آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

نیویارک میں واقع امریکہ کے سب سے بڑے میڈیا ڈسٹرکٹ مڈٹاؤن میں ہٹن کے کولمبس سرکل میں واقع ٹائم وارنر سینٹر کی عمارت کے سامنے کھڑے پیٹرس ایباکا کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے چمک رہی تھیں۔ وہ کچھ دیر میں اس عمارت کے اندر واقع سی این این کے اسٹوڈیوز میں امریکہ کے ممتاز ترین اخباری صحافیوں میں سے ایک اینڈرسن کو وپر سے اس کے پروگرام 360کے سلسلے میں ملاقات کرنے والا تھا۔
اینڈرسن کووپر دو ہفتے بعد کانگو میں بارانی جنگلات کے حوالے سے ایک پروگرام کرنے جارہا تھا۔ اس نے انگلینڈ اور یورپ کے اخبارات میں پیٹرس ایباکا کے انٹرویوز اور پگمیز کی بقا کے لئے چلائی جانے والی اس کی مہم کے بارے میں بنیادی معلومات لینے کے بعد اپنی ٹیم کے ایک فرد کے ذریعے اس سے رابطہ کیا تھا…
ایباکا کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اینڈرسن کووپر کی طرف سے ملنے والی اس کال نے اس کی زندگی اور موت کے حوالے سے بھی فیصلہ کردیا تھا… مگر تاخیر بس تھوڑ سی ہوئی تھی اس کی نگرانی کرنے والے لوگوں سے… ایک سراسیمگی اور بدحواسی پھیلی تھی ان لوگوں میں، جنہوں نے یہ طے کرنا تھا کہ اب اچانک سی این این کے منظر میں آجانے کے بعد وہ فوری طور پر ایباکا کیا کریں… تشویش اس بات پر بھی ہوئی تھی کہ اگر ایباکا اور پگمیز کے حوالے سے کووپر نے پروگرام کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا تو چوٹی کے اور کتنے ایسے صحافی تھے جو اس پروجیکٹ کے حوالے سے پروگرام کرنے کی تیاریوں میںتھے…
ایباکا، جن چھوٹے موٹے نیوز چینلز اور جرنلٹس کو ’’بڑا‘ اور ’’طاقت ور‘‘ سمجھ کر واشنگٹن میں ان کے ساتھ گھنٹوں گزار کر آتا رہا تھا… وہ سب پہلے ہی ایباکا کی نگرانی کرنے والے لوگوں کی فہرست میں شامل تھے… ان سے ایباکا کے حوالے سے پہلے ہی بات کرلی گئی تھی اور انہیں اس پروجیکٹ اور اس ایشو کی کوریج کے حوالے سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ہدایات بھی پہنچائی گئی تھیں کہ امریکی مفادات کے لئے اس پروجیکٹ کے حوالے سے کوئی منفی خبر کی کوریج اور رپورٹ کس قدر نقصان دہ ہوسکتی تھی… اور ان چھوٹے چینلز اور نیوز جرنلٹس کو تابع کرنا آسان تھا۔ سی این این جیسے بڑے ادارے کو بھی امریکن مفادات کو ہر چیز پر بالاتر رکھنا جو سی این این پر جب بھی کسی ایشو کو کتنا بھی امریکی مفادات کو بالا تر رکھنے کی پالیسی کے باوجود اٹھاتے وہ دنیا میں کسی نہ کسی نئے تنازعے کو جنم دے دیتے…




اور یہاں بھی ایباکا کو مانیٹر کرنے والے لوگوں کو اچانک درپیش آنے والا چیلنج یہی تھا۔ اگر وہ پروگرام کووپر، ایباکا سے پہلے پیش کرنے کا ارادہ نہ کرچکا ہوتا تو سی آئی اے کے لئے کووپر کو اسی آفیشنسی صحافت سے روکنے کا واحد حل یہ تھا کہ ایباکا کو اس تک کسی بھی قیمت پر نہ پہنچنے دیا جاتا لیکن یہاں کووپر… ایباکا سے اس اسٹیج پر رابطہ کررہا تھا جب وہ اور اس کی ٹیم پہلے ہی اس ایشو پر بہت زیادہ کام کرنے کے بعد کانگو روانگی کی تیاریوں میں تھی اور اب اس صورت حال میں کیا جاتا…! یہ تھا وہ چیلنج جس نے فوری طور پر ایباکا اور کووپر کی ملاقات کے حوالے سے سی آئی اے کو پریشان کیا تھا اور اس پریشانی میں اضافہ تب ہوگیا تھا جب ایباکا اس کال کے ملنے کے فوراً بعد ہی واشنگٹن سے نیویارک کے لئے چل پڑا تھا اور جب تک ان کا اگلا لائحہ عمل فائنل ہوسکا ایباکا ٹائم وارنر سینٹر پہنچ چکا تھا۔
اینڈرسن کووپر کے ساتھ دو گھنٹے کی ایک گرما گرم نشست کے بعد وہ جب سی این این اسٹوڈیوز سے باہر نکلا تھا تو ایباکا کا جوش پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکا تھا۔
کووپر اس پروجیکٹ کے حوالے سے جن مزید لوگوں سے بات چیت کرنے والا تھا، ان میں سالار سکندر کا نام سرفہرست تھا… سی آئی اے کو اس کا اندازہ تھا… یہ وہ دن تھا جب سالار سکندر سفر کرتے ہوئے رات کو واشنگٹن پہنچ رہا تھا اور اسے اندازہ نہیں تھا کہ بدقسمتی اس سے پہلے اس کے انتظار میں وہاں بیٹھی تھی۔
ایباکا نے اس عمارت سے نکلنے کے بعد سینٹرل پارک کی طرف جاتے ہوئے بے حد خوشی کے عالم میں سالار کو ٹیکسٹ کیا تھا۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اب سی این این تک رسائی حاصل کرچکا تھا اور کووپر ہی کے حوالے سے اسے واشنگٹن کے سی این این اسٹوڈیوز میں اسی کی ٹیم کے چند اور لوگوں سے بھی ملنے کا موقع مل گیا تھا… اور ایباکا ساتویں آسمان پر تھا۔
وہ ٹیکسٹ بہت لمبا تھا۔ اس میں اور بھی بہت کچھ تھا… اور پیٹرس کا جوش و خروش وہیں ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے اس بہت لمبے ٹیکسٹ کو کرتے کرتے ای میل کردیا تھا۔ سالار سکندر اس وقت اپنی فلائٹ پر تھا اور کچھ گھنٹوں کے بعد وہ جب واشنگٹن اترا تھا تب تک اس کے رابطوں کے تمام ذرائع زیر نگرانی آچکے تھے۔ پیٹرس ایباکا کی وہ آخری ای میل سالار سکندر کو اس کی موت کے بعد ملی تھی۔ لیکن ان لوگوں کو سالار سکندر کے جہاز اترنے سے بھی کئی گھنٹے پہلے مل گئی تھی جو پیٹرس ایباکا کی زندگی اور موت کے حوالے سے فیصلہ کررہے تھے۔
بعض اوقات کسی شخص کی زندگی کسی دوسرے کی موت بن جاتی ہے… اور کسی دوسرے کی موت کسی اور کی زندگی… ایباکا کی موت کے فیصلے نے سی آئی اے کی فوری طور پر سالار سکندر کو ماردینے کی حکمت عملی بد لی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے سالار سکندر کو بینک کے ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اس کے انکار اور معاملہ حل نہ کرنے کی صورت میں ایک ’’حادثانی موت‘‘ کا سامنا کرنا تھا۔ اینڈرسن کووپر سے ایباکا کی ہونے والی اچانک ملاقات نے سی آئی اے کو یک دم پسپا کردیا تھا۔ وہ ایباکا اور سالار دونوں کو اکٹھا نہیں مار سکتے تھے… شاید مارنے کا سوچ ہی لیتے اگر اتفاقی طور پر وہ دونوں ایک ہی وقت میں امریکہ میں موجود نہ ہوتے اور وہ بھی دو قریبی شہروں میں… وہ ایسا کوئی رسک نہیں لے سکتے تھے کہ کسی تفتیش شروع ہونے کی صورت میں ایباکا اور سالار کی طبعی اموات کے درمیان کوئی اور قدرتی تعلق نکال لیا جاتا۔
سالار کو فی الحال صرف خوف زدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور سی آئی اے کو اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے غلط حکمت عملی، غلط آدمی پر لاگو کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
پیٹرس ایباکا چند گھنٹوں کے بعد بروکلین کے ایک ایسے علاقے کی ایک تنگ و تاریک گلی میں روکا گیا تھا جہاں ایک قریبی عمارت میں ایبا کا کو اپنے ایک دوست سے ملنا تھا۔ سی آئی اے کا خیال تھا ایباکا ان کے لئے حلوہ تھا جسے وہ بہت آرام سے اسے پکڑ کر لے آتے۔ ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایباکا ان دو افراد سے بڑی بے جگری سے لڑا تھا جنہوں نے اچانک اس کے قریب اپنی گاڑی روک کر اسے ریوالور دکھاتے ہوئے اندر بٹھانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے ساری زندگی امریکہ کی مہذب دنیا میں مہذب طور طریقوں کے ساتھ گزاری تھی لیکن جنگل اور جنگلی زندگی اس کی سرشت اور جبلت میں تھی، اپنا دفاع کرنا اسے آتا تھا۔
وہ ان تربیت یافتہ گماشتوں کے قابو میں نہیں آیا تھا… پستہ قامت ہونے کے باوجود وہ سخت جان اور مضبوط تھا۔ وہ پٹتا اور پیٹتا رہا تھا۔
لڑتے لڑتے ریوالور ایباکا کے ہاتھ میں آگیا تھا اور ایک بار ریوالور ہاتھ میں آنے پر اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ان دونوں افراد پر گولیاں چلادی تھی۔ گولی ایک کو لگی تھی لیکن دوسرا خود پر ہونے والے فائر سے بہت پہلے اپنا ریوالور نکال کر ایباکا پر دو فائر کرچکا تھا جو اس کے سینے میں لگے تھے۔
یکے بعد دیگرے ہونے والے ان تین فائرز نے اس سڑک پر چلتے راہ گیر کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا اور ان ہی میں سے کسی نے پولیس کو بھی فون کیا تھا لیکن پولیس کے آنے سے پہلے ہی وہ دونوں ایجنٹ شدید زخمی حالت میں تڑپتے ایباکا کو گاڑی میں ڈال کر فرار ہوگئے تھے۔
ایباکا کی وہ حالت اس دن سی آئی اے کے لئے دوسرا جھٹکا تھی۔ انہیں ایباکا صحیح سلامت کچھ گھنٹوں کے لئے چاہیے تھا تاکہ اسکے ذریعے ان تمام چیزوں کو بھی نابود کرسکتے جو ایباکا کی موت کی صورت میں کسی اور کے ہاتھ لگ جانے کی صورت میں ان کے لئے کوئی اور پیٹرس ایباکا کھڑا کردیتا۔ سی آئی اے کے لئے فی الحال سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ ایباکا کے دستخط کیسے حاصل کرتے، جن کی انہیں فوری ضرورت تھی تاکہ وہ اس کے وہ لاکرز کھلواسکتے جہاں اس کی اصل دستاویزات تھیں… ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ ان اصلی دستاویزات کو حاصل کرنے کے بعد ایباکا کو ختم کردیتے، مگر سب کچھ اس کے الٹ ہوا تھا۔
پلان اے اور پلان بی ناکام ہوچکا تھا۔ اب سی آئی اے کو پلان سی سے کام لینا تھا لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایباکا کے پاس ایک پلان ڈی تھا جس کا انہیں کبھی پتا نہیں چل سکا… وہ کانگو میں اپنی ایک گرل فرینڈ کے پاس ایک وصیت چھوڑ کر آیا تھا۔
٭…٭…٭
سالار جس رات واشنگٹن کے لئے روانہ ہوا تھا اس کے اگلے دن امامہ کی گائنا کولوجسٹ نے اسے فون کیا تھا۔ امامہ کے معائنے کی تاریخ تین دن بعد کی تھی۔ اس کی امریکن ڈاکٹر نے اسے اسی دن ایمرجنسی میں آنے کے لئے کہا، کیوں کہ اسے کسی میڈیکل کیمپ میں شرکت کے لئے اگلے ایک ہفتہ کے لئے گھانا میں رہنا تھا۔ اس کی سیکریٹری نے امامہ سے کہا تھا کہ وہ اپنی تمام اپوائنٹ منٹس ری شیڈول کررہی ہے اور اس نے امامہ کو آج کے دن کا کہا تھا۔ امامہ نے کسی غور و خوض کے بغیر جانے کی ہامی بھرلی تھی۔ وہ اسے ایک معمول کی بات سمجھ رہی تھی اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اگر سالار سکندر سی آئی اے کے ہاتھوں بے بس ہورہا تھا تو امامہ تو کوئی شے ہی نہیں تھی۔
وہ ہمیشہ کی طرح جبریل اور عنایہ کے ساتھ ہیڈی کو بھی اسپتال لے کر گئی تھی۔ وہ کنشاسا کے بہترین اسپتالوں میں سے ایک تھا، کیوں کہ وہاں پر زیادہ تر غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیز اور سفارت کاروں کا علاج ہوتا تھا۔ سالار اس وقت اپنی فلائٹ پر تھا اور امامہ کا خیال تھا وہ جب تک واشنگٹن پہنچتا وہ اس سے بہت پہلے واپس گھر آجاتی، لیکن وہ واپس گھر نہیں آسکی تھی۔
اس کی ڈاکٹر نے اس کا الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد کچھ تشویش کے عالم میں اس سے کہا تھا کہ اسے بچے کی حرکت ابنارمل محسوس ہورہی ہے۔ اس نے اسے بتایا تھا کہ اسے کچھ اور ٹیسٹ کروانے ہوں گے اور ساتھ اسے کچھ انجکشن بھی لینا ہوں گے۔ ڈاکٹر نے اسے فوری طور پر ہاسپٹل میں کچھ گھنٹوں کے لئے یہ کہہ کر ایڈمٹ کیا تھا کہ انہیں اس کو زیر نگرانی رکھنا تھا۔
اسے ایک کمرے میں شفٹ کیا گیا تھا اور جو انجکشن امامہ کو دیئے گئے تھے وہ درد بڑھانے والے انجکشن تھے۔ امامہ کو گھر سے غائب اور سالار اور اپنی کسی اور فیملی ممبر سے رابطہ منقطع رکھنے کے لئے سی آئی اے کے پاس اس سے بہترین حل نہیں تھا کہ اس کے بچے کی قبل ازوقت پیدائش عمل میں لائی جائے۔




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!