خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

میں ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان ایک پگڈنڈی پر چلا جا رہا تھا۔ہر سو خزاں کا راج تھا۔
چاروں طرف ہرے بھرے کھیت تھے لیکن ان کی حد پر لگے درخت ٹنڈ منڈ حیران و افسردہ کھڑے تھے۔ اداس اور پریشان، جیسے کسی کے گھر میت کا پرسہ دینے آئے ہوں۔ ان سے بچھڑے ہوئے سوکھے پتے میرے پاؤں کے نیچے آکر ہلکا سا احتجاج کرتے او ر پھر خاموش ہو جاتے۔
مجھے ہمیشہ سے خزاں کا موسم بہت پسند تھا اور پھر خزاں کے بعد زندگی کی نوید سناتی بہار بھی۔ جب ٹنڈ منڈ درختوں اور بے جان ٹہنیوں سے ننھے ننھے شگوفے پھوٹتے تھے۔
خزاں ہر بار کی طرح اس بار بھی غمگین، اداس اور پریشان لگ رہی تھی جیسے کوئی اپنے بچپن کے سنگی ساتھی کے بچھڑنے پر اداس ہوتا ہے۔
میں کل رات ہی دو سال کے بعد د یارِ غیر سے وطن لوٹا تھا۔ اب صبح کی نماز کے بعد قبرستان جا رہا تھا۔ اسی قبرستان میں جہاں دادا جی، دادی جان اور اب میری پیاری امی جان بھی منوں مٹی کی چادر اوڑھے لیٹی تھیں اور بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنا ایک الگ جہاں بسائے کب سے وہیں مقیم تھیں۔
صبح کے ملگجے اجالے میں ہلکی ہلکی خنکی کی لہر تھی۔ کھیتوں میں لگی فصلوں پر شبنم کی چادر بچھی تھی۔ دور کھیتوں کے کنارے لگے بڑے بڑے درخت کسی خوفناک دیو کے مانند لگ رہے تھے۔
آج امی جان کو ہم سے بچھڑے چار سال اور کچھ دن ہوگئے تھے۔ میں جب تک پاکستان میں تھا تو تقریباً روزانہ ہی ان کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھتا تھا۔ کبھی کبھار ہی اس عمل کا ناغہ ہوتا۔
آج اتنے عرصے بعد جاتے ہوئے مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا، جیسے کوئی اپنے بہت عزیز سے ملنے جا رہا ہو اور وہ عزیز آپ سے خفا ہو یا روٹھا۔ اس وجہ سے کہ اتنے عرصے بعد کیوں آئے ہو؟
انہی سوچوںاور خیالوں میں غلطاں میں قبرستان آگیا تھا۔ میں نے دعا پڑھی اور امی جان کی قبر کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ گو کہ ان دو سالوں میں امی جان کے ہمسایوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا تھا، لیکن میں پھر بھی آسانی سے ان کی قبر تک پہنچ گیا تھا۔میں نے جونہی ان کی قبر کی طرف نگاہ کی تو حیران و پریشان رہ گیا۔
…٭…





امی جان فردوس خالہ کے گھر گئیں تھی اور میں انہیں لینے گیا تھا۔ وہ دروازے تک آ کر پھر اندر کی طرف پلٹ گئیں۔ پھر جب پانچ سات منٹ کے بعد آئیں تو ان کے ہاتھ میں سدا بہار کے چند پودے جڑوں سمیت دیکھ کر میں بولے بنا نہ رہ سکا:
”امی جان! آپ کہیں بھی جاتی ہیں تو واپسی پر لازمی سدا بہار کا پودا آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لگتا ہے پورا کھیت لگانا ہے۔”
”بیٹا کیا کروں جتنا مجھے یہ سدا بہار کے پھول پسند ہیں اتنا ہی یہ میرے آنگن سے خفا رہتے ہیں۔ لگتا ہے انہیں میرے آنگن کی مٹی راس نہیں آتی۔”
انہوں نے ایک پیار بھری نظر سدا بہار کے پھولوں والی شاخوں پر ڈالی اور پھر بولیں۔
”اور کھیت کی بات بھی خوب کہی تم نے۔ ویسے اب تک میں جتنے پودے لگا چکی ہوں وہ سب کے سب لگ جاتے تو کسی کھیت سے بھی زیادہ ہوتے۔”
امی جان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
گھر آتے ہی امی جان بھوک پیاس کی پروا کیے بغیر پودے لگانے جت گئیں اور میں ٹھنڈا پانی پی کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
…٭…
شام کو میں سو کر اٹھا تو امی جان دن کو لگائے ہوئے پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔
شاید ہفتہ گزرا ہوگا کہ میری نظر ان نئے لگائے پودوں پر پڑی تو وہ پتوں اور پھولوں سمیت مرجھائے پڑے تھے۔
کچھ دن بعد امی جان دوبارہ سدا بہار کے پودے دوسری کیاری میں لگا رہی تھیں۔ یہ پودے بھی شاید وہ اپنی کسی سہیلی کے گھر سے لائی تھیں۔میرے پوچھنے پر بتایا کہ پہلے جو پودے لگائے تھے وہ مالٹے کے بڑے درختوں والی کیاری میں لگائے تھے۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ بڑے درختوں کی جڑوں کی وجہ سے چھوٹے پودے وہاں پھلتے پھولتے نہیں۔ اسی لیے اب میں ان کو دوسری کیاری میں لگا رہی ہوں۔
کچھ دن بعد ان پودوں کا بھی وہی حال تھا جو دوسرے پودوں کا ہوا تھا۔ اس بار پھر امی جان کا ارمان پورا نہ ہوا تھا۔
اس بار امی جان کو اپنی ذاتی تحقیق سے پتا چلا کہ اس بار والے پودے پانی کی زیر زمین ٹینکی کے ساتھ والی کیاری میں لگائے گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ بہت زیادہ نمی کی وجہ سے نمو نہ پا سکے اور جان کی بازی ہار گئے تھے۔
خیر امی جان نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اورکچھ ہفتے بعد جب بڑی باجی کا فون آیا ہوا تھا اور امی جان انہیں بھی کسی پودے کو اپنے ساتھ لانے کا کہہ رہی تھیں۔ پھر جب بڑی باجی آئیں تو اپنے ساتھ بہت سارے رنگوں کے سدا بہار کے پودے لائی تھیں۔ باجی نے اپنے سامان والے بیگ بعد میں کھولے اور امی جان کے سا تھ مل کر سدا بہارکے پودے لگانے بیٹھ گئی تھیں۔ اس بار امی جان اور باجی نے دوبارہ پہلے والی غلطی نہیں کی تھی بلکہ اس بار کے لائے گئے پودے بڑے بڑے مٹی کے گملوں میں میں لگائے گئے تھے۔
اب کی بار کچھ دن رنگ برنگ پھولوں نے بہاردکھائی تھی۔ شاید اس بار محنت زیادہ ہوئی تھی یا گملوں کی وجہ سے، یا پھر کوئی اور وجہ تھی۔ لیکن کچھ دن تو وہ پودے ہرے بھرے رہے اور پھول بھی کھلے رہے۔
امی جان ڈاکٹر کی دوائی کی طرح دن میں تین بار ان میں پانی ڈالتیں اور میرے چھوٹے بھائی سے دیسی کھادبھی منگوا کر ڈالتیں۔ امی جان کی تو جیسے عید ہوگئی تھی۔ وہ شام کی چائے انہی پھولوں والی جگہ بیٹھ کر پیتی تھیں اور محلے کی آئی گئی عورتوں سے گپ شپ بھی وہیں بیٹھ کر لگاتی تھیں۔
دو تین ماہ تو ان پودوں نے بہار دکھائی پھر آہستہ آہستہ مرجھانے لگے۔ امی جان نے ہر ممکن طریقے سے انہیں بچانے کی کوشش کی لیکن ان کی کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی۔
اس کے بعد امی جان کئی دنوں تک اداس اداس پھرتی رہیں۔
اس بار مجھ سے ان کی اداسی دیکھی نہ گئی۔ میں نے ایک اچھی نرسری سے سدا بہار کے مختلف رنگوں کے بیج اور کھاد خریدی اور ساتھ ہی ہر طرح کی احتیاطی تدابیر بھی ان سے پوچھیں۔
گھر آکر امی جان کو خوشخبری سنائی کہ ایک بار پھر ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے والا تھا۔
کئی گھنٹے لگا کر ہم نے گملوں کی پرانی مٹی نکال کر نئی مٹی اور کھاد تبدیل کی اور پھر کچھ دن ان میں پانی ڈال کر ان میں مناسب نمی آنے کا انتظا ر کرتے رہے۔ پھر کچھ دن بعد ہم نے ان میں بیج بو دیے۔




Loading

Read Previous

کفنی — خواجہ حسن نظامی

Read Next

قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!