میک اپ — ندا ارشاد

گہری نیلی آنکھوں میں کاجل کی سیاہ تہ، گلابی گالوں پر فائونڈیشن کی چمک اور نازک ہونٹوں پر گہری سرخ لپ اسٹک وہ مکمل طور پر سراپا حسن لگ رہی تھی۔ فیس پائوڈر سے میک اپ کو آخری ٹچ دیتے ہوئے اس نے سنگار میز پر نگاہ دوڑائی تھی۔ شینل (Chanel)کے فیس پائوڈر سے لے کر لورئیل پیرس کی نیل پالش تک وہاں دنیا جہاں کا میک اپ موجود تھا۔ وہاں موجود کچھ پرفیومز کی قیمت تو لاکھوں میں تھی۔ اس کے شوہر کو اس کا سجا سنورا روپ اچھا لگتا تھا۔ اس لیے وہ ہمیشہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ لاتے رہتے تھے۔ کام کے سلسلے میں وہ جب بھی ملک سے باہر جاتے اس کے لیے کچھ اور لاتے نہ لاتے وہاں کے مشہور برانڈز کی کاسمیٹکس ضرور لایا کرتے اور وہ بھی باقاعدگی سے ان کا استعمال کرتی تھی۔ اپنی خوب صورتی کی بنا پر وہ سادگی میں بھی قہر ڈھاتی تھی، مگر میک اپ کے بعد تو جیسے اس پر چار چاند ہی لگ جاتے تھے۔ ہونٹوں پر موجود لپ اسٹک کی تہ کو موٹا کرتے ہوئے وہ سنگار میز سے اُٹھ بیٹھی۔ اس نے گھڑی پر نگاہ دوڑائی اور پھر جلدی جلدی بیگ کندھے پر ڈالتی آفس کے لیے نکل پڑی۔
”ارے واہ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔”
”بہت خوب صورت۔”
”وائو۔”
”او سارا ڈئیر یو آر لوکنگ گورجیئس۔”
Oh sara dear you are looking Gorgeous.
یہ وہ تمام جملے تھے جو اس نے آفس میں داخل ہوتے ہی ایک بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ وصول کیے تھے۔ اس کے لیے ان میں سے کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ وہ روز اسی طرح تیار ہوکر آتی اور اسی طرح کے تعریفی جملے وصول کرتی تھی۔
”انہیں خوب صورت لگ رہی ہوکیا؟” دور کہیں بہت اندر سے ایک آواز ابھری تھی جسے اس نے فوراً گلا دبا کر مار ڈالا تھا۔
”ارے! آج تو کوئی ایک آدھ قتل ہو ہی جائے گا۔” اس کے کیبن میں داخل ہوتے ہی اس کی سیکرٹری کم سہیلی فارج نے سیٹی بجا کر جملہ کسا تھا۔
”کسی کا تو پتا نہیں البتہ تم میرے ہاتھوں سے قتل نہ ہو جانا۔” اس نے گھوری ڈال کر فارج کو خاموش کرانا چاہا جس کا اس پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوا تھا۔
”اُفف میڈم ان لیزر لائٹس کو ہم پر نہ آزمائیے۔ باس ہیں نا ان پر استعمال کیجیے گا کیوں کہ آپ کا یہ روپ دیکھنے کے بعد ان کا بچ پانا قدرے مشکل معلوم پڑتا ہے۔” اس کی نظروں پر فارج نے اسے جو جملہ کہا اسے پانی پانی کر دینے کے لیے کافی تھا۔
”میرا خیال ہے ہمیں اب کام کرنا چاہیے۔” چہرے پر سنجیدگی سجائے اس نے بڑی مشکل سے بات ختم کی تھی۔ اس کا اشارہ سمجھ کر فارج نے بھی کام کرنے میں ہی عافیت جانی۔ لنچ ٹائم میں صرف دس منٹ باقی تھے اور اسے کچھ فائلز پر باس کے دستخط ضروری چاہئیں تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ لنچ کے لیے نکلتے اس نے سائن کروانا ضروری سمجھا تھا۔
”یس کم ان۔” دروازہ کھٹکھٹانے پر اندر سے باس کی آواز آئی تھی۔ صد شکر کے وہ ابھی آفس میں ہی تھی۔ جیسے ہی وہ فائلز لے کر اندر داخل ہوئی اس کے قدم زنجیر ہوئے تھے۔
”کیا جانا ضروری ہے؟” اندر سے کوئی بولا تھا۔
”جسٹ شٹ اپ۔” اس نے بڑی ہی بے دردی سے اندر کی آواز کا گلا گھونٹا اور قدم آگے بڑھا دیے تھے۔
باس جو کسی فائل پر جھکے اسے پڑھنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے پہلی بار اسے نظر اٹھا کر دیکھا اور پھر وہ سرسری سی نظریں دیکھتے ہی دیکھتے گہری بولتی نگاہوں میں بدل گئی تھیں۔ نظریں جھکائے وہ جانتی تھی کہ باس اسے ہی دیکھ رہے ہیں۔ اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور ہمت کرکے اپنا مدعا بیان کرنا چاہا تھا۔
”سر وہ ان فائلز پر آپ کے ارجنٹ سائن چاہئیں۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی اس نے ان کے قدموں کی آہٹ سنی تھی۔ وہ یقینا اسی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گھڑی نے ایک بجنے کا اعلان کردیا تھا۔ سارا سٹاف آہستہ آہستہ لنچ کے لیے جاچکا تھا۔ صرف وہ دونوں ہی تھے جو سخت سردی میں پسینہ پسینہ ہوئے ایک دوجے میں ڈوبے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭





شام 5بجے کے قریب وہ گھر میں داخل ہوئی۔ اس جگہ کو گھر کہنا بھی ناانصافی تھی۔ وہ تو عالی شان محل تھا جہاں دنیا بھر کی ہر نعمت اس کے قدموں تلے بچھا دی گئی تھی۔اس کی سہیلیاں اس کی قسمت پر رشک کیا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا سارا تمہیں تو دنیا میں ہی جنت عطا کردی گئی ہے۔ بھلا تم سے خوش قسمت کہاں ہوگا اور وہ ان کی بات پر مسکرا دیتی کیوں کہ اسے صرف دنیا ہی میں جنت عطا کردی گئی تھی، مگر یہ بات صرف وہ جانتی تھی۔
شاور لے کر اس نے گھریلو انداز میں نوکروں سے سارا کام کروایا اور پھر کھانا بنانے کچن کا رخ کیا تھا۔ اس کے شوہر رات دس بجے کے قریب واپس آتے تھے، لہٰذا اسے ان کے آنے سے پہلے سب تیار کرنا ہوتا تھا۔ 9بجے کے قریب اس نے نوکروں کو رخصت کیا اور تیار ہونے بیڈ روم میں آگئی تھی۔ نہا کر گلابی نائٹی پہنے وہ گہری گلابی لپ اسٹک لگائے بلش آن پکڑے اپنا ٹچ اپ کر رہی تھی۔
”کیا تم تیار ہو۔” پھر وہی منحوس آواز۔ اس نے بری طرح سے سر جھٹکا اور پھر جب وہ بولی تو اس کی آواز میں ہلکی سی نمی تھی۔
”ہاں میں تیار ہوں۔” خود کو کمپوز کرتی وہ اپنے شوہر کے استقبال کے لیے نیچے چلی آئی تھی۔
جس وقت اس کے شوہر گھر میں داخل ہوئے وہ مکمل تیاری کے ساتھ پانی کا گلاس تھامے لائونج میں کھڑی تھی۔ ان کے چہرے پر تھکاوٹ تھی۔ اس نے انہیں پانی کا گلاس تھمایا اور آگے بڑھ کر ان کی ٹائی اتاری تھی۔
”آپ کے کپڑے تیار کردیے ہیں۔ آپ فریش ہوکر آجائیں کھانا تیار ہے۔” محبت بھری نگاہوں کا الفت بھرا جواب دیتی وہ کچن میں داخل ہوگئی۔ جب تک اس نے کھانا لگایا وہ نہا کر نیچے آچکے تھے۔ انہیں سرو کرکے اس نے خود بھی تھوڑا سا کھا لیا۔ بھوک تو نہیں تھی، مگر اس کے شوہر کو تنہا کھانا کھانے کی عادت نہیں تھی۔ اس لیے اسے ہر حال میں ان کا ساتھ دینا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر اس نے برتن سمیٹتے اور کافی بناتے ہوئے بارہ سے اوپر کا ٹائم ہوگیا۔ اسے بارہ بجے تک کمرے میں پہنچنا تھا، مگر جلدی جلدی کرتے بھی اسے وقت لگ گیا تھا۔ کافی کا مگ تھامے وہ دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ پھر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ اس کے شوہر نے سگار سلگالی تھی جس کا مطلب صاف تھا کہ اب انہیں کافی کی طلب نہیں رہی۔ وہ ٹائم کے پابند تھے اور اسی کے انتظار میں جاگ رہے تھے۔ اسے سب معلوم تھا، مگر پھر بھی وہ لیٹ ہوگئی تھی۔
ای۔ ای ایم۔ سوری۔ اس نے اٹک اٹک کر جملہ ادا کیا تھا۔ وہ معذرت نہیں تھی۔ وہ عذر تھا اور اس بات سے وہ دونوں ہی واقف تھے۔
”کوئی بات نہیں۔ شوہر کو خوش رکھنا ایسا بھی ضروری نہیں۔” کمرے میں ہیٹر آن تھا، مگر اس جملے کی سردی اسے اندر تک محسوس ہوئی تھی۔
”ن… نا… نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔”
”ایسی بات نہیں تو پھر کیسی بات ہے؟ آفس میں باس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کے لیے تو بڑا وقت ہے تمہارے پاس، مگر گھر میں شوہر کی خدمت کے لیے تمہارے پاس وقت کی کمی ہے۔ کیوں فاحشہ عورت…” ایک زور دار تھپڑ اس کے گال کو لال کرتا ہوا اپنا نشان چھوڑ گیا۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ… آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔” اس نے جیسے بھونڈی سی صفائی پیش کی تھی، مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہہ پاتی جلتا ہوا سگار اس کے بازو کو جھلسا گیا اور پھر اس نے ایک بھرپور رات اپنے شوہر کے ساتھ گزاری تھی۔ جسم پر جگہ جگہ جھلستے ہوئے اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ کر اس نے اپنے شوہر کی قربت حاصل کی تھی۔
٭…٭…٭
اگلی صبح ہمیشہ کی طرح روشن تھی۔ اس نے نہا کر ایک خوب صورت جوڑا پہنا، سوجھے ہوئے ہونٹوں پر برف کی ٹکور کرکے وہ ایک بار پھر سنگار میز کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ کیوں؟ کیوں کہ اسے سجنا تھا۔ اپنے سجنا کے لیے جو دن کی روشنی میں اس کا باس تھا اور رات کے اندھیروں میں اس کا شوہر نامدار۔ آفس میں وہ ایک ورکر کی حیثیت سے اپنے باس کو خوش رکھنے کی ذمہ دار تھی اور گھر میں ایک بیوی کی حیثیت سے شوہر کی خواہشات کی غلام تھی۔ اس نے ایک بار پھر سنگار میز پر نگاہ دوڑائی تھی۔ جہاں شینل سے لے کر لورئیل پیرس تک تمام کاسمیٹکس ویسے کی ویسے ہی پڑی تھیں۔ میک اپ کا وہ سامان جو اس کی کل کائنات تھا جس کی دبیز تہوں کے نیچے اس کے اندر کی کمزور عورت چھپ جایا کرتی تھی۔ یہ تہیں اس خوب صورت ورکر کو بھی چھپا لیتی تھیں جو اپنے ہی دفتر میں اپنے ہی شوہر کے ساتھ فحاشہ کہلاتی تھی اور یہ تہیں اس مجبور بیوی کو بھی چھپا لیتی تھیں جو اپنے شوہر کے سنگین الزامات سہ کر بھی اس کا بستر سجاتی تھی۔ ان تہوں نے سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا تھا اور جو سامنے بچی تھی۔ وہ معاشرے میں ایک آئیڈیل گھر اور آئیڈیل شوہر رکھنے والی قابل رشک عورت تھی جسے زمین پر ہی جنت دے دی گئی تھی۔ ہاں اسے صرف زمین پر ہی جنت دے دی گئی تھی۔ اس نے فیس پائوڈر سے اپنی تیاری کو آخری ٹچ دیا اور ایک بار پھر وہ تیار تھی۔ اپنے باس کے دن اور اپنے شوہر کی راتیں رنگین کرنے والی فاحشہ عورت میک اپ کی بدولت ایک بار پھر تیار تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

مڈل کلاس — سارہ عمر

Read Next

کفنی — خواجہ حسن نظامی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!