آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

’’اے بنو!‘‘ اماں نے ہاتھ لہرا کر اسے پکارا۔
’’اب بس بھی کر دو۔ میں تو اس کایا کلپ پر حیران و پریشان ہوں۔ جانے رات کی رات کیسا درد ا ٹھا تمہارے سینے میں کہ وہی کتا جس کو تم آدھی روٹی ڈالنے کی روادار نہیں تھیں۔ اب اسی کے ساتھ کب سے بیٹھی ہو اور اپنا پراٹھا بھی اسی کو کھلا دیا۔ اب اس موئے کو اللہ جانے کون کون سی کریمیں لگائے جارہی ہو۔‘‘
مہرو نے گردن موڑ کے اماں کو دیکھا اور رندھی ھوئی آواز سے کہا۔
’’آتی ہوں اماں! اب بس ذرا پٹی کر دوں۔‘‘
’’کیوں کیا ہو گیا ہے اسے رات تک تو ٹھیک ٹھاک تھا۔‘‘ اماں نے پان پر چونا لگاتے ہوئے پوچھا۔
مہرو نے پٹی کوگرہ لگا کر قینچی سے کاٹا اور اماں کے تخت کے پاس آگئی جو نیم کے گھنے درخت کے نیچے بچھا تھا۔
’’پتا نہیں اماں کیسے زخم لگا ہے۔ ٹانگ سوجی ہوئی ہے اور خون بھی رِس رہا تھا۔‘‘ مہرو نے افسوس بھرے لہجے سے اماں کو اطلاع دی۔
’’اچھا اب جا کے کچن کو بھی دیکھ لے کب سے گندا پڑا ہے۔‘‘ اماں نے اس کی بات سے زیادہ پان چبانے پر دھیان دیا تھا۔
’’اے اب اس لڑکی سے کوئی پوچھے کہ اپنا دیسی گھی کا پراٹھا اس کتے کو ڈال دیا اور خود سوکھے منہ اِدھر اُدھر گھوم رہی ہے۔‘‘ مہرو نے کچن کی طرف جاتے جاتے اماں کی بڑبڑاہٹ سنی اور برتن دھوتے دھوتے بس یہی سوچتی رہی کہ اماں کو اگر معلوم ہو جائے کہ اس موئے کتے نے کیسے ان کے گھر کی عزت کی لاج رکھی تھی، تو وہ پراٹھا تو کیا مہرو اور اپنی بوٹیاں بھی نوچ کے اسے کھلا تیں تو وہ بھی کم تھا۔
٭…٭…٭
سولہ سالہ مہرالنساء متوسط گھرانے کی لڑکی تھی۔ لاکھوں میں نہ سہی ہزاروں میں ایک تھی۔ تیکھے نین نقش اوربادامی رنگت اور اس پر اس کی معصومیت اور بے نیازی اس کو اور بھی حسین بنا دیتی تھی۔
مہرو نے ابھی نیا نیا کالج جانا شروع کیا تھا۔ جہاں اسکول کی سختی سے پرے ایک نیا جہان آباد تھا۔
وہ دسویں میں تھی جب اس کی کچھ دوستوں کی منگنیاں بھی ہو گئیں اور اب کچھ ماہ بعد ان کی شادیاں ہونا تھی۔ سہیلیوں سے اپنے ہونے والے دولہوں کی باتیں سنتے سنتے مہرو کی پلکوں پر بھی سات رنگ کے سپنے دستک دینے لگے اور بن بارش کے ہی قوس ِقزح دکھنے لگی۔
اس کی سہیلیوں کے پاس روزاپنے منگیتروں اور کنزنز کے نت نئے قصے ہوتے تھے اسے سنانے کو۔
دسویں تک تو وہ ایسی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیتی تھی۔ اس کے ذہن میں تھا کہ یہ سب باتیں صرف منگیتروں کے ساتھ ہی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس کالج کے نئے جہان میں آکر اس پر یہ عقدہ کھلا کہ یہاں تو ہر دوسری لڑکی کسی نہ کسی کے ساتھ فون کال یا میسجز کے ذریعے ویسی ہی باتیں کرتی ہیں جیسا فلموں اور ڈراموں کی لڑکیاں کرتی ہیں۔ اس سب کے لیے منگنی شدہ ہونا اتنا بھی ضروری نہیں ہے۔
٭…٭…٭





چھوٹے سے گھر کے صاف ستھرے آنگن پر نیم کے گھنے پیڑ نے اپنا سایہ کر رکھا اور رنگ برنگے پرندوں کی چہکار نے عجب ہی سماں باندھ رکھا تھا۔ پیڑ کی شاخوں پر جا بجا آبخورے اور مٹی کی مٹکیاں لٹکی ہوئی تھیں۔
اس درخت کو آباد کرنے کے پیچھے بھی سمجھیں کہ پورا ایک قصہ ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ جب شادی کے کئی سال گزرنے کے بعد بھی حاجی رحمت کے گھر بچوں کی چہکار سنائی نہ دی اور دونوں میاں بیوی دوسروں کے بچوں کو دیکھ کے ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے تو ایک دن اچانک ہی حاجی رحمت کے دل میں خیال آیا تو اپنی بیوی بتول سے کہنے لگے۔
’’بھلیے لوکے تو دکھی اور پریشان نہ ہوا کر اور نہ ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوا کر۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں حاجی صاحب لیکن یہ جو دل ہے نا شیطان کے وساوس کا گھر ہے جونہی اسے موقع ملتا ہے بہکانے سے باز نہیں آتا۔‘‘
بتول بیگم نے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔
’’تو بھلیے لوکے تو اسے موقع ہی نہ دیا کر۔ اپنے اللہ کے ذکر سے دل لگا لے اور کل سے تیری تنہائی اور سونے آنگن کا بھی کچھ بندوبست کرتا ہوں۔‘‘
حاجی صاحب نے تسلی آمیز لہجے میں کہا اور گھر سے باہر نکل گئے۔
٭…٭…٭
شام کو حاجی صاحب گھر لوٹے تو اپنے ساتھ کئی طرح کے رنگ برنگے مٹی کے آبخورے اور پرندوں کو دانہ ڈالنے والے مختلف قسم کے برتن بھی لے آئے۔ پھر انہوں نے شام کی شام ہی سب کے سب درخت کی مختلف شاخوں پر باندھ دیے۔
بتول بیگم حیران وپریشان یہ سب ہوتا دیکھتی رہیں اور جب حاجی صاحب کو کسی چیز کی ضرورت پڑی تو ان کی مدد بھی کرتی رہیں۔
جب حاجی صاحب یہ سب کر کے فار غ ہوئے تو ان سے پوچھے بنا نہ رہ سکیں۔
’’ـحاجی صاحب یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کتنا تھک گئے ہیں۔‘‘ بتول بیگم کا انداز فکرمندی لیے ہوئے تھا۔
ارے اللہ لوک بس تم دیکھتی جاؤ اور تم کو خود بہ خود پتا چل جائے گا کہ یہ سب کیوں کیا۔حاجی صاحب نے تھکے تھکے انداز میں جواب دیا۔
اگلی صبح معمول کے انداز میں طلوع ہوئی۔
اِکا دُکا معمول کے پرندے دانہ دنکا چگتے رہے۔
دن ڈھلتے ڈھلتے پیڑ پر پرندوں کی چہکار میں اضافہ ہوتا گیا اور روز بہ روز اُن پرندوں کی تعداد اور چہکار بڑھتی ہی گئی اورپھر تو دور دراز سے بھی طرح طرح کی رنگ برنگے پکھیرو آنے لگے اور کئی نے تو اسی پیڑ پر بسیرا کر لیا۔ حاجی صاحب اور بتول بیگم نے بھی کبھی آبخوروں میں پانی اور خوراک کے برتنوں میں دانہ دنکے کی کمی نہ آنے دی بلکہ اب تو بتول بیگم رات کی بچی روٹیاں بھی پانی میں بھگو کر صحن میں جا بجا رکھ دیتی تھیں۔
اب تو بتول بیگم ان ست رنگے پکھیروؤں کو دیکھتیں، خوش ہوتیں اور اللہ کا شکر ادا کرتیں۔
دن پر دن گزرتے رہے اور جب دونوں میاں بیوی اولاد کی امید بھی چھوڑ چکے، تو ایک دن بتول بیگم کو اپنی کوکھ میں ایک نئی کونپل پھوٹنے کا انکشاف ہوا جس کی تصدیق محلے کی پرانی دائی نے بھی کر دی۔پہلے تو دائی کریمن حیران ہوئی اور پھر دوبارہ سے تمام نشانیاں چیک کیں تو انگشت ِبدنداں رہ گئی اور پھر بولی۔
’’ارے بی بتول مانو نہ مانو تم کو ضرور کسی بزرگ ہستی کی دعا لگ گئی ہے جس عمر میں عورتیں نانی اور دادی بنتی ہیں تم اس عمر میں ماں کے رتبے پر فائز ہونے والی ہو۔‘‘
اور بتول بیگم کے چہرے پر خوشی اور شکر گزاری کے رنگ ایک ساتھ چمکنے لگے اور حاجی صاحب کے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ خوشی تھی کہ سنبھا لے نا سنبھل ر ہی تھی۔ پہلے تو وہ کتنی ہی دیر اللہ کے حضور سر بسجود رہے۔ بے شک اللہ بے نیاز ہے اور خلوص ِدل سے مانگی گئی تہجد کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا۔ پھر کئی دن تک قرآن خوانی کراتے رہے اور ہر سانس کے ساتھ اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہے۔ ہر بار دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہی ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ اللہ نے ان جیسے بندے پر اپنا بہت بڑا کرم کیا تھا۔
٭…٭…٭
آخر کار نیم شب کی دعائیں رنگ لائیں اور منتیں پوری ہوئیں اور امیدیں بھر آئیں۔ ایک سہانی اور خوشبو بھری صبح اللہ کریم نے انہیں اپنی رحمت سے نوازا۔
نرم گلابی روئی جیسی رحمت کا نام حاجی صاحب نے مہرالنساء رکھا۔ ماں باپ نے مہرو کو حقیقت میں ہتھیلی کا چھالا بنا کہ رکھا۔ دونوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ دنیا جہان کی نعمتیں مہرو کے قدموں میں ڈھیر کر دیں۔ مہرو پنچھیوں کی چہکار سنتے سنتے اور ان کے پیچھے بھاگتے دوڑتے اسکول کی عمر کو پہنچی پھر پرائمری سے مڈل اور پھر میٹرک کر کے کالج میں آپہنچی۔ لیکن اس کی معصومیت اور سادہ لوحی میں بال برابر فرق نہ آیا۔
مہرو نے کبھی بھی اپنے والدین کے بے جا پیارومحبت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا تھا۔ وہ راضی بہ رضا رہنے والی لڑکی تھی بس کبھی کبھار اماں اور ابا کی پرندوں اور جانوروں سے محبت سے بے زار ہو جاتی تو اماں سے جھنجھلا کہ کہتی۔
’’اماں مجھے کبھی کبھی لگتا ہے میں آپ کی سوتیلی بیٹی ہوں اور یہ پنکھ پکھیرو آپ کی سگی اولاد ہیں۔‘‘ اماں اس کی بات سن کے کھکھلا کے ہنس پڑتیں اور کہتیں۔
’’ارے پگلی کیسی باتیں کرتی ہو بھلا سگی اولاد کا نعم البدل بھی کوئی ہو سکتا ہے اور یہ پنکھ پکھیرو تو اداسی اور تنہائی کو کاٹنے واسطے پالے تھے اور تم بھی تو بہت دیر سے آئی ہو میری منتوں مرادوں والی پتری۔‘‘ آخری جملہ اماں نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا اور مہرو اتنے پیار پر جھینپ گئی۔
’’لیکن اماں آپ بھی تو انصاف کریں آپ کے یہ چہیتے پنچھی کیسے منہ اندھیرے ہی شور مچانا شروع کرتے دیتے۔ اب کوئی سوئے کہ جاگے ان کی بلا سے۔‘‘ مہرو نے پھر شکایت بھرا راگ چھیڑا ۔
اس بار اماں نے اسے تیزنظروں سے گھوری ڈالی اور کہا۔
’’ارے بٹیا یہ معصوم مخلوق تو ہم انسانوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ اب اٹھ جاؤ اے حضرت ِانسان اور اللہ کا ذکر کرو لیکن ہم بد نصیب شیطان کی بہکاوے میں آکے دھڑ مار کے سوئے رہتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ ہم انسانوں سے تو یہ ہی بھلے ہیں جو نور پیر کے وقت اللہ کا ذکرکرتے ہیں۔‘‘
مہرو تو بات کر کے پچھتائی اور کسی بہانے سے ماں کے پاس سے اٹھنے کا سوچنے لگی۔
پھر اماں نے خود ہی اس کی مشکل آسان کر دی یہ کہہ کر کے جاؤ ذرا باورچی خانہ پر نظر ڈالو اگر کچھ برتن دھونے والے ہیں تو انہیں دھو کے رکھ دو۔
٭…٭…٭
دسمبر کے دن تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ سردی اس بار اپنے سارے ریکارڈ توڑے گی۔ مہرو تو بہت مشکل سے کالج کے لیے بستر سے اتری۔ لپ جھپ تیار ہوئی۔ جلدی جلدی انڈے پراٹھے کے کچھ نوالے چائے کے ساتھ نگلے جو اماں نے اس کے تیا ر ہوتے ہوئے کمرے میں رکھ دیے تھے۔
جب وہ تیز تیز قدموں سے صحن میں آئی تو نیم کے پیڑ کے نیچے ابا ایک کتے کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھے۔ اس نے خفا خفا انداز میں دور ہی سے سلام کیا اور پھر خفگی بھری نظر اماں پر ڈالی اور گھر کی دہلیز سے باہر آگئی۔
اگلی گلی میں اس کی اسکول کی دوست شمع رہتی تھی جس کے ساتھ وہ کالج جایا کرتی تھی۔ آج مہرو کو دیر ہوگئی تھی تو وہ دروازے ہی میں کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔ اس کو آتے دیکھا تو منہ اندر کی طرف کر کے بولی۔
’’حسن بھائی اب رہنے دیں مہرو آگئی ہے۔ ‘‘
حسن نے باہر کی طرف جھانکا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔
’’شمع حسن بھائی کے ساتھ کہاں جانے کی تیاری تھی اور یہ تمہارے وہی کزن ہیں نا خالہ صفیہ کے بیٹے۔‘‘
مہرو نے تیز تیز چلتے سانس کو قابو کرتے ہوئے شمع سے پوچھا۔
’’ہاں وہی ہیں اور میں سمجھی تھی کہ آج تم نہیں جاؤ گی بہت دیر ہوگئی تھی تمہارے آنے میں۔‘‘ شمع نے لپ سٹک لگی انگلی ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے وضاحت کی۔
٭…٭…٭
کالج سے واپسی کے وقت حسن بھائی گیٹ سے باہر کھڑے تھے۔ان دونوں کو باہر نکلتے دیکھا تو عجلت سے ان کی طرف آئے۔ شمع نے دیکھتے ہی پوچھا۔
’’حسن بھائی آپ یہاں، سب خیریت تو ہے نا۔ گھر میں سب ٹھیک ہیں؟‘‘ ثنا نے زور زورسے دھڑکتے دل کو قابو کرتے ہوئے پوچھا، تو حسن بھائی کھسیا نی ہنسی سے بولے۔
’’اوہ نہیں سب خیریت ہے تم پریشان مت ہو۔ میں تو تم کو لینے آیاتھا۔ ادھر کالج کے پاس ہی کچھ کام تھا، تو سوچا جاتے ہوئے تمہیں کو ساتھ لیتا جاؤں۔‘‘
’’اُف اللہ بھائی آپ بھی نہ کمال کرتے ہیں۔ میں تو روزانہ مہرو کے ساتھ آتی جاتی ہوں۔ آپ کے ساتھ کیسے جا سکتی ہوں۔ آپ جائیں ہم آ جائیں گے۔‘‘ ثنا نے مہرو کو دیکھتے ہوئے کہا۔
جو ایک طرف کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی اور اس تمام عرصے میں حسن نے مہرو سے نگاہیں نہیں ہٹائیں اور مہرو کا اس کا خود کو یوں ٹکٹکی باندھ کے دیکھنا بہت برا لگ رہا تھا اورشمع کو تو شاید اپنی ہی پڑی تھی اسی لیے اس بات پر اتنا غور نہیں کیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!