آج وہ محاورتاً نہیں حقیقتاً گونگا ہوا تھا اور جب کچھ بول نہیں پارہا تھا تو اس کا دل چاہ رہا تھا، وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر بے ہنگم ناداز میں چلائے… سکندر عثمان سے
صفیہ کو عبداللہ پر ترس آنے لگا۔ ہائے محبت کو محبت سے جدا کرنا بھی کتنا کٹھن ہے۔ یوں ہی تو ابراہیمؑ نے اسماعیلؑ کو ذبح کرتے ہوئے آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی ہو گی۔
وہ آج بھی ویسا ہی کھانا بناتیں ہیں جیسے دس سال پہلے بنایا کرتیں تھیں، یا اس سے بھی پہلے بیس سال پہلے…… اس سے بھی پہلے، کتنا زمانہ بیت گیا پکاتے ،کھلاتے، دھوتے، مانجھتے……..
سالار نے سورۃ رحمن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ چند لمحوں کے لئے وہ رکا، پھر سجدے میں چلا گیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوتے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے
’’چلو خیر جیسے تمہاری مرضی مجھے ناشتہ تو بنا دو، میرا بی پی لو ہورہا ہے۔‘‘اس نے بے زاری سے بات ختم کرنے کے لیے کہا۔ ’’او معاف کرنا باجی بس ابھی لائی، آپ دکھ
ڈاکٹر سبط علی اگلے چار دن اس کا انتظار کرتے رہے۔ وہ نہیں آیا، نہ ہی اس نے انہیں فون کیا۔ انہیں خود اسے فون کرنے میں عار تھا۔ انہیں کہیں نہ کہیں یہ توقع