بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’تو آج آ رہے ہو نا اپنے بھائی کی منگنی پر؟‘‘برہان نے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ظہیر کو فون کیا۔
’’مبارک ہو بھائی۔بات منگنی تک جا پہنچی،ضرور آؤں گا! ‘‘برہان کی منگنی کی خبر سن کر ظہیر کو بہت خوشی ہو ئی۔برہان اسے اپنا سگا بھائی سمجھتا تھا،کیسے وہ اسے اپنی اس خوشی میں شریک نہ کرتا۔
’’ہاں یار۔اس کے گھر والے بھی اس کی طرح بناوٹ سے پاک ہیں،انہیں جیسے ہی یقین ہوا کہ میں ان کی بیٹی کے لیے درست ہوں ،تو پھر انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ دیر کس بات کی۔‘‘آج اس کے گھر میںخوب چہل پہل تھی۔ نبیہہ بیگم اور ندیم صاحب یہ فیصلہ کرنے میں مصروف تھے کہ کون سی مٹھائی جائے گی ،کتنی مقدار جائے گی،انگوٹھی کس طرز کی ہوگی،وغیرہ وغیرہ۔
برہان نے ابھی تک ممتحنہ کی تصویر اپنے گھر والوں کو نہیں دکھائی تھی۔اسے یقین تھا کہ اس کے گھر والوں کو اس کی پسند ضرور پسند آ ئے گی،وہ انہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا۔
’’تم اپنے اخبار کے انٹرٹینمٹ کے صفحے پر میری منگنی کی خبر چھاپ دو۔‘‘وہ اپنی منگنی کا فنکشن بھلے سادگی سے کر رہا تھا،پر اپنی منگنی کی خبر وہ پورے پاکستان میں پھیلا دینا چاہتا تھا،وہ نہیں چاہتا تھا کہ میڈیا اسے اور ممتحنہ کو ساتھ دیکھ کر غلط باتیں اچھالتا پھرے۔
’’اس کی تو ٹینشن ہی مت لو۔ویسے بھی آپ تو ’’دا برہان ندیم‘ ہیں جن کا اپنی ہونے والی منگیتر کے ساتھ گھومنے جانا خبر بن گیا، تو پھر یہ تو باقاعدہ منگنی ہے۔ یہ خبر تو فرنٹ پیج کی زینت بنے گی،بولڈ لیٹرز میں۔‘‘ظہیر قہقہے مارنے لگا۔
’’تمہیں یہ خبر کیسے ملی کہ میں ممتحنہ کے ساتھ گھومنے گیا تھا؟‘‘ جہاں تک برہان کا خیال تھا وہاں کوئی میڈیا والا موجود نہیں تھا ۔برہان کو یہ بات بالکل بھی اچھی نہیں لگی۔
’’میں ایک بہت بڑے اخبار کا ایڈیٹر ہوں برہان صاحب۔میرے مخبر پاکستان کے ہر مشہور علاقے میں چھپے ہیں اور پھر آپ تو ’دا برہان ندیم ‘ ہیں۔ آپ کی خبر ملنا کوئی بڑی بات نہیں۔‘‘وہ برہان کو اپنی اور اپنے اخبار کی اہمیت جتانے لگا۔
’’تم میرے بھائی ہو اس لیے تم سے کہہ رہا ہوں۔برا مت ماننا،تم چاہے میری کوئی بھی خبر چھاپ لو،پر میری اور ممتحنہ کی کوئی بھی خبر مجھ سے پوچھے بغیر مت چھاپنا ،پلیز۔‘‘وہ ممتحنہ کے معاملے میں بہت سین سیٹو(Sensitive)تھا۔
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر بھائی۔میں نے بالکل برا نہیں مانا۔ایک بار پھر بہت مبارک باد اپنی منگنی پر۔‘‘اور پھر دونوں نے فون رکھ دیا۔
ظہیر کا فون بند ہوتے ہی برہان کے موبائل پر ’محمود علی کالنگ‘ کے الفاظ جگمگانے لگے۔
’’سلام محمود صاحب، کیسے یاد کیا؟‘‘اس نے بڑے خوش گوار موڈ میں سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام۔کیا بات ہے؟آواز بتا رہی ہے کہ آج برہان ندیم کا دل باغ باغ ہوا ہے،کیوں؟‘‘کافی عرصے سے محمود علی اس کے ساتھ کام کر رہا تھا،اسے وہ اچھی طرح پہچان گیا تھا۔
’’اس دل کو باغ باغ اسی نے کیا ہے جس نے آپ کے لان کو ایک حسین باغ بنا دیا تھا۔آج منگنی ہے میری ممتحنہ کے ساتھ۔‘‘وہ کھل کر اپنے دل کا حال بیان کرنے لگا۔
’’مبارک ہو بہت۔سن کر خوشی ہوئی۔‘‘ وہ خوشی رسمی تھی۔اصل میں تو محمود علی حیال کے ساتھ ہی برہان کو دیکھنا چاہتا تھا۔
’’خیرمبارک۔‘‘
’’میں نے تمہیں یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ ہماری فلم کی شوٹنگ اگلے ہفتے سے شروع ہے،فلم کا ایک حصہ کراچی میں شوٹ ہوگا اور دوسرا دبئی میں۔آج تمہیں بور نہیں کروں گا۔اسکرپٹ اور باقی تمام تفصیلات کل تمہارے گھر پہنچادوں گا۔Enjoy your day،اللہ حافظ۔‘‘برہان کو شوٹنگ کی تاریخ سے آگاہ کرنے کے بعد اس نے فون رکھ دیا۔
٭…٭…٭





’’یا اللہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟میری بھی تو برابر کی محنت ہوتی ہے۔ پھر میری محنت کا پھل وہ کیوں لے اڑتی ہے؟قسمت اس پر اتنی مہربان کیوں ہے؟اسے مقبولیت بھی ملی اور برہان ندیم جیسے اداکار کی سچی محبت بھی،پر میرے نصیب میں کیا آیا؟کچھ بھی تو نہیں۔‘‘وہ تیز آواز میں موسیقی لگا کر گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی۔
’’مجھے محبت نہیں چاہیے تھی،مجھے صرف میری محنت کا پھل چاہیے تھا،پر و ہ مجھے جائز طریقے سے نہیں ملا۔ اس لیے میرے اللہ تو مجھے معاف کر دینا،میں کچھ غلط کرنے نہیں جا رہی،بس اپنی محنت کا پھل پانے کے لیے غلط راستے کا انتخاب کر رہی ہوں۔‘‘
اور بالآخر وہ اس جگہ پر آپہنچی جہاں ہر وہ انسان آتا ہے جو حسد کی آگ میں جھلساہوا ہو،جہاں ہر وہ انسان آتا ہے جسے اپنا مقصد حاصل کرنا ہو،ہر ناجائز طریقے سے،جہاں ہر وہ مسلمان آتا ہے جس کا ایمان اللہ پر سے اٹھ جاتا ہے،جہاں ہر وہ مسلمان آتا ہے جو خدا سے نا امید ہو کر شیطان سے مانگنے لگتا ہے۔ہاں! وہ سفلی عامل کے پاس آ پہنچی تھی۔
اس نے اندر داخل ہونے سے پہلے ہزار بار سوچا کہ کیا وہ غلط کر رہی ہے؟ دل اور دماغ دونوں نے کہا کہ وہ اسلام سے خارج ہونے جا رہی ہے۔ پر تھوڑی دیر بعد اسے اپنا مقصد نظر آنے لگا۔مانا کہ جائز مقصد حاصل کرنے کے لیے انسان کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے،پر وہ ساری حدیں پار کی ہوتی ہیں،مگر وہ تو ایمان کے دائرے ہی سے خارج ہونے جا رہی تھی۔
’’سلام بابا جی۔‘‘ وہ چہرہ وحشت سے بھرا تھا۔کچھ اتنا کہ اس کے پاس سلام کا جواب دینے کا بھی وقت نہ تھا۔
’’مسئلہ بتا۔‘‘اس کے یہاں کسٹمرز کا کافی ہجوم تھا۔ غلاظت اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہی تھی۔اس نے زارا کے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔
’’محنت میری بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس کی،پر ساری کی ساری تعریفیں و ہ اپنے حصے میں لے جاتی ہے۔مجھے تو وہ اپنا نوکر سمجھتی ہے۔میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ اس کے حصے کی تعریفیں میرے حصے میں آ جائیں،اس کے ساتھ بھی وہی ہو جو میرے ساتھ ہوا ہے۔محنت وہ کرے اور پھل میں لے اڑوں۔‘‘وہ جلد بازی میں بابا کو سارا مسئلہ بتانے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا مقصد بھی۔
’’کام ہو جائے گا۔اس کی ماں کے نام کی ضرورت پڑے گی۔کل بیس ہزار روپے لے کر آجانا،میں کام شروع کر دوں گا۔اگر تیرا کام نہ ہوا ،تو تیرے پیسے واپس۔‘‘وہ واقعی بہت پہنچا ہوا سفلی عامل تھا۔زارا نے انٹرنیٹ پر اس کے متعلق کافی تحقیقات کی تھیں۔
’’جی بابا۔‘‘اور وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
٭…٭…٭
’’میں تو آپ کا دیوانہ ہوں حیال صاحبہ۔آپ کے حسن پر تو دنیا مرتی ہے پر میں آپ کے حسن کو دیکھ کر جی اٹھتا ہوں۔‘‘محمود علی کی فلم کی شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے نمیر علی نے حیال سے ملاقات کرنا چاہی۔
’’ہونہہ۔‘‘ وہ ہر ایک سے اپنی تعریفیں سن سن کر جیسے بے زار سی ہو گئی تھی۔
’’سنا ہے بہت خواہش ہے آپ کو میرے ساتھ کام کرنے کی؟‘‘ حیال نے کا ک ٹیل کا ایک سپ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’جی! وہ تو ہے۔میں آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں۔بس یہی چاہتا ہوں کہ برہان ندیم کی طرح میں بھی آپ کے ہر پراجیکٹ میں آپ کے ساتھ کام کروں۔آپ کی صحبت میں رہ کر تو وہ آسمان کا سب سے زیادہ چمکتا ہوا ستارہ بن گیا،ہمیں بھی آسمان کا ستارہ بننے کا موقع دے کر دیکھیے،آپ ہمارے کام سے بہت متاثر ہوں گی۔‘‘وہ تو جیسے اس کا دیوانہ تھا،پر حیال اتنا عرصہ میڈیا میں کام کرنے کے بعد اتنا ضرور سمجھ گئی تھی کہ وہ اسے صرف اپنی کام یابی کی طرف جانے والی سیڑھی سمجھ رہا ہے۔ پر وہ بھی حیال طاہر تھی،دوسروں کو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے سیڑھی بنانے کے فن میں اسے کمال حاصل تھا۔
’’میرے ساتھ بڑے بڑے کام کرنے کے لیے تمہیں میرے چھوٹے چھوٹے کام کرنا ہوں گے۔‘‘وہ اسے آفر دینے لگی۔
’’آفر منظور ہے۔‘‘نمیر نے سوچنے کے لیے ایک لمحہ بھی انتظار نہ کیا۔
’’ایسے بڑے بڑے ڈائریکٹرز ،بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام دلاؤں گی کہ سوچ ہے تمہاری۔کام کے بارے میں تمہیں تفصیلات فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی پتا چل جائیں گی۔‘‘حیال نے نمیر علی کو نہال کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنا مقصد پورا کرنے کا سامان بھی کر لیا۔
٭…٭…٭
وہ پارلر تیار ہونے نہیں،صرف مہندی لگوانے گئی تھی۔عنایہ بیگم اور حار ث نے بہت اصرار کیا کہ پارلر جا ہی رہی ہو تو تھوڑا بہت تیار بھی ہو جانا پر اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا ۔
’’تیار ایک ہی دن ہوں گی، وہ بھی جم کے اور وہ دن میری شادی کا ہوگا۔‘‘اسے میک اپ کرنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا اور اس نے یہ طے کر لیا تھا کہ اگر وہ تیار ہو گی بھی تو محض اپنی شادی والے دن۔
وہ مہندی والے ہاتھ لیے،جن کے بازوؤں تک باریک اور نہایت نفاست کے ساتھ مہندی لگی ہوئی تھی،اپنے کمرے میں آ گئی۔
’’تم نے اپنے مہندی والے ہاتھوں پر میرا نام لکھوایا؟‘‘اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی برہان ندیم کا فون آگیا۔ پارلر سے آتے آتے اس کی مہندی خشک ہو چکی تھی،اس نے بہ آسانی برہان کا فون ریسیو کر کیا۔
’’نہیں۔‘‘اس نے ہوش و حواس کے ساتھ جواب دیا۔
’’کیوں؟‘‘برہان افسردہ ہو گیا۔
’’مہندی تو ہاتھوں سے مٹ ہی جاتی ہے،بہت زیادہ کتنے دن قائم رہے گی؟پانچ دن؟دس دن؟پھر اسے مٹنا ہی ہوگا۔پھر میں ایسی تختی پر کیسے آپ کا نام لکھواتی جس پر لگی سیاہی کو مٹ ہی جانا ہے؟‘‘وہ اسے اپنے ہاتھوں پر اس کا نام نہ لکھوانے کی دلیل پیش کرنے لگی۔
’’تو پھر کس تختی پر محبوب کا نام لکھا جاتا ہے؟‘‘وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔
’’محبوب کا نام تو اس تختی پر لکھا جاتا ہے جہاں غیروں کی نظر نہ پڑ سکے اور وہاں میں آپ کا نام بہت پہلے ہی لکھوا چکی ہوں۔‘‘ہاتھوں پر نام نہ لکھوانے کی ناراضی وقتی تھی پر دل پر نام ہمیشہ کے لیے لکھوانے کی خوشی جاوداں تھی۔
’’ہونہہ۔ پر اگر رسماً ہی لکھوا لیتی تو کیا ہوجاتا؟سنا ہے عاشق کا اپنے محبوب کے مہندی والے ہاتھوں میں اپنانام ڈھونڈ لینا اس کا کمال ہوتا ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کی کہی بات سمجھ چکا تھا پھر بھی چاہتا تھا کہ وہ رسماً ہی سہی، اپنے ہاتھوں پر اس کا نام لکھوا لے۔
’’محبوب کے ہاتھوں میں لگی مہندی پر اپنا نام ڈھونڈناکمال نہیں ہوتا برہان،اس کے چہرے پر لکھے اپنے نام کا نظر آنا کمال ہوتا ہے۔وہ اس لیے کیوں کہ اس نام کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کی نہیں،محبت جیسی بینائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘برہان اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھنے لگا ،اسے اتنی سمجھ دار منگیتر جو ملنے والی تھی۔
’’صحیح کہہ رہی ہو تم۔تو پھر تیار رہنا،میں نکل رہا ہوں۔‘‘ وہ تو ایسے بول رہا تھا جیسے برات لے کر آ رہا ہو اور وہ اپنے گھر سے رخصت ہونے لگی ہو۔
ایک گھنٹا گزرا ہی تھا کہ ممتحنہ کو اپنے کمرے میں ہارن کی آواز سنائی دی۔لڑکے والے آ چکے تھے۔اس نے زارا کو کتنی بار فون کیا پر اس نے اس کی ایک کا ل کا بھی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔اس نے زارا کی لینڈ لائن پر فون کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’کوئی لینا دینا نہیں ہے میری بیٹی کا تم سے،سمجھیں! بہت اچھا کیا تم نے اس کے ساتھ۔آئندہ میری بیٹی کے موبائل پر یا لینڈ لائن پر فون مت کرنا۔خدا حافظ۔‘‘ لینڈ لائن پر فون کرتے ہی سمیہ بیگم کی جانب سے اسے بہت تلخ جواب ملا۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ آخر ایک دن میں ایسا کیا ہو گیا جو زارا اس سے اتنی لاتعلق ہو گئی۔اس نے سر جھٹک کر اپنی زندگی کے اہم دن کو کھل کر جی لینے کا فیصلہ کیا۔
میرون رنگ کا ڈائینسٹی(Dynasty)کا کرتہ پہنے وہ شہزادے کے طرح اپنے گھر والوں کے ہمراہ ممتحنہ کے گھر داخل ہوا۔وہ اپنی نظریں اِدھر اُدھر دوڑانے لگاپر اسے حارث اور عنایہ بیگم کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آیا۔ بے چارا عاشق۔
ایک دوسرے کے گھر والوں سے سلام دعا ہونے کے بعد حارث اور عنایہ بیگم نے مہمانوں کو لاؤنج میں بٹھایا۔
’’کب آؤ گی کمر ے سے باہر؟ Me waiting‘‘ براجمان ہوتے ہی برہان واٹس ایپ پر اپنی ہونے والی منگیتر کے ساتھ چیٹنگ کرنے میں مصروف ہو گیا۔ظہیر بھی ساتھ آیا تھا،وہ اسے دیکھ کر سمجھ گیا کہ برہان سے مزید انتظار نہیں ہورہا۔
’’آ جاؤں گی۔ Have patience۔‘‘ جتنی تیزی سے برہان نے پیغام ٹائپ کیااتنی ہی پھرتی سے ممتحنہ کا جواب موصول ہوا۔
دونوں گھر والوں کی مفصل سی گفت گو کے بعد بالآخر نبیہہ بیگم نے عنایہ بیگم سے کہا۔
’’ہماری ہونے والی بہو کہاں ہے؟اسے بلائیں تو سہی۔‘‘برہان کی جان میں اس وقت تک جان نہیں آنے والی تھی جب تک کہ وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لے۔اسے خلش سی ہو رہی تھی کہ ممتحنہ اس کے آس پاس ہو کر بھی اس کی نظروں سے اوجھل ہے۔
’’جی میں ابھی لے کر آتی ہوں اسے۔‘‘نبیہہ بیگم کے کہتے ہی عنایہ بیگم ممتحنہ کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
مسٹرڈ رنگ کی ٹخنوں کو چھوتی ڈیزائنر فراک،میرون پاجامہ،سر پر میرون دوپٹا اوڑھے،کمر تک آتے بالوں کی اسٹائلش سی چوٹی باندھے اور چوٹی کو آگے کی طرف کرتی وہ عنایہ بیگم کے ساتھ سیڑھیوں سے اترنے لگی۔سب کی نظریں اس پھول پر ٹھہر سی گئیں۔منگیتر صاحب کا تو بس نہیں چل رہاتھا کہ اپنی منگنی والی رات کو ممتحنہ کی رخصتی والی رات بنا دے،بھگا کر لے جائے اسے اپنے ساتھ۔
’’ماشا ء اللہ ! اللہ نظر بد سے بچائے۔میرے بیٹے کی پسند تو کافی روایتی ہے۔میں تو ابھی تک یہی سمجھ رہی تھی اس میک اپ کی دکان حیال کو ہماری بہو بنائے گا۔ پر ہمارا بیٹا تو عقل مند نکلا ندیم صاحب۔‘‘نبیہہ بیگم صاحبزادے کی پسند کی تعریف کرنے لگیں۔
’’حسن بے شک تمہارا ہو پر عقل تو مجھ پر گئی ہے ہمارے صاحبزادے کی۔‘‘ندیم صاحب کہہ بھلے نبیہہ بیگم سے رہے تھے پر نظریں سب ہی کی طرح ان کی بھی ممتحنہ پر ٹکی تھیں۔
’’ماشاء اللہ۔ یہ تو چاند کا ٹکڑا ہے۔اس کی خوب صورتی بتا رہی ہے کہ یہ کتنی خوب سیرت ہو گی۔‘‘برہان کی طرح اس کی امی بھی ممتحنہ کی سادگی پر پہلی ہی نظر میں اپنا دل ہار بیٹھیں۔
ممتحنہ اب برہان کے ابو کو سلام کہنے لگی۔
’’وعلیکم السلام۔خوش رہو۔‘‘وہ اس کے سرپر ہاتھ رکھ کر اسے دعائیں دینے لگے۔سلام دعاکے بعد سب ایک بار پھر محو گفت گو ہوئے۔
’’بھئی مان گئی۔ ایسی شہزادی تو برہان کو شوبز کیا،پوری دنیامیں کہیں نہ ملتی۔‘‘وہ اپنے بیٹے کی پسند پر رشک کرنے لگیں۔
’’میرا خیال ہے ہم منگنی کی رسم شروع کر لیں؟‘‘ نبیہہ بیگم نے حارث سے انگوٹھی کی رسم شروع کرنے کی اجازت لی۔
اب وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ۔وہ جوڑی آسمانی لگ رہی تھی،آسمانوں پر بنائی گئی دنیا کی سب سے حسین جوڑی۔پہلے ممتحنہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔انگوٹھی انگلی میں جاتے ہی جیسے ہی تالیاں بجنا شروع ہو ئیں،برہان نے ان کی آواز کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ممتحنہ سے کہہ دیا۔
’’آئی لو یو!‘‘ وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی جیسے وہ کہنا چاہ رہی ہو۔’’سب دیکھ رہے ہیں برہان۔‘‘
اب باری تھی ممتحنہ کی انگوٹھی پہنانے کی اور بالآخر اس نے بھی برہان کی انگلی میں اپنے نام کی انگوٹھی ڈال دی۔
’’آئی لو یو ٹو!‘‘اگر برہان کہہ سکتا تھا تو وہ کیوں نہیں؟ اس نے بھی شورغل کا بھرپور فائد ہ اٹھایا۔و ہ اسے آئی لو یو کہہ چکا تھا اور وہ اس کے جذبات کا جواب نہ دے کر اس کی محبت کی بے ادبی نہیں کر سکتی تھی۔
’’بھئی میرا خیال ہے کہ اب ہمیں دونوں کو تھوڑی دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دینا چاہیے۔ دونوں کا حق بنتا ہے ایک دوسرے سے باتیں کرنے کا، کیوں عنایہ بھابی؟اجاز ت ہے؟‘‘نبیہہ بیگم لڑکی والوں کے جواب کی منتظر تھیں۔
’’جی بالکل۔کیوں نہیں!‘‘جواب دینے والی عنایہ بیگم نے حارث کی طرف اک نظر دیکھا اور مان گئیں۔ حارث کے چہرے کے تاثرات بھی عنایہ بیگم کی حمایت میں تھے۔
’’ظہیر بیٹا! جاؤ دونوں کو کھلی ہوا میں چھوڑ آؤ۔‘‘ ظہیر ان دونوں کو چھت کی طرف لے جانے لگا۔
’’کیا تکلفات کرنے بیٹھ گئیں؟‘‘نبیہہ بیگم عنایہ بیگم کو کچن میں کام کرتا دیکھ کر ان کے پاس آ گئیں۔
٭…٭…٭
’’چلیں جی۔ میرا کام تو ہو گیا ،اب میں چلا۔‘‘برہان اور ممتحنہ کو چھت پر چھوڑتے ہی ظہیر وہاں سے جانے لگا۔
’’یہ آپ کے بھائی ہیں؟‘‘ ممتحنہ کو ظہیر برہان کے بھائی سے کچھ کم نہ لگا۔
’’ہاں بھائی ہی سمجھو، ویسے یہ میرا بہت پرانا دوست ہے،مجھے اداکار بنانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔اسی کے ریفرنس سے میں مختلف پروڈیوسرز ،ڈائریکٹرز سے ملا۔ بہت مشہور و معروف اخبار کا ایڈیٹر ہے۔میرے لیے بھائی سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کو ظہیر کی اس کی زندگی میں کیا اہمیت ہے،بتانے لگا۔
’’زبردست! انہیں جانے کیوں دیا آپ نے؟تعارف ہی کروا دیتے۔‘‘ممتحنہ کو ظہیر کے متعلق سن کر کافی خوشی ہوئی۔
’’یہاں موضو ع ہم ہیں یا کہ ظہیر ؟‘‘ برہان کو ڈر لگنے لگا کہ کہیں نصیب سے ملی اس ملاقات کا موضوع ظہیر ہی نہ بن جائے۔
’’ایسی کوئی بات نہیں،موضوع تو ہم ہی ہیں۔آپ پوزیسسو ہو رہے ہیں؟‘‘وہ چھت پر لگے چوڑے جھولے پر آ کر بیٹھ گئی۔
’’ہونہہ۔میں تمہارے ساتھ ہر گفت گو کی ابتدا ’ہم ‘ سے اور اختتام ’ہم‘ پر ہی کرنا چاہتا ہوں اور جس گفت گو کی ابتدا ہم سے ہو، اس کا اختتا م میں ’تم‘ پر ’مجھ‘ پر یا ’اوروں‘ پر کر کے تمہارے ساتھ ظلم نہیں کر سکتا۔‘‘وہ جھولے کے پاس آیا اسے محبت میں گفت گو کے آداب سے آگاہ کرنے لگا۔
’’بہت حسین لگ رہی ہو اور تمہارا سب سے حسین زیور جو تم ہمیشہ پہنے رہتی ہو،مجھے تمہارا وہ زیور سب سے زیادہ عزیز ہے۔خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو پر چاہے ہماری محبت کے حالات کتنے ہی حساس کیوں نہ ہو جائیں،اس زیور کو ہرگز مت گمانا، ایسا کرنا تم سے زیادہ میرے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔‘‘
وہ اسے فرصت کے ساتھ دیکھنے لگا۔اس کی آنکھوں کو ،پھر اس کے بالوں کو اور پھر اس کے ہاتھوں میں لگی مہندی کو۔مہندی پر نظر پڑتے ہی برہان نے ممتحنہ کی انگلیوں میں پہنی اپنے نام کی انگوٹھی کو دیکھا۔
’’نکاح اور منگنی میں کیا فرق ہو تا ہے ممتحنہ؟‘‘ اس کی نظر ابھی تک منگنی کی انگوٹھی پر تھی۔
’’حد ہو گئی برہان،بہت فرق ہوتا ہے۔‘‘وہ اسے اتنا بھی بے وقوف نہیں سمجھتی تھی کہ نکاح اور منگنی میں فرق نہ کر سکے۔
’’بہت فرق تو نہیں ہوتا،بس تھوڑا سا ہوتا ہے۔‘‘اس نے ممتحنہ کا انگوٹھی والا ہاتھ تھام لیا۔
’’تھوڑا سا؟وہ کیسے؟‘‘ممتحنہ کو تجسس ہوا۔
’’چاہے منگنی کی انگوٹھی ہو یا نکاح کا نکاح نامہ،فرق صرف شریعت کی بنا پر آتا ہے اور نکاح کے بعد دو محبت کرنے والوں کو ’میاں‘ اور ’بیوی‘ کا لقب دے دیا جاتا ہے ورنہ کبھی نہ ٹوٹنے والا بندھن تو دو محبت کرنے والوں کا بہت پہلے ہی جڑ چکا ہوتا ہے۔‘‘اب وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
’’ہاتھ چھوڑیں۔یہ دو دریا نہیں ہے،آپ کے سسرا ل کی چھت ہے جہاں آپ کی ساس اور سسر کبھی بھی کسی بھی وقت حاضر ہو سکتے ہیں۔‘‘ ممتحنہ برہان کے ہاتھوں کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔
’’تمہاری آنکھیں محبت کے خط کی طرح ہر لمحہ مجھے محبت کا ایک نیا پیغام بھیج رہی ہوتی ہیں۔‘‘اس نے ابھی تک ممتحنہ کا ہاتھ نہ چھوڑا۔ اسے اس وقت کسی کی بھی پروا نہیں تھی، سوائے اپنے دل کے۔
’’ اور آپ کی آنکھیں اسی خط کے جواب کی طرح ہیں، میری نظروں کے خط کا جواب مجھے دیکھتے ہی دے دیتی ہیں۔‘‘اس نے بھی صرف اپنے دل کی پروا بغیر کیے برہان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’مجھے اپنی محبت میں اس طرح قید کر لینا کہ آزادی صرف موت ہی دلا سکے۔‘‘ ممتحنہ کے لمس نے اسے اس کی قید میں ہمیشہ اسیر بن کر رہنے پر مجبور کر دیا۔
’’جہاں بات محبت کی ہو، وہاں ذکر موت کا نہیں کرتے، ایسا کرنے سے محبت کی عمر میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔‘‘وہ دونوں ایک دوسرے میں پوری طرح گم ہو چکے تھے۔
’’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اپنی نظر اتروا لینی چاہیے۔نظر بہت بری چیز ہوتی ہے،برباد کردیتی ہے۔‘‘ممتحنہ کو اچانک سے برے برے خیالات آنے لگے، وہ سہم گئی۔
’’ہماری نظر تو اتر ہی جائے گی پر میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنی محبت کی بھی نظراتروا لیں۔‘‘ اسے سب سے زیادہ ڈر اپنی محبت کو نظر لگنے کا تھا۔
’’محبت کی نظر کیسے اتاری جاتی ہے برہان؟‘‘ ممتحنہ کو تجسس ہوا۔
’’دعاؤں سے۔‘‘اب وہ اس کے ہاتھوں کو دعا والے ہاتھ کی شکل دینے لگا اور خود بھی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔
’’آؤ آج مل کر دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ!ہماری محبت کو تاقیامت سلامت رکھنا۔حاسدوں سے بچانا جو ہماری محبت کے بارے میں برا سوچتے ہیں ان کے حال پر رحم کبھی نہ کرنا اور ہماری محبت کو ہمیشہ پروان چڑھانا۔آمین۔‘‘وہ برہان کے منہ سے نکلی ہر ایک دعا کے بعد آمین کہنے لگی۔اسے دعائیں مانگنا نہیں آتی تھیں،دعائیں تو ممتحنہ کی محبت کی دین تھیں۔
عنایہ بیگم ان دونوں کو نیچے کھانے پر بلانے چھت پر پہنچیں تو ان دونوں کو دعا کرتا دیکھ کر وہ سکون کا سانس لینے لگیں۔
’’اللہ نظر بد سے بچائے اس جوڑی کو۔کتنے پیارے لگ رہے ہیں ایک ساتھ۔Made for each other، دعا کرتے ہوئے ایک تصویر تو بنتی ہے۔‘‘ایک طرف محبت کو نظر بد سے بچانے کی دعا کی جارہی تھی دوسری طرف محبت کرنے والوں کو۔اس سے پہلے کہ وہ ان کی دعا میں خلل ڈالتیں، عنایہ بیگم نے اپنے اسمارٹ فون سے ان کی دو چار تصاویر لے لیں۔
’’اگر آپ کی دعائیں ختم ہو گئی ہوں تو کیا نیچے تشریف لا سکتے ہیں؟آپ کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی عنایہ بیگم ان دونوں کے بیچ آ گئیں۔
’’جج…جی امی…آتے ہیں۔‘‘عنایہ بیگم کو اچانک چھت پر موجود پا کر ممتحنہ بوکھلا سی گئی جب کہ برہان پرسکون رہا۔
’’میں نے آپ سے کہا تھا نا کوئی آ جائے گا۔‘‘وہ اپنی امی کے پیچھے پیچھے چلتی برہان کو مدھم آواز میں ڈانٹنے لگی۔
’’دعا کرنا جرم تمہارے لیے ہوگا،میرے لیے تو عباد ت ہے اور عباد ت کرتے وقت جب رب ہمارے اتنے نزدیک ہوتا ہے،ہمارے سامنے ہوتا ہے،تو دنیا والوں سے کیا پردہ؟‘‘وہ اسے سمجھانے لگا اور سمجھایا بھی ایسا کہ ممتحنہ کا منہ خود بہ خود بند ہو گیا۔
’’آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔آج سے ممتحنہ آپ کے پاس ہماری امانت ہے۔ اسے سنبھال کر رکھیے گا کیوں کہ بہت جلد ہم اسے یہاں سے اپنے گھر لے جانے والے ہیں۔‘‘ نبیہہ بیگم جاتے جاتے عنایہ بیگم اور حارث کو آگاہ کرنے لگیں کہ وہ بہت جلد برہان کی شادی کرنے والی ہیں۔
’’آپ فکر مت کریں بھابی، ہم آ پ کی امانت کو سنبھال کر رکھیں گے۔ہمیں بھی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔آتے رہیے گا۔‘‘عنایہ بیگم رشتے داری نبھانے لگیں۔
اور پھر و ہ لوگ چلے گئے۔ممتحنہ کی زندگی کا ایک اہم دن اپنے اختتام کو پہنچا۔وہ مطمئن تھی کہ سب کچھ بہت اچھے سے ہو گیا اور اس سے کہیں زیادہ مطمئن حارث اور عنایہ بیگم تھے۔
وہ اپنے کمرے میں چلی گئی ۔فریش ہو کر جب وہ باتھ روم سے اپنے کمرے میں آئی تو اس کا موبائل بج رہا تھا۔
’’السلام و علیکم محمود علی صاحب۔ خیریت؟کوئی فلورل ارینجمنٹ کروانی ہے آپ نے؟‘‘رات کے گیارہ بجے محمود علی نے اسے فون کیا۔
’’فی الحال تو کوئی نہیں پر اب مجھے جب بھی پھولوں کی سجاوٹ کروانا ہوگی، تو سب سے پہلے آپ ہی کو یاد کروں گا۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘اسے ابھی تک محمود علی کے فون کرنے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔
’’میں نے آپ کو مبارک باد دینے کے لیے فون کیا ہے۔برہان سے منگنی بہت بہت مبارک ہو۔ میں بہت خوش ہوں آپ دونوں کے لیے۔‘‘محمود علی کے فون کرنے کی وجہ ممتحنہ کو مبارک باد دینا تھی۔
اگرچہ محمود علی کی خواہش تھی کہ برہان اور حیال شادی کے بندھن میں بندھ جائیں پر و ہ ممتحنہ سے برہان کی منگنی پر مایوس نہیں ہوا تھا۔
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ممتحنہ نے اندازہ لگا لیا کہ یقینا برہان نے ہی محمود علی کو بتایا ہو گا۔
’’میں نے آپ کی کمپنی کی ای میل آئی ڈی پر سکسیس پارٹی کی ویڈیو بھیجی تھی،وہ دیکھ لی آپ نے؟‘‘وہ بہت ہلکان ہو چکی تھی اس روز، مزید لب کشائی کرنے کے بالکل بھی موڈ میں نہیں تھی۔




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Read Next

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!