ممتا کی پوٹلی — فرحین اظفر

بوا بیگم کا نام تو ہر پرانے زمانے کی عورتوں کی طرح پتا نہیں کیا تھا۔ جیسے افسر سلطانہ، اختری، اللہ بندی، مشتری، البتہ یہ ضرور تھا کہ جب پہلی بار ڈفلی نے ان کا نام جاننے کی فرمائش کی، تو سن کر بولی تھی۔
’’اکبری، اصغری۔‘‘ اور ہمیشہ کی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر کھی کھی کھی ، کھلکھلاتی چلی گئی۔
’’چل ہٹ منحوس۔‘‘ ہمیشہ کی طرح بوا نے اسے دھتکارا اور پھر ان کے پوپلے جھری زدہ ہونٹوں پر ایک محبت بھری پیاری سی مسکان سج گئی تھی۔
بوا بیگم اس گھر کا ایک عجیب فرد تھیں۔ نہ اپنی تھیں نہ پرائی۔ چھوٹوں سے ننھی۔ بڑوں سے بزرگ۔ نہ شوخ نہ سنجیدہ بانو۔
عرصۂ دراز پہلے جیون ساتھی کے آنکھیں بند کرلینے کے بعد، قرابت داروں نے ان سے وہی سلوک کیا تھا جو ، جوان بیوہ کے حصے میں آتا ہے اور وقت کے پہیے نے انہیں اوپر سے نیچے اتار پھینکنے میں چند دنوں کا بھی تکلف نہ کیا تھا۔ قریب تھا کہ وہ اور ان کی ننھی زیبو، اسی پہیے کے نیچے آکر بری طرح کچلی جاتیں، مگر کامنی باجی اور ان کے شوہر سلیم میاں انہیں اپنی بہن بناکر گھر لے آئے۔ تب سے یہ گھر اور گھر کے مکین ہی ان کے لیے کائنات کی سب سے اہم اور حسین ترین چیزوں کا درجہ پاگئے۔
اس گھر میں جہاں محبتوں کا ذائقہ ، باجرے کی ٹکیوں ، سردائی اور کچی لسی میں بولتا تھا اور ذمہ دار رویے اپنی خوشبو سے مہکتے ایک انجانی روشنی کا حصار باندھے محسوس ہوتے تھے۔
کامنی نے شادی کے بعد انتہائی اوّلین دنوں میں انہیں دیکھا تھا ۔ اس کے بعد وہ گھر کے لیے یوں لازم و ملزوم ہوگئیں جیسے، مزار کے لیے منت کی چادر۔
یہ وہ دور تھا جب ، غربت کا کسیلا پن نہ رشتوں میں جھلکتا تھا۔ نہ رویوں اور لہجوں کی بکل مارے، چھلاوے کی طرح یہاں وہاں اچھل پھاند کرتا تھا۔
صحن کے مشرقی کونے میں لگے پیپل اور بوا بیگم نے آٹھ پہر کی سامری ساعتیں اور چار موسموں کے بعد ہجر کا پانچواں موسم، ہمیشہ کے لیے ٹھہر جانے کے بعد ایک ساتھ ہی بھوگا تھا۔ دونوں سکھ کے سانجھی تھے اور دکھ کے دم ساز تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اب، بھی کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد جب کہ بوا بیگم کی کمزور نگاہ دامن چھڑا لیتی تھی۔ رعشہ زدہ کلائیاں احتجاج کرتی تھیں، لیکن وہ حتیٰ المقدور اونچائی تک پیپل کے چکلے تنے کو حسب ِ توفیق سفیدی سے پوتتی رہتی تھیں۔
ہر چند کہ کامنی نے اور بہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ یہ کشٹ بھی اپنے کندھوں پر اٹھانا چاہا، لیکن بوا بیگم مان کے نہ دیں۔
کنگھی چوٹی، سنگار ، کٹار اور کاجل دند اسے جیسی کسی چیز سے انہیں کوئی غرض نہ تھی۔ ان کی خوشیاں تو اس بوڑھے پیپل یا اس کی جڑیں دبائے آنگن سے تھیں۔ یا پھر اسی آنگن سے جڑے دالان اور کمروں کے مکینوں سے جن کے درمیان انتہا کی لگاوٹ صرف باتوں سے نہیں، ایک دوجے کے لیے مختص کیے گئے من پسند ناموں میں بھی بولتی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ڈفلی تو خود بوا بیگم کے ہاتھوں کی جنی تھی۔ ذرا جو شعور سنبھالا، تو اس کی جھنکار ہنسی نے گویا سمے کے پیروں میں گھنگھر و باندھ ڈالے اور ان گھنگھرووؑں کی گنگناہٹ سے درو دیوار تک مسکا اٹھے۔ تب ہی سے بوا بیگم کے لبوں سے پہلی بار اس کا نام ’’ڈفلی‘‘ محبت کے انوکھے چشمے کے مانند پھوٹا اور پھواریں لٹاتا، سبھوں کے لبوں کو بھگوتا چلا گیا۔ اب تو شاید ہی کسی کو یاد تھا کہ ڈفلی کا اصلی نام ’’امینہ خاتون ‘‘ تھا۔ اس کی شخصیت پر یہ بھاری بھرکم نام شاید جچتا بھی نہیں۔ وہ تو ڈفلی تھی بس… جس کی بے چین بوٹی کو قرار نام کو نہیں تھا اور جس کی کھلکھلا ہٹوں میں ٹھہراؤ کا عنصر مفقود تھا۔ سب کے لیے ہنسی کا انجن، خوشی کا شاخسانہ ، ہی ہی ہی … کھی کھی کھی کھی کا مربا۔
بوا بیگم بچوں کے لیے بوا بیگم ہی تھیں، لیکن کامنی کے لیے صرف بیگم…
کہ اس کی یادداشت میں جمع شدہ ان دنوں کی گرد پر کبھی جھاڑو نہیں پھری تھی، جب وہ سچ مچ بیگم بن کر سرکاری نوکروں پر حکم چلایا کرتی تھیں۔ سلیم میاں کے لیے وہ صرف بوا تھیں کہ بیگم کہنا شاید ان کی محتاط طبیعت اور بوا بیگم کی غیر محتاط طبیعت پر بارگراں ہوتا۔ خود انہوں نے عمر میں خود سے چھوٹے سلیم میاں کو ہمیشہ سلیم میاں ہی پکارا۔ خالی ’’میاں‘‘ کہنے کی غلطی نہ کی۔ اس رشتے کے رموز کی گہرائی میں کوئی جاتا یا نہ جاتا۔کئی دہائیاں گزارنے کے بعد اس رشتے کی محبت، خالص پن اور سچائی کو ضرور بنا کسی کسوٹی کے پرکھ سکتا تھا۔ بنا کسی آلے کے ماپ سکتا تھا۔
بوا بیگم سراپا ضد تھیں یا ہر رنگ و سانچے میں ڈھل جانے والا مائع جس کی اپنی کوئی شکل تھی نہ رنگ۔ مزاج ایسا کہ ہر ایک کو اپنی ہم مزاج لگتیں۔ محبت کے سوتے ان کے وجود سے پھوٹے چشمے کے مانند بھل بھل پھوٹتے اور گالیاں پوپلے لکیر زدہ لبوں سے پھولوں کی طرح جھڑتیں… کبھی کسی یاد کی حدت اپنی چاشنی سے ان کا بوڑھا چہرہ دبکا کر سرخ کر ڈالتی، تو کبھی کسی خیال کا پنچھی ، اپنے مضطرب ست رنگی پر پھڑ پھڑا کر سانولی رنگت گرمادیتا۔
گھر کے تینوں بچوں کو بات بے بات بلاتفریق و تخصیص ، اکثر ہی گالیوں کے تمغے پہنا تیں۔ سلیم میاں خجل ہوجاتے اور کامنی باجی منہ چھپالیتیں، لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں تھی۔
ایک روز ان کے کھرے پلنگ پر ذرا کی ذرا قریب ہوکر سلیم میاں نے بصد ادب و احترام فرمان جاری کردیا۔
’’بوا اتنی گالیاں مت دیا کر یں۔ بچے بڑے ہورہے ہیں۔ سیکھ جائیں گے، تو جگہ جگہ بکیں گے۔ ہماری اور آپ کی ہی سبکی ہوگی۔‘‘
بوا بیگم تنک گئیں۔
’’چل ہٹ مردود مجھے سکھانے چلا ہے۔‘‘
بری طرح دھتکار دیا۔ سلیم میاں اپنی ٹنڈکھجاتے ہوئے نکل لیے اور اریب قریب کہیں اپنے پٹولوں سے کھیلتی ڈفلی کھلکھلا اٹھی۔
عین ممکن تھا کہ اسے بھی سننے کو مل جاتی، لیکن بر وقت انہوں نے انہی نوک دار زبان کو دہانے میں اندر کی طرف گھستے ہونٹوں میں دبا لیا کہ دانت تو تھے ہی نہیں لیکن، ایک بات یہ ہوئی کہ اس دن کے بعد سے بوا بیگم کی قدیم لغت میں کافی تراش خراش ہوگئی۔ نت نئی اثر انگیز اور تاثر پزیر گالیاں حذف کردی گئیں۔
کچھ معاملات میں بہت فرماں بردار تھیں، لیکن کچھ میں بہت ہٹ دھرم بھی تھیں۔ لاکھ منع کیا کہ آنکھوں سے دشمنی نہ کرو پر مان کے نہ دیں۔
سالہا سال پہلے محلے کی عورتوں کے کپڑوں لتوں پر کروشیے کا کام اُجرت کے طور پر شروع کیا تھا۔
’’کام کیا ہے۔ نگوڑ مارا ۔ ساری نظر کھا گیا بوا بیگم کی۔‘‘
کامنی باجی سخت جھنجھلائی تھیں، لیکن ان کی وہی ایک رٹ۔
’’ہم سے فالتو نہیں بیٹھے بنتا بھئی… ہاں۔‘‘
نظر کی مجبوری تھی کہ کام کم ہوتے ہوتے بالکل ہی سکڑ گیا۔ اب وہ صرف دوپٹے کے کناروں پر لیس ٹانک دیا کرتی تھیں۔ اس میں بھی کئی دن لگ جاتے، لیکن انہیں کون سمجھائے۔ گھٹی میں خود داری کے جو سبق گھول کر پلائے گئے تھے۔ وہ اب تک خون میں اپنا اثر رکھتے تھے۔
ایسی ہی ہٹ انہیں اپنی پوٹلی کے لیے بھی تھی۔ مٹھی میں سما جانے والے کپڑے کے چیتھڑے میں جانے کون سی متاع حیات بند تھی کہ آج تک کسی کو معلوم نہ ہوا۔
وہ پوٹلی انہیں شاید ساری دنیا، شاید اپنی اکلوتی بیٹی سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ قمیص کے گریبان کے سوا اس کی کوئی اور جگہ نہ تھی اور اس گریبان تک پہنچنے کی کسی کی جرأت … توبہ۔
خود ہی غسل کے لیے جاتیں، تو پوٹلی کھول کھال کپڑا دھوتیں ۔ اور اس میں بند اپنے قیمتی سرمائے کو بھی۔ اور جب غسل لے کر نکلتیں توپوٹلی دوبارہ گرہ کس… گریبان کے کسی جھول میں غڑاپ۔
’’ابا نے منہ دکھائی میں دی تھی بوا کو، تولے بھر کی انگوٹھی… وہی ہوگی۔ اس میں۔‘‘ زیبو کے لہجے کا تیقن بولتا۔
’’اور وہ تیری بالیاں جو بچپن میں کھوئی تھیں۔‘‘
کبھی رازو نیاز کا موقع ملتا، تو کامنی باجی یاد دلاتیں ۔
’’نہ نہ … وہ تو کب کی کھو ، کھواگئیں۔‘‘ زیبو کے لہجے میںجتنی بے پروائی ہوتی، بوا بیگم اس کے لیے ہمیشہ اتنی ہی چوکنا رہیں۔
’’ارے دیکھو تو… کیسے الل ٹپ کھڑی ہے زینے پر… اری زیبو پیچھے ہوجا… نئیں تو گرے گی منہ کے بل۔‘‘
آنگن سے چھت کو جاتی لکڑی کی سیڑھیاں ، ان کے ضبط کا امتحان تھیں۔
ادھر زیبو، عجمی یا ڈفلی میں سے کوئی بھدر بھدر بھاگتا سیڑھیاں چڑھتا ادھر پیپل تلے ہبڑ دھبڑ مچ جاتی۔
’’ڈفلی…ی…ی…‘‘ ان کا کان پھاڑتا نقارۂ خدا آدھے محلے کو خبر کردیتا کہ سلیم میاں کی دختر آج تو ضرور سیڑھیاں چڑھ گئی ہیں۔
’’اری سن لے… اتے اٹک ٹوٹو قدمچے ہیں۔ پیر رپٹ جائے گا۔ سن لے۔‘‘
لیکن ان کی محبت بھری دہائیوں پر کان دھرنے کے بجائے، ڈفلی کی پوری بتیسی باہر نکل آتی۔
’’کچھ نہیں ہوتا بوا بیگم۔‘‘ اس کی کھنکھناتی آواز جیسے ان کے اندر ہزار وولٹ کی بجلی دوڑا کران کے نحیف وجود کو از سر نوجوان کردیتی ۔
’’ماں صدقے۔‘‘ بالآخر بڑبڑا کر واپس اپنے کام میں جت جاتیں۔ یا پھر منہ زبانی آیتیں پڑھ پڑھ کر دم کرتی رہتیں۔
کامنی باجی جو محلے بھر کی کامنی باجی، سلیم میاں کی بختاور اور بوا بیگم کی پیاری ’’کمو‘‘ تھیں۔ اس عمر میں، کمزور نظر کے ساتھ انہیں کروشیے سے نبرد آزما دیکھ کر کئی بار ان کے کام خود نمادینے کی آفر کرچکی تھیں۔
’’ارے رہنے دو… کیسے اٹکل پچو ٹانکے نکالتی ہو تم… رہنے دو۔ لاوؑ دو ادھر۔‘‘
بوا بیگم کبھی مان بھی گئیں تو دو یا تین بل نکالنے کے بعد ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
’’بوا بیگم اصل میں تو آپ کا منی باجی کے بل نکالتی ہیں صحیح کے۔‘‘
ڈفلی جب بہت موڈ میں ہوتی تو ماں کو بھی کامنی باجی پکارتی ۔ کھلکھلاتی انہیں آگ لگاتی اور انہیں حقیقتاً آگ لگ بھی جاتی۔‘‘
’’دفع دور … بڑی آئی نجومن… میرے دل کا حل بتانے والی۔‘‘
ڈفلی کی نہ رکنے والی ہنسی میں کامنی کی مسکراہٹ بھی شامل ہوجاتی۔ بوا بیگم البتہ پوپلے لبوں کی کپکپاہٹ بھری مسکراہٹ چھپانے کو انہیں اور مسوڑھوں میں دبالیتیں۔
ان کا وجود چٹختی ہوئی زمین پر، پانی سے بھرے بادل کی طرح تھا۔ ان کی شخصیت کھلی کتاب تھی جس کے آسان الفاظ و معنی میں کہیں کچھ بھی بین السطور نہ تھا۔ جو کچھ تھا پیش منظر تھا جس میں پس منظر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ہاں اگر کوئی راز تھا، تو صرف وہ ایک پوٹلی جسے زیبو بڑے دھڑلے سے گاہ بہ گاہ افشا کرتی رہتی تھی۔
’’ہونہ ہو اس میں بوا بیگم کی سرمے دانی والا سرخ یاقوت ہے… اچھے دنوں کی نشانی تھا نا!‘‘
بوا بیگم سن لیتیں تو وہیں سے ربڑ کی دو پٹی کھینچ کر دے مارتیں۔ زیبو زد میں آجاتی تو آئندہ کے لیے کسوٹی کھیلنے سے سچے دل سے توبہ کرلیتی، لیکن چند دن کے بعد پھر وہی…
زیب النساء عرف زیبو کی تربیت میں بھی سبھی بڑوں نے حتی المقدور اور حسب ِ مزاج اپنا حصہ ڈالا تھا اور زیبو…
ڈفلی اور مجو کی زیبو آپا۔ سلیم میاں اور کامنی باجی کی پہلوٹی اولاد سے بھی پہلی اولاد تھی۔ وہ … زیبو بیٹی…
یہاں آکر فکر و خیال کے استعارے ٹھٹک کر رکتے، گہری سانس بھرتے اور پھر ذرا تھم کر آگے چلتے ہیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تین سوال — لیو ٹالسٹائی (مترجم: سعادت حسن منٹو)

Read Next

ذاتی — نظیر فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!