ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

میں’’ بلیو ٹوتھ ہینڈز فری‘‘ کانوںمیں ٹھونسے برتن دھونے میں مصروف تھی۔میرے کانوں میں ایک ’’ فاسٹ ٹریک ‘‘دھما دھم بج رہا تھا۔اس کے ساتھ میرے ہاتھ بھی تیزی سے چل رہے تھے۔کچھ ہی دیر میں برتنوں کا ڈھیرختم ہو چکا تھا۔
ویسے تو لنچ کے وقت میں گھر میںاکیلی ہی ہوتی ہوں اور اپنے لئے کچھ ہلکا پھلکا ہی بنا لیتی ہوں، مگر آج دن کے وقت میں نے اپنی ایک دوست افشاں کو مدعو کیا تھا۔وہ کافی عرصے بعد ہمارے گھر آئی تھی اس لئے میں نے اس کے لئے اچھا خاصا اہتمام کیا تھا۔چائنیز رائس کے ساتھ مٹن کڑاہی اور رشین سلاد تھی۔ چکن ٹمپورا اور بیف رول فرائی کئے تھے جب کہ سویٹ میں ڈیز رٹ تھا۔باقی چائے اور کولڈ ڈرنکس جیسے لوازمات تو ظاہر ہے تھے ہی۔
دعوت انتہائی شان دار رہی تھی۔افشاں نے میرے بنائے ہوئے کھانوں کی کھلے دل سے تعریف کی تھی۔میں اس کی تعریف سُن کے بہت خوش ہوئی مگر اس تعریف کی قیمت مجھے ڈھیر سارے برتن دھونے کی صورت چکانا پڑی۔گھر کے سارے کام میں انتہائی خوش دلی سے کرتی ہوں، بس برتن دھوتے ہوئے میری جان جاتی ہے۔
میں اب برتن دھو کر فارغ تھی۔حمنیٰ اور ارحم ٹیوشن پڑھنے گئے ہوئے تھے۔میں ٹی وی کے آگے بیٹھ گئی اور ٹی وی پر چینلز سرچ کر ہی رہی تھی کہ میرا سیل فون بجا۔یہ میرے شوہر کے بھانجے عاشر کی کال تھی جو انہی کے دفتر میں کام کرتا تھا۔
میں نے کال ریسیو کر کے ہیلو کہا۔وہ میری آوازسنتے ہی شروع ہوگیا۔
’’کیا؟ کب ہوا یہ سب؟ ‘‘عاشر کی بات سُن کر تو میرے ہوش ہی اڑ گئے ۔عاشر تفصیل بتانے لگا۔
’’نہیں،نہیں حمزہ ایسا نہیں کر سکتے۔انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔‘‘میں بے یقینی کے عالم میں بولی۔
’’آنٹی وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔‘‘وہ اپنی بات پر زور دے کے بولا۔
’’اف یا خدا!‘‘ میں سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔
’’آنٹی آپ فکر نہ کریں،انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گی۔عاشر مجھے تسلی دینے لگا ۔
اب بھلا سب ٹھیک ہو سکتا تھا۔





میرے اندر طیش کی ایک لہر اٹھی۔حمزہ کی اس حرکت کے بعد میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔میری وہ سہیلیاں، اور رشتے دار جو بہ ظاہر مجھ سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے، انہیں تو مجھ پر طنز کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا تھا۔میں جانتی تھی وہ اندر ہی اندر مجھ سے کتنی خار کھاتے ہیں۔ بعض لوگ تو حمزہ کے بارے میں اشاروں ہی اشاروں میں کافی کچھ کہہ دیتے تھے مگر میں ان کی باتوں کو ہمیشہ نظرانداز کر دیتی تھی۔میرا خیال تھا کہ وہ سب مجھ سے حسد کرتے ہیں اس لئے ایسا کہتے ہیں مگر شاید وہ ٹھیک ہی کہتے تھے،میری ہی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی،باقی سب تو حمزہ کے بارے میں جانتے تھے۔
’’اف!حمزہ آپ پر مجھے کتنا مان، کتنا بھروسہ تھا۔آپ نے تو میرا سارا مان توڑ دیا۔کیوں کیا آپ نے ایسا؟کس چیز کی کمی تھی آپ کو؟‘‘میرے ذہن میں بگولے اُٹھ رہے تھے۔
فون رکھنے کے بعد میں ادھر ہی گم صم ہو کے بیٹھ گئی۔جانے میری پرسکون زندگی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔میں نے تو زندگی میںاس طرح کی صورتِ حال کے متعلق کبھی سوچا تک نہیں تھا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب میں کیا کروں۔
مجھے ادھر ہی بیٹھے جانے کتنی دیر گزری تھی کہ کال بیل کی آواز سن کے میں چونکی۔بہ مشکل قدم گھسیٹتے ہوئے میں گیٹ تک گئی۔گیٹ پر بچے تھے۔ارحم کی عمر تیرہ سال ہے جب کہ حمنیٰ نو سال کی ہے۔وہ اندر آتے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے۔انہوں نے میری پریشانی کو محسوس ہی نہیں کیا ۔
کافی دیر سوچ بچار کے بعد میں ایک فیصلے پر پہنچ ہی گئی۔اب حمزہ کے ساتھ باقی زندگی گزارنا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔میں نے سیل اٹھایا اور اپنے بھائی کا نمبر ملانے لگی۔
٭…٭…٭
میرا تعلق ایک خوش حال گھرانے سے تھا۔شروع میں ہم مالی لحاظ سے اتنے اچھے نہیں تھے ۔ابو فوج میں تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہارڈ وئیر اور سینٹری کے سامان کا سٹور کھول لیا۔سٹور چل پڑا اور ہمارے گھر میں پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔
گھر میں امی ابو کے علاوہ مجھ سے بڑا ایک بھائی اور دو چھوٹی بہنیں تھیں۔بھائی میٹرک میں تھا جب ابو نے ہارڈوئیر کا بزنس شروع کیا۔ وہ میٹرک کے بعد ان کا بزنس میں ہاتھ بٹانے لگ گیا۔ مجھے بھی پڑھائی کا کچھ خاص شوق نہیں تھا۔بڑی مشکل سے بیس سال کی عمر میںایف اے ہی کر سکی۔
اب میں گھر میں ہی تھی۔میری امی نے میرا رشتہ ڈھونڈنا شروع کر دیا۔رشتہ آیا مگرجب انہوں نے میری چھوٹی بہن کو دیکھا تو اسے پسند کر لیا۔میں شکل و صورت کی تو اچھی تھی مگر قد کچھ چھوٹا تھا۔رشتہ اچھا تھا اس لیے امی نے وہ میری چھوٹی بہن کے لئے قبول کر لیا۔مجھے خاصی مایوسی ہوئی۔
میں اپنے قد کو تو نہیں بڑھا سکتی تھی البتہ اپنے اندر کچھ اور ایسی خوبیاں پیدا کر سکتی تھی جن کے نتیجے میں میری یہ خامی قدرے دب جاتی۔ میںنے کوکنگ اور ڈریس ڈیزائننگ کے کچھ کورس کر لئے۔کوئی بھی فنکشن ہوتا میں خوب بن ٹھن کے جاتی۔ہر طرف میرے پہناوے کے چرچے ہونے لگے۔ہمارے گھر کوئی مہمان آتا تو میں کھانے کا خاص اہتمام کرتی۔نت نئے کھانے بنانا میرا من پسند مشغلہ تھا۔گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی اس لئے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔نتیجے میں خاندان بھر میں میری ہنرمندی اور سلیقے کی دھوم مچ گئی۔
میری ان کوششوں کا خاطر خواہ فائدہ ہوا اور ایک اچھے گھرانے سے میرا رشتہ آگیا۔حمزہ ہمارے دور کے رشتے دار تھے۔ان کے بارے میں اتنا ہی پتا چلا کہ وہ سرکاری ملازم ہیں۔شکل و صورت کے بھی اچھے تھے۔ان کے ابو کا جنرل سٹور تھا ۔مالی لحاظ سے وہ ہمارے ہم پلہ ہی تھے۔رشتہ طے ہونے کے بعدجلد ہی ہماری شادی ہو گئی۔
حمزہ بہت اچھے شوہر ثابت ہوئے۔انہوں نے شادی کی وجہ سے اپنی جاب سے ایک ماہ کی چھٹیاں لے رکھی تھیں۔پہلا ماہ دعوتیں کھانے میں ہی گزر گیا۔میں کہیں ہنی مون پہ جانا چاہتی تھی مگر دعوتوں کی وجہ سے موقع ہی نہیں مل سکا۔البتہ حمزہ شہر ہی میں مجھے ایک دو دفعہ گھمانے لے گئے۔
انہوں نے جاب پر جانا شروع کیا تو میں نے کچن سنبھال لیا۔میری نندایک ہی تھی اور وہ بھی شادی شدہ، ایک دیور بھی تھا اور وہ ابو کے ساتھ جنرل سٹور پر ہی ہوتا تھا۔دن کے وقت گھر میں میرے علاوہ صرف میری ساس ہی ہوتی تھیں۔انہوں نے کچن میں میرا خیرمقدم کیا۔میں گھر والوں کے لئے جو کچھ بھی پکاتی ان کے مشورے ہی سے پکاتی تھی۔وہ بھی مجھ سے مطمئن تھیں۔
انہی دنوں میری ایک دوست مجھ سے ملنے آئی۔وہ میری شادی کے بعد پہلی بار میرے گھر آئی تھی۔میں نے اس کے لئے کھانے پر خاصا اہتمام کیا۔ جب وہ واپس چلی گئی تو میری ساس مجھ سے کہنے لگی:
’’اتنا اہتمام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ مجھے بہت برا لگا،تاہم میں تحمل سے بولی:
’’آنٹی وہ شادی کے بعد پہلی بار میرے گھر آئی تھی۔میں جیسا اہتمام اس کے لئے اپنے گھر کرتی تھی ویسا ہی ادھر کیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ادھر تم جیسا بھی کرتی تھیں تمہارے باپ کا گھر تھا مگر پرائے گھر میں جا کے سسرال والوںکی مرضی کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔‘‘وہ سپاٹ انداز میں بولیں۔
میری عادت ہے کہ میں اپنی ذمہ داری خوش اسلوبی سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں مگر میرے کام میں کوئی مداخلت کرے، یہ چیز مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔میں ان سے بحث نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے خاموش ہو گئی۔
شام کو حمزہ گھر آئے تو میں منہ بسورے بیٹھی تھی۔میں نے رات کا کھانا بھی نہیں بنا یا تھا۔
’’کیا ہوا؟خیریت تو ہے؟ میری جان کے منہ پہ سات بجے ہی بارہ کیوں بج رہے ہیں؟‘‘وہ ہلکے پھلے انداز میں بولے۔
’’حمزہ، آپ بیوی بیاہ کے لائے ہیں یا کٹھ پتلی جو سب کے اشاروں پر ناچتی رہے؟‘‘ میں تو پھٹ ہی پڑی۔
’’کیوں کیا ہوا؟امی نے کچھ کہا ہے؟‘‘وہ محتاط انداز میں بولے۔
میں نے انہیں سارا قصہ سنا دیا۔میری ساری بات سن کے ان کے چہرے پر شکنیں پڑ گئیں۔
’’تم بھی ناں،میں سمجھا پتا نہیں کیا ہو گیا۔دیکھو بھئی،اس گھر میں اتنے عرصے سے امی کے حکم کا سکہ چل رہا ہے۔اب یک دم ہی تو وہ اپنی حکومت کسی دوسرے کے حوالے نہیں کر سکتیں۔تھوڑا صبر کرو،جلد ہی تم اپنی مرضی سے سب کچھ کر سکو گی۔‘‘انہوں نے رسان سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔
ان کی باتیں سن کر مجھے کافی مایوسی ہوئی۔میرا توخیال تھا وہ میری ڈھارس بندھائیں گے اور اپنی امی سے اس حوالے سے بات بھی کریں گے مگر وہ تو الٹا مجھے ہی سمجھانے لگ گئے تھے۔
خیر اس مسئلے کا بھی میرے پاس ایک حل تھا، بس مجھے تھوڑے صبر کی ضرورت تھی۔یہی سوچ کر میں نے ان سے بحث نہیں کی،مگر اس واقعے کے بعد میں اپنی ساس سے کچھ کھنچی کھنچی رہنے لگی۔انتہائی ضرورت کے علاوہ ان سے بات نہ کرتی۔انہوں نے بھی کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔
دو تین دن بعد ہی میری ایک دوست عالیہ کی کال آئی۔حال احوال دریافت کرنے کے بعد وہ مجھ سے بولی:
’’شمع میں شاپنگ پر جا رہی تھی۔تم ساتھ چل سکتی ہو؟‘‘




Loading

Read Previous

جزا — نایاب علی

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!