رعونت — عائشہ احمد

“میں کہتی ہوں دو اسے طلاق۔۔۔۔!”فاخرہ بیگم کی زناٹے دار آواز ڈرائنگ روم میں گونجی تو یک دم ہر طرف سناٹا چھا گیا۔
“لیکن امی۔۔۔۔؟” علی نے کچھ کہنا چاہا لیکن فاخرہ بیگم نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔
“یہ میرا حکم ہے۔ ابھی اور اسی وقت اسے طلاق دو۔‘‘ فاخرہ نے ایک بار پھر گرج دار آواز میں کہا۔
علی نے بے بسی سے ایشل کی طرف دیکھا، ایشل کے چہرے پر خوف کے سائے نمایاں تھے۔اس کی آنکھوں میںایک التجا ،ایک امید تھی۔پاس کھڑا پانچ سالہ ننھا کامران حیرت کی تصویر بنے یہ سب دیکھ رہا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔اس نے ایشل کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ علی نے ایک نظر ماں کو دیکھا اور دوسری نظر ایشل کو دیکھا، وہ تذبذب کا شکار تھا۔
“تمہیں میری بات کی سمجھ نہیں آئی؟ میں نے کہا اسے ابھی اور اسی وقت طلاق دو، ورنہ میںبھول جائوں گی کہ تم میرے بیٹے ہو۔‘‘ دھمکی کام کر گئی، علی نے ایک لمحہ ایشل کی طر ف دیکھا۔
“ایسا مت کرو علی،میرا نہیں تو اپنے بیٹے کا خیال کرو،اسے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘ ایشل نے روتے ہوئے کہا۔ اس نے علی کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے لیکن علی تو جیسے پتھر کا ہو گیا تھا۔
“ایشل۔۔! میں تمہیں طلاق دیتاہوں۔۔۔میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔” اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور فاخرہ نے فاتحانہ انداز میں ایشل کی طرف دیکھا۔ ایشل زمین پر تقریباً گر پڑی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ فاخرہ پائوں پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف لوٹ گئی۔
٭…٭…٭





فاخرہ بیگم کا شمار مڈل کلاس گھرانے سے تھا اور ان کے شوہر سرکاری ملازم تھے جن کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوا تھا۔ علی فاخرہ بیگم کا اکلوتا بیٹا تھا جو ایک کالج میں لیکچرار تھا۔ فاخرہ بیگم اس سے بے انتہا محبت کرتی تھیں۔
فاخرہ بیگم کا شمار ان عورتوں میں ہوتا تھا جو پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوتی ہیں۔ بھلے وہ شوہر پر حکمرانی ہو، اولاد پر یا پھر گھر پر۔ اپنی انا میں رہنا اور غرور و تکبر کا اظہار کرنا ان کی شخصیت کی پہچان ہوتی ہے۔ فاخرہ بیگم بھی ایسی ہی تھیں۔ ماں باپ کے گھر تھیں تو راج کیا، سسرال آئیں تب بھی اپنی حکمرانی قائم رکھی اور جب اولاد کی شادی کی، تب بھی اپنا رعب و دبدبہ برقرار رکھا۔ آج ان کی ہٹ دھرمی نے ایک ہنستا بستا گھراجاڑ دیا تھا۔ ایشل ان کی اپنی پسند تھی۔ بہت چائو کے ساتھ وہ بہو لائی تھیں لیکن وہ بھی روایتی ماں اور ساس ثابت ہوئیں بیٹے کو کسی اور کا ہوتا دیکھ نہیں سکیں اس لیے شادی کے اگلے دن ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے تھے۔اصل جھگڑا وہاں سے شروع ہوا جب علی نے ہنی مون کے لیے اجازت مانگی۔ اس بات پر انہوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
“اب تم فضول خرچی بھی کرو گے؟ شادی کیا ہوئی تم تو بیوی کے ہو کر رہ گئے۔” بیگم فاخرہ غصے سے پھنکاریں۔
“ایسی بات نہیں ہے امی! یہ تو میرا پلان ہے۔” علی گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
“ہاں! ڈال پردے تُو اس کی باتوں پر۔ اس دن کے لیے تیری شادی کی تھی کہ ماں کو بھول کر بیوی کا ہوجائے؟” فاخرہ بیگم فوراً آنکھوں میں آنسو لے آئیں اور علی ماں کے آنسو دیکھ کر بے چین ہوگیا۔ اس نے ہنی مون کا پلان کینسل کر دیا۔
ایشل سب جانتی تھی لیکن وہ خاموش رہی۔ اسی دوران ان کا ایک بیٹا ہوا جس کا نام انہوں نے کامران رکھا۔ ایشل کو لگا کہ شاید اس کی ساس کے رویے میں کچھ تبدیلی آجائے گی لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔ فاخرہ کا رویہ دن بہ دن برا ہوتا جا رہا تھا۔ ہر روز ایک نیا طوفان ایشل کا منتظر ہوتا تھا۔ علی بھی ماں کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا وہ ایشل کی حمایت میں کچھ نہیں کہتا تھا جس کی وجہ سے فاخرہ بیگم کو مزید شہ ملتی اور وہ ایشل پر اور زیادہ ظلم کرتیں۔ علی بھی گھر کے ماحول کی وجہ سے ایشل سے کھنچا کھنچا رہنے لگا تھا جس کا نتیجہ ان کی طلاق کی صور ت میں نکلا تھا۔ فاخرہ بیگم یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس نے محض ایک عورت کا گھر بلکہ حکمِ خداوندی کی صریح نافرمانی کی ہے اور جو اﷲ پاک کے احکامات کی نافرمانی کرتا ہے وہ ناصرف معاشرے کا مجرم ہوتا ہے، بلکہ قیامت کے دن سزاوار بھی ہوگا۔
٭…٭…٭
ٰٓٓایشل گھر پہنچی تو ایک کہرام مچ گیا۔ اس کا بھائی عارف شدید غصے کی حالت میں مرنے مارنے پر تیار ہوگیا۔ایشل کے باپ میاں نثار نے بڑی مشکل سے اسے قابو کیا۔ ایشل مسلسل روئے جا رہی تھی، کامران بھی رو رہا تھا۔ ایشل کی امی سعدیہ اسے چپ کرانے میں مصروف تھیں۔
“خدا غارت کرے فاخرہ کو! اسے تو خدا کا ذرا خوف نہیں آیا یہ سب کرتے ہوئے۔” سعدیہ بیگم اسے کوستے ہوئے بولیں۔
“میں نے تو کہا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔” عارف غصے سے انگلیاں مروڑتے ہوئے بولا۔
“کیا ہو گا اس سے؟ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ ویسے بھی بیٹی کی بربادی کے بعد میں بیٹے کو کھونا نہیں چاہتا۔ اب یہ سوچو آگے کیا کرنا ہے؟” میاںنثار نے کرب سے کہا۔
“میں نے بہت منتیں کیں ان کی ،لیکن وہ لوگ نہیں مانے اور علی۔۔ بڑا مان تھا ا س پر مجھے، وہ بھی بت بنا کھڑا رہا۔ وہ ماں کی محبت میں اتنا آگے چلا گیاکہ وہ اﷲ کے احکامات کی حکم عدولی پر مجبور ہو گیا۔‘‘ ایشل روتے ہوئے بولی۔
“بس کر میری بچی! تو دیکھنا ان سب کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ظلم کا بدلہ ایک دن ضرور ملتا ہے۔” سعدیہ بیگم نے روتے ہوئے اسے تسلی دی۔
“یہاں پرقیامت ٹوٹ پڑی ہے اور آپ لوگ جھوٹی تسلیوں پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟” عارف نے غصے سے کہا اور پائوں پٹختا ہوا باہر چلا گیا۔ میاں نثار دکھ سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ سمجھ سکتے تھے کہ عارف کے جذبات کیا ہیں؟ کوئی بھی بھائی یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس کی بہن کا گھر برباد کر دیا جائے۔
٭…٭…٭
ایشل ایک پڑی لکھی اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ اس کے ابو ایک پرائیوٹ فرم میں جاب کرتے تھے جب کہ چھوٹا بھائی ایم بی اے کر رہا ہے۔ ایشل نے خود ایم ایس سی کی تھی۔ اس کا ارادہ جاب کرنے کا تھا لیکن ایم ایس سی مکمل کرتے ہی اس کے لیے علی کا رشتہ آگیا جسے اس کے والدین نے چھان بین کے بعد ہاں کر دی۔ ایشل والدین کی نہایت لاڈلی تھی۔ عارف اگرچہ ایشل سے چھوٹا تھا لیکن وہ ایشل سے بے حد محبت کرتا تھا۔ وہ اس کی چھوٹی سی تکلیف پر بے چین ہو جاتا۔ علی کے ساتھ ایشل کی شادی ایک بھیانک تجربہ تھا۔ جس کا اندازہ ایشل کو وہاں جا کر ہوا اور آج وہ طلاق لے کر واپس اپنے گھر آگئی۔
٭…٭…٭
زندگی اپنے معمول پر واپس آگئی۔ ایشل کے دامن پر لگا طلاق کا داغ رفتہ رفتہ مٹنے لگا تھا۔ اس نے ایک پرائیوٹ سکول میں جاب شروع کردی اور اپنے بیٹے کامران کو بھی اسی سکول میں داخل کروا دیا۔ اسے تسلی تھی کہ اس طرح کامران اس کی نظروں کے سامنے رہے گا۔
دوسری طرف علی کو تو جیسے چُپ سی لگ گئی تھی۔ایشل کو طلاق دینے کے بعد اس نے خود کو آفس اور اپنے کمرے تک محدود کر لیا تھا۔ فاخرہ بیگم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ ایشل کو بھلا سکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ فاخرہ نے اس کا حل سوچا اور علی کی دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے علی سے بات کرنے کا سوچا۔
صبح کا وقت تھا۔علی آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا ۔جب فاخرہ بیگم اس کے لیے ناشتے کی ٹرے اٹھائے اندر آئی۔ انہوں نے ٹرے ایک طرف رکھی۔علی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا۔ انہوں نے بغیر تمہید کے بات شروع کی:
“کب تک اس منحوس کا سوگ منائو گے؟ فاخرہ نے زہر بھرانشتر اسے مارا۔ علی نے ایک نظر ماں کو دیکھا اور پھر اپنا کام کرنے لگ گیا۔ٹائی باندھی،بال برش کیے اور بیگ اٹھا کر جانے لگا۔
“میں تم سے مخاطب ہوں ۔ کیا تم میری بات نہیں سُن رہے۔؟” انہوں نے سوالیہ لہجے میں اس سے پوچھا۔
“مجھے آفس کے لیے دیر ہو رہی ہے۔” علی سپاٹ لہجے میں بولا۔
“آرام سے ناشتہ کرو۔ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔” ان کا لہجہ تحکمانہ تھا۔
“مجھے بھوک نہیں ہے اور ویسے بھی مجھے دیر ہو رہی ہے۔ آپ بات کریں میں سن رہا ہوں۔” علی کا چہرہ کسی بھی کسی کے تاثرات یا جذبات سے عاری تھا۔ فاخرہ بیگم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر مخاطب ہوئیں:
“میں چاہتی ہوں تمہاری دوسری شادی کر دوں۔” فاخرہ نے کہا تو علی کو لگا کہ جیسے اس کے سر پر کسی نے بم پھاڑ دیا ہو۔ اس نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا۔ وہ جانتا تھا کہ پہلے وہ اپنی بات مکمل کریں گی پھر اس کی سنیں گی۔
“میں نے تمہارے لیے ایک لڑکی دیکھی ہے، خوب صورت اور پڑھی لکھی ہے۔” فاخرہ بیگم اس کی خوبیاں گنواتے ہوئے بولیں۔
“یہ سب خوبیاں تو ایشل میں بھی تھیں۔”علی نے تیز لہجے میں کہا تو فاخرہ بیگم کے چہرے کا رنگ ایک دم سے اُڑ گیا۔
“میں اب شادی نہیں کروں گا۔” علی نے دو ٹوک لہجے میں کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا، جب کہ فاخرہ دانت پیس کر رہ گئیں۔
٭…٭…٭
فاخرہ نے آخر کار علی کو دوسری شادی کے لیے راضی کر ہی لیا۔لڑکی کا نام صباحت تھا۔صباحت نہایت تیز طرار لڑکی تھی۔اسے علی کی پہلی شادی اور طلاق کے بارے میں معلوم تھا۔ اس لیے اس نے آتے ہی سب سے پہلے علی کو اپنے کنٹرول میں کیا۔ صباحت بہت خوب صورت تھی، اور باقی رہی سہی کثر اس کی باتوں نے پوری کر دی۔ علی اب بات بات پہ صباحت کی ہاں میں ہاں ملانے لگ گیا تھا۔ ٹھیک ایک مہینے بعد دونوں نے ہنی مون کا پلان بنایا اور مری جانے کا فیصلہ کیا۔ علی نے صرف ماں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ تو فاخرہ بیگم جل کر کوئلہ ہوگئیں۔
“تم نے مجھ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کر لیا۔۔۔؟ فاخرہ اس وقت شدید غصے میں تھیں۔
“امی میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہوں کہ ہر کام آپ سے پوچھ کروں۔ہم لوگ ایک ہفتے کے لیے مری جا رہے ہیں۔” علی نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
اگلے دن علی اور صباحت ہنی مون کے لیے مری روانہ ہو گئے اور فاخرہ صرف غصے سے تلملا کر رہ گئیں۔
٭…٭…٭
علی نے کبھی پلٹ کر بیٹے کی خبر بھی نہیں لی تھی، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسے کبھی بیٹے کی یاد تک نہیں آئی۔ کیا باپ ایسے بھی ہوتے ہیں؟ ایشل اکثر خود سے یہ سوال کرتی تھی، جس کا اس کے پا س کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
“ماما اب پاپا کبھی نہیں آئیں گے؟ کامران نے معصومانہ لہجے میں ایشل سے سوال کیا تو وہ تڑپ کر رہ گئی۔
“نہیں بیٹا! پاپا کچھ مصروف ہیں،جیسے ہی ٹائم ملا آپ سے ملنے آئیں گے۔” ایشل نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ اس وقت وہ بیڈ روم میں سونے کی تیاری کر رہی تھی۔
“مجھے پتا ہے ماما! اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔ انہوں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے” کامران نے کہا تو ایشل کا دل کٹ سا گیا۔اس نے پلکوں پر آتے ستارے روک لیے تھے۔وہ بیٹے کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
“سب ٹھیک ہو جائے گا بیٹا! ایشل نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!