رعنا کی چھتری — روبینہ شاہین

’’تیری دو ٹکیاں دی نوکری وے میرا لاکھوں کا ساون جائے۔‘‘ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ لاحول ولا قوۃ پڑھتا اور چل دیتا، مگر کچھ لمحے بڑے طاقت ور ہوتے ہیں۔ اسیر کر لیتے ہیں۔ وہ پرندے جنہیں اپنی پرواز پر بڑا مان ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں۔ نہ جانے کیوں؟ رب کی حکمتیں رب ہی جانے۔ حمدان بھی اسیر کر لیا گیا تھا یا ہو گیا تھا، یہ تو وہی جانتا ہے۔ اس نے آسمان کی طرف پرنم آنکھوں سے دیکھا۔
جولائی کا وسط شروع ہو چکا تھا۔ حبس اور گرمی نے اچھے بھلے بندے کے ہوش ٹھکانے لگا دیے تھے۔ بادلوں کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ بادل تو بادل محکمہ موسمیات والے اس سے بھی سوا تھے۔ پیشین گوئیاں کرتے رہ جاتے مگر وہ برس کے نہ دیتے۔ آتے، اپنی چھب دکھاتے اور پھر یہ جا وہ جا۔ حمدان کو یہ موسم سخت نا پسند تھا۔
’’پتا نہیں یہ شاعر اور مصنف قسم کے لوگوں کی عقلیں کہاں گھاس چرنے چلی جاتیں ہیں جو اس موسم کے گن گاتے نہیں تھکتے۔نری مصیبت، برس جائے تو بھی اور نا برسے تو بھی۔‘‘ حمدان بڑبرایا۔
بس اسٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کرتے حمدان پر جھنجلاہٹ سوار تھی۔
’’گرمی، حبس اور اوپر سے بس کا انتظار۔‘‘ ساتھ کھڑی لڑکی کی حسیات کچھ زیادہ ہی تیز تھیں جو آہستگی سے کی گئی بڑبڑاہٹ بھی بآسانی سن چکی تھی۔
’’مسٹر! آپ جو کوئی بھی ہیں، پلیز آپ ساون کی شان میں جتنی مرضی برائیاں کریں پر شاعروں اور مصنفوں کی بے عزتی مت کریں۔‘‘ رعنا اس کی بے ساختہ کی گئی بڑبڑاہٹ کا اچھا خاصا برا مان چکی تھی۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے بیس منٹ تک وہ اس کے سر پر سوار ہو چکی تھی۔ حمدان جو اپنے آپ میں رہنے والا ایک سنجیدہ سا نوجوان تھا، کو یہ بڑبڑاہٹ کافی مہنگی پڑچکی تھی۔ جب وہ چپ ہوئی تو اسے اندازہ ہوا کہ اردگرد کا موسم خاصا خوش گوار ہو چکا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ یک دم ہی فضا بدل گئی۔ بس اسٹاپ پر صرف وہ دونوں رہ گئے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’تیری دو ٹکیاں دی نوکری وے میرا لاکھوں کا ساون جائے۔‘‘ رعنا کی آواز بے حد سریلی تھی۔ موسم کے سارے رنگ اس کی شوخ آواز میں سمٹ آئے تھے۔
’’بہت ہی بولڈ لڑکی ہے۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔ یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔
اس کے بعد اسے ساون کبھی برا نہ لگا۔ جب بھی فضا حبس آلود ہوتی، ایک سیاہ بالوں والی نٹ کھٹ سی لڑکی اپنی سریلی آواز میں گنگناتی۔ ’’تیری دوٹکیاں دی نوکری وے میرا لاکھوں کا ساون جائے۔‘‘ پھر ساری کلفت دور ہو جاتی۔ بن بادل برسات شروع ہو جاتی اور وہ اندر تک جل تھل ہو جاتا۔
پورا ایک سال گزر چکا تھا۔ رعنا پھر کبھی دکھائی نہ دی۔ اس کی نظریں انجانے میں اسے تلاشتی رہتیں۔ وہ یکسر بد ل چکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں انتظارکے دیپ واضح دکھائی دیتے تھے۔ پھر قدرت کو اس پر رحم آگیا۔ و ہ اپنی بہن کی شادی کی شاپنگ کے لیے بہارہ کہو سے صدر آیا تھا۔ جب راستے میں ایک آئس کریم پارلر پروہ اسے اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں دکھائی دی۔ وہی تھی۔ ہو بہو وہی۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ پہچان گیا تھا۔ پہچانتا کیسے نا، اس کی بنجر اور ویران زندگی میں کچھ رنگ آئے تھے تو اسی کے دم سے ورنہ وہ تو خاندان بھر میں سڑیل مشہور تھا۔ اب گاہ بہ گاہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ آویزاں رہتی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتاوہ آئس کریم پارلر میں گم ہو چکی تھی۔
’’مہندی لگے گی تیرے ہاتھ، ڈھولک بجے گی ساری رات۔‘‘ آواز نے جہاں اس کا دل جکڑا تھا وہیں اس کے قدم بھی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔آج مہندی تھی۔ وہ کسی کام سے اندر آیا تو اس کے کانوں میں میں آواز گونجی۔تھوڑا اندر آیا تو وہ سامنے ہی دھنک رنگ کے ملٹی شیڈ کا چنری والا سوٹ پہنے ڈھولک بجارہی تھی۔
’’پر وہ یہاں کہاں… نئیں نئیں۔ اُف میں زیادہ ہی پاگل ہوگیا ہوں۔ اب مجھے الوژن بھی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔‘‘ اس نے پل بھر کو سوچا اور آنکھوں کو مسلا۔ کبھی کبھی الوژن سچ بھی ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ سچ میں اس کے گھر موجود تھی۔
’’ارے مسٹر! تم وہی ہو نا!جواس دن ساون کو کوس رہے تھے بس اسٹاپ پر؟‘‘ اور حمدان کا دھیان بس اس دن پر اٹک کے رہ گیا۔
’’اس دن نہیں ۔ یہ بات ایک سال پرانی ہے۔‘‘
’’ارے واہ! تم نے تو پورا حساب کتاب رکھا ہوا ہے۔‘‘ رعنا نے ایک بھر پور نظر اس پر ڈالی۔
’’کافی اسمارٹ دکھتے ہو۔ ہاں اگر تھوڑا ہنس لیا کرو۔‘‘ اس نے اس کے سنجیدہ چہرے پر چوٹ کی۔ وہ پتھر کا بت بنے کھڑا تھا۔ جب ہوش آیا تو وہ جا چکی تھی۔ پھر شادی کے تینوں دن وہ اسے دکھائی دیتی رہی۔ رنگ برنگ شوخ کپڑوں میں تتلی کی طرح کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر۔ وہ صبا باجی کی فرینڈ تھی۔
رخصتی ہو چکی تھی۔ وہ بہت اُداس تھا۔ ایک ہی تو بہن تھی۔ اب وہ اور اماں گھر میں اکیلے رہ گئے تھے۔ یہ سب سوچ سوچ کراس کا دل اُداس ہو رہا تھا جب اس کی شوخ آواز سنائی دی۔
’’حمدان! آپ مجھے گھر چھوڑ آئیں گے؟ موسم کافی خراب ہے۔ بارش پتا نہیں کب شروع ہو جائے۔‘‘ اس کے خوب صورت صبیح چہرے پہ پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے۔
’’جی جی میں چھوڑ آتا ہوں۔ آپ نے جانا کہاں ہے؟‘‘
’’مری روڈ پر۔‘‘اس نے مختصر جواب دیا۔
وہ بائیک پر ساتھ بیٹھی توحمدان کو لگا وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہے۔ من چاہے ساتھی کا ساتھ، زندگی اتنی خوب صورت بھی ہو سکتی ہے، حمدان نے کبھی سوچا نہ تھا۔
’’ جی یہاں روک دیجیے بائیں طرف۔‘‘ وہ خیالوں کی دنیا میں محو تھا جب اس کی آواز سنائی دی۔
’’جی اچھا۔‘‘ یکایک بادل گرجے اور موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ مجبوراً اسے اس کے گھر رکنا پڑا۔ اس کا خیال تھا وہ کافی امیر گھر کی ہوگی پر وہ تو ہمارے جیسے ہی متوسط گھرانے سے تھی۔ یہ سوچ کر اس کی کچھ ہمت بندھی۔
’’حلیے سے تو میڈم یوں دکھتی ہیں جیسے کسی بہت امیر فیملی سے ہوں۔‘‘ اس نے سوچا۔ بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بالآخر اس نے جانے کی ٹھان لی۔
’’اچھا ٹھیک ہے، یہ چھتری لے لیں۔ کچھ بچت تو ہو گی۔‘‘ رعنا نے فکرمندی سے کہا۔ حمدان نے خداحافظ کہا اور چھتری تھام لی۔
حمدان کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ رعنا کا اس کے لیے پریشان ہونا،اسے چھتری پیش کرنا، مطلب وہ بھی میرے لیے…‘‘اسے لگا جیسے اسے کوئی کھوئی ہوئی دولت مل گئی ہو۔ وہ جلد ازجلد اسے اپنانا چاہتا تھا اور موقع کی تاک میں تھا کہ کب امی سے بات کرے۔ اسے خود تو بات کرنے کا حوصلہ نہ ہوا تو سوچا صبا باجی سے بات کی جائے۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گیا۔
انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ ہر جگہ الیکشن کے آثار نمایاں دکھائی دیتے۔ جلسے جلوس جاری تھے۔ شہر بھر میں ہائی الرٹ تھا۔ وہ امی کی دوائی لینے نکلا تھا جب وہ اسے ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں ماڈرن لباس پہنے، چہرے پہ فلیگ پینٹ کیے رقص کرتے دکھائی دی۔ غم اور غصے سے اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں مگر وہ دور کھڑا تھا۔ وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ کرنا تو دور کی بات کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھاکہ اس سے کوئی ایسا رشتہ نہ تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ذاتی — نظیر فاطمہ

Read Next

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!