جوں جوں وقت گزر رہا تھا میرے وجود میں اضافہ ہورہا تھا۔ وزن اور خاص طور پر پیٹ بڑھ رہا تھا۔ مجھے اپنے سارے کپڑے تنگ لگنے لگے۔میں حمزہ کے ساتھ مارکیٹ گئی اور’’نشاط‘‘ سے
گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم بشر کو بھی اپنے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور
آج وہ محاورتاً نہیں حقیقتاً گونگا ہوا تھا اور جب کچھ بول نہیں پارہا تھا تو اس کا دل چاہ رہا تھا، وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر بے ہنگم ناداز میں چلائے… سکندر عثمان سے
صفیہ کو عبداللہ پر ترس آنے لگا۔ ہائے محبت کو محبت سے جدا کرنا بھی کتنا کٹھن ہے۔ یوں ہی تو ابراہیمؑ نے اسماعیلؑ کو ذبح کرتے ہوئے آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی ہو گی۔
وہ آج بھی ویسا ہی کھانا بناتیں ہیں جیسے دس سال پہلے بنایا کرتیں تھیں، یا اس سے بھی پہلے بیس سال پہلے…… اس سے بھی پہلے، کتنا زمانہ بیت گیا پکاتے ،کھلاتے، دھوتے، مانجھتے……..