لیکھ — عطیہ خالد

دھرتی کے سینے پر’کچھ جھولیاں بھر کر بھی’ الٹی پڑی ہوتی ہیں۔ لیکھ کی لکیریں’ نیت کی سیاہی سے’ بڑا انت مچاتی ہیں۔۔انت کی سیاہی سے پہلے لیکھ کی سیاہی اور سفیدی سے پرے ابھی کچھ اور رنگ بھی تھے۔مخملیں ،عنابی ،ہرے اور سنہرے…دسمبر کا پالا … اورکڑاکے کی سردی تھی۔ ایسے میں اس کی د وستی گاؤں کے چولہوں کے ادھ جلے کوئلوں کی طرح’ بڑا سکھ دیتی تھی۔ اس کی آوازیں جو کبھی جھنکار تھیں’ اب بڑا واویلا کرتی تھیں۔سونی راتوں میں ہواؤں کے سنگ سنگ ڈولتی اس کی گمشدہ آواز بڑا شور مچاتی تھی۔ کبھی پراندے کو گھما گھما کر جب وہ آنکھیں مٹکا کر باتیں کرتی، تو بڑی سوہنی لگتی تھی” سوہنی۔”
” بڑا سجتی ہے تو میرے ساتھ۔”مختار اس کی نظر پہلے اتارتی تھی ‘ اتراتی بعد میں تھی۔
”جان پر جان وار دوں اور انکار نہ کروں سچی۔” مختار نظر اتارتی’ وہ جان وار دینے کو ہوتی۔
دونوں کے سہلاپے کو اگر کوئی مثال دی جا سکتی، تو وہ چاند اور سورج کی تھی۔دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھیں۔ ایک پل بھی دونوں کا ایک دوسری کے بنا گزارا نہیں تھا۔ تھیں بھی دونوں رج کے سوہنی ۔پورے گاؤں میں ان جیسی کوئی دوسری لڑکی نہیں تھی۔ الگ الگ ماؤں کے پیٹوں میں پل کر بھی ان کا رنگ روپ ،قد بت ،لمبے سیاہ بال ،بہت کچھ ایک جیسا تھااور ایسا تھا کہ پہلی نظر ڈالنے والا نظر ہٹانی بھول جاتا اور جو ہٹا لیتا وہ دوسری ،تیسری اور چوتھی نظر ڈالنے پر خود کو مجبور پاتا۔ مرد تو مرد عورتوں کا بھی یہی حال تھا۔آدھے گاؤں کی لڑکیاں رشک میں مبتلا تھیں تو بقایا حسد میں مری جاتی تھیں۔
دونوں کے گھر کی درمیانی دیوار سانجھی تھی، لیکن انہیں دیوار سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دونوں میں سگی بہنوں سے بڑھ کر پیار تھا۔ سارا دن دونوں ساتھ ساتھ گزارتیں ۔اور ساری رات جیسے ایک دوسرے کے کانوں میں سندیسے بھیجتی رہتیں۔ صبح سورج کے کواڑ کھٹکھٹاتے ہی اٹھ بیٹھتیں اور دیوار میں بنائے موکھے سے جھانک کرباتیں کرنے لگتیں۔ مائیں جو بھی کام بتاتیں جلد جلد نپٹا کر پھر موکھے کے قریب آکھڑی ہوتیں۔سارے کام ختم ہوجاتے، تو گاگریں لے کر نہر کنارے ٹیوب ویل پر ٹھنڈا پانی بھرنے چل پڑتیں۔سوہنی کے رشتے آنے شروع ہو گئے تھے ۔جب کہ مختار کا نکاح بہت کم عمری میں اپنے خالہ زاد رستم علی سے ہو گیا تھا جو اپنے خاندان کے سیلاب میں بہ جانے کے بعد انہی کے ساتھ رہتا تھا۔ بڑا خوبصورت گھبرو جوان تھا رستم اوپر سے سولہویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ مختار کو تو بڑی تسلی تھی کہ اس کا بیاہ ہو بھی جاتا، تو اس کو اسی گھر میں رہنا تھا البتہ سوہنی کے لیے وہ بڑی پریشان ہوتی کہ نجانے اس کا سنجوگ کہاں لکھا تھا۔دونوں کا دل ایک دوسری سے بچھڑنے کے خیال سے گھبراتا تھا۔
اس دن بھی دونوں گاگریں بھرنے کے بعداس قسم کی باتیں کر رہی تھیں۔ سوہنی کے لیے کسی دور کے گاؤں کے زمینداروں کے گھر سے رشتہ آیا تھا۔اس کی اماں کو رشتہ پسند آیا تھا۔بس دوری کے خیال سے ڈانواں ڈول ہو رہی تھیں دونوں۔ واپسی کے لیے انہوں نے گاگریں اٹھائیں ہی تھیں کہ شہر سے لوٹتا ہوا پیاس سے بے حال رستم علی ان کی طرف آگیا۔





”پیاسے کو پانی پلا دو کڑیو۔”اس نے مختار پر نظریں جمائے جمائے کہا۔ مختار تو شرما کر سوہنی کے پیچھے ہو گئی ۔سوہنی نے اپنی گاگر سے پانی رستم کی اوک میں گرانا شروع کیا۔دھوپ سے اس کا چہرہ لال سوہا ہو رہا تھا۔سر جھکائے رستم پانی پی رہا تھا اور پیاس جیسے سوہنی کی بجھ رہی تھی۔ کچھ ایسا فسوں تھا اس گھڑی میں جس نے سوہنی کے دل کی کیفیت بدل دی ۔تپتی دھوپ اس کے لیے ٹھنڈی میٹھی چھاؤں بن گئی،من میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں تھیں۔
رستم نے جب پانی پی کر سر اٹھانا چاہا، تو سوہنی نے شرارت سے پوری گاگر اس پر الٹا دی اور قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔ سوہنی کی قل قل کرتی ہنسی بھی ساتھ شامل ہوگئی ۔تینوں ہنستے ہنستے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ بوڑھے وقت نے سوہنی کی پوری کی پوری بدلی چال کو دیکھا اور افسردگی سے مسکرا دیا۔
سوہنی کے دل میں رستم کی چاہ جاگ گئی تھی۔اس رستم کی چاہ جو کسی بھی حال میں اس کا نہیں ہوسکتاتھا۔ چاہے اس کی جان جاتی چاہے دل۔ رستم جو مختار کی امانت تھا اور سوہنی کا دل اس امانت میں کسی بھی قسم کی خیانت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کبھی اسے خیال آبھی جاتا کہ کیا ہے اس جھلی مختار کے پاس جو سوہنی کے پاس نہیں تھا۔تو وہ اپنے کلے پیٹ ڈالتی، توبہ تلا کرتی۔ اگر مختار سچے دل سے اس پر فدا تھی تو سوہنی بھی اس سے رج کے محبت کرتی تھی ۔صورت تو دونوں کی ایک سے بڑھ کر ایک تھی۔ ہاں مختار جھلی تھی۔ سوہنی کو اور مختار کو ان کی ماؤں نے ایک ساتھ گھر داری ،سلائی کڑھائی سکھانی شروع کی تھی۔سوہنی تو دنوں میں طاق ہوگئی لیکن مختار ٹھس کی ٹھس رہی۔ وہ آٹا گوندھتی تو گیلا کر دیتی، روٹیاں بناتی تو جلا دیتی، کپڑے دھونے بیٹھتی تو خود گیلی ہوجاتی پوری کی پوری اور ہنڈیا بھوننا تو اسے بالکل نہیں آیا تھا۔ سلائی کڑھائی میں بھی اس کا یہی حال تھا۔ کوئی ٹانکا سیدھا تو کیا لگتا البتہ سوئی چبھ چبھ کر انگلیاں زخمی ہو جاتیں، لیکن سارا جھل پن ایک طرف اور اس کا سونے جیسا دل ایک طرف ۔وہ اندر سے بڑی خالص تھی ۔بڑا نتھرا ستھرا قالب تھا اس کا ۔حسد ،جلن جیسی چیزوں کو تو وہ پہچانتی تک نہ تھی۔بس دل سے محبت کرتی تھی وہ سوہنی سے اس کی اماں سے ،اپنی ماں پر تو وہ ساری جان سے قربان تھی اور رستم وہ تو اس کا محبوب شوہر تھا جس کی سانسوں سے اس کی سانس کی ڈور بندھی تھی۔
ایسی جھلی مختار کا مقدر کتنا تیز تھا۔ رستم جیسا بانکا سجیلا جوان اس کا تھا جو دو تین سال گزرتے تو بڑا افسر لگ جاتا ۔مختار کے تو مزے ہو جانے تھے ۔اب دن رات سوہنی کی ماں یہ سوچتی اور ہوکے بھرتی اور اس کی اماں کے دل میں رستم کو داماد بنانے کی چاہ کب سے تھی اس کی سوہنی کو کچھ خبر نہ تھی۔ نہ ہی اس بات کی خبر تھی کہ اس کی اماں ہر وقت رستم کا رخ سوہنی کی طرف پھیرنے کے جتنوں میں لگی رہتی تھی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ سوہنی کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا، لیکن اس نے ضبط کے کڑے پہرے بٹھا رکھے تھے۔ ساری بے چینیوں بے قراریوں کو تھپک تھپک کر سلا رکھا تھا، توادھر اس کی اماں کا دماغ ترکیبیں لڑانے میں لگا تھا۔
رستم کو وہ روزانہ ہی کسی بہانے گھر بلا لیتی یا پھر سوہنی کے ہاتھ کی پکی کوئی چیز لے کر اس کے دسترخوان پر چن دیتی تھی۔ بظاہر ہنس ہنس کر مختار کے پھوہڑ پنے کے قصے رستم کو سناتی۔ وہ ایسی باتیں سن کر ایسے ہنستا جیسے کوئی بہت لاڈلے بچے ک
ی شرارتوں پر ہنستا ہو۔اور سوہنی کی ماں نئے سرے سے سوہنی کے سلیقے اور ہنر گنوانے لگتیں۔ کبھی سوہنی کے ہاتھ کے کڑھے کرتے اسے پیش کرتی جو وہ بڑی خوشدلی سے پہن کر مختار کی طرف یوں دیکھتا جیسے پوچھتا ہو، کیوں جچ رہا ہے نا تمہارا رستم! اور سوہنی کو ایک پھیکے شکریے کے سوا کچھ نہ ملتا۔ ایک بھرپور نگاہ تک نہیں، البتہ مختار سوہنی کی جی بھر کے شکرگزار ہوتی۔ اس کی تعریفیں کرتی کہ وہ اس کے رستم کے لیے کتنی محنت کرتی تھی، لیکن نہ اماں ہمت ہارتی نہ ہی سوہنی۔ خصوصاً اب جب کہ اماں نے سوہنی کی نظروں کو رستم کا طواف کرتے دیکھ لیا تھا اور اس دن سے جیسے اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ رستم کو سوہنی کا بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ادھر رستم نے افسری کا امتحان پاس کیا ادھر مختار کی ماں کو دل کا دورہ پڑا۔ بس تین دن ملک الموت سے جیسے مستعارلے کر اماں نے رستم اور مختار کی شادی کی رسم ادا کی اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ مرتے ہوئے وہ بڑی پرسکوں تھی کہ بیٹی کو گھر بار والا کر دیا تھا۔ مختار ماں کے غم سے نڈھال پڑی تھی جب سوہنی اور اس کی اماں نے حق دوستی ادا کردیا۔ نیتوں کے بھید تو وہی جانتا ہے، مگربظاہر تو ان دونوں نے کمال کر دیا تھا۔ سوہنی تینوں وقت ان کو کھانا پہنچاتی۔ اصرار کر کر کے کھلاتی ،گھر کی صفائی ستھرائی کرتی ۔سارا گھر سوہنی کے سلیقے کا اعلان کرتا جگر جگر کرتا۔ اب اماں کو گزرے مہینہ ہو گیا تھا۔




Loading

Read Previous

خود غرض — ماہ وش طالب

Read Next

سراغِ زندگی — خدیجہ شہوار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!