تعلیم کے گہنے ہم نے پہنے — عائشہ تنویر

تعلیم کی اہمیت پر ابا جی کے بہت لیکچر سنے، اماں کی صلواتیں بھی سنیں مگر اپنی ازلی ڈھٹائی کی بہ دولت ہم نے مانا اور نہ ہی پڑھا ۔اماں اٹھتے بیٹھتے یہی بولتیں۔
ارے علم تو زیور ہوتا ہے، انسان کی شخصیت نکھار دیتا ہے۔
ابتدا میں تو ہم نے بہت نظراندازکیا مگر پھر ان کی مسلسل تکرار سے تنگ آکر ایک دن انہیں تسلی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ اکلوتی اولاد ہونے کی بہ دولت ان کے جہیز، بری کے تمام زیور کے واحد وارث ہم بہ ذاتِ خود ہیں۔ شکر ہے اللہ کا کہ ہم اتنے لالچی نہیں کہ مزید زیور کی حرص میں پڑیں۔ سادگی بہترین دولت ہے۔ ابھی ہمارا بیان جاری تھا کہ اماں کا دو ہتڑ ہماری کمر سلگا گیا۔ تڑپ کر ہم دو گز پیچھے ہٹے لیکن اپنی بات سے پیچھے ہر گز نہ ہٹے اور اپنے چاند چہرے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے یہ مصرع پڑھا۔
؎ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
اللہ جانے کہ یہ مصرع ہم نے کہاں سے سن لیا تھا لیکن اس نے تیر بہ ہدف کام دیا اور اماں اب کی بار ہمیں مارنے کے بجائے سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ اس دن کے بعد اماں نے ہار مان لی اور ہمیں دوبارہ کبھی پڑھنے کو نہیں کہا۔
علم سے محرومی کا احساس ہمیں پہلی بار تب معلوم ہوا جب ہماری کزنیں دھڑادھڑ کمپیوٹر اور موبائل استعمال کرنے لگیں۔ فیس بک، واٹس ایپ، نت نئے ڈیزائن کے کپڑے، فلمیں اور ڈرامے سب کچھ چار انچ کے ڈبے میں موجود تھا۔ خیر ایسے ویسے تو ہم بھی نہیں تھے، فوراً ایک زنگر کے بدلے فیس بک کا اکاؤنٹ بنوایا اور دانش وروں کی دنیا میں قدم رکھا۔ موبائل ویسے تو خیر ہم استعمال کر ہی لیتے تھے لیکن کبھی کہیں اٹک جاتے تو کسی سے مدد لینا بھی عذاب، آخر ہزار ذاتی چیزیں ہوتی ہیں اس میں ۔
آپ یہ مت سمجھیں کہ ہم کردار کے کچے ہیں اور نیٹ کا غلط استعمال کرتے ہیں لیکن ہماری سہیلیوں سے کی گئی باتیں ہی ہماری پڑھی لکھی کزنیں پڑھ لیتیں جس میں انہیں کلموہی اور پھپھے کٹنی جیسے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا، تو وہ آیندہ کیا خاک کام آتیں۔
تعلیم سے محرومی کا دوسرا جھٹکا ہمیں تب لگا جب ہماری چاند بلکہ سپر چاند سی صورت چھوڑ کر ڈاکٹر کا رشتہ اپنی اس کزن کی طرف چلا گیا کیوں کہ لڑکے والوں کو پڑھی لکھی لڑکی چاہیے تھی۔ ڈاکٹر کو تو ہم یوں بھی گھاس نہ ڈالتے، ایک تو ان میں سے دوائیوں کی بد بو آتی رہتی اور پھر گھر میں ہی کلینک کھول کر چوبیس گھنٹے سر پر رہتے۔ تیسرا بڑا نقصان یہ کہ بیوی بیماری کا بہانہ کر کے آرام بھی نہیں کر سکتی۔
یہ سب دلاسے اپنی جگہ لیکن اپنا نظر انداز ہوجانا بھی برداشت نہیں ہورہا تھا۔ اس پر کزن کے دل جلاتے جملے، اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آج کل تو اسکول والے بھی پڑھے لکھے والدین کے بچے لیتے ہیں۔ سو اچھا رشتہ تو دور کی بات تمہیں اپنے بچوں کے لیے اچھا اسکول بھی نہیں ملنا۔ رشتے کی فکر ہمیں یوں نہیں تھی کہ بھاری جہیز خود مقناطیس کی طرح لڑکے والوں کو کھینچتا ہے لیکن اپنی غیر موجود اولاد کے مستقبل کی فکر نے ہماری نیندیں اُڑا دیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں ڈر تھا کہ ہماری اولاد بھی ہمارے جیسی ہی ہو گی۔ رج کے حسین، ذہین بھی اور ذرا پڑھائی سے بچنے والی بھی۔ اب سرکاری اسکول تو ایسے بچوں کو برداشت کرنے سے رہے۔ مہنگی مہنگی فیسیں ڈکارنے والے پرائیویٹ اسکول ہی ہم جیسوں کو برداشت کر سکتے ہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ شکل سے تو ہم ویسے بھی بہت پڑھے لکھے ہی لگتے ہیں۔ “Inglish” میں بھی میرا کی طرح مہارت تھی۔ بس اسلم انکل کے مشورے کے مطابق ایک ڈگری ہونی چاہیے کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی۔ مسئلے کا حل ملنا تھا کہ جان میں جان آئی۔ محلے کے ایک لڑکے کو پیسے دیے کہ ہمیں بی-اے کی ڈگری لا دے۔ بی-اے اور پھر بیاہ سے یوں بھی لڑکیاں کم عمر اور معصوم ہی لگتی ہیں ساری عمر لیکن وہ کم عقل ایم-اے کی ڈگری بھی اٹھا لایا اور بولا کہ باجی ڈیل میں سستی مل رہی تھی۔ اب جب وہ لے ہی آیا تو ہم نے بھی احسان کر کے رکھ لی۔
اگلا رشتہ آیا تو ہم نے تعلیم ایم اے بتائی۔ لڑکے کی بھابھی خوش ہو کر سیدھی ہوئی۔
’’ارے واہ! کہاں سے کیا ہے؟‘‘
’’جی گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج سے۔‘‘ ہم نے فوراً جواب دیا تو اس نے آنکھیں پھاڑ کر ہمیں دیکھا۔ اماں اتنی زور سے کھانسیں کہ سب انہیں ہی دیکھنے لگے۔
’’مذاق کی بہت عادت ہے اسے۔‘‘ انہوں نے لب زبردستی شرقاً غرباً پھیلا کر دانت پیسے اور سب ہنس پڑے۔ اب اگلا سوال ہوا۔
’’کس مضمون میں کیا ہے ماسٹرز؟‘‘ ہم گڑبڑا گئے کہ ابھی تک ڈگری کھول کر بھی نہ دیکھی تھی۔ نہ ہی وہ کم بخت بتا کر گیا تھا کہ ہم نے کیا پڑھا ہے۔ حواس بحال رکھتے ہوئے ہم نے اپنی طرف سے بہت آسان جواب دیا۔
’’جی اردو میں۔‘‘ ہم نے اس مضمون کا انتخاب اس لیے کیا تا کہ مزید آگے کے سوالات کے جواب بآسانی دیے جائیں۔
’’تھیسز لکھا تھا ؟ کس موضوع پر؟‘‘ مزید دل چسپی سے اگلا سوال آیا اور ہمارا صبر کا پیمانہ ختم ہوگیا۔ ’’ہم نے پڑھانے نہیں آنا آپ کو۔‘‘ بل کھا کر ہم کھڑے ہوئے اور اس سے پہلے کے پاؤں پٹخ کر باہر جاتے لڑکے کی ماں نے خوشی سے بے حال ہوتے ہمیں گلے لگایا اور رشتہ پکا کردیا کیوں کہ بڑی بہو کی تعلیم ان کے گلے کا پھندہ بن چکی تھی۔ جب وہ حلیم کی فرمائش کرتیں تو وہ حلیم پکانے کے بجائے انہیں پکانے بیٹھ جاتیں۔
’’اماں اصل لفظ حلیم نہیں دلیم ہے۔‘‘
ہنڈیا کبھی اچھے سے نہ بھونتی کہ غذائیت ضائع ہو جائے گی۔ اب کی بار انہیں ہماری جیسی چاند چہرہ، معصوم خانہ دار بہو ہی چاہیے تھی جس نے یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کرتے اپنی چاند جیسی رنگت نہ گنوائی ہو اور جو ڈرامے کے ٹائم پر نیوز چینل لگا کر نہ بیٹھ جاتی ہو۔
اور اب اگلے ماہ ہماری شادی ہے۔ اب ہم انتہائی فخر سے اپنی ایم اے کی ڈگری کے ساتھ خود کو میٹرک فیل بتاتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ اماں بھی غصہ نہیں کرتیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

امّی — شاکر مکرم

Read Next

سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!