آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

کسی اپنے کی موت انسان کو پل بھر میں کس طرح خاک کردیتی ہے یہ کوئی امامہ سے پوچھتا۔
وسیم اور سعد کی موت نے اسے بتایا تھا کہ مارتی تو موت ہی ہے اور جیسی مار وہ انسان کو دیتی ہے کوئی اور تکلیف نہیں دیتی۔ آب حیات پی کر بھی انسان اپنی موت ہی روک سکتاہے پر ان کو جانے سے کیسے روک سکتا ہے جو جان سے بھی پیارے ہوتے ہیں۔
وہ اس وقت نیویارک میں تھی۔ اس کے ہاں پہلا بچہ ہونے والا تھا۔ وہ ساتویں آسمان پر تھی کیوں کہ جنت پاؤں کے نیچے آنے والی تھی۔ نعمتیں تھیں کہ گنی ہی نہیں جارہی تھیں۔ تیسرا مہینہ تھا اس کی pregnancyکا، جب ایک رات سالار نے اسے نیند سے جگایا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ وہ اسے نیند سے جگا کر کیا بتانے کی کوشش کررہا تھا اور شاید ایسی ہی کیفیت سالار کی تھی، کیوں کہ اس کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کن الفاظ میں اتنے بڑے نقصان کی اطلاع دے۔ اس سے پہلے سکندر عثمان اور وہ یہی ڈسکس کرتے رہے تھے کہ امامہ کو اطلاع دینی چاہیے یا اس حالت میں اس سے یہ خبر چھپالینی چاہیے۔
سکندر عثمان کا خیال تھا امامہ کو یہ خبر ابھی نہیں پہنچانی چاہیے، لیکن سالار کا فیصلہ تھا کہ وہ اس سے اتنی بڑی خبر چھپا کر ساری عمر کے لئے اسے کسی رنج میں مبتلا نہیں کرسکتا۔ وہ وسیم سے فون اور میسج کے ذریعے ویسے بھی رابطے میں تھی، یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اسے ایک آدھ دن میں اس کے بارے میں اطلاع نہ مل جاتی۔
وہ دونوں قادیانیوں کی ایک عبادت گاہ پر ہونے والی فائرنگ میں درجنوں دوسرے لوگوں کی طرح مارے گئے تھے اور امامہ چند گھنٹے پہلے ایک پاکستانی چینل پر یہ نیوز دیکھ چکی تھی، وہ اس جانی نقصان پر رنجیدہ بھی ہوئی تھی ایک انسان کے طور پر، مگر اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان لوگوں میں اس کے دو اتنے قریبی لوگ بھی شامل تھے۔ اسے شبہ ہوتا بھی کیسے۔ وہ اسلام آباد کی عبادت گاہ نہیں تھی ایک دوسرے شہر کی تھی۔ سعد اور وسیم وہاں کیسے پہنچ سکتے تھے اور وسیم تو بہت کم اپنی عبادت گاہ میں جاتا تھا۔





وہ اگلے کئی گھنٹے گم صم آنسو بہائے بغیر سالار کے کسی سوال اور بات کا جواب دیئے بغیر ایک بت کی طرح وہیں بستر پر بیٹھی رہی تھی، یوں جیسے انسان نہیں برف کی سل بن گئی تھی۔ اور برف کی سل نہیں جیسے ریت کی دیوار تھی جو ڈھے گئی تھی۔ اسے لگا تھا وہ اب کبھی زندگی میں اپنی انگلی تک نہیں ہلاسکے گی۔ پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکے گی۔ سانس نہیں لے سکے گی۔ جی نہیں سکے گی۔ کوئی ایسے تو نہیں جاتا… ایسے… اس کی حالت دیکھ کر سالار کو شدید پچھتاوا ہوا تھا۔ اس نے سکندر عثمان کی بات نہ مان کر کتنی بڑی غلطی کی تھی، اسے اب سمجھ میں آیا تھا۔ سالار نے اپنے ایک ڈاکٹر کزن کو بلایا تھا گھر پر ہی اسے دیکھنے کے لئے۔
اس کے بعد کیا ہوا تھا امامہ کو ٹھیک سے یاد نہیں تھا۔ سالار کو لمحہ لمحہ یاد تھا۔ وہ کئی ہفتے اس نے اسے پاگل پن کی سرحد پر جاتے اور وہاں سے پلٹتے دیکھا تھا۔ وہ چپ ہوتی تو کئی کئی دن چپ ہی رہتی، یوں جیسے اس گھر میں موجود ہی نہیں تھی۔ روتی تو گھنٹوں روتی۔ سوتی تو پورا دن اور رات آنکھیں نہیں کھولتی اور جاگتی دو دو دن بستر پر چند لمحوں کے لئے بھی لیٹے بغیر لاؤنج سے بیڈروم اور بیڈ روم سے لاؤنچ کے چکر کاٹتے کاٹتے اپنے پاؤں سجالیتی۔ یہ صرف ایک معجزہ تھا کہ اس ذہنی حالت اور کیفیت میں بھی جبریل کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ جیسے یہ فراموش ہی کر بیٹھی تھی کہ اس کے اندر ایک اور زندگی پرورش پارہی تھی۔ ذہن یادوں سے نکل پاتا تو جسم کو محسوس کرتا۔
اور وحشت جب کچھ کم ہوئی تھی تو اس نے سالار سے پاکستان جانے کا کہا تھا۔ اسے اپنے گھر جانا تھا۔ سالار نے اس سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ وہ کس گھر کو اپنا کہہ رہی تھی۔ اس نے خاموشی سے دو سیٹیں بک کروالی تھی۔
’’مجھے اسلام آباد جانا ہے۔‘‘ اس نے سالار کے پوچھنے پر کہا تو سالار نے بحث نہیں کی تھی، اگر اس کے گھر والوں سے ملاقات اس کو نارمل کردیتی تو وہ اس ملاقات کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا۔
ہاشم مبین ان کے ہمسائے تھے۔ ان کے گھر میں آنے والی قیامت سے سالار سکندر کا خاندان بے خبر نہیں تھا۔ انہوں نے ہاشم مبین کے گھر جاکر ان سے دوسرے بہت لوگوں کے ساتھ تعزیت کی تھی۔ اس صدمے میں بھی ہاشم مبین نے بے حد سردمہری کے ساتھ ان کی تعزیت قبول کی تھی۔
سکندر عثمان کوامید نہیں تھی کہ وہ امامہ سے ملیں گے۔ انہوں نے سالار سے اپنے خدشات کا ذکر ضرور کیا تھا، لیکن امامہ کو جس حالت میں انہوں نے دیکھا تھا، وہ سالار کو ایک کوشش کرلینے سے روک نہیں سکے تھے۔
ہاشم مبین نے نہ صرف فون پر سکندر عثمان سے بات کرنے سے انکار کیا تھا، بلکہ سالار کو ان کے گھر پر گیٹ سے اندر جانے نہیں دیا گیا۔ سکندر عثمان اور وہ دونوں مایوسی کے عالم میں واپس آگئے تھے۔
سالار اس کے سامنے بے بس تھا، لیکن وہ پہلا موقع تھا جب اس نے امامہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔ اس نے امامہ کو اس کے گھر جانے کی کوشش بھی نہیں کرنے دی تھی۔
’’تمہیں اگر گھر جانا ہے تو پہلے اپنے باپ سے بات کرو۔ وہ اجازت دیں تو پھر میں تمہارے ساتھ چلوں گا، لیکن میں تمہیں بغیر اجازت کے وہاں گیٹ پر گارڈز کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے لئے نہیں بھیج سکتا۔‘‘
اس کے رونے اور گڑگڑانے کے باوجود سالار نہیں پگھلا تھا۔ امامہ نے اپنے باپ سے فون پر بات کرکے اجزت لینے کی ہامی بھرلی تھی، مگر اس فون کال نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ جو چیز سالار اسے نہیں سمجھا سکا تھا وہ اس فون کال میں ہاشم مبین نے سمجھادی تھی۔
’’یہ جو کچھ ہوا ہے تمہاری وجہ سے ہوا۔ تم جن لوگوں کے ساتھ جا بیٹھی ہو ان ہی لوگوں نے جان لی ہے میرے دونوں بیٹوں کی، اور تم اب میرے گھر آنا چاہتی ہو۔ قاتلوں کے ساتھ میرے گھر آنا چاہتی ہو۔‘‘ وہ ہذیانی انداز میں چلاتے اور اسے گالیاں دیتے رہے تھے۔
’’تم لوگ۔‘‘ اور ’’ہم لوگ‘‘ فرق کتنا بڑا تھا امامہ کو یاد آگیا تھا۔ آج بھی۔ اس سب کے بعد بھی اس غم کے ساتھ بھی اسے پچھتاوا نہیں تھا کہ اس نے وہ مذہب چھوڑ دیا تھا۔ اسے یاد آیا تھا ایک بار اس کے باپ نے کہا تھا وہ ایک دن گڑگڑاتے ہوئے اس کے پاس آکر معافی مانگے گی، اور وہ آج یہی کرنے جارہی تھی۔ پر کیوں کرنے جارہی تھی؟
خون کا رشتہ تھا۔ تڑپ تھی۔ وہ کھینچی تھی ان کی طرف۔ اب جب اسے ان سے پہلے کی طرح جان کا خوف نہیں رہا تھا، پر خون کا رشتہ صرف اسی کے لئے کیوں تھا۔ تڑپ تھی تو صرف اس کو کیوں تھی۔ شاید اس لئے کہ اس کے پاس ان لوگوں کے سوا اور کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ وہ اپنے لوگوں کے پاس تھے۔ اس کے پاس سالار تھا، لیکن وہ خونی رشتہ نہیں تھا محبت کا رشتہ تھا۔ خون جیسی تڑپ پیدا ہونے کے لئے ابھی اس کو کئی سال چاہیے تھے،سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں ماؤف ہونے کے باوجود اسے پہلی بار احساس ہورہا تھا کہ جو غم اسے وہاں کھینچ کر لایا تھا۔ وہ غم اس گھر میں جاکر پچھتاوے میں بدل جاتا۔
ہاشم مبین کی مزید کوئی بات سننے کے بجائے اس نے فون رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بلک بلک کر روئی تھی۔ اس گھر میں اور اس دنیا میں اب کا خونی رشتہ کوئی نہیں رہا تھا۔ اس گھر میں صرف وسیم اس کا تھا، اور وسیم جاچکا تھا۔ وہ ایک کھڑکی جو پچھواڑے میں کھلی تھی ٹھنڈی ہوا کے لئے، وہ آندھی کے زور سے بند ہوگئی تھی۔ اب اس کھڑکی کو دوبارہ کبھی نہیں کھلنا تھا۔
وہ سالار سکندر کے ساتھ واپس نیویارک لوٹ آئی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا وہ نارمل ہورہی تھی، آہستہ آہستہ بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔ کچھ وقت لگنا تھا۔ امامہ بھی ایسا ہی سمجھتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہاں موجود تنہائی نے امامہ کے اعصاب کو ایک بار پھر مفلوج کرنا شروع کردیا تھا۔ سالار پی ایچ ڈی کررہا تھا اور ساتھ ایک آرگنائزیشن میں ہفتے میں تین دن کے لئے پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔ وہ صبح پانچ بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات کو کہیں آٹھ نو بجے اس کی واپسی ہوتی تھی اور واپسی پر وہ اتنا تھکا ہوا ہوتا تھا کہ ایک دو گھنٹے ٹی وی دیکھ کر کھانا کھا کر وہ دوبارہ سوجاتا تھا۔
امامہ بارہ چودہ گھنٹے ایک بیڈروم کے آٹھویں منزل کے اس اپارٹمنٹ میں بالکل تنہا ہوتی تھی اور تنہائی کا یہ دورانیہ سالار کے گھر آجانے کے بعد اس کے سوجانے پر اور بڑھ جاتا تھا۔ ایک بیڈروم، ایک لاؤنج اور کچن ایریا کے علاوہ جہاں کچھ بھی نہیں تھا جہاں وہ جاکر کچھ وقت گزارسکتی۔ گھر کا کام بھی بہت مختصر تھا کیوں کہ گھر چھوٹا تھا۔ نیند اسے آتی نہیں تھی اور گھر میں کوئی مشغلہ نہیں تھا، صرف سوچنے کے علاوہ۔
وسیم اس کے ذہن سے نہیں نکلتا تھا وہ روز اپنے فون میں موجود اس کے اور اپنے میسجز کو جو سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے بیٹھ کر پڑھنا شروع کرتی اور پھر گھنٹوں اسی میں گزار دیتی۔ اسے وہ سینکڑوں میسجز اب جیسے زبانی حفظ ہوچکے تھے، لیکن پتا نہیں خود اذیتی کی وہ کون سی سیڑھی تھی جس پر بیٹھی وہ ہر روز ایک ہی کام بھیگی آنکھوں کے ساتھ کرتی رہتی تھی۔
اپنے وجود کے ناکارہ پن اور زندگی کی بے معنویت امامہ ہاشم نے جیسے اس دور میں محسوس کی تھی، اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ اس کا اپنا وجود اس کے لیے سب سے بڑا بوجھ بن گیا تھا۔ اسے وہ کہاں پھینک آتی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ بستر پر صبح نیند سے آنکھ کھلتے ہی اسے یہ خیال آتا تھا۔ ایک اور دن۔ پھر وہی روٹین۔ پھر وہی تنہائی۔ وہی ڈپریشن۔ وہ آہستہ آہستہ ڈپریشن کی طرف جانا شروع ہوگئی تھی، اور سالار ایک بار پھر اپنے آپ کو بے حد بے بس محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ اس کے لئے کیا کرتا اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا، جس سے وہ پھر پہلے جیسی ہوجاتی۔
چودہ گھنٹے تک اپنے کاموں اور سفر سے خوار ہونے کے بعد وہ تھکا ہارا گھر آنے پر بھی امامہ کے کہنے پر کہیں بھی چلنے کے لئے تیار رہتا تھا اور کہیں نہیں تو اپارٹمنٹ کے باہر پارک تک، لیکن وہ اس سے کہیں جانے کا کہتی ہی نہیں تھی۔
وہ صبح سویرے گھر سے اس کے بارے میں سوچتے ہوئے نکلتا اور رات کو جب گھر واپس آنے کے لئے ٹرین میں بیٹھتا تو بھی اس کے بارے میں سوچ رہا ہوتا تھا۔ امامہ کی ذہنی کیفیت نے جیسے اس کے اعصاب شل کرنے شروع کردیئے تھے۔ جبریل کی پیدائش میں ابھی بہت وقت تھا اور وہ اسے اس جہنم سے نکالنا چاہتا تھا جس میں وہ ہر وقت نظر آتی تھی۔
اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے ہی ایک رات امامہ نے کہا تھا۔
’’مجھے پاکستان جانا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ سالار کو اپنا سوال خود بے تکا لگا۔
وہ بہت دیر چپ رہی، یوں جیسے اپنے الفاظ جمع کررہی ہو پھر اس نے جو کہا تھا اس نے سالار کا دماغ بھک سے اڑا دیا تھا۔
’’کل میں نے وسیم کو دیکھا… وہاں کچھ کاؤنٹر کے پاس وہ پانی پی رہا تھا… دو دن پہلے بھی میں نے اسے دیکھا تھا، وہ اس کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔‘‘ بات کرتے ہوئے اس کی آواز بھرائی اور وہ شاید اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کے لئے رکی تھی۔
’’مجھے لگتا ہے میں کچھ عرصہ اور یہاں رہی تو پاگل ہوجاؤں گی۔ یا شاید ہونا شروع ہوچکی ہوں لیکن میں یہ نہیں چاہتی۔‘‘
اس نے چند لمحوں کے بعد دوبارہ بات کرنی شروع کی تھی۔ وہ اگر واہموں کا شکار ہورہی تھی تو وہ اس بات سے واقف بھی تھی اور اس سے فرار چاہتی تھی تو یہ جیسے ایک مثبت علامت تھی۔
’’ٹھیک ہے، ہم واپس چلے جاتے ہیں، مجھے صرف چند ہفتے دے دو سب کچھ وائنڈ اپ کرنے کے لئے۔‘‘
سالار نے جیسے لمحوں میں فیصلہ کیا تھا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے امامہ نے نفی میں سرہلایا۔
’’تم پی ایچ ڈی کررہے ہو، تم کیسے میرے ساتھ جاسکتے ہو؟‘‘
’’میں پی ایچ ڈی چھوڑ دوں گا… ڈاکٹر کی ڈگری ضروری نہیں ہے… تم اور تمہاری زندگی ضروری ہے۔‘‘
سالار نے جواباً اس سے کہا، کچھ کہنے کی کوشش میں امامہ کی آواز بھرائی وہ کہہ نہیں پائی۔ اس نے دوبارہ بولنے کی کوشش کی اور اس بار وہ بلک بلک کر رونے لگی تھی۔
’’نہیں تم ساتھ نہیں آؤگے… یہ کیوں ضروری ہے کہ ساری زندگی تم قربانیاں ہی دیتے رہو میرے لئے… اب پی ایچ ڈی چھوڑو… اپنا کیرئیر چھوڑو… تمہاری زندگی ہے۔ قیمتی ہے تمہارا وقت، تم کیوں اپنی زندگی کے اتنے قیمتی سال میرے لئے ضائع کرو۔‘‘
سالار نے کچھ کہنے کی کوشش کی، کوئی اور موقع ہوتا تو اس کا یہ اعتراف اس کو خوشی دیتا، لیکن اب اسے تکلیف ہورہی تھی۔ وہ روتے ہوئے اسی طرح کہہ رہی تھی۔
’’میں تم سے بہت شرمندہ ہوں، لیکن میں بے بس ہوں میں کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو نارمل نہیں کر پارہی… اور اب … اب وسیم کو دیکھنے کے بعد تو میں اور بھی… اور بھی۔‘‘ وہ بولتے بولتے رک گئی، صرف اس کے آنسو اور ہچکیاں تھیں جو نہیں تھمی تھیں۔
’’سالار، تم بہت اچھے انسان ہو… بہت اچھے ہو تم بہت قابل ہو… تم مجھ سے بہتر عورت ڈیزرو کرتے ہو… میں نہیں۔I am a worthless woman…..I m a nobody تمہیں ایسی عورت ملنی چاہیے جو تمہارے جیسی ہو… تمہیں زندگی میں آگے بڑھنے میں سپورٹ کرے… میری طرح تمہارے پاؤں کی بیڑی نہ بن جائے۔‘‘
’’اور یہ سب کچھ تم آج کہہ رہی ہو جب ہم اپنا پہلا بچہ expect کررہے ہیں…؟‘‘
’’مجھے لگتا ہے یہ بچہ بھی مرجائے گا۔‘‘ اس نے عجیب بات کہی تھی سالار نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی اس نے ہاتھ چھڑالیا۔
’’تم کیوں اس طرح سوچ رہی ہو… اسے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ سالار پتا نہیں کس کو تسلی دینا چاہتا تھا لیکن اس وقت امامہ سے زیادہ اس کی اپنی حالت قابل رحم ہورہی تھی۔




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!