اچانک — عائشہ احمد

میری زندگی میں ’’اچانک‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔جو بھی ہوتا ہے اچانک ہی ہوتا ہے۔ میں نے ایم اے بھی اچانک کیا حالاں کہ میرا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا، لیکن جس دن انٹری ٹیسٹ تھا۔ اسی دن اچانک بیمار ہو گیا اور یوں میں ڈاکٹر بننے سے رہ گیا۔ ورنہ اب تک اپنا پرائیویٹ کلینک بنا کر خلقِ خدا کی خدمت کر رہا ہوتا وہ بھی لاکھوں کما کر…نوکری بھی اچانک مل گئی اور لاہور بھی اچانک آنا پڑا۔ کبھی کبھی میں اپنی اماں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا میں دنیا میں بھی اچانک آیا تھا جس پر وہ ہمیشہ کی طرح اچانک مجھے اپنی پشاوری چپل گھما کر مارتیں۔
٭…٭…٭
میں شام کو گھر آیا تو اچانک صبا کا فون آگیااور مجھے ریستوران میں بلالیا۔ حالاں کہ آج دوپہر ہی ہم نے اکٹھے لنچ کیا تھا۔ جب وہ مجھے اس طرح بلاتی تو مجھے یقین ہوجاتا کہ کوئی اہم مسئلہ ہے۔
ہم لڑکوں کا سب سے بڑا مسئلہ کسی لڑکی کے ساتھ ملنے کے وقت یہ ہوتا ہے کہ کون سا سوٹ پہن کر جائیں۔ کالج تو میں جینز سے گزارا کر لیتا ہوں لیکن اس طرح اگر رات کو صبا سے ملنے جاؤں تو خاص تیار ہو کر جاتا ہوں۔مسئلہ میرے ساتھ بھی یہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ میرے پاس کل پانچ سوٹ ہیں اور میں ہر سوٹ کو کوئی پانچ سے چھے بار پہن کر صبا سے ملنے جا چکا ہوں اور وہ مجھے ہر بار شرم دلاتی ہے کہ اب ایک نیا سوٹ خرید لو لیکن میں ہر بار بے شرم بن کر اسے ایک ہی جواب دیتا۔
’’ڈارلنگ اگر میں نئے سوٹ پہننے لگ گیا تو ہماری شادی کیسے ہو گی؟اور وہ میری اس بات پر ہمیشہ کی طرح شرمانے کی مصنوعی ایکٹنگ کرتی جس میں وہ ہمیشہ ناکا م رہتی۔میں نے جلدی سے اپنا نیلے رنگ کا سوٹ پہنا اور بال بنانے لگا۔میرے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔صبا فون کر رہی تھی۔
’’ایک تو لڑکیوں کو بھی ہر کام کی جلدی ہوتی ہے۔‘‘ میں نے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
’’کہاں ہو تم؟میں کب سے تمہارا انتظا ر کر رہی ہوں۔‘‘ اس کی غصے سے بھری آواز سنائی دی۔
’’تم لڑکیوں کو ہر کام کی جلدی ہوتی ہے،محبت کی جلدی،شادی کی جلدی اور پھر…‘‘اس نے میری بات کاٹ دی تھی۔
’’اور پھر…بولو آگے۔‘‘ وہ تیز لہجے میں بولی۔
’’پھر کچھ بھی نہیں،تم فون رکھو اور میں آیا۔‘‘ اور جلدی سے بائیک پر بیٹھ کر صبا کی طرف روانہ ہوگیا۔
’’بائیک کی سپیڈ میں نے بڑھا دی تھی۔ اس لیے کہ سڑکوں پر ٹریفک کافی کم تھی۔ ویسے بھی رات کا وقت تھا،میں جلد سے جلد صبا کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا وہ ریستوران میں میرا انتظارکر رہی ہو گی۔چر چر چر چر…میری بائیک کے پہیے چرچرائے اور بائیک ایک جھٹکے سے رک گئی۔ وہ لڑکی میری بائیک سے ٹکرا کر دور جا گری تھی۔ وہ اچانک ہی میری بائیک کے سامنے آگئی تھی۔ میں جلدی سے اس کے پاس پہنچا ۔ اس کے سر سے خون بہ رہا تھا۔ میں نے اس کی نبض چیک کی اور اﷲ کا شکر ادا کیا کہ وہ زندہ ہے۔ پہلے میں نے سوچا کہ بھاگ جاؤں لیکن پھر میرے اندر کی انسانیت جا گ اٹھی اور میں اسے اسپتا ل لے آیا۔ اس کی حالت خطرے سے باہر تھی۔ وہ بیڈ پر لیٹی چھت کو تکے جا رہی تھی۔ میرے قدموں کی چاپ سن کر اس نے مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر چھت کو دیکھنے لگی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتا وہ بول پڑی۔
’’کیوں بچایا آپ نے مجھے؟‘‘اس کے لہجے میں دنیا جہاں کا دکھ سمٹا تھا۔
’’میں نے کہا ں بچایا ہے آپ کو؟ وہ تو آپ کی قسمت اچھی تھی۔‘‘ میں نے معصومیت سے کہا، تو اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’ہو سکتا ہے لیکن اب میں جاؤں گی کہاں؟ مرنے کے بعد تو مجھے اندازہ تھا کہ قبر میںجگہ مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آپ نے وہ سہارا بھی چھین لیا۔‘‘ وہ فلسفیانہ انداز میں بولی لیکن میری موٹی عقل میں اس کی ایک بات بھی نہ آئی۔
’’پتا نہیں یہ لڑکیاں ایسی باتیں کیسے کر لیتی ہیں؟‘‘میں نے دل میں سوچا۔
’’کوئی تو ہوگاآپ کا؟میرا مطلب ہے ،ماں ،باپ،بہن بھائی۔‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلادیا، لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی۔
’’نہیں … میرا اِس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔میں اس بھری دنیا میں بالکل تنہا ہوں۔‘‘ اس نے کسی ڈرامے کی ہیروئن کی طرح ڈائیلاگ مارا۔
’’تو پھر آپ کہاں جائیں گی؟‘‘میں نے اس سے پوچھا۔
’’آپ مجھے سے شادی کرلیں۔‘‘ اس نے کہا تو مجھے لگا کہ کسی نے میرے سر پہ سو کلو وزنی بم پھوڑ دیا ہے۔
’’کیا…؟‘‘میں ایسے اُچھلا جیسے توے پر پاپ کارن اُچھلتے ہیں۔
’’م م م م مم مم۔ میں؟‘‘میں تھوک نگلتے ہوئے بولا۔
’’کیوں تم کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘وہ ایک دم آپ سے تم پر آگئی۔میں منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔ روگ پیار دے دلاں نوں جناں لائے۔ تے کلے کلے رون رات نوں۔ میرے موبائل کی بیل بج اٹھی۔میں نے جیب سے موبائل نکالا تو اسکرین پر صبا کا نمبر جگمگارہا تھا۔
’’میں آرہا ہوں۔‘‘ میں نے اسے کہا اور جلدی سے فون بند کر دیا ۔مجھے پتا تھا اگر اس نے لڑکی کی آواز سن لی تو قیامت آجائے گی۔
’’میں چلتا ہوں۔‘‘میں نے اس سے کہا اور کھڑا ہو گیا۔
’’میں دوسری بیوی بن جاؤں گی۔‘‘وہ بولی تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔
’’لیکن میں…!‘‘اس نے میری بات اچک لی تھی۔
’’دیکھیں اب آپ کو مجھ سے شادی کرنا ہوگی۔ورنہ…؟‘‘اس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
’’ورنہ کیا کریں گی آپ؟‘‘ میں نے کانپتے دل کے ساتھ کہا، حقیقت میں، میں بہت ڈرپوک ہوں،خواب میں چھپکلی سے ڈر جاتا ہوں، لیکن حقیقت میں دیکھوں تو وہاں سے بھاگ جاتا ہوں۔
’’ورنہ میں سارے اسپتال میں شور مچا دوں گی کہ تم مجھے اغوا کر کے لے جارہے تھے لیکن راستے میں ایکسیڈنٹ ہوگیا۔‘‘ وہ مکاری سے بولی اور میرے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ میرے بارے میں جان چکی تھی کہ میں سیدھا سادہ انسان ہوں۔
’’صبا مجھے جان سے مار دے گی۔‘‘میں نے رو دینے والے لہجے میں کہا۔
’’پولیس تمہیں پھانسی کے تختے پر لٹکا دے گی۔‘‘اس نے مسکرا کر کہا، تو میرے پیروں سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

میرا نام ابراہیم ہے اور میری پیدائش گاؤں کی ہے۔اماں ،ابا گاؤں میں رہتے ہیں۔ ایک بہن ہے جس کی شادی ہو چکی ہے۔ زمینوں سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی ہے۔ اباجی نے مجھے منع کیا ہو ا ہے کہ میں ان کو پیسے نہ بھیجوں،بلکہ اپنا گھر بناؤں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جگہ خرید کر دو سالوں میں رہنے کے قابل ایک مکان بنا لیا ہے ۔میں نے انگلش میں ایم اے کیا ہے اور اسی بنیاد پر مجھے ایک پرائیویٹ کالج میں لیکچرر کی جاب ملی جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے ہی کالج کے کئی طالب علموں کو ٹیوشن بھی پڑھا رہا ہوں جس سے زندگی آسودہ گزر رہی ہے۔ صبا میرے ساتھ کالج میں ہی پڑھاتی ہے۔ بس وہیں سے ہیلو ہائے ہوئی اور پھر بات پسندیدگی تک پہنچ گئی۔وہ میری منگیتر ہے اور جلد ہی ہماری شادی ہونے والی ہے، لیکن اس بات کا اماں اور ابا کو نہیں پتا اور نہ ہی میں انہیں بتانا چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ ابا جی اپنی اکلوتی بھتیجی پینو عرف پروین کی شادی میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اور میں انہیں مسلسل ٹال رہا ہوں،اس لیے میں جلد سے جلد صبا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن پھر بیچ میں سنیعہ آگئی۔بقول اس کے کہ اس کی ماں کا انتقال ہوچکا ہے اوراس کے باپ نے دوسری شادی کر لی ہے۔وہ اکلوتی اولاد ہے اپنے والدین کی۔ اس کی سوتیلی ماں اس پر ظلم کرتی ہے اس لیے وہ گھر سے بھاگ آئی اور خود کشی کاسوچا۔
’’تمہیں میری ہی بائیک ملی تھی خود کشی کے لیے۔‘‘میں غصے سے بولا تو وہ ڈر گئی۔
’’اس میں میرا کیا قصور؟ میں تو کسی گاڑی کے نیچے آنا چاہتی تھی لیکن اچانک تم آگئے۔‘‘وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
’’اچانک! یہ لفظ مجھے برباد کر کے چھوڑے گا۔‘‘ میں چیخ کر بولا۔صبا کو میں نے طبیعت خرابی کا کہہ دیا۔ وہ آنا چاہ رہی تھی لیکن میں اسے ٹال گیا۔سنیعہ میرے ساتھ میرے گھر میں موجود تھی۔میں دعا کر رہا تھا کہ کہیں وہ آہی نہ جائے۔ورنہ ہنگامہ کھڑا ہوجاتا۔
اسی دوران باہر کا دروازہ کھلا اور فرقان اند داخل ہوا۔فرقان میرا دوست ہے،بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ میرا راز دار بھی ہے اور مجھے یقین تھا کہ وہی مجھے اس مصیبت سے نکالے گا۔‘‘ اس نے ایک نظر میری طرف اور پھر سنیعہ کی طرف دیکھا۔اس کی آنکھوں میں کئی طرح کے سوال جنم لے رہے تھے۔
’’یہ سنیعہ ہے!‘‘ میں نے اسے بتایا تو اس کی نظروں میں شک کے بادل ہلکورے لے رہے تھے۔میں اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور اسے ساری کہانی سنائی۔
’’صبا کو پتا چلے گا تو وہ تجھے جان سے مار دے گی۔‘‘ وہ غصے سے بولا۔
’’اگر میں نے اس سے شادی نہیں کی، تو پولیس مجھے جان سے مار دے گی۔‘‘ میں نے اسے اسی کے لہجے میں جواب دیا۔
’’تو کر لے اس سے شادی۔‘‘ وہ جھنجھلا کر بولا اور یوں میری ا س سے شادی ہوگئی۔
اور اس نے مجھے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہی بے دخل کر دیا۔
’’پہلے منہ دکھائی دو پھر اندر آنے دوں گی۔‘‘ وہ شوخی سے بولی۔ وہ دروازہ روک کر کھڑی تھی،میں نے اند ر جانے کی ناکا م کوشش کی لیکن وہ مجھ سے زیادہ تیز نکلی۔دھکا دے کر پیچھے کردیا۔
’’یہ میرا کمرا ہے اس لیے مجھے اندر آنے کا حق ہے۔‘‘میں نے جھنجھلا کر کہا تو وہ مسکرا دی ۔
’’اوں ہوں…غلط ،اب اس کمرے پر میرا بھی حق ہے،بیوی ہوں تمہاری،جب منہ دکھائی دو گے تب آنے دوں گی۔‘‘ وہ میری حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے بولی۔
’’دیکھو! ابھی دکانیں ساری بند ہوں گی ،صبح لا دوں گا۔‘‘ میں نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
’’تو پھر اس کمرے میں صبح ہی داخل ہونا۔‘‘ اور اس نے دروازہ بند کر دیا اور میں صرف اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔باقی کمروں کی صفائی ہونے والی تھی۔اس لیے کہ میرے پاس بہت کم لوگ آتے تھے۔اماں ،ابا بھی بہت کم آتے اس لیے وہ کمرے استعمال میں نہیں تھے۔ مجبوراً مجھے ڈرائنگ روم میں صوفے پر سونا پڑا۔
’’بڑے بے آبرو ہوکر اپنے کمرے سے ہم نکلے۔‘‘ میں نے خود کو کوسا۔
’’کیا شادی ایسی ہوتی ہے؟‘‘ میں نے دل میں سوچا اور پھر کئی بار دانتوں سے انگلی کو کاٹ کر دیکھا کہ شاید یہ خواب ہو لیکن یہ حقیقت تھی جسے میں جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ اس لیے چادر تان کر صوفے پر لیٹ گیا۔چادر میں نے دوسرے کمرے کی بیڈ کی اتاری تھی ،دن بھر کی تھکن نے چور کر دیا تھا اس لیے لیٹتے ہی نیند آگئی۔
اگلے دن میں کالج چلا گیا۔سنیعہ نے مجھے روکنے کی کوشش کی تھی،لیکن میں نے اسے جھڑک دیا تھا۔
’’ایک تو زبردستی میری زندگی میں آئی ہو اور اوپر سے مجھ پر حکم چلاتی ہو۔‘‘ میں نے غصے سے کہا، تو وہ چپ ہو گئی۔ میں دل ہی دل میں خوش تھا کہ میرا رعب و دبدبہ اس پر پڑ گیا ہے،میں کالج پہنچا تو صبا میری منتظر تھی۔اسے دیکھ کر میری سانسیں رک گئیں تھیں۔
’’کہاں تھے کل سے تم؟‘‘ وہ شکی لہجے میں بولی۔
’’بتایا تو تھا تمہیں کہ ایک دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ وہاں مصروف تھا۔‘‘ میں نے بات بنائی۔ وہ مسلسل شکی نگاہوں سے میرے چہرے کا ایکسرے کر رہی تھی اور میرا دل تھر تھر کانپ رہا تھا، لیکن میں نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔
’’ایک بجے میں تمہارا انتظار کروں گی، لنچ اکٹھے کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور میں نے سکھ کا سانس لیا۔
’’یہ لڑکیاں بہت شکی ہوتی ہیں۔‘‘ پیچھے کھڑا کینٹین بوائے بولا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تو اس نے میری اور صبا کی گفتگو سن لی تھی۔میں نے اسے گھوری ڈالی۔ وہ کسی کو چائے دے کر آیا تھا ا س لیے کہ اس کے ہاتھ میں خالی ٹرے تھی۔
’’وہ بلاوجہ شک نہیں کرتیں،مرد نہ موقع دے تو وہ شک نہ کریں۔‘‘میں نے غصے سے اسے کہا اور آگے کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
سنیعہ میری توقع سے بھی زیادہ چالاک نکلی،اس نے آتے ہی گھر سنبھال لیا تھا۔میں گھر پہنچا تو وہ گیٹ پر کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی۔اس نے شرمانے کی اداکاری کی۔
’’تمہیں کس نے کہا کہ گیٹ پر میرا انتظار کرو؟‘‘میں نے غصے سے کہا۔
’’ہر اچھی بیوی کا فرض ہوتا ہے کہ شوہر جب گھر آئے تو وہ مسکرا کر اس کا استقبال کرے۔‘‘ وہ ڈھٹائی سے مسکرائی۔
’’تم زبردستی میری زندگی میں آئی ہو،سمجھ آئی۔‘‘ اور غصے سے اپنے کمرے میں چلا گیا،جاتے ہی بستر پر گر گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں آئی۔
’’منہ ہاتھ دھو لو،میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ وہ مسکرا کر بولی،مجھے لگا وہ میری بے بسی پر مسکرا رہی ہو۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے اور جاؤ یہاں سے۔‘‘میں نے غصے سے کہا، تو وہ ٹھیک ہے کہہ کر چلی گئی اور میں صرف دانت پیس کر رہ گیا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

Read Next

مجرم — ماہتاب خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!