قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ شاید ٹائر پھٹ گیا تھا اور گاڑی سنبھالتے سنبھالتے بھی سامنے والے پر چڑھ گئی۔ اس نے زور دار چیخ ماری۔ وہ اسے مارنا نہیں چاہتا تھا، مگر سفید لباس میں ملبوس وہ انسان، اس کی گاڑی کے نیچے آگیا تھا۔ ایک دم گاڑی کی ونڈو اسکرین پر خون کی بارش ہونے لگی۔ تیز خون کی بارش کے ساتھ اولوں کی طرح پتھر بھی تھے جو گاڑی کی ونڈ اسکرین کو توڑ رہے تھے۔ وہ چیخیں مار مار کر بے ہوشی کی وادی میں اتر گیا۔
٭…٭…٭
”یار! میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ سچ بتا رہا ہوں، بوریت دور ہوجائے گی۔” احمد نے چٹکی بجا کر کہا۔
ایف ایس سی کے پیپرز کے بعد تینوں ہی فارغ تھے اور ان کا یہ پہلا ہفتہ تو برُی طرح بور گزرا۔
”کیا ہے؟ بول بھی دو۔” نوید نے بے زاری سے کہا۔
”سنو گے تو داد دو گے میری ذہانت کی۔”
احمد کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ احمد نے دونوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے سرگوشی کرتے ہوئے کچھ کہا وہ دونوں سُن کر ایسے پیچھے ہٹے جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔
”پاگل ہوگیا ہے کیا؟ کیوں جیتے جی مروائے گا؟” نوید نے کانوں کو ہاتھ لگاکر کہا، جب کہ شرجیل کے چہرے پر ایک رنگ آ اور ایک جارہا تھا۔
”تجھے مذاق سوجھ رہا ہے؟ پتا ہے میرے گھر میں تو اِس بات کا ذکر بھی ممنوع ہے۔ پاپا نے مجھے سختی سے منع کیا ہے، آج سے نہیں، بچپن سے۔” شرجیل کی بات سن کر اس نے قہقہہ مارا۔
”تُو تو ازل سے ہی بزدل ہے نوید، تجھ سے یہ امید نہیں تھی۔ یار زندگی میں کوئی تھرل، کوئی ایڈونچر بھی ہوناچاہیے۔” احمد خوب شوخی میں تھا۔
”اتنا شوق ہے خودکشی کرنے کا تو وہ نئی گیم کھیل لے نا، نیلی مچھلی والی۔” شرجیل نے چڑ کرکہا۔
”لو! میں نے کب کہا کہ مجھے خود کشی کرنے کا شوق ہے۔” احمد خوب بدمزہ ہوا۔
”یہ کام بھی خود کشی کے برابر ہی ہے۔ مجھے تو بچنے کے چانسز بھی نظر نہیں آتے۔” نوید نے بھی شرجیل کا ساتھ دیا۔
”اچھا خاصا پروگرام بنارہا تھا، فضول میں سب ستیاناس کردیا۔ ویسے مزہ بہت آنا تھا۔” احمد کو غصہ آنے لگا۔
”تجھے پتا تو ہے کہ میرے بابا سنتے ہی نہیں۔” شرجیل نے دلیل دی۔
”تو تجھے کہہ کون رہا ہے ان کو بتا کے جا ؟ بڑا ہوگیا ہے، اب اپنا کوئی کام خود بھی کرلے۔ کہہ دے کہ دوستوں کے ساتھ مری جارہا ہوں۔ ادھر کا بتانا ضروری ہے؟” احمد ہر صورت اسے راضی کرنا چاہتا تھا۔
”اچھا سوچتا ہوں، ویسے میرا دل نہیں مانتا۔” وہ اب بھی راضی نہیں تھا۔
”چل نوید! ہم پیکنگ کرلیتے ہیں۔” احمد نے کن انکھوں سے دیکھا۔





”نہیں! میں آجاؤں گا۔” شرجیل نے ہتھیار ڈال ہی دیے تھے۔ اتنے دن اسے دوستوں کے بغیر سانس کیسے آنی تھی؟ خیر، سانس تو اب ادھر جاکے بھی نہیں آنی تھی۔
شرجیل، احمد اور نوید کی بہت پکی اور پرانی دوستی تھی۔ احمد اور شرجیل کزن تھے، لیکن برسوں پہلے کسی بزنس ڈیل کی وجہ سے دونوں گھروں میں کافی جھگڑا ہوگیا تھا اور اب دونوں کا ایک دوسرے کے گھر میں آنا جانا ختم ہوگیا تھا۔ بڑوں میں تو اختلافات ہوگئے لیکن بچوں کی دوستی نہ ٹوٹ سکی تھی۔ ان کی دوستی بہ دستور پہلے جیسی ہی تھی۔ کبھی خوشی غمی کے موقع پر ان کے والدین کی ملاقات ہو بھی جاتی تو دنیا کے دکھاوے کو رسمی سلام دعا ہی کرتے، ورنہ ایک دوسرے کی شکل بھی نہ دیکھتے۔ رشتے داروں نے ان کے والدین کو بتایا تھا کہ ان کے بیٹوں میں اب بھی دوستی قائم ہے۔ احمد کے والد نے تو اسے کچھ نہ کہا، مگر شرجیل کے پاپا نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”تم احمد کے ساتھ کھاؤ پیو، اٹھو بیٹھو جو مرضی کرو، میں منع نہیں کروں گا، مگر کان کھول کے سن لو، کبھی اس حویلی کا نام مت لیتا۔”
”ایسا بھی کیا ہے وہاں؟” وہ متجسس ہوا تھا، مگر ان کے خاندانی مالی نے بتایا تھا کہ وہ بہت پُراسرار حویلی ہے۔ اس کی کہانی بھی بڑی دل چسپ تھی۔
پرانی طرز کی بنی ہوئی قدیم حویلی، ملک اسفند یار کی ملکیت اور نتھیا گلی میں واقع تھی۔ برسوں پہلے اسفند یار نے بہت بڑی اراضی پر حویلی تعمیر کروائی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد اسفند یار ہجرت کرکے آئے تو انہیں کلیم میں کافی اراضی ملی تھی۔ اس حویلی کے بعد، انہوں نے بیٹوں کے لیے تین گھر اسلام آباد میں بھی بنوائے۔ اب وہ تینوں انہی گھروں میں رہتے ہیں۔ کامران، سفیان اور فرحان، اسفند یار کے بیٹے تھے۔ وہ تینوں چھوٹے ہی تھے جب اسفندیارفیملی سمیت اسلام آباد شفٹ ہوگئے۔ وہ اپنی زندگی میں اکثر حویلی میں آتے جاتے رہتے۔ خوب رونق لگتی اور بڑی شاہانہ دعوتیں ہوتیں، لیکن اسفند یار کی وفات کے بعد تینوں بیٹوں نے حویلی جانا کم کردیا۔
کامران اور سفیان اکثر حویلی چکر لگا لیتے تھے۔ ابھی صرف کامران کی ہی شادی ہوئی تھی۔ سفیان اور فرحان میں دس سال کا وقفہ تھا۔ فرحان بہت ہی لاابالی سانوجوان تھا جسے پڑھائی، نوکری، زمین اور نظام وانتظام سے کوئی غرض نہ تھی۔ بس دوستوں کے ساتھ گھومنا اور کھانا پینا ہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ کامران نے تنگ آکر سفیان کے ساتھ ساتھ فرحان کی شادی بھی کردی کہ شاید وہ سدھر جائے، مگر اس کا لااُبالی پن ختم ہوا اور نہ ہی دوست چھوٹے تھے۔ہاں تھوڑی بہت تبدیلی ضرور آئی تھی۔ دونوں بھائیوں کے بچے بھی ساتھ ساتھ ہی ہوئے تھے۔ سب کچھ صحیح چل رہا تھا جب اچانک ایک واقعہ ہوا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
سفیان اور فرحان نے بات چیت چھوڑ دی اور غیر آباد پڑی حویلی مزید ویران ہوتی گئی۔ صرف ایک چوکی دار ہی اپنی فیملی کے ساتھ وہاں رہ رہا تھا۔ کامران اور سفیان نے حویلی کی ملکیت اپنے نام کروا کے باقاعدہ طور پر فرحان کو اس حویلی کا حصہ دے کر بے دخل کردیا۔ فرحان کو اس حویلی سے کوئی غرض نہ تھی، سو اس اقدام سے بھی کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ اپنا حصہ پا کر خوش تھا۔
سفیان اور کامران نے حویلی ایک ہوٹل کو کرائے پر دے دی، لیکن پہلے ہی ماہ کمرے سے پراسرار طور پر دو لڑکوں کی لاشیں ملیں۔ یہ بہت عجیب بات تھی۔ دوسرے ماہ، ایک لڑکے نے کھڑکی سے کود کر خود کشی کرلی۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں نے یہ یقین کرلیا کہ وہاں ماورائی مخلوق کا بسیرا ہے۔
ہوٹل کی ساری ساکھ ختم ہوگئی۔ بالآخر ہوٹل کی انتظامیہ نے وہ حویلی خالی کردی۔ زیادہ تر لوگ اس ویران پڑی حویلی کو ”پُراسرار حویلی” کہنے لگے۔
سفیان اور کامران چھٹیوں پر اکثر وہاں جاتے تھے، مگر ان لوگوں کو وہاں کبھی ڈر نہیں لگا۔ ایک مرتبہ احمد بھی کچھ دن حویلی میں رہ کر گیا تھا۔ اس حویلی میں فیملی کے ساتھ دو تین دن اسے بہت ہی مزہ آیا تھا ۔ اس لیے احمد چاہتا تھا کہ نوید اور شرجیل بھی اس کے ساتھ چلیں۔ اس کے نزدیک حویلی میں کچھ بھی نہیں تھا، صرف لوگوں کی اُڑائی ہوئی باتیں تھیں۔
٭…٭…٭
”احمد! تو ضد تو کررہا ہے اور مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔” شرجیل نے رو دینے والے لہجے میں کہا تو احمد اور نوید دونوں کو ہی ہنسی آگئی۔
”تو پاگل ہے، بس اور کچھ نہیں۔ مرد بن مرد۔” احمد نے اس کی مردانگی جگانے کی کوشش کی۔
”یار! تم دونوں کے تو اور بہن بھائی ہیں، لیکن میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ کیوں مجھے موت کے کنویں میں دھکیل رہے ہو؟” شرجیل سامان رکھتے ہوئے بھی منمنانا رہا تھا۔
”ایسے بول رہے ہو، جیسے ہم تمہیں کنویں کی منڈیر سے دھکا دے کے واپس آگئے ہیں۔ خود بھی تو اس پُراسرار گھر میں مرنے جارہے ہیں۔” نوید نے مذاق کرتے ہوئے کہا۔ سارا سامان پیک کرلیا گیا تھا اور وہ لوگ نوید کے گھر سے روانہ ہورہے تھے۔ نوید نے گھر بتا دیا تھا کہ وہ احمد کی پرانی حویلی جارہے ہیں، لیکن احمد اور شرجیل نے اپنے گھروں میں صرف مری جانے کا ہی بتایا تھا۔ ظاہر ہے، حویلی میں قیام کی اجازت انہیں گھر والے کیسے دیتے۔
انہیں نکلتے نکلتے سہ پہر ہوگئی۔ احمد نے بابا کی ڈائری سے نذیر چوکی دار کا نمبر لے لیا تھا، لیکن اسے آنے کی اطلاح نہیں کی تھی۔ یہ بھی ایک ایڈونچر تھا۔ احمد نے گاڑی شرجیل کے حوالے کردی کیوں کہ شرجیل کی ڈرائیونگ اچھی تھی۔
وہ ابھی گاڑی چلانا شروع ہی ہوا تھا کہ گاڑی زوردار جھٹکے کھانے لگی۔ جیسے کوئی اسے اچھال رہا ہو۔ اس نے گاڑی بندکرکے دوبارہ اسٹارٹ کی تو وہ صحیح چلنے لگی۔ وہ تینوں مطمئن ہوگئے۔ پانچ منٹ کی مسافت کے بعد، شرجیل کی گاڑی کے سامنے کوئی آیا تھا کہ اس نے تیزی سے گاڑی موڑی۔ سڑک زیادہ کشادہ نہ ہونے کے باعث گاڑی درخت سے جالگی۔
”پاگل ہوگیا ہے؟” گاڑی درخت سے ٹکرانے کے بعد نوید نے غصے سے دہاڑ کر کہا۔
”یار! میرے سامنے بطخ آگئی تھی۔” شرجیل حواس باختہ سا ہوکر بولا تو وہ دونوں اس کا منہ دیکھنے لگے۔
”دن میں تارے دکھ رہے ہیں کیا؟” وہ دونوں ہی حیران تھے، مگر وہ یقین دلاتا رہا۔ نقصان کم ہی ہوا تھا، بس ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔ اب راستہ بھی تھوڑا تھا۔ احمد نے ٹائر تبدیل کرکے دوبارہ سے سیٹ سنبھال لی۔ خدا خدا کرکے وہ حویلی پہنچ گئے۔
بڑا سا فولادی کا دروازہ لیے وہ نہایت خوب صورت قدیم سفید حویلی، درختوں اور جھاڑیوں کے بیچ عجیب پُراسرار سا منظر پیش کررہی تھی۔ شرجیل کا دل تو حلق میں آگیا تھا۔
احمد نے چوکی دار کو کال ملائی، نمبر بند جارہا تھا۔
”اُف کیا مصیبت ہے؟” احمد نے جھلا کر موبائل جیب میں ڈالا۔
”کوئی ہے؟” وہ دروازہ پکڑ کے زور سے چلایا۔ دروازہ چرچراہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔
”اندر آجاؤ۔” کسی آواز نے انہیں چونکا دیا، لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ان تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ کے حویلی کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ دونوں طرف جھاڑیوں اور درختوں کی قطار تھی جو اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، صرف حویلی کے مرکزی دروازے پر لائٹ جل رہی تھی۔ وہ وہاں پہنچنے تو چوکی دار سامان اتارنے کھڑا تھا۔
”نذیرتم؟ تمہیں ہمارے آنے کا کس نے بتایا؟” احمد حیران ہوا تھا۔
”اطلاع مل گئی تھی۔” وہ اتنا کہہ کر سامان اتارنے لگا۔
”یہ… یہ دروازہ کس نے کھولا؟” شرجیل تو خوف سے باہر ہی نہیں نکل پارہا تھا۔
”میں نے ہی کھولا ہے۔ آجائیں، کمرے تیار ہیں۔” نذیر آگے چل کے راستہ دکھانے لگا۔
”نذیر! ہم ایک ہی کمرے میں رہیں گے، الگ الگ نہیں۔” احمد نے کہا، تو شرجیل نے سکھ کا سانس لیا۔
کمرا صاف ستھرا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ ادھر آتے جاتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ وہ ریسٹ روم نہیں تھا جس میں احمد اپنی فیملی کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ یہ کمرا اسے بہت الگ لگا۔ نہ جانے کیوں؟
”نذیر! کچھ کھانے کا بندوبست کرو، پھر ہم سوئیں گے۔” احمد نے کہہ کر دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ یہ بڑا سا ہال کمرا تھا جس کی ایک کھڑکی باہر لان کی طرف کھلتی تھی۔ ایک طرف واش روم تھا۔ تین سنگل بیڈ، سائڈ ٹیبل کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف چھوٹی سی میز کے ساتھ تین کرسیاں رکھی تھیں۔ احمد کو حیرت ہوئی، تین بیڈ اور تین کرسیاں۔آخر تین ہی کیوں؟ اس کی فیملی کو جو کمرا ملا تھا، اس میں تو ماسٹر بیڈ تھا۔ وہ الجھ کے رہ گیا۔
”میں فریش ہوکر آتا ہوں۔” احمد منہ ہاتھ دھو کے نکلا، تو شرجیل کافی حد تک سنبھل چکا تھا۔
شرجیل بھی اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ صاف ستھرا ٹائلوں والا واش روم دیکھ کے لگتا نہیں تھا کہ یہ کوئی پرانی حویلی ہے۔ اس نے نلکا کھولا تو بے اختیار بدبو کا بھبکا سا اٹھا۔ اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ ناک پر رکھا اور ہاتھ نل کے نیچے کیا، تو اسے لگا کہ کسی نے تیزاب پھینک دیا ہو۔ شرجیل نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو وہ خون سے بھرا ہوا تھا۔ اُس نے آنکھیں پھاڑے نلکے کی طرف دیکھا، تو وہاں سے پانی کی جگہ سُرخ خون نکل رہا تھا جس نے اس کا ہاتھ جلا دیا۔ شرجیل چیخ مار کر مڑا تو کسی سے ٹکرا گیا۔ لمبے بال کھولے ایک لڑکی جس کے منہ پر جگہ جگہ خون لگا تھا، اسے دیکھ کر ہنس رہی تھی۔ وہ چیخیں مارتا ہوا دروازے سے باہر نکلا۔ اس کی چیخیں سن کے وہ دونوں اس کی طرف بھاگے۔
”کیا ہوا؟ کیا ہوا؟” وہ دونوں ہی اس آفت پر حیران و پریشان تھے۔
”میرا ہاتھ، میرا ہاتھ۔” اس کے ہاتھ بالکل ٹھیک تھے، مگر وہ چلائے جارہا تھا۔
”اُف! جل گیا میرا ہاتھ۔” وہ خوف سے باقاعدہ کانپ رہا تھا۔ موسم سرد ہونے کے باوجود اس کی پیشانی پسینے سے تر تھی۔
”ہوا کیا ہے؟” ان دونوں نے اسے جھنجوڑا۔ اس نے آنکھیں کھول کے اپنا ہاتھ دیکھا، تو خود بھی حیران رہ گیا۔وہ بالکل ٹھیک تھا۔
”میرا ہاتھ! وہ نلکے سے خون آرہا تھا۔”وہ باتھ روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اٹک اٹک کر بولا۔
اس کی بات پر دونوں کی ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا۔انہیں لگا وہ انہیں ڈرانے کی کوشش کررہا ہے۔
”ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے؟ چل! میں دوبارہ واش روم جاتا ہوں ۔” واش روم ویسا ہی تھا۔ وہ دروازہ بند کرکے دو منٹ اندر کھڑا رہا۔ اسے کچھ بھی ایسا ویسا محسوس نہ ہوا۔
”میں واش روم نہیں جاؤں گا۔” احمد نے اسے باہر آکر بتایا، تو شرجیل نے ویسے ہی ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے! باہر جھاڑیوں میں چلے جانا۔” احمد نے اس کا مذاق اڑایا۔ نوید بھی واش روم سے ہو آیا، تو احمد نے نوید کی طرف دیکھا۔ شرجیل اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ وہ دونوں اسے ڈرپوک اور جھوٹا سمجھ رہے تھے۔
کھانا بھی خاموشی سے کھایا گیا۔ کھانے کے بعد وہ سونے کی تیاری کرنے لگے۔ شرجیل کو درمیان والا بیڈ دیا گیا تاکہ اگر دونوں طرف سے چڑیل آئے تو شرجیل کا نمبر بعد میں آئے۔ اس فیصلے سے شرجیل کو اطمینان ہوا، مگر یہ دیرپا نہیں تھا۔
لائٹ بند ہوتے ہی شرجیل نے کمبل منہ تک اوڑھ لیا۔ پانچ منٹ بعد اسے لگا کہ کوئی اس کے پاؤں کا انگوٹھا مسلسل ہلا رہا ہے۔ اسے لگا شاید یہ اس کا وہم ہو، مگر انگوٹھا مسلسل ہل رہا تھا۔ کوئی اسے انگوٹھا پکڑ کر ہلا رہا تھا۔ وہ جی کڑا کیے لیٹا رہا۔
”شرجیل!” کوئی آہستہ سا اس کے کان میں بولا، تو اس نے دھیرے سے منہ کمبل سے ہٹایا۔ یک دم کوئی اس کے اوپر بیٹھ کر اس کا گلا دبانے لگا۔ اس کے گلے سے غرانے کی آوازیں نکلنے لگیں جسے سن وہ دونوں چونک گئے۔ احمد نے جلدی سے لائٹ آن کی تو شرجیل آنکھیں بند کیے، اپنے گلے سے کسی نادیدہ شے کو ہٹانے کی کوشش کررہا تھا۔ دونوں نے شرجیل کو پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا تو وہ ہوش میں آیا۔
”چھوڑو مجھے؟” یہ کہہ کروہ بے ہوش ہوگیا۔ ساری رات وہ لائٹ جلا کر اس کے سرہانے بیٹھے رہے۔ وہ کبھی سوتا، کبھی اٹھتا، تو کبھی بے ہوشی میں ڈر کر عجیب عجیب سی آوازیں نکالتا۔ اس کا رویہ ان دونوں کے لیے بہت عجیب تھا۔ ڈرپوک تو وہ تھا ہی، مگر اتنا بھی نہیں۔
صبح ہوئی تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔
”چل بیٹا! صبح ہوگئی ہے۔ اب تُو بیٹھ، ہم زرا آرام کرلیں۔ اب تو نہیں ڈرے گا نا؟” نوید نے بستر پر لیٹے لیٹے نیند سے چور آنکھوں سے کہا۔
”میں رات کو تو نہیں ڈرا تھا۔” وہ منمنایا۔
”وہ تو ہم ڈرے تھے۔” احمد نے چڑ کرکہا اور موبائل پہ الارم لگا کر سوگیا۔ وہ حیرانی سے ان دونوں کو دیکھنے لگا۔
آدھے گھنٹے بعد کسی نے دروازہ کھٹکایا اس نے سوچا کہ نذیر ہوگا اور دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلتے ہی یخ بستہ ہوا کا جھونکا اس کے منہ سے ٹکرایا۔ چہرے کے آگے بڑا سا گھونگھٹ کیے اورٹرے پکڑے وہ کوئی لڑکی تھی۔
”بابا نے بھیجا ہے۔” یہ کہہ کر اس نے گرم گرم ناشتا کمرے میں داخل ہوکر میز پر رکھ دیا۔ چہرے کے آگے تو گھونگھٹ تھا، البتہ آدھی آستین کی چولی سے اس کے گورے بازو دکھائی دے رہے تھے جن میں اس نے کانچ کی چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں۔ گھیرے والے لہنگے کے نیچے سے اس کے گورے پاؤں بھی نمایاں تھے جن میں پہنی پائل، چلنے سے چھن چھن کی آواز دے رہی تھی۔
”پھر ملنا۔” وہ سرگوشی کرتی باہر نکل گئی تو وہ ہوش میں آیا۔ نہ جانے نذیر نے اسے کیوں بھیج دیا؟ شرجیل میز پر بیٹھا اور گرم گرم ناشتا دیکھ کر ہاتھ نہ روک سکا۔
کھانا بہت لذیذ تھا۔ وہ باقی ناشتا ڈھک کر بستر پر لیٹ گیا۔ اسے اب پھر سے نیند آرہی تھی۔ اس کی آنکھ کسی کے لمس سے کھلی تھی۔ کوئی اس کے بالوں میں ہلکی ہلکی انگلیاں پھیر رہا تھا۔




Loading

Read Previous

خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

Read Next

شہربانو کا آخری خط — محمد انس حنیف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!