آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

’’میرے بچپن میں، میری زندگی میں جتنا بڑا رول آپ لوگوں کی فیملی کا تھا، پچھلے پانچ سالوں میں اتنا ہی بڑا رول اس شخص کا ہے۔‘‘
عبداللہ نے عنایہ کو بتایا تھا۔ چند ہفتوں بعد ہونے والی اپنی منگنی سے پہلے یہ ان کی دوسری ملاقات تھی۔ عنایہ ایک سیمینار میں شرکت کے لئے کیلی فورنیا آئی تھی اور عبداللہ نے اسے ڈنر پر بلایا تھا۔ وہ اسے ڈاکٹر احسن سعد سے ملوانا چاہتا تھا جو اسی کے اسپتال میں کام کرتے تھے اور وہ ہمیشہ سے ان سے متاثر تھا۔ عنایہ نے کئی بار اس سے پچھلے سالوں میں اس شخص کے حوالے سے سنا تھا جس سے وہ اب تھوڑی دیر میں ملنے والی تھی۔
’’مسلمان ہونا آسان تھا میرے لئے… جبریل کے بعد یہ دوسرا شخص ہے جسے میں رول ماڈل سمجھتا ہوں کہ وہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔‘‘
عبداللہ بڑے جوش انداز میں عنایہ کو بتارہا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے سن رہی تھی۔ عبداللہ جذباتی نہیں تھا، بے حد سوچ سمجھ کر بولنے والوں میں سے تھا اور کسی کی بے جا تعریف کرنے والوں میں سے بھی نہیں تھا۔
’’کچھ زیادہ ہی متاثر ہوگئے ہو تم ان سے۔‘‘ عنایہ کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ وہ ہنس پڑا۔
’’تم جیلس تو نہیں ہورہی؟‘‘ اس نے عنایہ کو چھیڑا
’’ہوئی تو نہیں لیکن ہوجاؤں گی۔‘‘ اس نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مجھے یقین ہے تم ان سے ملوگی تو تم بھی میری ہی طرح متاثر ہوجاؤگی ان سے…‘‘ عبداللہ نے کہا۔ ’’میں اپنے نکاح میں ایک گواہ انہیں بناؤں گا۔‘‘
عنایہ اس بار قہقہہ مار کر ہنسی تھی۔ ’’عبداللہ، تم اس قدر انسپائرڈ ہو ان سے؟ مجھے تھوڑا بہت اندازہ تو تھا لیکن اس حد تک نہیں… مجھے اب اور اشتیاق ہورہا ہے ان سے ملنے کا۔‘‘ عنایہ نے اس سے کہا۔ ’’یقینا اچھے شوہر بھی ہوں گے اگر تم نکاح میں بھی انہیں گواہ بنانا چاہتی ہوتو۔‘‘ عبداللہ کو مزید تجسس ہوا تھا۔
’’بس اس ایک معاملے میں خوش قسمت نہیں رہے وہ۔‘‘ عبداللہ یک دم سنجیدہ ہوگیا۔ ’’اچھی بیوی ایک نعمت ہوتی ہے اور بری ایک آزمائش… اور انہیں دوبار اس آزمائش سے گزرنا پڑا۔ ان کی نرمی اور اچھائی کا ناجائز فائدہ اٹھایا ان کی بیویوں نے۔‘‘ عبداللہ کہہ رہاتھا۔
Ohhh! that’s sad. عنایہ نے کریدے بغیر افسوس کااظہار کیا۔
’’تمہیں پتا ہے تم سے شادی کے لئے بھی میں نے ان سے بہت دعا کروائی تھی اور دیکھ لو، ان کی دعا میں کتنا اثر ہے ورنہ تمہارے پیرنٹس آسانی سے ماننے والے تو نہیں تھے۔‘‘ عبداللہ اب بڑے فخر یہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’میرے پیرنٹس کسی کی دعاؤں کے بجائے تمہارے کردار اور اخلاص سے متاثر ہوئے ہیں عبداللہ۔‘‘ عنایہ نے اسے جتایا۔
اسے اپنی بے یقینی کا وہ عالم ابھی بھی یاد تھا جب چند مہینے پہلے عبداللہ سے پاکستان میں ملنے کے بعد امامہ نے اسے فون کیا تھا اور اسے بتایا تھاکہ انہوں نے اس کا رشتہ امریکہ میں مقیم ایک ہارٹ سرجن کے ساتھ طے کردیا ہے، وہ کچھ دیر کے لئے بھونچکارہ گئی تھی۔ اس سے پہلے جو بھی پروپوزلز اس کے لئے زیر غور آتے تھے، عنایہ سے مشورہ کیا جاتا تھا اور پھر اسے ملوایا جاتا تھا۔ یہ پہلا پروپوزل تھا جس کے بارے میں اسے اس وقت اطلاع دی جارہی تھی جب رشتہ طے کردیا گیا تھا۔ عجیب صدمے کی حالت میں اس نے امامہ سے کہا تھا۔
’’مگر ممی! آپ کو مجھے پہلے ملوانا چاہیے تھا اس سے… اس کے بارے میں مجھ سے کچھ پوچھا تک نہیں آپ نے۔‘‘
’’تمہارے بابا نے بات طے کی ہے۔‘‘ امامہ نے جواباً کہا۔عنایہ خاموش ہوگئی۔ عجیب دھچکا لگا تھا اسے۔
’’تم نہیں کرنا چاہتیں؟‘‘ امامہ نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، میں نے ایسا تو نہیں کہا، پہلے بھی آپ لوگوں ہی کو کرنا تھا تو ٹھیک ہے۔‘‘
عنایہ نے کچھ بجھے دل کے ساتھ کہا تھا۔ اسے عبداللہ یاد آیا تھا اور بالکل اسی لمحے امامہ نے اس سے کہا۔
’’عبداللہ نام ہے اس کا۔‘‘ نام سن کر بھی لحظہ بھر کے لئے بھی اسے خیال نہیں آیا تھا کہ وہ ایرک عبداللہ کی بات کررہی تھی۔ امامہ اس قدر کٹر مخالف تھی ایرک عبداللہ سے شادی کی کہ عنایہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ جس عبداللہ کا اتنے دوستانہ انداز میں ذکر کررہی تھی، وہ وہی تھا۔
’’اوکے ۔‘‘ عنایہ نے بمشکل کہا۔




’’تم سے ملنا بھی چاہتا ہے۔ وہ نیویارک آیا ہوا ہے، میں نے اسے تمہارا ایڈریس دیا تھا۔‘‘ امامہ کہہ رہی تھی۔
عنایہ نے بے ساختہ کہا۔ ’’ممی پلیز، اب اس طرح میرے سرپرمت تھوپیں اسے کہ آج مجھے رشتہ طے ہونے کی خبر دے رہی ہیں اور آج ہی مجھے اس سے ملنے کا بھی کہہ رہی ہیں۔ ویسے بھی اب رشتہ طے ہوگیا ہے، ملنے نہ ملنے سے کیا فائدہ ہوگا۔‘‘ ا س نے جیسے اپنے اندر کا غصہ نکالا تھا۔
’’اس کی فیملی بھی شاید ساتھ ہو… اس کی ممی سے بات ہوئی ہے میری… اگلے ٹرپ پر میں بھی ملوں گی اس کی فیملی سے… منگنی کافارمل فنکشن تو چند مہینوں بعد ہوگا۔‘‘ امامہ نے اس طرح بات جاری رکھی تھی جیسے اس نے عنایہ کی خفگی کومحسوس ہی نہیں کیا تھا۔
عنایہ صدمہ کی کیفیت میں اگلے ایک گھنٹے تک وہیں بیٹھی رہی تھی اور ایک گھنٹے کے بعد اس کے دروازے پر بیل بجنے پر اس نے جس شخص کو دیکھا تھا، اسے لگا تھا سردیوں کے موسم میں ہر طرف بہار آگئی ہے۔ گلاب کا ایک اور اد ھ پھول ٹہنی سمیت اسے پکڑاتے ہوئے دروازے پر ہی اس نے عنایہ سے پھاوڑا مانگا تھا تاکہ اس کے دروازے کے باہر پڑی برف ہٹاسکے۔ وہ کئی سالوں بعد مل رہے تھے اور عنایہ کو وہی ایرک یاد تھا جو اکثر ان کے گھر میں لگے پھول توڑ توڑ کر اس کو اور امامہ کو لاکردیا تھا اور جس کا پسندیدہ مشغلہ سردیوں میں اپنے اور ان کے گھر کے باہر سے برف ہٹانا تھا۔
’’وہ یہاں ہے۔‘‘ عبداللہ کی آواز سے خیالوں سے باہر لے آئی تھی۔ وہ ریسٹورنٹ کے دروازے پر نمودار ہونے والے کسی شخص کو دیکھتے ہوئے کھڑا ہوا تھا۔ عنایہ نے گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ احسن سعد سے اس کی پہلی ملاقات تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا اس سے ہونے والا یہ سامنا اس کی زندگی میں کتنا بڑ ابھونچال لانے والا تھا۔
٭…٭…٭
سکندر عثمان ان سب کی زندگی سے بے حد خاموشی سے چلے گئے تھے۔ وہ حمین کی وہاں آمد کے دوسرے دن نیند سے نہیں جاگے تھے۔ اس وقت اس گھرمیں صرف امامہ اور حمین ہی تھے، طیبہ امریکہ میں تھیں۔
اس رات حمین، سکندر عثمان کے پاس بہت دیر تک بیٹھا رہا تھا، ہمیشہ کی طرح۔ وہ جب بھی یہاں آتا تھا ، امامہ اور ان کے لئے ہی آتا تھا۔ سکندر عثمان سے وہ سالار کے دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ انسیت رکھتا تھا اور ایسا ہی انس سکندر عثمان بھی اسے رکھتے تھے۔ الزائمر کی اس انتہائی اسٹیج پر بھی حمین کے سامنے آنے پر ان کی آنکھیں چمکتی تھیں یا کم از کم دوسروں کو لگتی تھیں۔ کچھ بھی بول نہ سکنے کے باوجود اسے دیکھتے رہتے تھے اور وہ دادا کا ہاتھ پکڑے ان کے پا س بیٹھا رہتا تھا۔ ان سے خود ہی بات چیت کی کوشش کرتا رہتا۔ خود سوال کرتا، خود جواب دیتا، جیسے بچپن میں کرتا تھااور ویسی ہی باتیں جو بچپن میں ہوئی تھیں اور تب سکندر عثمان ان کے جواب دیا کرتے تھے۔
’’دادا! بتائیں شترمرغ کی کتنی ٹانگیںہوتی ہیں؟‘‘ وہ ان کے ساتھ واک کرتے کرتے یک دم ان سے پوچھتا۔ سکندر عثمان الجھتے، شتر مرغ کی تصویر ذہن میں لانے کی کوشش کرتے ، پھر ہار مانتے۔
’’مرغ کی دو ہوں گی تو شتر مرغ کی بھی دو ہوں گی دادا… یہ تو سوچے بغیر بتادینے والا جواب تھا۔‘‘ سکندر عثمان اس کی بات پر سرہلانے لگتے۔
سکندر عثمان کی یادداشت کے دیئے، حمین سکندر نے اپنے سامنے ایک ایک کرکے بجھتے دیکھے تھے اور ایک بچے کے طور پر الزائمر کو نہ سمجھنے کے باوجود اس نے اپنے دادا کے ساتھ مل کر ان دیوں کی روشنی کوبچانے کی بے پناہ کوشش کی تھی۔
وہ کسی بھی چیز کا نام بھول جانے پر انہیں تسلی دے دیا کرتا تھاکہ یہ نارمل بات تھی… اور بھولنا تو اچھا ہوتا ہے، اسی لئے وہ بھی بہت ساری چیزیں بھولتا ہے۔ وہ بچے کی لاجک تھی اور بڑے کے سامنے لنگڑی تھی مگر سکندر عثمان کو اس عمر میں اس بیماری سے لڑتے ہوئے ویسی ہی لاجک چاہیے تھی جو انہیں یہ یقین دلا دیتی کہ وہ ٹھیک تھے، سب کچھ ’’نارمل‘‘ تھا۔
حمین ان کی بیماری کے بڑھتے جانے پر آہستہ آہستہ کرکے ان کے کمرے کی ہر چیز پر اس چیز کا نام کاغذ کی چٹوں پر لکھ کر چسپاں کردیا کرتا تھا تاکہ دادا کچھ نہ بھولیں، وہ جس چیز کو دیکھیں، اس کا نام یاد کرنے کے لئے انہیں تردد نہ کرنا پڑے۔ وہ چٹیں سینکڑوں کی تعداد میں تھیں اور اس کمرے میں آنے والے شخص کو ایک بار، سکندر عثمان کے ساتھ اس بیماری سے لڑنے والے اس دوسرے شخص کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتیں اور حمین نے اس بیماری کے سامنے پہلی بار اس دن مانی تھی جس دن سکندر عثمان اس کا نام بھول گئے تھے ۔ وہ بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔ وہ آخر اس کا نام کیسے بھول گئے تھے؟ اس وجود کا جو چوبیس میں سے بارہ گھنٹے ان کے اردگرد منڈلاتا رہتا تھا۔ اس کے سامنے کھڑے سکندر عثمان اس کا نام یاد کرتے، اٹکتے، الجھتے، ہکلاتے، گڑگڑاتے رہے اور حمین ان کی جدوجہد اور بے بسی دیکھتا رہا۔
پھر وہ بڑی خاموشی سے سینٹر ٹیبل کے پاس گھنٹے ٹیک کر بیٹھا۔ وہاں پڑی ایک اسٹک آن چٹ اس نے اٹھائی، اس پر اپنا نام لکھا اور پھر اپنے ماتھے پر اسے چسپاں کرتے ہوئے وہ سکندر عثمان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ اس وقت وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا تھااور شاید زندگی میں پہلی بار، لیکن وہ نہیں رویا تھا، اس نے جیسے سکندر عثمان کے سامنے اس بات کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بات الزائمر سے جنگ کرتے اس شخص کے لئے مذاق نہیں تھی۔ وہ اس کے نام کے اسپیلنگ کرتے ہوئے ہنس پڑے تھے اور پھر ہنستے ہنستے وہ وہیں کھڑے کھڑے اپنی مٹھیاں بھنچتے، رونے لگے تھے اور ان سے قد اور عمر میں چھوٹے حمین نے اپنی عمر سے بڑے اس بوڑھے شخص کو تھپکتے ہوئے تسلی دی تھی جو اپنی ’’نااہلی‘‘ اور ’’مجبوری‘‘ پر نادم تھا اور جو اپنے چہیتے ترین رشتے کا نام یاد رکھنے سے بھی قاصر تھا۔ ان کی بیماری نے حمین سکندر کو وقت سے پہلے میچور کردیا تھا۔ جبریل نے سالار سکندر کی بیماری کو جھیلا تھا، حمین نے سکندر عثمان کی۔ وہ اسے اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے اسے اپنی چیزیں دینا شروع ہوگئے تھے۔
’’دادا! آپ کو یہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ حمین جیسے سمجھ جاتا تھا کہ وہ بار ٹرڈیل… کس شے کے لئے تھی۔
’’میرے پاس دنیا میں جتنا وقت ہے، آپ کے لئے ہے۔‘‘
وہ جیسے انہیں یقین دلانے کی کوشش کرتا۔ وہ پھر بھی اسے کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کرتے، حمین ان کے بہت سارے رازوں سے واقف تھا۔ ان بہت ساری جگہوں سے بھی جہاں وہ اپنی قیمتی چیزیں چھپاتے تھے۔ اس پر ان کے اعتبار کا یہ عالم تھا کہ وہ ہر چیز چھپاتے ہوئے صرف حمین سکندر کو بتاتے تھے صرف اس لئے کیوں کہ انہیں یہ خدشہ تھا کہ وہ کہیں اس جگہ کو بھی بھول نہ جائیں جہاں وہ سب کچھ چھپارہے تھے اور ایسا ہی ہوتا تھا، ان کے بھولنے پر حمین انہیںوہ چیز نکال کردیتا تھا۔ وہ کمرہ جیسے ان دونوں دادا اور پوتے کے لئے چھین چھپائی والی جگہ بن گیا تھا۔
’’ایک دن تم بہت بڑے آدمی بنوگے۔‘‘سکندر عثمان اس سے اکثر کہا کرتے تھے۔ ’’اپنے بابا سے بھی بڑے آدمی۔‘‘
وہ ان کی بات غور وفکر کے بغیر سنتا لیکن بیچ میں انہیں ٹوک کر پوچھتا۔
’’خالی بڑا آدمی بنوں گا یا rich ؟ بابا تو rich نہیں ہیں۔‘‘ اسے جیسے فکر لاحق ہوئی سکندر عثمان ہنس پڑے۔
’’بہت امیر ہوجاؤگے… بہت زیادہ۔‘‘
’’ پھر ٹھیک ہے۔‘‘ اسے جیسے اطمینان ہوتا۔ ’’لیکن آپ کو کیسے پتا؟‘‘ اسے یک دم خیال آیا۔
’’کیوں کہ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘ سکندرعثمان بڑھاپے کی اس لاٹھی کو دیکھتے جو ان کے سب سے عزیز بیٹے کا ان کے لئے تحفہ تھا۔
’’اوکے۔‘‘ حمین کے ذہن میں مزید سوالات آئے تھے لیکن وہ دادا سے اب بحث نہیں کرتا تھا۔
’’میں تم پر دنیا میں سب سے زیادہ اعتماد کرتا ہوں۔‘‘ وہ اکثر اس سے کہا کرتے تھے اور وہ بڑی سنجیدگی سے ان سے کہتا۔
’’اور آپ واحد انسان ہیںجو یہ کام کرتے ہیں۔‘‘ اور عثمان جواباً کسی بچے کی طرح ہنسنے لگتے تھے۔
’’جب میں اس دنیا سے چلا جاؤں گا تو یہ رنگ تم امامہ کو دے دینا۔ ‘‘ اعتماد کے ایسے ہی یک لمحے میں انہوں نے حمین کو وہ انگوٹھی دکھائی تھی، جسے وہ کئی سال اپنی ماں کی انگلی میں دیکھتا رہا تھا۔
’’یہ تو ممی کی رنگ ہے۔‘‘ حمین جیسے چلایا تھا۔
’’ہاں تمہاری ممی کی ہے… سالار نے شادی پر گفٹ کی تھی اسے… پھر وہ اسے بیچ کر سالار کے سارے پراجیکٹ میں کچھ انویسٹمنٹ کرنا چاہتی تھی، تو میں نے اسے لے کر اسے وہ رقم دے دی۔ میں اسے واپس کردوں گا تو وہ نہیں لے گی اور میں نہیں چاہتا، وہ اور سالار اسے بیچ کر میرا قرض واپس دینے کی کوشش کریں۔‘‘
سکندر عثمان بتاتے گئے تھے۔ انہوں نے اسے ایک تھیلی میں ڈال کر اپنی وارڈ روب کے ایک چور خانے میں حمین کے سامنے رکھا تھا۔ وہ چور خانہ حمین نے بھی پہلی بار ہی دیکھا تھا۔
’’آپ اسے لاکر میں کیوں نہیں رکھوا دیتے؟‘‘ اس نے سکندر عثمان کو مشورہ دیا تھا۔ وہ مسکرادیئے تھے۔
’’میرے مرنے کے بعد لاکر سے جو کچھ بھی نکلے گا، وہ ساری اولاد کی مشترکہ ملکیت ہوگا۔ کوئی یہ امامہ کونہیں دے گا۔‘‘ سکندر نے کہا۔
’’لیکن آپ Will میں لکھ سکتے ہیں۔‘‘ سکندر اس کی بات پر ہنس پڑے تھے۔
’’میری اولاد بہت اچھی ہے لیکن میں زندگی میں ان سے بہت ساری باتیں نہیں منواسکتا تومرنے کے بعد کیسے منوا سکوں گا، جب تمہاری اولادہوگی تو تمہیں سمجھ آجائے گی میری باتوں کی۔‘‘ انہوں نے جیسے بڑے پیار کے ساتھ اس سے کہا تھا۔
سکندرعثمان کی موت کے ایک ہفتے کے بعد اس گھر میں ان کی اولاد ترکے کی تقسیم کے لئے اکٹھی ہوئی تھی اور حمین سکندر کی سمجھ میں وہ بات آگئی تھی… سکندر عثمان اپنی زندگی میں ہی سب کچھ تقسیم کرچکے تھے۔ انہوں نے اپنے پاس صرف چند چیزیں رکھی تھیں جن میں وہ گھر بھی تھا، لیکن ان چند چیزوں کی ملکیت پر بھی سب میں کچھ اختلاف ہوگئے تھے اور یہ اختلاف بڑھ جاتے اگر سالار سکندر اور اس کا خاندان سکندر عثمان کے رہ جانے والے اثاثوں پر اپنے حصے کے حوالے سے کلیم کرتا۔ وہ ان کے خاندان کا مشترکہ فیصلہ تھا۔
سکندر عثمان کے بچنے والے اثاثوں میں سے سالار سکندر اور اس کے خاندان نے کچھ نہیں لیاتھا۔ البتہ سکندر عثمان کا وہ گھر حمین سکندرنے خرید نے کی آفر کی تھی کیونکہ طیبہ پہلے بھی زیادہ تر اپنے بیٹوں کے پاس بیرون ملک رہتی تھیں اور اب مستقل طور پر ان کے پاس رہنا چاہتی تھیں اور ان کے وہاں سے شفٹ ہوجانے کے فیصلے کے بعد اس گھر کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس فیصلے کے دوران کسی نے امامہ کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ سالار سکندر اور اس کے اپنے بچوں کے علاوہ جنہیں یہ احساس ہورہا تھا کہ سکندر عثمان کے چلے جانے کے بعد اس گھر کے رہنے سے ایک شخص ایک بار پھر دربدر ہونے والا تھا۔ حمین نے اس گھر کو صرف امامہ کے لئے خریدا تھا اور ان یادوں کے لئے جو ان سب کی اس گھر سے وابستہ تھیں اور اس نے جس قیمت پر اسے خریدا تھا، وہ مارکیٹ سے دوگنی تھی۔
٭…٭…٭
’’ممی! مجھے آپ کو ایک امانت دینی ہے۔ ‘‘ حمین رات کو سالار اور امامہ کے کمرے میں آیا تھا۔ وہ صبح واپس جارہا تھا۔ باری باری … سب ہی واپس جارہے تھے۔ سالار اور وہ دونوں کچھ دیر پہلے ہی کمرے میں آئے تھے، جب وہ دستک دے کر ان کے کمرے میں آیا تھا۔
’’امانت؟‘‘ وہ کچھ حیران ہوئی تھی۔ حمین نے ایک تھیلی اس کے ہاتھ پر رکھی اور اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کچھ حیران ہوتے ہوئے پہلے حمین پھر سالار کو دیکھا جو فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔
’’آپ خود دیکھ لیں۔‘‘ حمین نے اسے کہا، امامہ نے تھیلی میں ہاتھ ڈال کر اندر موجود چیز نکالی اور ساکت رہ گئی۔
فون پر بات کرتا سالار بھی اسی طرح ٹھٹکا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ دونوں اس انگوٹھی کو سیکنڈز میں نہ پہچان جاتے جو ان کی زندگی کی بہترین اور قیمتی ترین یادوں میں سے ایک تھی۔
’’یہ تمہیں کہاں سے ملی؟‘‘ امامہ نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا تھا۔ سالار نے فون منقطع کردیا تھا۔
’’دادا نے بچپن میں میرے سامنے وارڈروب میں ایک دراز میں رکھتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اگر وہ اسے بھول جائیں تو ان کے مرنے کے بعد میں اسے وہاں سے نکال کر آپ کو دے دوں؟‘‘ حمین کہہ رہا تھا۔
’’وہ آپ کو یہ واپس دے دینا چاہتے تھے لیکن انہیں خدشہ تھا کہ آپ اسے نہیں لیں گی اور ایسا نہ ہو آپ اور بابا ان کا قرض ادا کرنے کے لئے اسے بیچ دیں۔‘‘
آنسو سیلاب کی طرح امامہ کی آنکھوں سے نکل اس کے چہرے کو بھگوتے چلے گئے۔ سکندر عثمان ہمیشہ اس کا بہت شکریہ ادا کرتے رہتے تھے لیکن اس تشکر کو انہوں نے جس طرح اپنے جانے کے بعد اسے پہنچایا تھا، اس نے امامہ کو بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ وہ ایک شفیق سسر تھے۔
’’تم نے پہلے کبھی بھی اس رنگ کے بارے میں ذکر نہیں کیا۔‘‘ سالار نے اپنے سامنے بیٹھے اپنے اس بیٹے کو دیکھا جو آج بھی ویسا ہی عجیب اور گہرا تھا جیسا بچپن میں تھا۔
’’میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں کبھی کسی کو اس انگوٹھی کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔ یہ ایک امانت تھی، میں خیانت نہیں کرسکتا تھا۔‘‘ اس نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ باپ سے کہا اور پھر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ہموار قدموں سے چلتا ہواوہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ وہ دونوں تب تک اسے دیکھتے رہے جب تک وہ غائب نہیں ہوگیا۔
’’میں یہ انگوٹھی حمین کی بیوی کو دوں گی۔ اس پر اگر کسی کا حق ہے تو وہ حمین کا ہے۔‘‘ اس کے جانے کے بعد امامہ نے مدھم آواز میں سالار سے کہا تھا۔ وہ انگوٹھی ابھی بھی اس کی ہتھیلی پر تھی جسے وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ دیکھ رہی تھی، کئی سالوں کے بعد، کئی سال پہلے کی ساری یادیں ایک بار پھر زندہ ہوگئی تھیں۔
سالار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس نے امامہ کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی لی اور بڑی نرمی سے اس کی انگلی میں پہنادی۔ اس کی مخروطی انگلی میں آج بھی بے حد آسانی سے پوری آگئی تھی۔
’’تمہارا بہت شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا میں امامہ۔‘‘ اس نے امامہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ’’تم نے پاپا کی جتنی خدمت کی ہے، وہ میں نہیں کرسکتا تھا نہ ہی میں نے کی ہے۔‘‘
’’سالار!‘‘ امامہ نے اسے ٹوکا تھا۔ ’’تم مجھے شرمندہ کررہے ہو۔‘‘
’’مجھے اگر زندگی میں دوبارہ شریک حیات کا انتخاب کرنے کا موقع ملے تو میں آنکھیں بند کرکے تمہیں چنوں گا۔‘‘
وہ نم آنکھوں کے ساتھ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے اس نے ہاتھ کی پشت پر سجی اس انگوٹھی کو دوبارہ دیکھا۔ سولہ سال کی جدائی تھی جو اس نے اس گھر میں سالار سے الگ رہ کر جھیلی تھی۔ وہ تب چند سال یہاں گزارنے آئی تھی اور تب وہ جیسے تلوار کی ایک دھار پر ننگے پاؤں چل رہی تھی۔ وہ سکندر عثمان کا خیال رکھتے ہوئے دن رات سالار کے لئے خوف زدہ رہتی تھی اور اس نے سالار کو یہ نہیں بتایا تھا مگر اس نے یہ دعا کی تھی تب کہ اگر سکندر عثمان کی خدمت کے عوض اسے اللہ نے کوئی صلہ دینا تھا تو وہ سالار سکندر کی زندگی اور صحت یابی کی شکل میں دے دے اور آج سولہ سال بعد اسے لگتا تھا شاید ایسا ہی ہوا تھا۔ اس کی زندگی کا وہ سولہ سال بالآخر ایک بار پھر سے سالار اور اپنے بچوں کے ساتھ مستقل طور پر امریکہ جاکر رہ سکتی تھی۔ بے شک وہ اپنے رب کی کسی بھی نعمت کا شکریہ ادا کرسکتی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!