھوڑ جاتے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس بد صورت، کم عقل سیدھی سی لڑکی کے سینے میں دھڑکتا دل کتنا نرم و نازک اور حساس تھا۔وہ سنتی رہی ، سہتی اور سہتے سہتے ایک دن اپنی جان سے چلی گئی۔ابھی اس کا غم بہنوں کے دلوں میں پنجے گاڑے بیٹھا تھا کہ ان کی سب سے بڑی بہن جو پہ در پہ آٹھ مردہ بچّوں کو جنم دے کر اندر سے ختم ہو چکی تھی ، ایک دن اچانک آنکھیں موند گئی۔ نو بار ماں بننے کی اذیت سہنے کے باوجود اس کی جھولی میں اس وقت آٹھ سال کا ایک بیٹا تھا۔ رجی اور پینو غم سے دہری ہو گئیں، مگر کسی کے جانے سے زندگی کہاں رکتی ہے ۔ یہ چلتی رہتی ہے سو یہاں بھی چلنے لگی۔ پینو اور رجی ایک دوسرے کے اور قریب آگئیں۔ دونوں سارے رشتے جیسے ایک دوسرے میں ہی تلاش کرتی تھیں ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پینو اپنے شوہر اور ساس کی زیادتیوں پر خاموش ہو جاتی۔ اس کی ساس ہر وقت اسے طلاق دلوانے کا اعلان کرتی رہتی۔ بدصورتی،غربت اور بانجھ پن کے طعنے سن سن کر اس کا دل لہو لہان ہو جاتا، مگر وہ لبوں پر قفل لگالیتی۔ وہ بد صورت تھی، غریب والدین کی بیٹی تھی، یہ بھی حقیقت تھی، مگر وہ بانجھ تھی یہ اس کا قصور ہر گز نہیں تھا۔وہ اپنے شوہر کے لیے اس ناپسندیدہ لباس کی طرح تھی جسے پہننا تو بہت دور کی بات، وہ ہاتھ لگانا یا نظر اُٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ یہاں وہ قصور وار نہیں تھی لیکن ٹھہرائی جاتی تھی۔ وہ ماں نہ بن سکی، یہ رکن دین کی پلاننگ تھی۔ پینو اندر سے بہت خوف زدہ تھی کہ اگر اسے طلاق ہو گئی تو وہ کہاں جائے گی۔ پیچھے کوئی تھا نہیں سوائے ایک بہن کے ۔ دربدری کا خوف تھا یا کیا کہ وہ ہر بار طلاق کی دھمکی ملنے پر رکن دین کے قدموں میں گر جاتی۔
’’اللہ کا واسطہ! مجھے طلاق نہ دینا، مجھے یہیں پڑا رہنے دو ۔ گھر سے نہ نکالو ، نوکرانی سمجھ کر رکھ لو۔‘‘ اب پتا نہیں رکن دین اللہ کے واسطے شرم کھاتا تھا یا کیا کہ وہ اسے دو تین ٹھوکریں رسید کر کے گھر سے نکل جاتا اور پینو اپنی ساس کے منہ سے نکلنے والی آگ میں جھلس کر اور سیاہ پڑ جاتی۔
پینو کے دیور کی شادی ہوئی۔ دلہن بہت ہی خوب صورت تھی، اتنی کہ پینو تو بالکل ہی دیوار سے جا لگی اور رکن دین دلہن کی خوب صورت بہن سجو کے آگے سمجھو دل ہار گیا۔
پینو کی زندگی اور عذاب میں آگئی۔ رکن دین سجو کو لیے لیے گھومتا۔وہ گھر آتی تو اس کے آگے پیچھے پھرتا اور پینو بس دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندرجلتی۔
’’ میں سجو سے شادی کر رہا ہو۔‘‘ رکن دین نے جانے اطلاع دی تھی یا حکم سنایا تھا۔
’’ کر لو ، مگر مجھے نہ چھوڑنا۔‘‘ پینو نے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’ تجھے نہیں چھوڑوں گا تو اسے نہیں پا سکوں گا۔‘‘وہ اور بے مہر ہوا۔
’’ تمہارے بیوی بچوں کی خدمت کروں گی۔‘‘وہ گڑ گڑائی۔
’’ خدمت کے لیے نوکرانیاں بہت۔‘‘ پینو خاموش ہو گئی۔ اس کے سارے الفاظ جیسے گم ہو گئے کیوں کہ اسے اس کی حیثیت کا ادراک ہو گیا تھا۔
’’کہاں جاؤں گی؟ کیا کروں گی؟ میرا کیا بنے گا؟‘‘ پینو کی آنکھوں کے سامنے سوال ناچتے اور ذہن خالی ہو جاتا۔
’’منحوس بانجھ ہے۔ تین سال ہو گئے شادی کو۔ چڑیا کا ایک بچہ تک پیدا نہ کر سکی ۔ ‘‘ساس زہر اگل رہی تھی۔ ایسے میں پینو کی بہن رجی اس سے ملنے آئی تو اس نے اپنا غم سنا کر اس کا دل بھاری کر دیا تھا۔
’’ہم لوگ لڑکیوں کی ذاتی پہچان اور حیثیت کیوں نہیں بناتے؟ کیوں انہیں ڈر کر جینا سکھاتے ہیں۔ کیوں ان کے ہاتھ میں ہنر یا تعلیم کی تلوار نہیں دیتے جس سے وہ اپنے برے حالات کا مقابلہ بہادری سے کر سکیں۔کیوں پیدا ہوتے ہی بوجھ قرارد ے دی جاتی ہیں؟‘‘ رجی اس کے گلے شکوے سنتی رہی اور تسلی دلاسا دے کر چلی گئی۔
٭…٭…٭
’’ میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے۔‘‘ پینو نے پھولے سانسوں کے درمیان بمشکل کہا۔ رکن دین نے مڑ کر ایک نظر اسے دیکھا، اپنی تیاری مکمل کی اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ اس کی ساس سبزی وغیرہ لینے گئی ہوئی تھی۔
’’میں … میر… میری طبیعت۔‘‘کمرے کے دروازے تک آکر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ وہیںگر گئی۔ اس کا سانس سینے میں گھٹ رہا تھا اور دل کوئی مٹھی میں لے کر مسل رہا تھا۔
’’بہانے نہ بنایا کر، جاچلی جا میر نظروں سے دور، بد صورت عورت۔‘‘ وہ اس پر لفظوں کے سنگ برسا کر گھر سے ہی چلا گیا۔
پینو خود کو بمشکل گھسیٹ کر میز تک لائی اور موبائل اُٹھا کر اپنی بہن رجی کا نمبر ملایا۔
’’رجی ! میری طبیعت… ٹھیک نہیں … تو آجا‘‘ پینو نے گھٹی گھٹی سانسوں کے درمیان بمشکل بات مکمل کی۔
’’ پینو حوصلہ کر!موسم بدل رہا ہے نا اس لیے تیرا سانس خراب ہو رہا ہے۔تو گرم پانی میں وکس ڈال کے بھاپ لے۔‘‘ رجی نے محبت سے کہا۔
’’ہمت نہیں ہے۔‘‘ پینو جیسے بالکل ہی بے جان ہو رہی تھی۔
’’ہمت کر میری بہن ، کچھ نہیں ہوتا ۔ ابھی میں نہیں آسکتی ، پیچھے گھر میں کوئی نہیں ہے ۔ میں کل تیری طرف آؤں گی۔‘‘پینو سے مزید بات کرنا محال ہو گیا تو فون بند کر کے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ یوں جیسے اس کے ارد گرد آکسیجن ختم ہو گئی ہو اور وہ بے ہوش ہو کر وہیں لڑھک گئی۔
٭…٭…٭
’’اری بد بخت مر کر جان چھوڑ دے ہماری۔ کم بخت دروازہ کھلا چھوڑا ہوا ہے۔‘‘ پینو کی ساس سبزی لے کر واپس آئی تو بیرونی دروازہ کھلاہوا تھا ، پانی کی موٹر چل رہی تھی اور پانی ٹینکی سے بہ رہا تھا۔ وہ صحن کے بیچوں بیچ کھڑی ہو کر پینو کو کوسنے لگی۔ ساس کی سانس کی آواز سن کر تھر تھر کانپنے والی آج ساس کی دھاڑ پر بھی سامنے نہ آئی تو اس کا پارہ آسمان تک جا پہنچا۔
’’کدھر مر گئی ہے۔‘‘ وہ بولتے بولتے کمرے میں داخل ہوئی تو پینو کو بے ہوش پڑے دیکھ کر ناک بھوں چڑھایا۔
’’بہانے باز! ہونہہ۔‘‘ کہہ کر باہر آگئی۔
’’ارے خالہ! پینو کدھر ہے؟‘‘ ہمسائی نے آکر پوچھا۔
’’اندر ہے بہانے باز۔‘‘
’’ پینو !‘‘ وہ اسے پکارتی آگے بڑھی تو اسے یوں گرے دیکھ کر بھاگ کر اس تک پہنچی۔
’’پینو! پینو! ہوش کر ، کیا ہوا؟‘‘ وہ اس کے گال تھپتھپانے لگی۔ اس نے پینو کی سانس اور نبض چیک کی جو بالکل مدھم تھی۔
’’خالہ وہ پینو… پینو کو کچھ ہو گیا ہے۔‘‘ہمسائی کے بتانے پر اس نے ناک پر سے مکھی اُڑائی۔ ہمسائی پینو کے سارے حالات سے واقف تھی۔وہ جیسے تیسے پینو کو لے کر اسپتال پہنچی اور اس کی بہن کو فون کیا۔رجی اسپتال پہنچی تو پینو بہت دور جا چکی تھی۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوا جو اس کی جان لے گیا۔
’’پینو! اُٹھ دیکھ میں آگئی۔ ہائے میں کیا کروں۔ میری بہن مررہی تھی۔ مجھے بلا رہی تھی، مگر میں اسے بھاپ لینے کا کہہ رہی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا، پتا ہوتا تو اُڑ کر آتی۔‘‘رجی کے بین لوگوں کے دل دہلا رہے تھے۔
’’ ہائے ہائے مرن جوگی نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ اس کی طبیعت اتنی خراب ہے۔ سبزی لینے گئی تو بھلی چنگی تھی ۔ مجھے بتاتی میں کچھ کرتی۔‘‘ اس کی ساس اپنی اچھائی اور معصومیت ثابت کرتی رہی اور رکن دین یوں بے فکرا پھرتا رہا جیسے ان چاہا بوجھ اس کے کندھوں سے ہٹ گیا ہو۔
’’ پینو! دیکھ آج تو اپنے ذاتی گھر جا رہی ہے۔کہ صرف قبر ہی تو ہے جو سب کی ذاتی ہوتی ہے۔‘‘
رجی نے کہا تھا کہ قبر سب کی ذاتی ہوتی ہے۔ مگر اس کی تو قبر بھی ذاتی نہیں رہی تھی کہ اس کے اُوپر لگنے والے کتبے پر اس کے نام کی بجائے ’’مرقدزوجہ رکن دین‘‘ درج تھا۔
اب اس کی قبر بھی ذاتی حیثیت سے نہیں پہچانی جانی تھی۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ممتا کی پوٹلی — فرحین اظفر

Read Next

رعنا کی چھتری — روبینہ شاہین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!