گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔
’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔
’’آپ کے خیال میں غیرت صرف مرد میں ہوتی ہے؟عورت غیرت کے نام پر قتل نہیں کرسکتی؟‘‘وہ بات مکمل کر کے ہنس پڑی۔
’’کتنا عجیب ہے نا یہ؟ایک عورت نے ایک مرد کو غیرت کے نام پر قتل کردیا۔‘‘اس نے مجھ سے پوچھا اور میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
’’لوگ بھی حیران ہوں گے مجھ پر، لیکن میرا ایک سوال ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی صرف عورت ذات کیوں ہو؟مرد ذات بھی تو حد پار کرتے ہیں؟اور مرد کو قانون غیرت کے نام پر قتل کرنے کے بعد رعایت بھی دیتا ہے؟مجھے بھی ملے گی رعایت؟میں بھی بچ جاؤں گی نا پھانسی اور عمرقید سے؟‘‘اس کی باتیں تلخ مگر سچ تھیں۔
میں…ثناحمید،ایک قلم کار،ایک پولیس افسرکی بیوی۔ جو ہمیشہ ایسے قیدیوں کی سچی کہانیاں تحریر کرتی ہوں۔ آج پہلی بار اپنے الفاظ کی طاقت میں کمی محسوس کررہی تھی۔
’’تمہاری باتیں بالکل سچ ہیں سکینہ، ایک ایک لفظ سچ ہے، مگر یہ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔‘‘اپنی بات پر میں خودمطمئن نہیں تھی۔
’’مس، ہمارا کیا قصور تھا؟جو اتنے برس ذلیل ہوئیں؟ پتا ہے میں برقع پہنتی ہوں اس لیے نہیں کہ وہ سختی کرتاتھابلکہ اس لیے کہ یہ میرے اللہ اورمیرے پیارے نبیؐ کا حکم ہے۔ میں اپنی مرضی سے یہ سب کرتی تھی۔ میں ہی کیاہمارے گھر کی ہر لڑکی ہر عورت ایسے کرتی تھی۔ نماز کی پابندی، قرآن مجید کی تلاوت، مگر وہ برا تھا، بہت برا۔ اسے شک تھا ہم پر، ہر وقت شک کرتا تھا۔‘‘سکینہ نے چہرے پر ہاتھ رکھے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں نے سپاہی کو اشارہ کیا۔ اس نے قریب پڑے گھڑے سے پانی لا کر سکینہ کو دیا۔پانی حلق سے اتارنے کے بعد وہ کچھ سنبھلی۔
’’میں پوری کہانی سنناچاہتی ہوں۔‘‘ میں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔
’’ایک شرط پر میں سب سچ سچ بتا دوں گی کہ آپ جب کسی اور کو بتانے لگیں یا سنانے لگیں تو پلیز، کچھ باتیں چھپا لینا، میرا راز ہو گا آپ کے پاس،میری امانت۔‘‘ اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھااور میں نے وعدہ کر لیا۔





کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس کے چہرے پرکرب کے آثار دکھائی دیے۔مجھے لگاجیسے وہ کچھ بولے گی ۔اس کے ہونٹ تھرتھرائے￿ مگرالفاظ اس کی زبان سے ادا نہ ہوسکے۔
’’آپ ایک کام کریں۔‘‘وہ جیسے ہار گئی۔
’’کیا؟‘‘
’’آپ یہ ڈائری مجھے دے دیں میں خو د اپنی کہانی لکھ دوں گی۔ آپ کل آکر ڈائری لے جانا۔‘‘ اس کی تجویز قابل ِ قبول تھی۔ میں نے اس کی بات مان کر پن اور ڈائری اسے پکڑا دی اور باہر جانے ہی لگی تھی کہ سپاہی دوڑ کر میرے پاس آیا۔
’’میڈم ہم یہ نہیں کرسکتے، قیدی کے پاس کچھ چھوڑ کر نہیں جاسکتے یہ قانون کے خلاف ہے۔‘‘ میں ایس پی کی بیوی نہ ہوتی تو شاید وہ ڈائری اورپن سکینہ سے چھین لیتا، مگروہ بے حد احترام سے بات کررہا تھا۔
’’میں ایس پی صاحب کو کال کرتی ہوں،تم انہیں یہ قانون بتا دینا۔‘‘ میں نے پرس سے اپنا سیل فون نکالا۔
’’نن نہیں میڈم…سوری۔‘‘وہ پیچھے ہٹ گیا۔ واپسی پرسکینہ کی باتیں میرے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں لگتی تھی مگراس کی باتوں سے ایک عجیب طرح کی تلخی ظاہر ہوتی تھی۔ شاید حالات کے سردوگرم نے اسے یہ باتیں سکھادی تھیں۔
’’یہ کہانی آگے بڑھانے سے پہلے میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میرانام ثنا حمید ہے اور میں ایس پی حمید احمد کی بیوی ہوں۔ میں ایک لکھاری ہوں جو پولیس قید میں آنے والے بہت سے قیدیوں کے سچے واقعات اور ان کے پیچھے موجود کہانیاں ایک مشہورڈائجسٹ میں لکھ رہی ہوں۔ان تحریروں پر مشتمل میری کتاب ’’حقائق‘‘شائع ہوچکی ہے۔اس کام میں مجھے اپنے شوہر کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ ہر جگہ میری مدد کرتے ہیں۔میرے شوہر پولیس میں نہ ہوتے تو شاید میں یہ کام کبھی نہ کرسکتی، لیکن اب میرے لیے یہ بہت آسان ہے۔خیربات ہورہی تھی سکینہ کی کہانی کی۔‘‘
اگلے دودن میں کچھ مصروفیت کی وجہ سے سکینہ سے ملنے نہ جاسکی۔تیسرے دن جب میں اس کے پاس پہنچی، تو وہ شدت سے میری منتظر تھی۔ سکینہ کو قتل کے جرم میں عمر قید کی سزاہوئی تھی۔ اس نے اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی ہوئی تھی۔
’’کیسی ہو سکینہ؟‘‘میں اس کے پاس بیٹھ کر مسکرائی۔
’’جیل کی قیدی کیسی ہو سکتی ہے؟‘‘اس کی مسکراہٹ ہمیشہ ایسی ہی ہوتی تھی۔ اداسی اور پریشانی لیے۔
’’ان شااللہ سب بہتر ہوگا۔‘‘میں نے اس کا کندھاتھپتھپایا۔
’’آپ کی یہ ڈائری‘‘اس نے ڈائری اٹھا کر مجھے دی۔
’’میں نے پوری کوشش کی ہے اپنے حالات اور واقعات کو کہانی کی شکل میں لکھ سکوں۔ آپ پڑھ کر بتادیجیے گا میں اس میں کتنی کامیاب ہوئی ہوں۔‘‘
’’ضرور‘‘میں تھامے جانے لگی۔ اس نے پیچھے سے آواز دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔
’’میری سزا کم ہو جائے￿ گی نا؟‘‘نمی اس کی آنکھوں کے کنارے پر دکھائی دی۔
’’ہو جائے گی پریشان نہ ہو۔‘‘ میں نے اس سے نظریں چرا لیں۔
’’اللہ کر ے ہو جائے میرا دم گھٹتا ہے یہاں، مجھے لگتا ہے کسی دن میں یہیں مرجاؤں گی۔‘‘ گہری سانس خارج کر کے اس نے جملہ مکمل کیا۔
’’ان شااللہ ہو جائے گی سزا کم۔‘‘میرے قدم باہر جاتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے۔ قیدی اکثر اپنی سزا قبول کرکے اپنے فیصلے قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں، مگرسکینہ کا معاملہ اور تھا۔ وہ صرف بائیس سال کی تھی۔ جوانی سے بھرپور۔ گھر آکر میں نے سارے کام نمٹائے￿ اور ڈائری لے کر بیٹھ گئی۔ سکینہ کی ہینڈ رائٹنگ گزارے لائق ہی تھی۔ پہلے صفحے سے کہانی شروع کرنے کے بعد میں ایک لمحہ بھی اس سے نظر نہیں ہٹا پائی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!