ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

آسمان پہ کالے سیاہ بادلوں نے گھیرا تنگ کر رکھا تھا۔ بجلی کی گرج چمک وقفے وقفے سے مون سون کی بارش کی طرح جاری تھی اور آسمان کے سینے پر ایک ایسی لکیر بنا رہی تھی جیسے کسی کمسن بچے کے ہاتھ میں پنسل تھما دی جائے اور وہ ایک کورے کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیر کھینچ دے۔
بارش گو کہ ابھی تک جاری تھی مگر موسم کی صورتحال دیکھ کر یہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بارش کو رفتار پکڑنے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ میں نے اپنے سیاہ رنگ کے اوور کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور تیز قدموں سے گھر کی جانب دوڑنے والے انداز میں چلنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد میں اپنے سات مرلہ ڈبل سٹوری مکان کے گیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔
اپنے گھر کے مین گیٹ پہ لگے سنہری رنگ کے تالے کو کھولا اور گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ برآمدے کا بلب جلایا اور کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور کوٹ کو اتار کر صوفے پر پھیلا دیا تا کہ جلدی سوکھ سکے۔ آدھے گھنٹے بعد میں گھر کی لائٹیں بجھا کر اپنے بستر پر کمبل میں لیٹا ہوا تھا۔
باہر گھر کے پکے صحن میں تیز بارش کے قطرے گر گر کر کسی مدھر گیت کی طرح دل کے تار چھیڑ رہے تھے۔ بارش کا شور میری نیند میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی نیند نے ہاتھ نہ پکڑایا۔
تنگ آکر میں نے کمرے کی لائٹ آن کر دی اور بے سبب ہی کمبل اتار کر بیٹھ گیا۔
بیڈ کے دائیں جانب والی دراز کھولی۔بابو جی کی فوٹو دراز کے اندر پڑی تھی۔
ان کی فوٹو دیکھتے ہی میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ فوٹو اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہی تھی کہ میرے آنسو فوٹو فریم کے اوپر جا گرے۔ بابو جی کی فوٹو واپس دراز کے اندر رکھنے لگا تھا کہ دراز کے اندر پڑی ہوئی برسوں پرانی ایک ’’نشانی‘‘ پر نظر جا پڑی۔
میں نے وہ نشانی اٹھائی اور اسے عقیدت سے دیکھنے لگا۔ دل سے دعائیں اور اخلاص پھوٹنے لگا۔ وہ سبھی دعائیں اور اخلاص ایک ایسے شخص کے لیے، جس کو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔
کب اس ہستی سے محبت ہو گئی مجھے پتا ہی نہیں چلا۔
میں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی وہ نشانی جوکہ اللہ کے نام کا ایک لاکٹ تھا اور جو میرے پاس میرے بابو جی کے توسط سے پہنچی تھی، کو واپس دراز میں رکھ دیا اور ایک بار پھر ماضی کی یادوں میں غوطے کھانے لگا۔
٭…٭…٭

’’ہاں! میں گواہ ہوں۔‘‘
’’ہاں !میں گواہ ہوں۔‘‘
یہ وہ الفاظ تھے جو اکثر تنہائی میں بابو جی کے ہونٹوں پر ورد کی صورت جاری رہتے تھے۔
یہ الفاظ ادا کرتے وقت بابو جی کے چہرے پر زردی سی چھا جاتی۔ آنکھوں میں کھولتے پانی کا سیلاب پلکوں کے مدِمقابل آجاتا۔ دھڑکن کی رفتار عام روٹین سے کہیں زیادہ تیز ہو جاتی۔
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ماں کی لوری اتنی زیادہ نہیں سنی تھی جتنی مرتبہ بابو جی کے منہ سے یہ الفاظ سنے تھے۔
بچپن، لڑکپن،نو جوانی اور پھر جوانی۔ اس سارے عرصے میں بابو جی کے منہ سے ان الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں سنا تھا۔ بابو جی جب اکثر تنہا بیٹھتے تو اپنے ہاتھوں میں اللہ کے نام کا لاکٹ پکڑ کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوتے بس یہی کہا کرتے تھے:
’’ہاں !میں گواہ ہوں۔‘‘
کئی بار من نے کہا کہ بابو جی سے ان الفاظ کے پس پردہ کہانی کو جانوں مگر کبھی زبان سے یہ کہہ بھی نا پایا۔
مگر پھر ایک رات، جب باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اور میں اور بابو جی کمرے میں بیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے تو میں نے اپنے دل کی بات بابو جی سے کہہ ہی دی۔ پہلے تو وہ میرے سوال پہ حیران ہوئے۔۔۔پھر تھوڑا جذباتی ہو کر سنبھل گئے۔۔۔۔میں نے ان سے کہا کہ وہ مجھے ان الفاظ کے پیچھے چھپی اصل کہانی سے روشناس کروائیں۔۔۔۔مگر بابو جی نے بتانے سے انکار کر دیا۔۔۔۔اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔
میں بھی ہارے ہوئے جواری کی طرح مایوسی سے بستر پر لیٹ گیا۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد بابو جی پھر میرے کمرے میں داخل ہوئے اور پاس اوپر بستر میں آکر بیٹھ گئے۔
“وجے کمار بیٹا۔۔۔۔تمہیں جاننا ہے ناں کہ میں یہ الفاظ کیوں ادا کرتا رہتا ہوں؟”
“جی بابو جی۔۔۔۔مجھے جاننا ہے کہ آخر ایسی کیا بات ہے ان الفاظ میں جو آپ ہر وقت ہی انہیں بولتے رہتے ہیں۔۔۔۔”
ٹھیک ہے بیٹا تو چل سن۔۔۔۔!
یہ بات پینسٹھ کی جنگ کے وقت کی ہے۔۔۔۔تب
میں فوج میں حوالدار ہوتا تھا۔۔۔۔۔
٭…٭…٭
جنگ 1965۔۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اور ہمارے ملک کے بیچ جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔۔۔
صبح سے لے کر شام تک، ہوا میں پھیلی مٹی کی خوشبو کی جگہ بارود کے دھویں اور اسکی بدبو نے لے رکھی تھی۔۔۔۔ماحول میں ہر طرف ہی مرگ کا سماں بندھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
زمین پر اتنے زیادہ پتے نظر نہیں آتے تھے جتنی زیادہ لاشیں سوکھے پتوں کی طرح رنگ بدلتی ہوئی نظر آتیں۔۔۔۔۔جہاں تک نظر جاتی بس دھواں ہی دھواں اور خون ہی خون نظر آتا۔۔۔۔۔
جنگ لگے ہوئے دو دن گزر گئے تھے کہ ایک شام جیل میں ایک پاکستانی قیدی کو لایا گیا۔۔ وہ زخموں سے چور،بہت مریل نظر آ رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ کوئی فوجی نہیں تھا نا ہی کوئی پولیس والا۔۔۔۔۔
وہ ایک عام سا آدمی تھا۔۔۔۔۔جسے ہمارے جوانوں نے پکڑ کر خوب مارا تھا اور گولی مارنے کی بجائے جیل لے آئے تھے۔۔۔۔۔
میں “حوالدار چیتن کمار” ان دنوں نیا نیا فوج میں بھرتی ہوا تھا اور میری ڈیوٹی جیل کے اندر ہوتی تھی۔۔ وہاں تقریبا سبھی مختلف ممالک کے قیدی تھی۔۔ میں انکی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا۔۔ جو بھی نیا قیدی لایا جاتا اس پہ دن کے اوقات میں تین دفعہ تشدد کی جاتا۔۔۔۔خوب مکے بازی کی جاتی۔۔۔۔اکثر فوجی جوان تو ان قیدیوں کو مار مار کر اچھی بھلی چھاتی اور ڈولے شولے بنا چکے تھے۔۔۔
میں کمرے میں ایک جگہ کرسی پہ بیٹھا کندھے پہ رائفل لٹکائے رہتا۔۔۔۔
ان قیدیوں کی چیخ و پکار سن کر میرا دل باہر آنے کو لپکتا۔۔۔۔مجھ سے انکا درد انکی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔۔۔۔۔
نیا پاکستانی قیدی جب جیل میں لایا گیا تو وہ بہت زیادہ بری حالت میں تھا۔۔۔اسکے جسم سے خون بہہ رہ تھا۔۔۔۔اس نے اپنے خون سے تر ہوئے کرتے کو اتار پھینکا۔۔۔۔۔
میں نے دیکھا کہ اس کے گلے میں “اللہ کے نام کا لاکٹ” تھا۔۔۔۔
اس سے میں نے کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔وہ پاکستانی تھا اور اس سے نفرت کرنا مجھ پہ لازم تھا مگر بیٹا سچ بتاوں تو اپنی ساری زندگی کسی قیدی سے نفرت نہیں کر پایا۔۔۔۔۔۔
میں قیدیوں سے باتیں کیا کرتا۔۔۔ان سے ان کے دل کی باتیں پوچھا کرتا۔۔۔۔
کبھی کبھی تو مجھے یہ لگتا تھا کہ اپنے ہی وطن کا غدار بن گیا ہوں جو دشمنوں سے نفرت کرنے کی بجائے ان کے دکھ درد بانٹتا ہوں۔۔۔۔۔
رفتہ رفتہ اس پاکستانی قیدی سے بھی جان پہچان بنا لی۔۔۔۔
اسکا نام ” دلاور خان” تھا۔۔۔۔۔وہ ایک ڈرائیور تھا جو بد قسمتی سے جنگ کے دنوں میں دشمن فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
اس کو صبح دس بجے سے لے کر دس بج کر بیس منٹ تک پیٹا جاتا۔۔۔۔پھر اسکو مردوں کی حالت میں وہیں چھوڑ دیا جاتا۔۔۔۔پھر دو بجے اور آخری شفٹ رات کو سونے سے پہلے لگائی جاتی۔۔۔۔۔
میں چاہ کر بھی اسکی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔اگر میرے افسران کو اس بات کا علم ہو جاتا تو نوکری کے ساتھ ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا۔۔۔۔۔
ایک صبح میں دیر سے ڈیوٹی پہ پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو فوجی جوان اسی پاکستانی قیدی کو جیل کے باہر کھلے میدان میں مار رہے تھے۔۔۔۔۔
” تم چاہے مجھے جان سے ہی کیوں نا مار دو مگر میں اپنے وطن کے لیے مردہ باد کا نعرہ نہیں لگاونگا۔۔۔۔”
دلاور خان چیخ چیخ کر اپنے عزم کا اظہار کر رہا تھا جسے دیکھ کر ہمارے فوجی جوان اور بھڑک گئے اور اسے لاتوں اور مکوں کے علاوہ لوہے کے راڈ سے مارنے لگے۔۔۔۔
دلاور خان کی چیخیں آسمان چھو رہی تھیں۔۔۔۔اسکا جسم مار کھا کھا بہت لاغر ہو چکا تھا۔۔ خون اسکے بالوں میں بھر گیا تھا اور بال مٹی سے اٹے ہوئے اسکی حالت پر گہرے دکھ کا اظہار کر رہے تھے۔۔۔

Loading

Read Previous

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Read Next

اچانک — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!