’’تیرا باپ مر گیا اشعر۔ لوگوں کے طعنوں نے مارڈالا اسے۔‘‘ ’’ثانیہ نے طلاق لے لی ہے مجھ سے امی۔میں نے چھوڑ دیا ہے اس حرافہ کو۔ میں یہاں سے اسے دوسرے شہر دوست کے
چودھری الیاس کی حویلی سے متصل پختہ اینٹوں سے بنی چوپال تھی جس میں سارا دن گاؤں کے لوگ چودھری صاحب کے پاس آکر اپنے مسئلے مسائل بیان کرتے تھے۔ یہ نشست دن میں دو
امی نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ ’’تمہیں ماں سے یہی شکوہ ہے نا کہ میں نے تمہارے لیے ایسی لڑکی کا انتخاب کیوں کیا جو تمہارے لائق نہیں تھی۔ تم نادان ہو۔
سونا کسے پسند نہیں ہوتا، خواتین سونے پر جان دیتی ہیں تو بعض حضرات اس کے لیے جان لے بھی لیتے ہیں۔ سونے کے بھاؤ بڑھنیکے ساتھ اقدار کا نرخ کم ہو گیا ہے اور
گڑیا کی شادی کا غلغلہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔گھر کی یہ آخری شادی تھی اور پھر گڑیا رانی کی۔ لہٰذا سب ہی پر جوش ہو رہے تھے۔ نین تارہ اور کبیر بھی سب کچھ بھلائے
’’پیسہ آئے کہاں سے؟ نہ شکل و صورت، نہ پیسہ، نہ اچھی قسمت۔ میرے پاس ہے کیا سوائے فراخی غربت کے؟‘‘ میں نے اداسی سے جواب دیا۔ ’’اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔ لاکھوں میں