سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

’’ کل پہلا روزہ ہے نا امی‘‘ رات کو کھانے کی میز پر اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔
’’ہاں‘‘ امی نے تائید کی۔
’’ اس میںاتنا خوش ہونے والی کیا بات ہے ؟‘‘ وسیم نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا۔
’’روزہ خوشی کا ہی تو نام ہے وسیم…کتنا پیارا پیارا سماں ہوتا ہے۔‘‘
’’خاک سماں ہوتا ہے دن بھر پیاسے پھرتے رہو یہ آپ کو مبارک ہو۔ میری اپنی مرضی کہ میں روزہ رکھوں یا نہ رکھوں …‘‘ وہ بے رخی سے بولا۔
’’ تم اس بار بھی روزے نہیں رکھو گے کیا؟‘‘ اس نے چونک کروسیم سے پوچھا۔
’’ ہاں …تو اور کیا اتنی گرمی میں کون بھوکا پیاسا رہے؟‘‘ وہ طنزیہ ہنس دیا۔
’’ روزے میں صبر اللہ پاک دیں گے تم ایک بار ہمت تو کر کے دیکھو۔‘‘ اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’چھوڑو سارہ …کیوں اُلجھ رہی ہو… تم کھانا کھاؤ بس…‘‘ امی نے کہا۔
’’امی آپ اسے سمجھا لیں۔‘‘ وسیم نے بے رخی سے کہا
’’امی سب آپ کی غلطی ہے ،آپ نے اسے ہمیشہ لاڈ دیا ،گرمی لگ جائے گی روزہ نہ رکھنا اب اس کی عادت بن گئی۔‘‘ وہ ناگواری سے بولی۔
’’ ہاں ہاں ہر جگہ میں ہی غلط ہوں ، سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے اتنی گرمی میں کیسے رکھے روزے…خود تو تم کالج سے آکر سوئی رہتی ہو اور خبر نہیں ہوتی۔‘‘ امی نے اسے ڈانٹا تھا، وسیم فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا اور سارہ اب نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
’’ امی دکان پر بیٹھنے سے کون سی لو لگ جاتی ہے اسے۔‘‘
’’ اچھا اب بس کر‘‘ امی نے غصے سے کہا۔
’’ یا اللہ تو ہی انہیں کچھ بتا ناں۔‘‘ اس نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں شرم ہے کچھ سارہ۔‘‘ امی نے غصیلے انداز میں آواز بلند کی۔
’’ کس بات کی شرم امی؟‘‘





’’ یوں اللہ سے بات کرنا شروع ہو جاتے ہیںکیا؟‘‘ امی نے غصے سے کہا۔
’’کیوں، کیا ہوا امی؟میں نے اللہ ہی سے کہا ہے وہ میرے پاس ہے ہر وقت ،میں جب چاہوں اس سے کہہ سکتی ہوں ۔‘‘ اس نے شائستگی سے مُسکرا کر کہا۔
’’ ایسے ہی نہیں شروع ہو جاتے۔اچھا نہیں ہوتا دوبارہ نہ کہنا۔تمہیں میں نے کئی بار سنا ہے یوں۔ یہ سب ٹھیک نہیں ۔‘‘
’’ اچھا! تو پھر کیسے بات کروں اللہ سے امی۔‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ کچھ آداب ہوتے ہیں کچھ سلیقے ہیں دعا مانگنے کے۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ امی! دعا مانگنے کے سلیقے ہوں گے، مگر بات کرنے کے نہیں۔اس سے بات کرنے کے لیے مصلے مسجد یا کسی درگاہ کا ہونا ضروری نہیں ، وہ تو ہر جگہ موجودہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔امی اس کی بات سن کر استغفار کرنے لگی تھیں۔
’’اللہ معاف کرے اس قدر بد تمیزی‘‘ وسیم نے امی کی بات پر اقرار کرتے ہوئے کہا۔
’’ تو تمیز وہ ہے جو تم دکھاتے ہو ، اپنی پیاس کی خاطر اس کا حکم جھٹلا دیتے ہو،نافرمانی کرتے ہو۔ امی کو مجھ میں ہی غلطیاں ملتی ہیںوہ جو اپنے لیے جہنم خرید رہا ہے وہ آپ کونظر نہیں آتا۔مجھے بٹھا دیں دکان پر میں تو کوئی روزہ نہ چھوڑوں۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بول کرکمرے میں چلی گئی۔
’’ دیکھا امی کس قدر تیز بولنے لگی ہے۔‘‘
’’ اچھا چھوڑو تم کھانا کھاؤ ویسے روزہ رکھ کر دیکھ لو ہو سکتا ہے دن اچھا ہی گزر جائے۔‘‘ امی نے پیار سے کہا۔
’’ امی آپ بھی اس کی باتوں میں آگئی ہیں۔‘‘ وہ چڑ کر نوالہ منہ سے پھینکتے ہوئے بولا۔
’’روزے فرض ہیں بیٹے۔‘‘
’’ جانتا ہوں امی…مگر مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘‘ وہ اٹھ کر چلا گیا۔
٭…٭…٭
رمضان شروع ہو چکا تھا،اس نے عشا کی نماز کے ساتھ تراویح پڑھ کر سکون حاصل کیا اور پھر قرآن کھول کر تلاوت میں مشغول ہوگئی۔رات کس قدر پُرسکون اور پُررونق تھی یہ دیکھنے والے ہی کو نظر آرہا تھا۔رحمت برس رہی تھی، مگر ہر کسی کو توفیق کہاں کہ وہ اس کی رحمتوں کو سمیٹ لے۔وہ رات بھر اللہ پاک کی عبادت کرتی رہی ۔ امی تراویح پڑھنے کے بعد سو چکی تھیں جب کہ وسیم رات بھر فلم دیکھنے میں وقت برباد کرتا رہا۔
٭…٭…٭
وہ سحری بنا کر میز پر لگا چکی تھی ۔امی کوبلانے کے لیے وہ کمرے کی طرف بڑھی تو اس کی نظر وسیم پر پڑی جو اپنے کمرے میں اوندھا لیٹا خراٹے لے رہا تھا۔
’’ کہتے ہیں رمضان میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں، مگرجب انسان خود شیطان بن جائے تو اسے جکڑا نہیں جاتا اس سے یونہی توفیق چھین لی جاتی ہے۔‘‘ وہ کھڑی دل ہی دل میں سوچ رہی تھی
امی کمرے سے باہر نکل آئیں تھیں۔ وہ متوجہ ہوئی۔
’’ امی آئیں سحری کرلیں ناں…‘‘ اس نے کہا۔
’’ آ رہی ہوں تم چلو۔‘‘
’’ امی وسیم کو جگا دوں۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔
’’ تم ایک ہی بات پر کیوں ڈٹ جاتی ہو، صبح صبح مجھ سے کچھ سن نہ لینا۔چلو…‘‘ امی نے سخت لہجے میں کہا اور کھانے کی میز کی جانب بڑھیں وہ بھی پیچھے پیچھے آگئی۔
’’ سال میں ایک مہینا روزے آتے ہیںاور وہ بھی نہیں رکھتا ،اللہ ہی اسے تو فیق دے۔‘‘ امی کے سامنے کھانا تناول کرتے ہوئے وہ بول رہی تھی
’’ ایک مہینا تو ہے، مگر شدید گرمی بھی تو دیکھو ناں۔‘‘
’’ امی ! جو اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ناں انہیں گرمی نہیں لگتی اور جو اللہ کی چاہت ٹھکرا کراپنی چاہت کے پیچھے بھاگتے ہیں ناں …وہ تڑپتے ہی رہتے ہیں ۔‘‘ اس نے بڑے تفکر سے کہا۔
’’ اچھا بس کرو سحری کرنے دو۔ کیا وہ بھی نہیں کرنے دو گی۔‘‘امی کی بات پر وہ چپ چاپ اُداس بیٹھ گئی۔
’’ سحری کرو۔کیا نہیںکرنی۔‘‘ امی نے اس کو یوں بیٹھے دیکھ کر کہا۔
’’ کرنے کو جی تو نہیں چاہ رہا، مگر کروں گی ضرور کیوں کہ میرے نبیﷺ کی سنت ہے۔‘‘ اس نے نوالہ توڑا۔
’’ صبح کالج جانا ہے کیا؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’ جی۔‘‘
’’ آج پہلا روزہ ہے جانے کتنی گرمی پڑے۔‘‘
’’ اللہ صبر دے گا امی…گرمی کو چھوڑیں یہ سوچیں رحمت کا عشرہ ہے ،پہلے عشرے کی دعا ہے ’’اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما، تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘ اللہ پاک ہماری دعا قبول کرے۔
٭…٭…٭
وہ کالج جانے کے لیے تیار تھی۔ امی وسیم کے میز پر ناشتا لگا چکی تھیں ۔ وہ لڑ کھڑاتا ہواکمرے سے نکلا، تو اسی وقت سارہ بھی کندھے پر بیگ لٹکائے نکل آئی۔
’’ جا رہی ہو کالج؟‘‘ وسیم نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں۔‘‘ اس نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔
’’ موڈ کیوں بنا ہوا ہے تمہارا؟ کیا صبح ہی صبح روزہ لگنا شروع ہو گیا۔‘‘ وسیم نے طنزیہ ہنستے ہوئے کہا۔
’’ روزہ لگتا نہیں ہوتا وسیم۔۔‘‘
’’ تو کیا چبھتا ہے؟‘‘ اُس نے پھر تمسخر اُڑایا۔
’’ روزے سے کچھ نہیں ہوتا یہ صرف تمہارے دماغ کا فتور ہے ۔‘‘
’’ اچھا اچھا جاؤ ۔ دما غ نہ کھاؤ۔‘‘ وسیم نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔
’’جا رہی ہوں۔‘‘ وہ پاؤں پٹختی چلی گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تعلیم کے گہنے ہم نے پہنے — عائشہ تنویر

Read Next

اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!