گونگا ۔۔۔ اسماء ریحان

لوگوںکا ایک چھوٹا سا گروہ قبرستان میں جمع تھا۔ کچھ لوگ تدفین میں مصروف تھے اور باقی ٹکڑیوں میں بٹے اِدھر اُدھر قبروں پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں لوگ تدفین سے فارغ ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور قبرستان پھر سے ویران نظر آنے لگا۔وہ اپنے گھر کے وسیع احاطے میں کھڑی بوجھل دل کے ساتھ یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی تو وہ جلدی سے دروازہ کھولنے لپکی۔ باہر اس کا چھوٹا بھائی کھڑا تھا جو جنازے میں شرکت کے لیے گیا تھا۔ اس کی عمر 10سال سے زائد نہ تھی، مگر وہ بھی اس جوان موت پر خاصا افسردہ نظر آ رہا تھا۔ پھر مرنے والا کوئی اور نہیں اس کانہایت قریبی پڑوسی تھا جو اس کے خاندان کے بچوں کے ہمراہ کھیل کر جوان ہوا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ نہایت دکھی دل کے ساتھ تفصیلات بتانے لگا۔ ـ ـ’’باجی گونگے بے چارے کو توکفن بھی پورا نہیں ملا۔ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپنے کی کوشش کرتے تو سر ننگا ہو رہا تھا۔ بالآخر اسی طرح اسے سپردِ خاک کر دیا گیا۔ تدفین کا مرحلہ آیا، تو قبر پر رکھنے کے لیے نہ سیمنٹ کی سلیب دستیاب تھیں اور نہ ہی لکڑی کے تختے۔ لہٰذا قریب پڑی خار دار جھاڑیوں سے کام چلایا گیا۔ افسوس، زندگی تو انتہائی غربت میں بسر ہوئی ہی تھی، مگر مرتے وقت آخری رسومات بھی ٹھیک سے ادا نہ ہو سکیں۔‘‘
گونگا ان کے پڑوسی اللہ دتہ کا بڑا بیٹا تھا۔ اللہ دتہ کے حالات کچھ اچھے نہ تھے۔ وراثت میں ملے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر کھیتی باڑی کر کے گزربسر کرتا تھا ۔ جن دنوں زمین پر کام زیادہ نہ ہوتا وہ شہر جا کر محنت مزدوری کرتا اور بچوں کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتا۔ ابتدا ہی سے اس کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ کبھی کسی سے دوستانہ روابط نہ بنا سکا۔ اسی غیر سماجی رویے کی وجہ سے اُس کی شادی بھی دور دراز کے ایک غریب رشتہ دار کی گونگی بیٹی سے ہوئی اور یوں وہ خاموش سے خاموش تر ہوتا چلا گیا۔
اسے نہیں یاد تھا کہ اس نے کبھی اللہ دتہ کو اپنے بال بچوں، محلے داروں یا دوستوں کے ہمراہ ہنستے کھیلتے یا محض بات چیت ہی کرتے دیکھا ہو۔
گونگی کافی سمجھ دار واقع ہوئی تھی۔ وہ اپنا گھر بار اچھے سے سنبھالتی اور اڑوس پڑوس والوں اور اپنے سسرالی رشتہ داروں سے ممکنہ حد تک تعلقات ٹھیک رکھنے کی کوشش کرتی۔ اللہ نے چھے بچے بھی دے دیے جن میں سے بڑے تینوں ماں کی طرح قوت سماعت و گویائی سے محروم تھے، مگر چھوٹے تینوں بچے نارمل تھے۔ گھر کی غربت اور حالات کو بہتر بنانے کے حوالے سے شوہر کی تھوڑی کمائی کے باوجود وہ گزر بسر کر رہی تھی۔
وقت یونہی گزر رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے اللہ دتہ کا بڑا بیٹا جسے تمام گاؤں والے گونگا کے نام سے جانتے تھے باپ کے ساتھ مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے اور کھیتی باڑی میں اس کا ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گیا۔ عمر کے لحاظ سے تو وہ ابھی11 یا 12 سال کا ہی تھا، مگر قدرت نے اسے کچھ خصوصی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ نہایت کم عمری ہی سے مویشیوں کی دیکھ بھال میں باپ کا ہاتھ بٹانے لگا تھا، مگر اب تو اس نے اس کی تمام تر ذمہ داری سنبھال لی۔ فصل کی کاشت اور سمیٹنے سے متعلق بڑے کاموں کے علاوہ وہ تقریباً تمام کام خود کرنے لگا۔ یہی نہیں بلکہ قریبی کسانوں کی زمینوں پر ان کے کام کاج میں ہاتھ بٹا کر کچھ پیسے جمع کیے اور ایک گدھا بھی خرید لیا جس کی مدد سے وہ گھاس لانے اور لے جانے سے لے کر وزن ڈھونے جیسے کام بھی کرنے لگا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اللہ دتہ اس بدلی ہوئی صورت حال سے خوش تھا اور اسی لیے مویشی اور زمینوں کا کام کاج بیٹے کے سپرد کرکے اکثر مزدوری کے لیے شہر چلا جاتا۔ آس پاس کے لوگ بھی اس صورت حال پر خوش اور حیران نظر آتے تھے کہ جس عمر میں ان کے بچے اسکول میں پڑھ رہے تھے، اسی عمر میں ایک غریب کا ننھا بچہ گھر کی ذمہ داریوں کو بہ خوبی سرانجام دینے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹا رہا تھا اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی تھا۔ وہ دوسروں سے مل جل کر اپنا کام نکلوانا اور تھوڑا بہت کام حاصل کرنا جانتا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر کہتے کہ مزید ایک دو سال میں گونگا گھر کے حالات بدل دے گا۔
پھر ایک روز سانحہ ہو گیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
گاؤں سے کچھ فاصلے پر ریلوے لائن تھی اور گاؤں کے اکثر لوگوں کی زمینیں اسی ریلوے لائن کے دونوں اطراف تھیں۔ لاہور سے آنے والی ریل گاڑی گلا پھاڑ پھاڑ کر کئی ہارن دینے کے بعد اچانک سے رکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ دیکھنے والے حیران و پریشان یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ کچھ ہی دیر میں گاؤں میں یہ اطلاع پہنچی کہ گونگا ریل کی زد میں آ گیا ہے۔ سب حیران تھے کہ یہ اچانک کیسے ہو گیا۔ وہ ہمیشہ سے ان زمینوں پر کام کرتا آیا تھا اور ریل بھی ہر روز وہاں سے گزرتی تھی، مگر پہلے تو ایسا کوئی حادثہ نہ ہوا تھا، ماسوائے ان گنے چنے مواقع کے جب قریبی دیہات یا شہر میں سے کسی نے ریل کے سامنے کود کے خود کشی کی کوشش کی۔
سب کے دل دہل گئے۔ ایک غریب کا نوجوان بیٹا ریل کی زد میں آ گیا تھا۔
شام تک اطلاع ملی کہ گونگے کی جان تو بچ گئی مگر اس کی بائیں ٹانگ بری طرح زخمی ہوئی تھی، اتنی کہ ہڈی بالکل ننگی ہو گئی اور اس پر سے سارا گوشت ریل کے پہیوں میں آ کر کچلا گیا تھا۔ عینی شاہدین بتا رہے تھے کہ گونگا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا کہ اچانک ریل کے ہارن پر اس کا گدھا بدک کر بھاگا اور ریل کی پٹڑی پر چڑھ گیا۔ گونگا جس نے یہ گدھا اپنے خون پسینے کی کمائی سے خریدا تھااسے بچانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ ریل گاڑی کا ڈرائیور صورت حال سے پریشان ہو کر ہارن پر ہارن دے رہا تھا، مگر گونگا اس بات سے بے خبر بھاگے چلا جا رہا تھا۔ ڈرائیور نے بریک لگانے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر تیز رفتار ٹرین کا اتنی جلدی رکنا ممکن نہ تھا اور یوںگونگا ریل کی زد میں آ کر زخمی ہو گیا۔ آس پاس کے کھیتوں میں موجود لوگ اسے اٹھا کرسرکاری اسپتال لے گئے جہاں کچھ روز رہنے کے بعد اس کے باقی زخم تو ٹھیک ہو گئے مگر ٹانگ کا زخم مندمل ہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔
ابتدا میں گاؤں کے کچھ متمول افراد نے گونگے کے علاج کے سلسلے میں تھوڑی بہت مالی امداد کی مگر پھر سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔ اللہ دتہ کے گھر کے حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے۔ اچھی اور صحت بخش خوراک تو کجا، ادویات تک کے لیے پیسے نہ تھے۔ گونگی اسپتال میں چکر کاٹنے کے قابل نہ تھی اوراللہ دتہ بیٹے کی دیکھ بھال کرتا یا باقی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرتا۔بالآخر ایک روز اسپتال انتظامیہ نے یہ کہہ کر گونگے کو گھر بھیج دیا کہ زخم کو مکھیوں سے بچائیں اور ٹنکچر لگاتے رہیں، خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
گونگے کے گھر آنے کی اطلاع ملتے ہی وہ بھی اپنی دادی کے ہمراہ اسے دیکھنے گئی۔ چوں کہ وہ اسپتال میں پڑا پڑا کافی اداس اور کمزور ہو چکا تھا چناں چہ اللہ دتہ کی بیوی نے اسے گھر کے سامنے گندے پانی کے جوہڑ کے کنارے چارپائی ڈال کر اس پر لٹایا ہوا تھا۔ وہ انتہائی کمزور نظر آ رہا تھا گویاکہ ہڈیوں کا ڈھانچہ پڑا ہو۔
کچھ ہی روز گزرے تھے کہ اس کے بھائی نے بتایا کہ گونگے کی ٹانگ کے زخم میں سنڈیاں پڑ گئی ہیں۔ سارا دن جوہڑ کے کنارے پڑے رہنے سے زخم پر مکھیاں بیٹھتی تھیں جس کے نتیجے میں سنڈیاں پڑ گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ جس تک بھی یہ اطلاع پہنچتی وہ انتہائی افسوس کا اظہار کرتا ہوا گونگے کے گھر کا رخ کرتا، زخم کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر خبر کی تائید کی کوشش کرتا اور اظہار افسوس کر کے واپس چلا آتا۔ وہ بھی اپنی دادی کے ہمراہ ایک بار پھر گونگے کو دیکھنے گئی ۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہو چکا اور انتہائی تکلیف میں نظر آ رہا تھا۔ درد و تکلیف کے مارے وہ منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہا تھا اور اس کی ماں نہایت افسردہ اس کے قریب بیٹھی ہاتھ کے پنکھے سے اسے ہوا دے رہی تھی۔
وہ حیران و پریشان کھڑی سوچ رہی تھی کہ کیا یہ وہی گونگا تھا جو بچپن سے ہی انتہائی چست و چالاک اور ہوشیار واقع ہوا تھا۔ بولنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود وہ نہ صرف سب کی بات سمجھ جاتا بلکہ ہر کسی کو نہایت اچھے طریقے سے اپنی بات سمجھانا بھی جانتا تھا۔ مزاج کا اکھڑ ہونے کی وجہ سے وہ اڑوس پڑوس کے دوسرے بچوں میں گھُل مل نہیں سکا تھا، مگر بہ وقت ضرورت اپنی بات منوانے کے فن سے آشنا تھا۔ گاؤں کے لوگ اسے دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ وہ عنقریب اللہ دتہ کے گھر کے حالات بدل دے گا، مگر کسے خبر تھی کہ وہ ایک دن کسمپرسی کی حالت میں بستر پر پڑا ہو گا کہ اپنی مرضی سے ہِل بھی نہ پاسکے گا۔ وہ دکھی دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھر آ گئی اور دل ہی دل میں سوچتی رہی کہ کیا پورے گاؤں میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جو ایک غریب کے نوجوان بچے کے علاج میں مدد کر سکے۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ مسجد کے اسپیکر سے مولوی صاحب نے گونگے کی موت کی اطلاع دی اور یوں اس کی زندگی اور علاج سے متعلق تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔
کفن دفن کا مرحلہ آیا، تو اللہ دتہ خاموشی سے جا کر جیب میں موجود روپوں سے کفن خرید لایا جو نہ ٹھیک سے اس کا سر ڈھانپ سکا اور نہ پاؤں۔ قبر کی باری آئی تو سلیب یا لکڑی کے تختوں کی جگہ سوکھی جھاڑیوں سے کام چلایا گیا۔ خدا جانے اس روز اللہ دتہ اور اس کی بیوی کے دل پر کیا گزری ہو گی، بہرحال کوئی بھی اس خبر کو سننے کے بعد دکھی ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
اگلے روز وہ اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ اسکول جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے گونگے کی ماں کھڑی تھی۔ ہاتھوں میں دو پیالے پکڑ رکھے تھے جن میں چنے اور مکھانے تھے ۔ گونگی نے ایک پیالہ اس کی جانب بڑھا دیا ۔ وہ حیران تھی کہ گونگی گھر گھر جا کر یہ چنے اور مکھانے کیوں بانٹ رہی ہے۔ ابھی کل ہی تو اس کا جوان بیٹا فوت ہوا تھا۔ اس کی والدہ اور دادی نے آگے بڑھ کر گونگی کوگلے سے لگایا اور پاس بٹھا لیا۔ کچھ دیر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بعد گونگی خاموش ہوگئی۔ پھر عجیب و غریب درد سے اٹی آوازوں اور اشاروں کی مدد سے سمجھانے لگی کہ گاؤں کے رواج کے مطابق وہ گونگے کے قلوں کے لیے قرض اٹھا کر چنے اور مکھانے خرید کر لائے تھے، مگر گاؤں سے کوئی بھی قلوں میں شرکت کے لیے ان کے ہاں نہیں آیا، اس لیے وہ یہ چیزیں گھر گھر جا کر بانٹ رہی ہے۔
گونگی کی یہ بات سن کر اس کا کلیجا پھٹ کر رہ گیا۔ کیا کسی غریب کی زندگی اتنی بے وقعت بھی ہو سکتی تھی۔
ان کا گاؤں روایتی طرز کے غیر ترقی یافتہ دیہات سے کافی مختلف تھا۔ زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ تھے اور اکثر گھروں کے مرد روزگار کے سلسلے میں خلیجی ممالک میں مقیم تھے اور معقول سرمایہ گھروں میں بھیج رہے تھے۔ شاذ و نادر کہیں کسی گھر کی کوئی دیوار کچی نظر آتی وگرنہ سب کھاتے پیتے تھے۔ تعلیم کے حوالے سے بھی حالات کافی خوش آئند تھے۔ گاؤں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے علیحدہ علیحدہ مڈل اسکول تھے جہاں تربیت یافتہ اساتذہ موجود تھے۔ مسجد کے مولوی صاحب امامت کے ساتھ ساتھ صبح اسکول میں دینیات کی تعلیم بھی دیتے تھے۔
خود اس کے اپنے تینوں چچا بیرون ملک مقیم تھے اور اسی لیے گھر کے حالات بہت اچھے تھے۔ اسے حیرت تھی ایسے خوشحال اور مالی طور پر مستحکم لوگوں سے بھرپور گاؤں جس میں اس کے اپنے گھر والے بھی شامل تھے، کسی کو بھی گونگے کی جان بچانے کے لیے اس کے علاج کا خیال کیوں نہ آیا۔ بوڑھے منشی صاحب مسجد و مدرسہ کا انتظام نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالتے تھے۔ قبرستان کی زمین اور دوسرے متعلقہ امور میں بھی ان کی بات حرف آخر ہوا کرتی تھی۔ گاؤں کے دیگر اختلافی امور میں بھی ان کے مشوروں کو اہمیت دی جاتی۔ گھر بار اور زمینوں کی تمام ذمہ داریوں کو بیٹوں پر ڈال کر اب انہوں نے اپنی تمام تر توجہ گاؤں کے دیگر معاملات پر مرکوز کر رکھی تھی، مگر انہیں بھی تو گونگے کی علاج کی ذمہ داری اٹھانے یا دوسروں کو اس پر آمادہ کرنے کا خیال نہ آیا۔
باقی سب تو دُور، اس کے اپنے والد اور چچا، جو لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر خیرات دیتے ، ان میں سے بھی کسی کو گونگے کی زندگی بچانے کا خیال کبھی نہ آیا۔ غرض گاؤں والوں کی بے حسی کی وجہ سے ایک غریب کا ہونہار بچہ تڑپ تڑپ کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔
آج اس واقعہ کو 20 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر وہ آج بھی اس واقعہ کو فراموش نہیں کر پائی۔
کیا فائدہ اس تعلیم، شعور اور آگاہی کا، بیش بہا دولت اور دنیاوی اثر و رسوخ کا؟ کہ پڑوس میں ایک غریب کا نوجوان بیٹا بستر پر پاؤں رگڑ رگڑ کر مر جائے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

احساس — صبغہ احمد

Read Next

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے (عالمی افسانہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!