گردشِ طالع —- اسماء حسن

تنگ دستی انسان کو ننگے پاؤں سفر کرواتی ہے، جب تک کہ آبلوں میں سوراخ ہو کروہ پھٹ نہ جائیں۔ زخم بھر جانے کے بعد ایک نیا سفرکسی نئے آبلے کا منتظر ہوتا ہے اور پھر چل سو چل جب تک سانسوں کی ڈور چلتی ہے، قسمت کا پھیر ختم ہی نہیں ہوتا۔ اس نے گھڑی کی جانب دیکھا تودوپہر کے بارہ بج چکے تھے۔ دہکتا سورج سوا نیزے پر کھڑا اپنے ہونے کا پتا دے رہا تھا۔ گھر سے نکلے ہوئے اسے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا۔ اب تک اسے سڑک پر ہونا چاہیے تھا، مگربدنصیبی کسی بھیانک پرچھائی کی طرح اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ گردشِ طالع تھی کہ دو پل بھی کہیں سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ گھسی پٹی پلاسٹک کی چپل اسے موچی کے تھڑے تک لے گئی۔ اس کا جی چاہا کہ موچی پیسے لینا بھول جائے، مگر وہ بھی توقسمت کا دھنی نہیں تھا۔۔ ضروریات کا اکھاڑاتو اس کے آنگن میں بھی لگتا ہو گا جس میں اکثر جذبات ہار جاتے ہوں گے۔ کیوں کہ خواہشات کو نکیل پہنائی جا سکتی ہے، مگر بھوکے شکم کوپابندِ سلاسل نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں تو صرف صبر کی سولی پر لٹکا جاسکتا ہے۔
“دس روپے”





موچی کا یہ جملہ سنتے ہی اس نے چادر کے کونے کی گرہ کچھ یوں کھولی جیسے دس روپے نہیں، زندگی کا گراں بہا خزانہ دینے لگی ہو۔ سو روپے کے نوٹ کی تہیں بتا رہی تھیں کہ اسے کتنا سنبھال کر رکھا گیا ہو گا۔ اس نے نوے روپے بقایا لیے اورچادر کے کونے سے باندھ کر آگے چل پڑی۔ جولائی کی تپتی دوپہر بدن کو جھلسا رہی تھی، مگر وہ اس کی پروا کئے بغیر ہی چلتی رہی۔ دو بجے سے پہلے پہلے اسے وہاں پہنچنا تھا۔ یہ ہی سوچ اس کی رفتار کو تھمنے نہیں دے رہی تھی۔ چادر کے پلو سے پسینہ پونچھتے ہوئے وہ باربار نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتی ہوئی کسی سائبان کی منتظر تھی، مگر سورج کی بھون دینے والی تپش پر کسی گہری سیاہ بدلی نے اپنا مسکن نہیں ڈالا تھا۔
ہجوم کو چیرتی ہوئی وہ دنیا مافیہا سے بیگانہ آگے بڑھتی رہی۔ ہر طرف چہل پہل تھی۔ لوگ جگہ جگہ ٹولیاں بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے اورایک وہ تھی جس کے لبوں پر مارے بھوک و پیاس کے چاندی چمک رہی تھی۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے وہ سڑک کی طرف بھاگتی چلی جا رہی تھی۔
گھڑی پر نظرپڑتے ہی مخمصے کے عالم میں سڑک پردوقدم آگے رکھتے ہوئے، اس نے رکشہ روکنے کی کوشش کی۔ رکشے والے نے ایک جھٹکے سے رکشہ روکا اوراسے کھری کھری سنانے لگا۔
“کیا کررہی ہواماں؟ مرنے کا ارادہ ہے کیا؟ “وہ اماں تو ہرگز نہ تھی، مگر زندگی کے قرض اتارتے اتارتے وہ اپنی عمر سے دوگنی دکھائی دینے لگی تھی۔۔!!
پھر اس نے ایک نظراس کے حلیے پرڈالی اور سرسے پیر تک دیکھتے ہوئے بڑبڑانے لگا:
“ہاں! آج کل تم لوگوں نے کمائی کے نئے طریقے جو ڈھونڈ لیے ہیں۔ کسی موٹرگاڑی یا سائیکل، رکشے کے نیچے آؤ اور زخمی ہونے کابہانہ بنا کرکچھ پیسے بٹورلو۔”
“نہیں نہیں بھائی صاحب ۔ مجھے تو اس ایڈریس پرجانا ہے۔”
اس کے بولنے کا انداز اس کے حلیے سے بالکل میل نہ کھاتا تھا۔ اس لیے رکشے والے نے عورت کو سرتا پا دوبارہ کچھ یوں دیکھا کہ وہ لجاتی ہوئی خود کو اپنی میلی کچیلی چادرسے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرنے لگی، جو جگہ جگہ سے تار تار تھی۔
دوسو روپے کرایہ ہوگا، بیٹھو”
رکشے والے نے اسے اندر بیٹھنے کے لیے کہا تو اس کے چہرے پر گرمی کے پسینے کے ساتھ ساتھ فکرمندی بھی جھلکنے لگی۔ اسے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی، اس لیئے انجام سوچے بغیر ہی وہ رکشے میں بیٹھ گئی۔ راستے میں ایک بڑا قبرستان پڑتا تھا۔ وہ جب بھی وہاں سے گزرتی تو اپنی ماں پر فاتحہ پڑھ کر دور ہی سے پھونک دیا کرتی تھی۔ آج ماں کی قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے وہ ساری عیدیں یاد آنے لگیں، جب ابا اس کے کپڑوں کے ساتھ ساتھ اس کی سہیلیوں کے لیے بھی جوڑے لایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ اس کی سب سے اچھی سہیلی ناہید کا جوڑا لانا بھول گئے تو اس نے کتنی لڑائی کی اور دھمکیاں دیتی پھری کہ اگر ناہید کا اسی طرح کا جوڑا نہ لایا گیا تو وہ بھی نیا جوڑا نہیں پہنے گی۔
چاند رات کی دمکتی روشنیوں میں ابا ہجوم سے بھرے بازار میں مارے مارے پھرتے رہے اوراس کی سہیلی کا جوڑا لا کر ہی جان بخشی ہوئی تھی۔ یہ خیال آتے ہی وہ ہنس دی۔ عید سے بہت دن پہلے ہی ابا برآمدے میں پڑے ایک بڑے سے تخت پر جوڑے، چوڑیاں اور مہندی کا سامان لاکررکھ دیا کرتے تھے۔ وہ بھاگ کرمحلے کی سبھی عورتوں کو بلا کرلاتی اور بڑے شوق سے کُرسی رکھ کر تخت کے پاس بیٹھ جاتی اورسب کو مشورے دیا کرتی۔ جب محلے بھر کی عورتیں واپسی پر جاتے ہوئے آنسوؤں سے لبریز آنکھیں لیے ابا کو دعائیں دیتیں تووہ بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا کرتی:
“اماں یہ ساری عورتیں رو رو کر ابا کو دعائیں کیوں دیتی ہیں؟” تو اماں اس کے معصوم سوالوں پر مسکرا دیتی تھیں۔ گھر کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوتا تھا، جب تک آخری سائل کھڑا ہو۔
آہ! کیسے میٹھے زمانے تھے کہ دیوارو درسب ہی کے لیے کھلے رہتے تھے۔
ایک مرتبہ ابا مغرب کی نماز کے لیے گھر سے نکل رہے تھے توچاچا شریف ان سے ٹکرا گئے۔ ابا نے پوچھا کہ کیا بات ہے شریف دین، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے کہاں جا رہا ہے؟ اور یہ تیری بغل میں کیا ہے؟ تو چاچا شریف کی آنکھوں کے آنسو ساری داستان سنانے لگے۔ اس نے بغل سے ایک پوٹلی نکال کر دکھاتے ہوئے کہا تھا:
“بھائی جی! یہ آپ کی بھابھی کا زیور بیچنے جا رہا ہوں۔” تو ابا نے اس کے ہاتھ سے وہ چھین لیا اورلاکراماں کو دیتے ہوئے کہا:
جا یہ زیور (پرجائی بھابھی) کوواپس کردے۔
پھرسیف الماری کی طرف بڑھے اور پیسے اُٹھا کر چاچا شریف کو یہ کہتے ہوئے دیئے تھے کہ آئندہ کبھی بھابھی کا زیور نہ بیچنا یہ تو عورت کا گہنا ہوتا ہے اور یہ پیسے تب تک نہ لوٹانا جب تک تیرے پاس نہ ہوں۔” یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو کسی بہتے دریا کی طرح رواں ہوکر اس کے دامن کو تر کرنے لگے۔
رکشہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ گرمی قہر برسا رہی تھی۔ ہوا کے گرم تھپیڑے اس کے سانولے چہرے سے ٹکراتے تو وہ منہ کو باریک ململ کی چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگتی۔ اسے اماں کی یاد ستانے لگی۔ ماں اس کے سانولے رنگ سے جتنا پریشان رہتی تھی وہ اتنی ہی بے پروائی دکھاتی۔ وہ جب بھی باہر نکلتی، تو ماں اسے چہرے کو ڈھانپنے کے گر سکھاتی تاکہ گرد مٹی نہ جمے اور دھوپ سے رنگ مزید کالا نہ ہو جائے۔





وہ بڑی معصومیت سے ماں سے پوچھتی:
“اماں آپ چھوٹی کو کیوں نہیں کہتیں کہ سر پر اوڑھنی ڈال کرنکلا کرے۔” تو ماں اس کے گالوں کو تھپک کر کہتی:
“پوری جھلی ہے تو۔” اس پر وہ ہنس دیتی تھی۔
قبرستان کب کا گزر چکا تھا۔ آج وہ فاتحہ پڑھنا بھی بھول گئی تھی۔
آنسو سانولے گالوں پرموتیوں کی طرح ٹھہرسے گئے۔ رکشہ کوایک دم جھٹکا لگا۔ وہ پادِ ما ضی سے نکل کر حال کی سنسان سڑک پر بے سرو سامان ننگے سر آن کھڑی ہوئی۔
“ایک غریب دوسرے غریب کو کیسے ٹھگ سکتا ہے؟ کیسے دھوکا دے سکتا ہے؟ اگر میرے پاس پورا کرایہ نہیں تو اسے بتا دینا چاہیئے، وہ بھی غریب بندہ ہے میرے دکھ کو سمجھے گا۔”
ناجانے اس نے اپنے ذہن کے منتشر خیالات کوکیسے یک جا کیا اور کپکپاتی زبان سے رکشے والے کو مخاطب کرکے یہ کہہ دیا کہ اس کے پاس کرایہ صرف نوے روپے ہے۔ یہ سنتے ہی رکشے والے نے ایک جھٹکے سے رکشہ روکا۔
“کیا؟ تمہارے پاس کرایہ نہیں؟ تم کتنی چال باز عورت ہو۔ میں تو پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ تم جیسی بھیک منگی عورتیں ڈرامے بازیاں کرکے اپنے مقصد پورے کرتی ہیں۔ چلو اترو میرے رکشے سے فٹافٹ! ورنہ میں بازو کھینچ کر نیچے اتار دوں گا۔”
وہ اپنے دائیں ہاتھ سے کچھ یوں چٹکی بجا رہا تھا کہ اگر وہ واقعی دو منٹ میں نہ اتری، تو وہ اس کے سر کی چادر تک کھینچ ڈالے گا۔
“نہیں بھائی صاحب ایسا نہ کہیں میں دھوکے باز نہیں، مجھے ہر صورت دو بجے اس ایڈریس پر پہنچنا ہے۔ میرا وعدہ ہے کہ وہاں پہنچتے ہی تمہیں پیسے دے دوں گی۔ دیکھو! دو بجنے میں صرف پندرہ منٹ رہ گئے ہیں۔”
“تمہاری سمجھ میں نہیں آرہا؟ جلدی اترو، ورنہ تمہیں دھکے مار کر رکشے سے اتار دوں گا اور نوے روپیہ نکالو۔ یہاں تک کا اتنا ہی کرایہ بنتا ہے۔ تمہارے پیسے پورے ہوئے، چلو اترو۔”
رکشے والے کا ایسا اہانت بھرا لہجہ دیکھ کرمزید کچھ کہنے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ نم پلکیں لیے وہ رکشے سے نیچے اتر گئی اور چادر کے کونے سے نوّے روپیہ نکال کر رکشے والے کے حوالے کر دیئے۔ ننگے آسمان تلے اور برہنہ زمین کے سینے پر گھسی پٹی چپل پہنے وہ دوڑنے لگی۔ چپل کے نیچے سے محسوس ہوتی لو اس کے پاؤں کے تلووں تک کو جھلسا رہی تھی۔ بوکھلاہٹ کے انداز میں لوگوں سے راستہ پوچھتی تو لوگ اسے عجیب نظروں سے گھورنے لگتے کہ جیسے وہ کوئی پاگل ہو جو راستہ بھٹک گئی ہو۔
“دو بجے سے پہلے وہاں پہنچنا ہے، ضرور پہنچنا ہے۔ اگر نہ پہنچی تو کیا ہو گا۔ سب کچھ ادھورا رہ جائے گا۔ سب کے منہ لٹک جائیں گے۔ پورا گھر میری واپسی کا منتظر بیٹھا ہے۔”
یہی سوچیں اس کے قدموں کو مزید تیز کیے جا رہی تھیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک سے ہوتی ہوئی اس کی رہتی سہتی چپل بھی ٹوٹ چلی تھی۔ اس نے چپل اتار کر ہاتھ میں پکڑی اورمنزل کی جانب چلنے لگی۔ اس کے پاؤں کے آبلے بتا رہے تھے کہ اس نے کتنا سفر طے کر لیا ہے۔ تپتی تارکول کی سڑک کسی ریگستان کی گرم ریت کا سا جھلساؤ پیدا کر رہی تھی۔
آخر کار ہانپتی ہوئی وہ اس گیٹ کے سامنے کھڑی تھی، جس کی تلاش میں اس نے ننگے پاؤں سفر کیا تھا۔
اندر جانے لگی تو گارڈ کے ہاتھ نے اسے اندر جانے سے روک دیا۔
“کیا بات ہے بی بی کہاں بھاگی چلی جا رہی ہو؟”
“وہ مجھے صالح صاحب سے ملنا تھا، انہوں نے آج کے دن ملاقات کا کہا تھا”!
وہ پھولی سانس لیے صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
“اوہ! اچھا تو تم اس مقصد کے لیے آئی ہو، مگر وقت تو دو بجے تک کا تھا۔ اب تو گیٹ بند ہو چکا ہے۔ صاحب لوگ جا چکے ہیں۔”
“مگر میں تو بہت دور سے بہت آس لے کرآئی ہوں ۔ تم ایک مرتبہ اندر جا کرصاحب سے پوچھ لو۔ وہ تو بہت نیک انسان ہیں ۔ وہ میری مدد ضرورکریں گے۔”
“جا یہاں سے۔ گیٹ صاحب لوگوں نے ہی بند کروایا ہے۔ اگلے سال آنا اورہاں وقت کاخیال رکھنا۔ اس بابرکت مہینے میں تو وقت کا خیال رکھ لیا کرو۔ صاحب لوگوں کو نماز روزہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ آج جمعتہ الوداع ہے۔ اس میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیئے۔”
“وقت” پر زور دیتے ہوئے چوکیدارنے گیٹ بند کرلیا۔ اس میں تو یہ تک کہنے کی ہمت نہیں تھی کہ وہ تو واپسی کا کرایہ بھی یہاں سے ملنے والی اعانت سے ادا کرنے والی تھی۔ اس نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور استعجابیہ نگاہیں لیے اس کی تقسیم پرشکوہ کناں ہونے لگی۔ پھراس کے ذہن میں ابا کے گھر کا تخت گردش کرنے لگا جہاں وقت کی کوئی قید نہیں تھی اور کوئی عورت بھی آخری عورت نہیں ہوتی تھی۔ اس کی زبان سے محض اتنا ہی نکل سکا “اگلا سال؟ “اور وہ وہیں پرگرپڑی۔




Loading

Read Previous

آم کے آم — فہمیدہ غوری

Read Next

حصار —- نورالصباء

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!