کفنی — خواجہ حسن نظامی

”دلشاد گدگدیاں نہ کر مجھے سونے دے۔ نماز قضا ہوتی ہے، تو کیا کروں۔ آنکھ کھولنے کو جی نہیں چاہتا۔”
بیوی: ”گدگدیاں میں نے نہیں کیں۔ یہ گلاب کا پھول تمہارے تلوؤں سے آنکھیں مل رہا ہے۔”
”میں اس پھول کو مسل ڈالوں گی۔ اتنی سویرے مجھے کیوں جگاتی ہے۔ میرا دل ابھی سونے کو چاہتا ہے۔ ذرا سندری کو بلا۔ بانسلی بجائے۔ ہلکے سروں میں بھیرویں سنائے۔ گل چمن کہاں ہے، چپی کرے، تو کوئی کہانی شروع کر۔”
”کہانی کہوں گی تو مسافر راستہ بھولیں گے۔ دن کو کہانی نہیں کہنی چاہیے۔ سندری حاضر ہے۔ گل چمن کو بلاتی ہوں، اماں جان آجائیں گی تو خفا ہوں گی کہ مہ جمال کو اب تک بے دار نہیں کیا، نماز کا وقت جاتا ہے۔”
سندری بانسلی بجا رہی تھی کہ مہ جمال نے آنکھیں کھول دیں۔ بالوں کو سمیٹا، مسکرائی، کلمہ پڑھا، نرگس نے سلام کیا۔ جواب میں اس کے ایک چٹکی لی گئی، انگڑائی لے کر اُٹھ بیٹھی اور کہا:
”دلشاد! ہم نے نرگس کے چٹکی لی، تو یہ ہنسی نہیں۔ منہ بنالیا۔ آ تو آ۔ تیرے کان مروڑوں اور تو خوب ہنس۔”
دلشاد اٹھ کر بھاگی، دور کھڑی ہوئی اور کہا: لیجیے میں کھلکھلا کر ہنستی ہوں، آپ سمجھ لیجیے کان مروڑ دیے۔”
مہ جمال نے پھر انگڑائی لی اور مسکراتی ہوئی طشت چوکی پر گئی۔ وضو کیا، نماز ادا کی، صحن میں نکلی، باغ کے پاس تخت پر بیٹھی، قرآن شریف شروع کیا۔ سب لونڈیاں فرش کی درستی میں مصروف ہوئیں، ناشتے کا سامان کرنے لگیں۔
مہ جمال تلاوت سے فارغ ہوئی تو مالن چنگیر میں چند ہری مرچیں لیے حاضر ہوئی۔ پہلے مہ جمال کی بلائیں لیں، دعائیں دیں، پھر بولی: سرکار آج حضور کے لگائے ہوئے پودوں میں یہ مرچیں لگی تھیں۔ نذر کے لیے لائی ہوں۔
مہ جمال نے چنگیر لے لی۔ سب لونڈیوں کو پکارا اور مرچوں کی آمد سے محل میں ایک دھوم مچ گئی۔ نرگس نے کہا ”کیسی ہری ہری چکنی صورت ہے۔” دلشاد بولی”جیسے بیوی کے گال۔” سندری نے کہا ”کیسی چپ چاپ چنگیر میں لیٹی ہیں، جیسے بیوی چھپرکھٹ میں سوتی ہیں۔ گل چمن بولی”ڈالی سے ٹوٹی ہیں، گھر سے چھوٹی ہیں، اس لیے ذرا چپ چپ ہیں۔”
مہ جمال نے کہا ”مالن کو جوڑا دو، کپڑے پہناؤ، پانچ روپے نقد بھی دینا، میرے درختوں کا پہلا پھل لائی ہے، اس کا منہ بھی میٹھا کرنا۔”
مالن کو ریشمی جوڑا ملا۔ چاندی کے کڑے پہنائے گئے۔ لڈو کھلائے گئے۔ پانچ روپے نقد اور ایک پان کا بیڑا ملا۔ وہ دعائیں دیتی ہوئی اپنے گھر گئی۔ یہاں اماں جان کو لونڈی خبر دینے پہنچی کہ بیوی کے درختوں کا پہلا پھل آیا ہے۔ وہ برابر کے مکان سے آئیں۔ مغلانی ساتھ تھیں بیٹی کی بلائیں لیں۔ مہ جمال نے آداب کیا۔ اماں اور مغلانی نے مرچوں کی خوب تعریفیں کیں اور تھوڑی دیر تک مرچوں کا غلغلہ گھر میں برپا رہا۔





مہ جمال خورشید جمال کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کے والد میرزا نیلی شاہ عالم کے بیٹے اکبر شاہ ثانی کے بھائی تھے جو مرچکے تھے۔ خواصوں سے ان کے کئی بیٹے تھے مگر بیگم سے صرف مہ جمال ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی اور وہ بھی بڑھاپا جانے کے بعد۔ جب میرزا نیلی مرے ہیں تو مہ جمال کی عمر پانچ سال تھی۔ اب ماشا اللہ پندرہویں سال میں ہے۔ صورت سانولی ہے، چہرہ کتابی ہے، قد میانہ ہے، آنکھیں سیاہ اور بے حد رسیلی اور مخمور ہیں۔ آواز میں قدرتی درد ہے۔ جب ہنس کے بولتی ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مرثیہ پڑھا گیا۔ سن کر کلیجے پر چوٹ لگتی ہے۔ وہ بہت چنچل، شوخ، آرام طلب اور نازک مزاج ہے۔ لاڈ پیار میں پلی ہے۔ شہزادی ہے، بن باپ کی اکلوتی ہے اور کچھ فطرتاً ضدی اور ہٹیلی ہے۔ بدن بہت دبلا ہے۔ چلتی ہے تو غیر مصنوعی انداز سے بدن کو جھکاتی، پھولوں کی ٹہنی کی طرح اِدھر اُدھر جھکولے کھاتی ہے۔ ٹھوکر قدم قدم پر لگتی ہے۔ لونڈیاں ساتھ دوڑتی ہیں۔ بسم اللہ یا اللہ خیر کہتی جاتی ہیں۔
پھول والوں کی سیر تھی۔ بہادر شاہ اپنے محل میں جو درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحب کے دروازہ کے قریب بنا تھا، تشریف رکھتے تھے۔ بیگمات اندر تھیں، مگر خورشید جمال اور مہ جمال نے دوسرا مکان لیا تھا، کیوں کہ میرزا نیلی کے وقت سے ان کی اور بہادر شاہ کے ان بن تھی۔ بہادر شاہ کو انگریز لاکھ روپے دیتے تھے، اس میں سے ایک ہزار روپے مہینہ خورشید جمال کا علیحدہ بھیج دیا جاتا تھا۔ سستا سماں تھا، ہزار روپے آج کل کے لاکھ روپے کے برابر تھے اور خورشید جمال خوب عیش آرام سے زندگی بسر کرتی تھیں۔ جس شام کو پنکھا چڑھا۔ مہ جمال عصر کے وقت سے برآمدہ میں چلمن کے پاس بیٹھی تھی۔ نفیری بج رہی تھی۔ دہلی کے ہندو مسلمان زرق برق کپڑے پہنے پنکھے کے ساتھ تھے۔ دکانیں آراستہ تھیں، سقے کٹورے بجا رہے تھے۔
مغرب کا وقت آیا تو خورشید جمال نے لونڈیوں سے کہلا بھیجا کہ پہلے آن کر نماز پڑھ لو پھر تماشا دیکھنا۔ مہ جمال اُٹھی تو چلتے وقت اس نے دیکھا اور ایک فقیر سفید کفنی پہنے، زرد چہرہ۔ ننگے سر، ننگے پاؤں، پنکھے کے پاس سے گزر کر اس کو دیکھتا ہوا چلا گیا۔ اس کی صورت اور کفنی دیکھ کر مہ جمال ڈر گئی۔ نماز میں بھی اسی کا خیال رہا۔ سیر سے فارغ ہوکر سوئی تو ہلکا ہلکا بخار تھا۔ ماں کو خبر ہوئی، اس نے کچھ پڑھ کر دم کیا۔ صندوقچہ سے ایک نقش نکال کر پیالے میں ڈالا، فقیروں کو خیرات بھجوائی۔
دوپہر کو بخار تیز ہوگیا۔ مہ جمال چونکتی تھی اور کہتی تھی ”وہ کفنی والا آیا، وہ مجھ کو بلاتا ہے، اماں جی آنا وہ دیکھو کھڑا مسکراتا ہے۔”
ماں نے لونڈیوں سے پوچھا۔ انہوں نے کہا: ایک فقیر کل شام کو کفنی پہنے جاتا تھا، بیوی نماز کے لیے اٹھیں تو چلمن کا پردہ ہٹ گیا۔ فقیر نے ان کو گھور کر دیکھا اور بیوی نے اس کو دیکھا۔ اس کے بعد وہ کہیں چلا گیا۔
خورشید جمال نے نوکروں کو حکم دیا کہ اس حلیہ کا فقیر جہاں ملے اس کو لاؤ۔ نوکر سارے میلے میں ڈھونڈتے پھرے۔ شام کے قریب وہ ملا۔ اس کو ساتھ لے کر مکان پر لے آئے۔ خورشید جمال نے پردہ کے پاس بٹھا کر لڑکی کا حال کہا۔ وہ بولا مجھے اندر لے چلو میں دم کر دوں گا اچھی ہو جائے گی۔ خورشید جمال نے اندر پردہ کرادیا۔ فقیر کو پلنگ کے پاس کھڑا کیا۔ اس نے آنکھ بند کرکے دونوں ہاتھ اپنے رخساروں پر رکھے اور کچھ دیر چپ کھڑا رہا اور پھر کہا: ”لو لڑکی اچھی ہوگئی۔”
دیکھا تو واقعی بخار اتر گیا تھا۔ مہ جمال اٹھ بیٹھی۔ خورشید جمال اور سب لونڈیاں حیران ہوگئیں۔ فقیر کو بٹھایا۔ کچھ روپے اور کپڑے کے دو تھان نذر کیے۔ فقیر نے کہا:
”یہ میں نہیں لیتا، مجھے لڑکی کی صورت دکھا دو، ورنہ پھر بیمار ہو جائے گی۔”
خورشید جمال نے پہلے تو کچھ تامل کیا، پھر خیال آیا کہ فقیر تو ماں باپ ہوتے ہیں، پردہ ہٹایا۔ مہ جمال نے فقیر کو دیکھا اور سر جھکا لیا۔ فقیر نے مہ جمال کو دیکھا اور برابر دیکھتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد ”بھلا ہو بابا” کہہ کر اٹھا اور چلا گیا۔
یہ تیس برس کا جوان تھا، مگر بیمار معلوم ہوتا تھا۔ چہرے پر زردی بہت زیادہ تھی۔ سفید کفنی کے سوا کوئی کپڑا پاس نہ تھا۔ آنکھیں ایسی معلوم ہوتی تھیں گویا روتے روتے سوج گئی ہیں۔
یہ شخص اس مالن کا بیٹا تھا جو مہ جمال کے باغ کی محافظ تھی۔ مہ جمال کو ایک سال پہلے اس نے باغ میں دیکھا تھا۔ اپنی غریبی اور مہ جمال کی شان کا خیال کرکے اس کو ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس تکلیف کو کسی کے سامنے بیان کرے جوکہ جمال کے دیکھنے سے خود بہ خود اس کے اندر پیدا ہوگئی تھی۔
چھے مہینے وہ اس خلجان میں پریشان رہا۔ اس کے بعد اس کو ایک ہندو جوگی ملا جس سے اس نے اپنا حال بیان کیا۔ جوگی نے ایک سفید کفنی دی کہ اس کو پہن لے تیرے سب کام پورے ہو جائیں گے۔ کفنی پہنتے ہی وہ مجذوب ہوگیا اور گھر بار چھوڑ کر جنگل میں نکل گیا۔ چھے مہینے تک جنگلوں میں پھرتا رہا۔ چھے ماہ بعد اب پھر وہ آبادی میں آیا تھا، جہاں اس نے پھر مہ جمال کو دیکھا، مگر اب اس کے دیکھن میں ایسی قوت پیدا ہوگئی تھی کہ مہ جمال کو اس نے نگاہ میں بیمار کردیا۔
١٤ ستمبر ١٨٥٧ء کو ایک رتھ نجف گڑھ کے قریب کھڑا تھا اور خاکی وردی کے فوجی سپاہی اس کو گھیرے ہوئے تھے۔ یہ سب لشکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس رتھ میں خورشید جمال، مہ جمال اور دو لونڈیاں سوار تھیں، باہر چار نوکر تلواریں لیے کھڑے تھے۔ فوج والے کہتے تھے ہم اندر کی تلاشی لیں گے، اس میں کوئی باغی پوشیدہ ہے۔ بیگم کے نوکر کہتے تھے، اندر عورتیں ہیں، ہم پردہ نہ کھولنے دیں گے۔ نوبت لڑائی کو پہنچی تو نوکروں نے تلوار چلائی اور وہ سب ایسے لڑے کہ ایک بھی زندہ نہ بچا۔ فوجیوں نے رتھ کا پردہ اُلٹ دیا۔ عورتوں کو دیکھا اور زیور کا صندوقچہ ان سے چھین لیا۔ اس کے علاوہ اور جس قدر اسباب تھا وہ بھی لوٹ کر آگے بڑھ گئے۔ رتھ بان بھاگ گیا تھا۔ بیگم لونڈیوں کو لے کر نجف گڑھ کی طرف ہو لیں کہ اتنے میں چند گوجر لٹھ لیے ہوئے آئے اور ان سے زیورات اور کپڑے مانگنے لگے۔ بیگم نے کہا: ہم کو تو فوج والوں نے لوٹ لیا ہے اب ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں ہے، تم رتھ اور بیل لے لو۔ مگر گوجر نہ مانے اور انہوں نے زبردستی ان کے برقعے اتار ڈالے۔ پاجاموں کے سوا تمام کپڑے چھین لیے۔ خورشید جمال اور لونڈیوں نے ان کو برا کہنا شروع کیا۔ ایک گوجر نے خورشید جمال کے سر پر لکڑی ماری اور دوسرے نے لونڈیوں پر لکڑیوں کے وار کیے۔ مہ جمال ڈری سہمی چپ کھڑی تھی۔ اس کو کسی نے نہ چھیڑا۔ خورشید جمال کا سر پھٹ گیا اور تڑپ کر مر گئیں۔ لونڈیاں بھی دونوں چوٹ کے صدمے سے تمام ہوگئیں۔ مہ جمال اکیلی کھڑی تماشا دیکھتی تھی۔ ماں کو مرتے دیکھا تو چمٹ کر رونے لگی۔ گوجر تو مار کوٹ کر چلے گئے اور مہ جمال روتے روتے بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آیا تو اس نے دیکھا نہ اس کی ماں کی لاش ہے نہ لونڈیوں کی لاشیں ہیں، نہ وہ جنگل ہے بلکہ وہ ایک گھر کے اندر چارپائی پر لیٹی ہے۔ سامنے ایک گائے بندھی کھڑی ہے۔ چند مرغیاں صحن میں پھر رہی ہیں اور ایک میواتی چالیس پچاس برس کی عمر کا سامنے بیٹھا اپنی بیوی سے باتیں کررہا ہے۔




Loading

Read Previous

میک اپ — ندا ارشاد

Read Next

خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!