اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ میری زندگی میں اتنا سکون کس وجہ سے ہے۔ میری بیوی کی وجہ سے یامیری ماں کی وجہ سے۔ یا اس لیے کہ میں نے اپنی ماں کی فرماں برداری کی، ان کی بات مان لی۔ یا اس لیے کہ واقعی اللہ مجھ سے خوش ہو گیا تھا اور اب وہ ہمیشہ مجھے خوش رکھنا چاہتا تھا۔
میں گھر کا اکلوتا بیٹا تھا۔ میری ماں پانچ وقت کی نمازی تھی۔ ابو کبھی کبھار کے نمازی تھے ۔ ابو اونچی آواز میں ٹی وی دیکھ رہے ہوتے تو امی چھت پر جا کر نماز پڑھ لیتیں ۔ جاتے جاتے ابو کو کہتی جاتیں کہ اٹھ کر آپ بھی نماز پڑھ لیں۔بس صرف اتنا ہی۔ وہ اپنی نمازوں کا رعب نہیں جماتی تھیں۔ گھر کے ماحول میں اس وقت تو بہت سکون رہا جب تک میں بڑا نہیں ہو گیا، لیکن جیسے ہی بڑا ہوا میں نے وہ سب کرنا شروع کر دیا جو میرے دوست کرتے تھے۔ اونچی آواز سے گانے سننا۔ رات رات بھر تک جاگنا اور دن بھر سونا۔ کسی جمعے نماز کے لیے چلنے جانا لیکن ہر اتوار یاد سے کرکٹ ضرور کھیلنا۔امی بڑے تاسف سے مجھے سمجھاتیں۔ مجھے پر پھونکیں مارتیں لیکن مجھے بڑا زعم تھا کہ میں اکلوتا بیٹا ہوں۔ خوب صورت ہوں، پھر انجینئربن رہا ہوں‘ تو میں یہ سب کر سکتا ہوں۔امی کی نمازیں لمبی ہوگئیں،تہجد کی نمازوں میں سوز وگداز بڑھتا گیا ۔اب تو وہ باقاعدگی سے اشراق اور چاشت کے نوافل بھی ادا کرنے لگی تھیں۔
میں انجینئرنگ کے آخری سال میں تھا جب فرقان کی شادی طے ہو گئی۔ ہم چار دوستوں کے گروپ میں وہ اور میں ایک دوسرے سے کافی قریب تھے۔ وہ ڈاکٹر بن چکا اور اب ہائوس جاب کر رہا تھا۔ بہت اونچے گھرانے سے اس کی بیوی آئی تھی۔ سارے محلے میں دھوم سی مچ گئی تھی۔ تین دن تک تو جہیز کا سامان ہی آتا رہا تھا۔ فرقان بڑا خوش تھا۔ سلامی میں اسے کار ملی تھی۔ سارا محلہ رات دن بس اسی کی شادی کی باتیں کرتا رہتا تھا۔ فرقان بھی سینہ چوڑا کر کے ہم دوستوںمیں اپنے سسرالیوں کی باتیں کرتا تھا۔ اس کی بیوی بہت خوب صورت تھی،پھر کم عمر بھی۔ جو دیکھتا یہی کہتا ہے کہ کیا ہیرا چن کر لائی ہے فرقان کی ماں اس کے لیے۔
’’پورے ساٹھ رشتے دیکھیں تھے میری ماں نے ‘ پھر یہ ہیرا ملا ہے۔‘‘فرقان بہت فخر سے بتاتا تھا۔ وہ ایک بہت بڑے کالج سے ڈاکٹر بن کر نکلا تھا۔ اس کا مستقبل بہت روشن تھا۔ کوئی بھی اسے اپنی بیٹی دے سکتا تھا۔پتا نہیں کیوں‘ ہم جن لوگوں کی صحبت میں رہتے ہیں انہی جیسے ہو جاتے ہیں۔ مجھ بھی فرقان راجا مہاراجا لگنے لگا تھا جس کی شادی اتنے اچھے گھرمیں ہوئی اور ٹرک بھر بھر کر جہیز ملا تھا۔ گھر جا کر امی سے میں فرقان کی باتیں کرتا تو وہ حیرت سے مجھے دیکھتیں۔





’’کیسی باتیں کر رہے ہو احمد! ایسی باتیں تو عورتیں کرتی ہیں۔ بیٹا تم مرد ہو‘ تم ایسی سوچ نہ رکھو۔ ہمیں کیا لگے کتنا جہیز لائی ہے اور کتنی خوب صورت ہے۔ زندگی ان چیزوں کے سہارے نہیں گزرتی۔‘‘
’’تو کس چیز کے سہارے گزرتی ہے۔ یہی سب تو ہوتاہے زندگی میں۔‘‘ میں نے دلیل دی۔ ماں نے تاسف سے مجھے دیکھا اور بس اتنا کہا۔
’’اللہ کے بندے چیزوں کی باتیں نہیں کرتے‘ خوبیوں کی باتیں کرتے ہیں۔ اپنی سوچ بدلو۔‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایک کرکے میرے سب دوستوں کی شادیاں ہوتی رہیں۔ ایک کی وکیل کی اکلوتی بیٹی سے ہو گئی اور ایک کی بہت بڑے سرکاری آفیسر کی بھانجی سے۔کسی کو جہیز زیادہ ملا، کسی کو سلامی میں کار اور کسی کو گھر۔
سب باری باری میرا شانہ تھپکتے۔
’’تم بھی ایسے ہی اونچا ہاتھ مارنا۔ انجینئر بن رہے ہو، تمہاری تو بولی بھی اونچی لگے گی۔‘‘
پتا نہیں امی کا میری شادی کرنے کا کیا ارادہ تھا۔ ایک بار پوچھا تھا کہ کوئی لڑکی پسند ہے، تو میں انہیں بتا دوں۔ میری کوئی ایسی خاص پسند نہیں تھی۔ کلاس کی لڑکیاں تو لفٹ ہی نہیں کراتی تھیں اور جو لفٹ کراتی تھیں وہ مجھے اچھی نہیں لگتی تھیں۔ کہیں نہ کہیں میں بھی تھوڑا سا دقیانوسی تھا۔ چاہتا تھا کہ بیوی خوب صورت بھی ہو اور باحیا بھی اور میرے کالج میں لڑکیاں کچھ اور ہی مزاج کی تھیں۔ ایک دو سے ہلکی سی دوستی بھی تھی لیکن شادی تک بات نہیںپہنچ سکی تھی۔
میرا جواب سن کر امی نے ایک دن مجھے ایک تصویر لا کر دکھائی۔ لڑکی اچھی تھی ۔ زیادہ خوب صورت نہیں تھی۔ فرقان کی بیوی کے تو آس پاس کی بھی نہیں تھی۔ میرا منہ بن گیا۔
’’یہ لڑکی…اس لڑکی سے شادی کریں گی میری۔ اتنی معمولی شکل و صورت کی لڑکی کو بہو بنائیں گی اپنی۔‘‘
’’اچھی بھلی تو ہے۔ ایسی باتیں کر کے لڑکی ذات کی تذلیل نہ کرو۔‘‘
’’گزارے لائق شکل ہے اس کی۔ امی مجھے دیکھیں میں کتنا خوب صورت اور اسمارٹ ہوں۔ ایسی لڑکی سے شادی کریں گی میری؟‘‘امی ہکا بکا میری شکل دیکھنے لگیں۔
’’اللہ کی بنائی ہوئی شکلوں میں نقص نکال رہے ہو۔ اللہ کو کتنابرا لگے گا۔تجھے چیچک ہو جائے یا کوئی اور بیماری اور تیری شکل بگڑ جائے تو پھر تو کہاں کا خوب صورت رہے گا۔ میرے لال اگر تو خوب صورت پیدا ہوا ہے، تو اس میں تیر ا کیا کما ل ہے۔ یہ تو اللہ کی مرضی تھی۔ ایسے ہی اللہ نے اپنی مرضی سے اپنے باقی بندوں کی صورت بھی بنائی ہے۔ ‘‘میں شرمندہ ہوگیا۔نظریں چرانے لگا۔
’’امی پھر بھی۔کوئی اور دیکھ لیں۔‘‘
’’میرے بیٹے اچھی بھلی صورت میں کیڑے نکالو گے، تو بڑے ہی کم ظرف اور تنگ دل کہلائو گے۔اللہ کو ایسا دل پسند نہیں ہوتا جو اس کے بندوں کے لیے تنگ ہوتا ہے۔‘‘
اب میں امی کو صاف انکار نہیں کر سکا اور ایک بار جا کر لڑکی سے مل آیا تھا۔ مناسب سی تھی بس ۔ میرا دل کھٹا سا ہوگیا۔چند دنوں بعد امی نے پاس بٹھا لیا اور پہلے تو اِدھر اُدھر کی سمجھ داری والی باتیں کرتی رہیں پھر بتایا کہ لڑکی بیوہ ہے۔ دو سال کی بیٹی بھی ہے اس کی۔ میرا تو منہ ہی کھلا رہ گیا۔ میں کتنی ہی دیر تک اپنی سنگدل ماں کو دیکھتا رہا۔ میں اٹھائیس سال کا ‘ انجینئر، خوب صورت، اکلوتا‘ دس مرلے کے گھر کا اکیلا وارث اور میری ماں شہر سے دور دراز کے ایک قصبے نما علاقے کے معمولی سے گھر کی بیوہ سے میری شادی کرنا چاہی رہی تھیں۔
’’امی کیا ہو گیا ہے آپ کو۔ یہ کیا کر رہی ہیں آپ میرے ساتھ۔ سگی ماں ہیں آپ میری ۔ ‘‘ میں چلانے لگا اور گھر سے باہر چلا گیا ۔ د س دن تک میرے اور امی کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔میرا منہ پھلا رہا۔ ابو سے بات کی تو انہوں نے بس اتنا کہہ دیا کہ نہیں کرنا چاہتے تو ماں کو انکار کر دو۔ تمہاراحق ہے۔
ایک گھر میں امی ہی توہوتی تھیں جن سے میں بات کرتا تھا، ان سے میں نے خود ہی بول چال بند کردی تھی۔ مجبوراً فرقان‘ جنید وغیرہ سے اپنے دل کا حال بیان کیا۔ پہلے تو وہ بہت ہنسے۔ میرا خوب مذاق اڑیا۔ پھر مجھے سمجھانے لگے کہ صاف صاف انکار کر دوں۔ ما ں کے دل کا لحاظ کیا، تو اپنا دل بھی بر باد ہو جائے گااور زندگی بھی۔ کوئی ضرورت نہیں کسی بیوہ سے شادی کرنے کی۔ میں ان کی سیکھائی پڑھائی باتوں سے بھڑکا ہوا گھر آیا اورامی سے کہہ دیا۔
’’میں یہ شادی نہیں کروں گا۔ بس۔‘‘
امی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور چومنے لگیں۔ میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ میری ماں پلو سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے رورہی تھی۔
’’ٹھیک ہے احمد! جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
میں نے انکار کر تو دیا تھا، لیکن دل میں ایک پھانس سی رہ گئی تھی کہ میری ماں نے میرے لیے کیسی لڑکی چنی تھی۔ ایسا ہی گیا گزرا ہوں کیامیں۔ کچھ ماں کی آنکھوں کے آنسوئوں بھی دل کو بے چین کر رہے تھے۔ چین نہ آیا تو سوتے سے اٹھ کر امی کے گلے سے لگ کر لیٹ گیا۔ ان کا ہاتھ ساری رات میرا سر تھپکتا رہا۔ فجر کے وقت وہ نما ز کے لیے اٹھیں تو مجھے بھی اٹھا لیا۔ فجر کی نماز پڑھنے کی مجھے عادت تو نہیں تھی لیکن میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مسجد میں نماز ادا کی واپس آیا، امی کے سامنے جائے نماز پر بیٹھ گیا۔
’’اگر آپ کا دل دکھایا ہے تومجھے معاف کر دیں۔‘‘




Loading

Read Previous

اناہیتا — تنزیلہ احمد

Read Next

شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!