سراغِ زندگی — خدیجہ شہوار

”آج میں بھی تمہارے ساتھ ڈوب جاؤں گا، پھر میری کبھی سحر نہ ہو گی۔” اس نے آسمان پر چمکتے آفتاب کو سرخی مائل آنکھوں سے نمکین پانی بہاتے کہا تھا ۔سورج کی کرنیں ہر چیز کا سایہ زمین پر بنا رہی تھیں۔اس کا زمین پر پڑتا سایہ اس سے کہیں بڑا محسوس ہوتا تھا۔وہ ایک بائیس سالہ نوجوان تھا جس کے سیاہ گرد آلود بال پیشانی پر بکھرے تھے۔گرد سے اٹے بال اس کے لمبے سفر کا پتا دیتے تھے۔وہ پہاڑ کی بلند چوٹی کے آخری سرے پر نڈر کھڑاتھا۔ ا س نے برا ؤن لیدر جیکٹ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے اپنے دائیں کندھے پر ڈال رکھی تھی۔اس کا دوسرا ہاتھ اس کی اسکن جینز کی فرنٹ جیب میں تھا۔
”آج ہم دونوں ایک جیسے ہیں۔تمہیں بھی ڈوب جانا ہے اور میں نے بھی ڈوب جانا ہے۔” وہ بے بس کھڑا درد بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ اس کی تھکی ماندی متورم آنکھوں کی روشنی مانند پڑ چکی تھی۔چہرے پر افسردگی کا پہرہ تھا۔وہ زندگی سے بے حد اکتایا ہوا تھا۔نجانے زندگی نے اس سے کیا چھینا تھا؟ اس نے کچھ سوچتے ہوئے جینز کی فرنٹ جیب سے نکالا۔
”مجھے زندگی سے نفرت ہے۔ ہاں… اس دنیا کی ہر چیز سے…نفرت ہے، نفرت ہے۔ ہاں نفرت ہے۔ کیا دیا اس زندگی نے؟زندگی میں کیا رکھا ہے؟کچھ بھی تو نہیں ہے۔” اس نے حلق میں اٹکے تھوک کو با مشکل نگلتے ہوئے بلند آواز میں کہا ۔شاید وہ اپنا دکھ اپنے اردگرد موجود ہوا، روشنی ،سورج کی کرنوں اور پتھروں کو سنانا چاہتا تھا یا شاید مرنے سے پہلے دل ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے ایک قدم کے فاصلے پر موجود کھائی کو بے جان آنکھوں سے گھورا ۔اس کی آنکھیں اس کے مرنے سے پہلی ہی مر چکی تھیں۔
وہ پہاڑ کے آخری سرے پر کھڑا اس بات سے باخبر تھا کہ اس کا معمولی سا پاؤں بھی اگر آگے کو پھسلا تو اس کی کہانی ختم ہو جائے گی۔ موت سے ملنے کے لیے اسے صرف ایک قدم بڑھانا تھا۔ اس کے سامنے کھائی اور پیچھے سنسنان جنگل تھا۔ اس کے اردگرد دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ بس وہ تھا اور تندو تیز ہوا کے روح کو چھید دینے والے پر اسرار جھٹکے تھے۔ وقفے وقفے سے کھائی میں پتھر ٹوٹ کر گرنے کی دہشت زدہ آواز اس کے درد کو بجائے بڑھانے کے تسکین دے رہی تھی۔وہ بھی ان بے جان پتھروں کی طرح سناٹے بھرتی کھائی میں گر جانا چاہتا تھا اور وہ اسی لیے وہاں موجود تھا۔





وہ وہاں کھڑا دور پہاڑوں میں بنے راستوں پر وقفے وقفے سے گزرتی ٹریفک بھی دیکھ سکتا تھا، لیکن وہ ٹریفک اُس سے اس قدر دور تھی کہ کوئی چاہ کر بھی اس کی وہاں موجودگی کا سراغ نہیں لگا سکتا تھا۔
”کون ہے جو میرے لیے تڑپے؟ کون ہے جو مجھے یاد کرے؟ آخرمیں کیوں جی رہا ہوں؟ مجھے موت کیوں نہیں آجاتی۔” اس نے چیختے ہوئے اپنا سر پیچھے کی طرف جھٹکا۔ وہ خود کو مارنا چاہتا تھا۔ اسے زندگی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ کچھ تو تھا جو اسے زندگی سے بے زار کر گیا تھا، لیکن کون؟ انسان؟ کوئی جذبہ؟یا اس کی اپنی ہی سوچیں؟
”میرا وجودمیرے لیے باعث اذیت ہے، میری سانس مجھے چھوڑ کیوں نہیں جاتی۔” اس نے آنکھوں سے بے دھڑک آنسو بہاتے اور چیختے ہوئے کہا ۔بے بسی اس کے لہجے سے بے دھڑک چھلک رہی تھی۔
I hate this life.I hate everything.I hate myself.I hate you.I hate you.
اس نے ایک جھٹکے سے کندھے پر رکھی جیکٹ کو تلخی سے کھینچااور اگلے ہی لمحے وہ جیکٹ ہوا کے زور سے اڑتی ہوئی کھائی میں جا گری ۔وہ خاموش نظروں سے اُسے کھائی کی خاموشی میں گم ہوتا دیکھتا رہا ۔ لمحہ بھر میں وہ جیکٹ کہیں بھی نہیں تھی۔وہ یہ وحشت زدہ منظر دیکھ تو رہا تھا مگر محسوس کرنے سے قاصر تھا۔ شایدوہ جیکٹ کی طرح خود کو بھی ہمیشہ کے لیے آزاد کروانا چاہتا تھا اور اس کے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ بھی جیکٹ کی طرح کھائی میں گم ہو جائے۔
”آج کے بعد زندگی مجھ سے کبھی نہیں کھیلے گی۔آج سے میں، زندگی سے یہ حق چھین رہا ہوں۔ ہاں…نہیں کھیلے گی، اب اورنہیں کھیلے گی۔” اس نے گڑ گڑاتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔اس کے گڑگڑانے کی آواز نے جنگل کی خاموشی توڑ دی۔ نجانے اس کے اندر ایسا کیا احساس تھا جو اسے بلند آواز چیخنے پر مجبور کر رہا تھا۔اس کی ہولناک چیخیں پہاڑ کی چوٹی پر پھیل جاتیں، جنگل میں دور تک گونجتیں اور پھر ہوا میں تحلیل ہو جاتیں۔
”مجھے وہ کیوں نہیں ملا جو میں نے مانگا۔ یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں…یہ درد میرے حصے میں ہی کیوں؟” اس نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائے بے بسی سے کہا۔ اسے آج سورج بھی ڈرا سہما حسرتوں سے لبریز لگا تھا بالکل اپنی طرح۔
”زندگی میری جھولی میں وہ سب ڈ ال دیتی جو میں نے مانگا تھا، تو اِس کا کیا جاتا۔” اس نے آہ بھر تے ہوئے سوچا۔ اس نے اپنے جسم میں ایک کپکپی محسوس کی جو بے بسی سے لبالب تھی۔ وہ خود کو کسی پنجرے میں جکڑا محسوس کر رہا تھا۔اس کا تنفس تیز اور پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے اور پھر بہ نکلتے۔
”آج کے بعد زندگی کو دکھ دینے کے لیے کسی اور کی راہ تکنی ہوگی۔ میری دہلیز زندگی کے لیے بند ہونے کو ہے۔ بس اب اور نہیں۔ اس اذیت سے بچنے کا ایک ہی حل ہے۔” اس کے دماغ پر ایک زبردست بوجھ تھا۔ اسے اپنے سر پر ہتھوڑے برستے محسوس ہوئے ۔اس کی سوجھی ہوئی آنکھیں ایک بار پھر کھائی پر ٹک گئی تھیں ۔ اس نے آگے کی طرف اپنے پاؤں کھسکائے۔ توایک پتھراس کے پاؤں سے ٹکرا کر تاریک کھائی میں جا گرا۔ اس نے ٹھہری آنکھوں سے وہ پتھر گہری کھائی میں گرتا دیکھا۔اس نے یک لخت بے بسی سے اپنی آنکھیں زور سے بھینچیں۔ اس نے حلق میں کب سے اٹکی ہچکی باہر نکالی جیسے وہ اس کی آخری ہچکی ہو۔ صرف ایک جھٹکا باقی تھا جو اسے موت کو گلے لگانے کے لیے کافی تھا۔اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔وہ زندگی کو الوداع کہنے ہی والا تھاکہ…
شکاری کتوں کے بھونکنے کی دہشت زدہ آوازوں نے جنگل کا سناٹا توڑا ۔اس نے آنکھیں کھولے بے ساختہ پلٹ کر جنگل کی طرف دیکھا ۔کتوں کی ہولناک آوازوں نے بھی اس کے رونگٹے کھڑے نہیں کیے تھے۔ وہ موت کودل سے مان چکا تھا اور جو مر چکا ہو اسے ڈر کیسا؟ وہ زندہ تھا مگر زندہ کہاں تھا؟ کتوں کے بھونکنے کی آواز دور جاتی محسوس ہوئی۔اس نے تیز تیز سانس لیتے ہوئے پھر سے کھائی کو گھورا۔کھائی کی سیاہی اندر ہی اندر مدغم ہوتی گئی اور ماضی کی ایک یاد ابھر آئی۔ ایک موہنی سی صورت فضا میں نظر آنے لگی۔اس کا دل ماضی کی یادوں میں جلنے اوردماغ ہچکولے کھانے لگا۔
”میرے ہوتے ہوئے تم کبھی نہیں مر سکتے۔میں تمہیں مرنے ہی نہیں دوں گی۔تم میری زندگی ہو۔” یہی کہا تھا نا تم نے…” وہ اپنے پورے ہوش و حواس میں اس موہنی سی صورت کو دیکھتے ہوئے چلایا۔وہ لاشعوری دنیا کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔
”کہاں ہو اب؟ میری بربادی کیوں نہیں دیکھتی؟ مجھے مرتا دیکھو… دیکھو میں مر رہا ہوں۔ میری زندگی کے دن گنے جاچکے ۔اب تم کہاں ہو؟” وہ متواتر چلاتا رہا۔ پہاڑپر موجود دہشت زدہ خاموشی ایک بار پھر اس کی درد بھری چیخوں سے ٹوٹ گئی تھی۔
”مجھے مرتادیکھو…مجھے مار کر کہاں چل دی تم؟ آؤ مجھے چپ چاپ مرتا دیکھو۔ اب کہاں ہو تم…تم دیکھتی کیوں نہیں؟” اس کا وجود کسی غیر مرئی قوت نے گھیر رکھا تھا۔وہ اپنی بد حواسیوں میں گھرا چلا رہا تھا۔
”ایک بار تو آؤ بس ایک بار … ایک…بار… آکر میری حالت تو دیکھو۔” اس نے اپنا دایاں ہاتھ پیشانی پر زور سے مارتے ہوئے بے بسی سے سر کو پیچھے کی جانب جھٹکا ۔اس کی نظریں بار بار کھائی کی طرف جا رہی تھیں۔ جیسے اس کی اذیت کا ایک ہی حل ہو اور وہ تھا موت…
”تم پر میں اپنی ساری زندگی ۔۔نثار کرتی ہوں ۔ تم میری، زندگی ہو۔”
”تمہارے بغیرمیں…کچھ بھی نہیں۔”
”تم …میری …محبت ہو…میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑسکتی۔ یہی کہا تھا تم نے۔” مجھے سب یاد ہے۔ ہاںیاد ہے۔ پھرتم مجھے ۔ کیسے چھوڑ گئی؟’ ‘وہ لاشعوری طور پر سوچوں کے جہاں میں لڑکھڑاتا ہوا کبھی گرتا کبھی سنبھل جاتا۔ اس کے دماغ میں یادوں کا طوفان ہچکولے کھا رہا تھا۔نجانے کس کی یادیں تھیں جو اسے جیتے جی مار گئی تھیں۔
”تم میری آخری…محبت…میں مر جاؤں۔۔گی تمہارے بغیر سب جھوٹ تھا۔ جھوٹی…جھوٹی…تم جھوٹی ہو۔ تم…جھوٹی…ہاں تم نے جھوٹ بولا۔ تم جھوٹی ہو۔” وہ بلا توقف چلارہا تھا۔ پھر یک لحظہ خاموش ہو گیا۔اسے لگاوہ موہنی سی صورت اس پر ہنس رہی ہے۔ اس کے جذبوں کا مذاق اُڑا رہی ہے، اس کی قیمت لگا رہی ہے۔ اس نے الجھ کر سر جھٹک دیا اور بھیگی آنکھوں سے دوبارہ کھائی کو گھورا جو اسے اس اذیت سے چھٹکا را دلا سکتی تھی۔وہ گہری کھائی اس کی آخری امید تھی۔ اس نے آنکھیں بھینچتے ہوئے ہاتھ کی مٹھیاں دبوچیں ۔اس کی پیشانی پر پسینہ نمودار ہوا۔ سانس چھوٹی اور تیز ہو گئی۔ دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

لیکھ — عطیہ خالد

Read Next

مڈل کلاس — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!