کردار —-ہاجرہ ریحان

”تم جیسی عورتوں کا تو طریقہ یہی ہے کہ جب اپنا شوہر سنبھالا نہیں گیا تو دوسرے مردوں پر دانت مارنے شروع کر دئیے. . . اس لئے کہ گھر کا خرچہ بھی تو چلانا ہے… اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچے… پوچھے کوئی کہ اتنے اچھے رنگ کی مہنگی ساڑھی آخر کیوں آسمان سے تمہارے ہی گھر پر ٹپکی…؟ ابھی بس کہاں . . . ؟ ابھی تو بچے کو بھی بڑا کرنا ہے. . . اُس کو بھی یہی شان و شوکت دینی ہے. . . ارے تم جیسیوں سے اچھی تو طوائفیں ہوتی ہیں کم از کم جو کام کرتی ہیں وہ مانتی تو ہیں . . . شرافت کا لباد ہ اوڑھ کر . . . بے وقوف تو نہیں بناتی رہتیں۔”
وہ دانت پیستے ہوئے مجھے بے نقط سنائے چلی جا رہی تھی… اور اُس کی چلتی ہوئی زبان ایک لمحے کے لئے بھی نہیں رُکی تھی… میں اُس کے کہے چند جملے بیچ بیچ میں اچک کر اپنے دماغ میں دُہرا رہی تھی…
”اچھے رنگ کی مہنگی ساڑھی…؟ ھم م م…!” میں نے دل میں سوچا…
‘ بھلا بتائو . . . اگر اس کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی… جب کہ وہ اپنے تئیں شوہر کی محبوبہ کو ساری دنیا کے سامنے ذلیل کرنے اور اپنے شوہر کا اُس سے پیچھا چھڑانے کے لئے باقاعدہ محاذ پر ڈٹی ہوتی . . . تو اس قدر اہم وقت میں کیا وہ میری ساڑھی کو اس طرح باریک بینی سے دیکھ سکتی تھی ؟ساڑھی کی مالیت . . . رنگ . . . کپڑے کا اندازہ لگا سکتی تھی ؟’





اچانک ایک لمبا… سا شخص بھاگتا ہوا اُس کے قریب آ گیا…
”کیا بکواس ہے یہ . . . پاگل تو نہیں ہو؟ نکلو یہاں سے… چلو…!” وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچتا ہوا اُسے باہر لے جانے کی کوشش کرنے لگا. . . اور تھوڑا بہت کام یاب بھی ہو گیا . . . کہ وہ ہاتھ چھڑا کر پھر چیخی:
”ہاں ہاں! کیوں نہیں؟ بھانڈا پھوٹ گیا تو اب کیسے مجھے گھسیٹ رہا ہے۔ بے شرم! اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری عورت کے پاس رات میں جاتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تو دن میں ملنے میں کیا پریشانی ہے… بے شرم… اب شرم کیسی؟”
”کس قسم کی بکواس کر رہی ہو ؟ سب کے سامنے تماشہ بنا رکھا ہے . . . کتنی بار بتایا ہے کہ یہ تو . . . بس ایک کردار ہے . . . کیوں سمجھ نہیں آ رہا تمہیں بولو ؟” لمبا آدمی پھنکارا . . . مگر اب اس کی توپ کا دہانا اپنے شوہر کی طرف ہو گیا تھا . . . وہ دونوں برابری سے ایک دوسرے کو تیز لفظوں میں سُنا رہے تھے . . . مجھے ایک پل کے لئے لگا کہ جیسے لمبا آدمی جان بوجھ کر کچھ اس لئے اپنی بیوی سے ترکی بہ ترکی بات کر رہا تھا تاکہ مجھ پر سے اُس کی توجہ ہٹ سکے . . . اور میں . . . میں کھانے کی بھری رکابیوں میں سجی لمبی سی میز کے ساتھ ہی کھڑی تھی… کچھ لوگ سب کچھ سُن اور دیکھ کر ناصرف تماشے سے محظوظ ہو رہے تھے بلکہ کھانا لینے کے لئے خالی پلیٹ ہاتھ میں لئے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے قطار میں کھڑے تھے…
لمبا آدمی… دانت پیستی… چیختی… باتیں سُناتی عورت کو آخر کار شامیانے سے لے کر نکل گیا . . . میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی . . . کاش کہ مجھے بھی کوئی اسی طرح زبردستی گھسیٹ کر باہر چھوڑ آئے کہ میرے قدموں میں تو جیسے جان ختم ہو چکی تھی… وہ پتھر کے ہو کر زمین کے اندر کسی تہہ تک پہنچ کر منجمد ہو چکے تھے۔
یہ سب کیا ہوا ؟ میں حیران ہی نہیں پریشان بھی تھی . . . میں تو ابھی شاید یہی کوئی آدھا گھنٹہ پہلے ہی شامیانے میں داخل ہو کر میزبان خاتون ِ خانہ سے چند ایک معمول کی رسمی سی باتیں کر کے اُن کے ہاتھ میں لفافہ پکڑا کر الگ تھلگ پُرسکون بیٹھی رہی تھی . . . اور اب کھانا لگتا دیکھ کر میز کے قریب پہنچی تھی… کہ یہ دانت پیستی عورت تیز قدموں سے میرے پاس آئی، میں یہی سمجھی تھی کے وہ بھی کھانا لینے ہی تیزی سے اس طرف آ رہی ہے مگر پھر جب اُس نے مجھے مخاطب کئے بغیر ہی شور مچا کر مجھے باتیں سُنانا شروع کر دیں تو میں گھبرا کر کچھ نہ سمجھ کر اپنی جگہ جم کر رہ گئی تھی… میں نے ایک دو بار اپنے ارد گرد دیکھا تھا کہ شاید کوئی میری مدد کرنے آگے بڑھے… مگر نہیں۔ میں چونکی، میزبان خاتون ِ خانہ گھبرائی ہوئی میری طرف دوڑی چلی آرہی تھیں:
”اوہ ہو! بھئی میں بہت شرمندہ ہوں، تم یقین کرو میں نے تو خود کئی بار شہلا کو سمجھایا کہ ایسا بھی کیا کردار وغیرہ کہ اصل زندگی میں کسی نہ کسی سے مماثلت ہو ہی جاتی ہے اب اتنی سی بات کا کیا بتنگڑ بنانا مگر نہیں، بھئی وہ تو بس حد ہی پار کر گئی آج… اب میں کیا کہوں؟”
میزبان خاتون ِ خانہ ایک عمر رسیدہ مگر بے حد مہذب خاتون تھیں . . . شوہر کسی زمانے میں بہت مشہور وکیل رہ چکے تھے اس لئے پوری بلڈنگ میں وہ وکیل صاحب کی بیگم کے نام سے مشہور تھیں۔ یہ بلڈنگ کا واحد گھر تھا جس میں جب جس خاتون کا دل چاہتا، جا سکتی تھیں کیوں کہ دونوں عمر رسیدہ میاں بیوی اکیلے ہی رہتے تھے اور بلڈنگ کے بچوں سے لے کر اپنے ہم عمر ہر رہائشی سے راہ و رسم رکھتے تھے. . . اُن کے مہذب اور بے حد پرخلوص انداز ِ گفتگو سے میں بھی متاثر تھی لہٰذا جب انھوں نے مجھے اپنے نومولود پوتے جو کہ کینیڈا سے اپنے والدین کے ساتھ آیا ہوا تھا کے عقیقے میں بلایا تو میں انکار نہ کر سکی. . . وکیل صاحب کی بیگم نے حد ممکن طریقے سے مجھے دلاسہ دینے کی کوشش تو کی تھی، مگر میں ابھی تک حالات پر غور کرنے کے قابل نہیں ہو سکی تھی۔ میں لڑتے جھگڑتے میاں بیوی کی ہر بات سُن چکی تھی اور وکیل صاحب کی بیگم نے جو بھی کہا وہ بھی میری سماعت میں محفوظ تھا مگر میں اس وقت صرف اور صرف تنہائی چاہتی تھی . . . خالی پلیٹ لئے ان جڑے ہوئے قطار میں کھڑے لوگوں کی نظروں سے یک دم غائب ہو جانا چاہتی تھی، لہٰذا کچھ کہے بغیر بہت ہمت کرکے میں ہلکے ہلکے قدموں سے شامیانے سے نکلنے کے لئے آگے بڑھ گئی… دکھ تو یہ تھا کہ محلے کی شادی تھی اور فلیٹ کی بلڈنگ کے تمام ہی رہائشی یہاں موجود تھے ا ور اطمینان اس بات کا کہ ان سب میں کوئی رشتہ دار نہیں تھا . . .
”چلو کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہے…” میں نے خود کو دلاسہ دیا…





”ویسے بھی میں فلیٹ کی بلڈنگ کے دوسرے رہائشیوں سے کسی بھی قسم کی راہ و رسم تو رکھتی ہی نہیں ہوں . . . میں تو ہمیشہ سے ہی لوگوں کو خود سے دور رکھنے کی عادی ہوں اب اور سرد مہری برتنے لگوں گی اور پھر فرض کرو اگر کسی نے ہمت کر کے پوچھ بھی لیا تو . . . تو . . . وہی بتا دوں گی جو سچ ہے، یعنی کہ یہ سب غلط فہمی ہے۔ میں تو خاتون کو جانتی ہوں اور نہ ہی اُن کے شوہر کو . . . یقینا خاتون مجھے کوئی اور سمجھ کر باتیں سُناتی رہی ہیں . . . میں گھر تک آتے ان چند لمحوں میں ہی جو کچھ ہو چکا اُس پر غور کرنے کے بجائے مستقبل میں کس طرح اور کیسے خود کو بچانا ہے اُس پر سوچنے لگی تھی . . . اچانک مجھے حیرت ہونے لگی . . . یہ المیہ ہے یا پھر مجھ پر نعمت ِ خداوندی ہے کہ میں ہر مشکل لمحے کو صرف اس لئے گزار لیتی ہوں کے مجھے اُس لمحے کے بعد حفظ ِ ماتقدم کے طور پر اپنے لئے ایک لائحہ عمل تیار کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ میں ہر مشکل گھڑی میں بالکل ساکت… بے جان اور بے حس ہو جاتی ہوں… آنسو کیا میری تو آنکھ تک نہیں ڈبڈباتی، جیسے اُس مشکل لمحے کے رونما ہونے یا گزر جانے سے کہیں پہلے ہی میرا دماغ جھٹ سے لائحہ عمل پر کام شروع کر دیتا ہے، اور میرا دل میرے دماغ کی اس قدر گہری سوچ کے درمیان چُپ چاپ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے کہ مجھے خبر تک نہیں ہوتی۔ اصولاً ابھی مجھے زار و قطار رونا شروع کر دینا چاہیئے تھا۔ جب لوگ متوجہ ہو ہی چکے تھے تو اب کیا خود کو بچانا؟ روتے ہوئے سب کو بتا دیتی کے یوں بھی کوئی کسی کو بے قصور اتنا سُناتا ہے؟ جب وہ لمبا آدمی اُس عورت کو گھسیٹ کر لے جا رہا تھا تب ہی رونا شروع کر دیتی . . . یا پھر کسی فلم کی نازک ہیروئن کی طرح بے ہوش ہو جاتی اور پنڈال میں موجود تمام کے تمام لوگوں کی ہمدردی سمیٹ لیتی۔ میں دل ہی دل میں مسکرا اُٹھی، یہ سب بھی تو ایک طرح کا لائحہ عمل ہی ہے. . . یعنی میں ہر صورت میں محسوس کرنے کے بجائے صرف اور صرف لائحہ عمل ہی تیار کر رہی ہوں۔ کیوں؟ آخر کیوں میں اُس لمحے کو محسوس نہیں کر پا رہی؟ کیوں میں جذباتی نہیں ہو رہی؟ ایسا لگ رہا ہے جیسے ہاتھوں میں خالی پلیٹ لئے ان تمام لوگوں میں شامل ہوں اور یہ لمحہ مجھ پر نہیں کسی اور پر گزر گیا ہے۔ نہیں، یہ نعمت ِ خداوندی نہیں ہو سکتی یہ تو المیہ ہے۔ میں بے حس سُن بلکہ ہو چکی ہوں۔ میرے سینے میں دل نہیں دھڑکتا… میں محسوس کرنے اور محسوس کر کے کسی بھی قسم کا رد ِعمل دکھانے سے قاصر وہ جان دار ہوں، جو صرف سانس لیتی ہوں… جیسے مصروف شاہراہ کے بیچ میں سجاوٹ کے لیے لگائے گئے درخت ہر دوسرے تیسرے دن تراشے جاتے ہیں تاکہ اُن کی شکل و صورت شاہراہ سے گزرنے والوں کو ہر موسم میں ایک جیسی نظر آئے. . . سجاوٹ کے لئے لگائے گئے نصیب میں بھلا جنگلوں، بیابانوں یا باغات میں اُگنے والے درختوں کی مانند ادھر اُدھر پھیلتی، پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی مہکتی شاخیں، موسم کی خوشی اور آزادی کہاں ہو سکتی ہے، کیسا کرب ناک احساس ہے یہ کہ ایک درخت ہو کر بھی کسی کو پھل . . . پھول یہاں تک کے سایہ بھی نہیں دے سکتی ؟ میں خود کو ہر دوسرے تیسرے دن تراش خراش کر قریب سے گزرنے والے کو ہر موسم میں ایک جیسی نظر آتی ہوں۔ خود کو کبھی بھی جذباتی یا بے قابو نہیں ہونے دیتی اور اگر کبھی کہیں ایسا مشکل لمحہ آبھی جائے جہاں مجھ سے میرا دل آزادی مانگے تو… پتا نہیں میں کیا کروں گی؟ خیر دیکھا جائے گا۔ ابھی تک تو ایسا کوئی لمحہ آیا نہیں۔ میں اپنے المیوں کے ساتھ رہنے کی عادی ہو چکی ہوں اور… اپنی تراش خراش پر قانع ہوں، بس… وقت گزر جائے…
اور وقت تو گزر ہی جاتا ہے۔ تین چار دن خاموشی میں گزر گئے۔ میں کئی بار تمام واقعے پر غوروفکر کر چکی تھی… واقعی میں اُس لمبے آدمی کو صرف اس قدر جانتی تھی کہ وہ ہماری ہی بلڈنگ میں کسی فلیٹ کا رہائشی تھا۔ ہمارا ٹکرائو لفٹ میں یا بلڈنگ سے باہر جاتے ہوئے یا پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرتے ہوئے ہوا بھی تھا تو ایک دوسرے کو نظر انداز کر کے گزر جاتے تھے. . . میں عمر رسیدہ رہائشیوں کو سلام کر لیا کرتی تھی مگر اس اونچے لمبے جوان آدمی سے سلام و دعا کرنے کا کوئی جواز بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ ہاں اتنا معلوم تھا کہ میرا آٹھ سالہ بیٹا جمال جس کو پیار سے میں جمی کہا کرتی تھی اُس کے بیٹے کے ساتھ اکثر کھیلتا تھا جو کہ جمی کا ہی ہم عمر تھا . . . اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا . . . پتا نہیں اُس اونچے لمبے آدمی جس کا میں نام تک نہیں جانتی تھی اُس کی بیوی نے مجھے اپنے شوہر کے ساتھ کیوں جوڑا؟ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلط فہمی اگر ہوئی بھی تو بھی کہیں نہ کہیں کوئی راستہ، کوئی کواڑ یا پھر چھوٹی سی کوئی نشانی، کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے جو رائی کا پہاڑ بنتا ہے۔ میرے دماغ میں جیسے کوئی مسلسل کیلیں ٹھونک رہا تھا، کردار! کردار! کردار! مجھے بار بار کبھی لمبے آدمی کی کہی بات یاد آتی یا پھر وکیل صاحب کی بیگم کی کہ وہ تو بس ایک کردار ہے۔ کردار کی اصل زندگی میں مماثلت! یہ کیا کہا تھا لمبے آدمی نے اپنی بیوی سے اور پھر ایسی ہی بات وکیل صاحب کی بیگم نے بھی دہرائی تھی ؟ آخر یہ سب میرے کردار پر بات کیوں کرتے رہے ہیں؟ یہ کیا معاملہ ہے اور کب سے ان سب کے زیر ِ غور ہے اور مجھے ہی نہیں معلوم؟ میں کبھی الجھتی تو خود پر غصہ بھی کرتی۔ مجھے اُسی وقت خاتون سے پوچھ لینا چا ہئے تھا۔ آخر اس قدر جلد بھاگنے کی کیا پڑ گئی تھی… کچھ دیر اُن کی بات تو سُن لیتی شاید وہ مجھے تمام صورت حال سے آگاہ ہی کر دیتیں… میں سوچ سوچ کر بہت ہلکان ہوئی اور پھر جیسے بات معمول پر آ گئی…




Loading

Read Previous

رحمت — شاذیہ ستار نایاب

Read Next

میری پری میری جان — اقراء عابد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!