میں بے زباں —- رفا قریشی

کراچی شہر کی مشہور و معروف مارکیٹ میں اس وقت لوگوں کا بے تحاشا رش تھا۔ لوگ خریداری میں مصروف تھے۔ منال بھی اپنی ماں اور نانی کے ساتھ خریداری کے لئے آئی تھی۔
”یہ کیا پہنا کے لائی ہو بیٹی کو؟” نورجہاں بیگم نے نواسی کی قمیص کی لمبائی کو ناگواری سے دیکھا اور کوئی دسویں بار جتایا جس پر نو سالہ منال تلملا کر رہ گئی۔ اسے بچپن سے ہی سکھایا گیا تھا کہ اچھے بچے بڑوں کے غصے میں کہی بات کا جواب نہیں دیتے۔
اس نے سفید پٹیالا شلوار پر گھٹنوں تک آئی لال شرٹ پہنی ہوئی تھی اور ساتھ ہی سفید دوپٹہ بھی اوڑھا ہوا تھا۔
”اماں یہ سوٹ اس کی پھپھو نے اسے قرآن مکمل کرنے پر دیا ہے اور اب لمبی قمیص کا فیشن جارہا ہے اس لئے لمبائی گھٹنوں تک ہے۔” امی نے نور جہاں بیگم کو صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔





”بہرحال تم اسے آئندہ ایسے کپڑے پہنا کر میرے گھر نہیں لاؤ گی۔” انہوں نے آگے بڑھتے ہوئے سختی سے بیٹی کو تاکید کی ۔
”ہاں بھائی اچھے سے لان کے پرنٹس دکھائو۔” ایک دکان پر نور جہاں بیگم نے کرسی کھینچ کربیٹی کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے دُکان دار سے کہا، دکان دار نے مختلف لان کے پرنٹس کھولنے شروع کئے۔
”سنعیہ لان کا پرنٹ یہ والا دیکھو۔” بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے نورجہاں بیگم نے شاپرز سے لدی بیٹی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں امی پرنٹ تو بہت پیارا ہے۔” سنعیہ نے کالے رنگ کے خوب صورت لان کے پرنٹ کو دیکھتے ہوئے کہا جس پر رنگ برنگے پھول بنے ہوئے تھے۔ منال ماں کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔
”بھائی کتنے کا سوٹ ہے؟” سنعیہ نے دکان دار سے پوچھا۔
”باجی پانچ ہزار کا ہے۔” دکاندار نے رسمی مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہا۔
”ٹھیک ہے بھائی پیک کردو۔” سنعیہ نے دھیمے انداز میں دکان دار سے کہا۔
”ارے ٹھہرو! جلدی کاہے کی ہے، زیادہ نہیں دیں گے۔” نورجہاں بیگم نے کہا۔
”یہ ڈیزائنر لان ہے اماں یہ ہمیں پچیس سو کا نہیں ملا ہم آپ کو کیسے دے دیں؟ پچیس سو کے تو اس کے کاپی آتے ہیں۔”
منال جو ماں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ماں اور نانی کو دکان دار سے قیمت پر بحث کرتا دیکھ کر دھیرے سے اُٹھ گئی۔ وہ دبے قدموں آگے بڑھ رہی تھی۔
”میں سب کچھ چھوڑ کے کہیں دور چلی جائوں گی پھر وہاں کوئی نہیں ہوگا، جو مجھے برُا بھلا کہہ سکے گا لیکن پاپا اور دادی، وہ تو بہت اچھے ہیں، مجھے کبھی ڈانٹتے نہیں برُا بھلا نہیں کہتے۔” دل میں سوچتے ہوئے اس کے آگے بڑھتے قدم رُک گئے کہ اس کی ٹکر سامنے سے آتی عورت سے ہوئی۔
”ارے منال بیٹا! تمہاری امی کہاں ہیں؟”
”امی… وہ دکان میں ہیں۔” اس نے ثمن آنٹی کو سلام کرنے کے بعد بتایا۔ ثمن، سنعیہ کی فرسٹ کزن تھی۔
”تم یہاں کیا کرہی ہو بیٹا؟” انہوں نے فکر مندی سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا۔
”آنٹی میں بس یہ کلپس کا اسٹال دیکھنے آئی تھی۔” اس نے بوکھلا ہٹ میں سامنے بنے اسٹال کے جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا –
”آئو! تمہاری امی سے ملے بہت دن ہو گئے ملاقات نہیں ہوئی۔” وہ اسے ساتھ لئے آگے بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
”منال ذرا ایک گلاس پانی پلانا۔” کامل نے ٹی وی دیکھتے ہوئے بھانجی کو آواز دی۔
ماموں کی ایک آواز پر وہ فوراً پانی لئے کامل کے سامنے کھڑی تھی، دیر کرنے کا مطلب ماموں کی صلواتیں سننا تھا جو وہ بالکل نہیں چاہتی تھی۔
”ذرا میرے جوتے پالش کردینا۔” پانی کا خالی گلاس منال کو پکڑاتے ہوئے کامل نے کہا، اور وہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کرسکی۔
”کامل ذرا اس کی صحیح سے خبر تو لینا بازار میں آگے نکل گئی تھی، وہ تو ثمن مل گئی اس کو پکڑ کے لے آئی ورنہ تو یہ گُم ہوجاتی۔ سنعیہ نے بھائی سے شکایت لگائی۔
”ہاں بھئی! ادھر آ ذرا، ملاؤں تیرے باپ کو فون۔” ماموں کی ڈانٹ سے وہ خوف زدہ ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭
”منال… ذرا یہ کپڑے اوپر چھت پر پھیلا آئو۔” جوتے پالش کرکے وہ اٹھی ہی تھی کہ سنعیہ نے اسے آواز دی۔ اس وقت دوپہر کے بارہ بج رہے تھے اور سورج سوا نیزے پر تھا۔
”امی اوپر چھت پر بہت تیز دھوپ ہے، میرا سر درد کرنے لگتا ہے۔” اس نے کم زور سی آواز اور ہانپتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”زیادہ نازک بننے کی ضرورت نہیں۔” دھلے ہوئے کپڑوں کا ٹب پکراتے ہوئے سنعیہ نے بیٹی کو جھڑکا۔
”بچے تو اپنی نانی کے گھر جاکر انجوائے کرتے ہیں، میں یہ کرتی ہوں۔” سامنے والی چھت پر کھڑا لڑکا اسے دیکھ رہا تھا، منال اس بات سے لا علم تھی لیکن کامل نے اسے اس وقت وہاں دیکھ لیا تھا۔
نور جہاں کے دو بچے تھے، کامل اور سنیعہ۔ ان کا شمار مڈل کلاس طبقہ میں ہوتا تھا۔ شوہر صفائی پسند تھے۔ گھر میں ماسی صرف جھاڑو پونچھے کے لئے تھی۔ سنیعہ بڑی تھی، اس کی شادی انہوں نے اپنے سے اپرکلاس طبقہ میں کی تھی۔ سنعیہ شادی ہوکر کراچی کے پوش علاقے میں آئی تھی۔ اس کی شادی کو دس برس ہوچکے تھے۔ بچے دو ہی تھے، منال اور اس سے چھے برس چھوٹا ذکائ۔ کامل ان دنوں نوکری ڈھونڈ رہا تھا۔ اکثر وہ فارغ ہی رہتا تھا اور جب اسکول کی چھٹیوں میں منال آتی تھی تو وہ اسے فارغ بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ کامل کو ہر وقت اسے کاموں میں لگائے رکھنے، چھیڑنے اور تنگ کرنے میں مزہ آتا تھا۔ وہ منال کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ جانے کیوں؟
٭…٭…٭





اسکول میں لنچ بریک کی بیل کے ساتھ تمام بچے کلاس سے باہر نکلنے لگے۔ منال تیسری کلاس میں تھی۔ وہ اپنی بیسٹ فرینڈ انا کے ساتھ نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھ گئی، اپنا لنچ باکس کھول کر وہ چکن تکہ سینڈوچ نکال کر کھانے لگی۔
”گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے والی ہیں منال، میں تو پورے پندرہ دن کے لئے اپنی نانو کے گھر رہنے جائوں گی۔ تم کہاں کہاں جاؤ گی؟” انا نے چپس کھاتے ہوئے پرجوش انداز میں منال سے پوچھا۔
”میں بھی امی کے ساتھ چار پانچ دن کے لئے جاتی ہوں نانو کے گھر، لیکن انا تم پندرہ دن کرتی کیا ہو اپنی نانو کے گھر؟” اس نے اپنا لنچ باکس انا سے تبدیل کرتے ہوئے پوچھا۔
”میری خالہ اور ماموں کے بچے جو میرے ہم عمر ہیں ان کے ساتھ کھیلتی ہوں، ہم مل کر مووی دیکھتے ہیں، گھومنے جاتے ہیں اور بہت فن کرتے ہیں۔ اتنا کہ میرا وہاں سے واپس آنے کا دل نہیں کرتا۔ تم بتائوں تم کیا کرتی ہو اپنی نانو کے گھر جاکر؟” انا نے اس سے پوچھا۔
”میں… میں… جوتے پالش کرتی ہوں، صفائیاں کرتی ہوں، سب کی خدمتیں کرتی ہوں۔” اس نے یہ باتیں صرف دل میں سوچیں اس لیے کہ یہ سب باتیں بتا کر اس کے دوست کے سامنے اس کی سبکی ہوتی۔
بیل بجنے کی آواز پر وہ سوچ سے باہر آئی، بریک آف ہوچکی تھی۔
”تم کیا کرتی ہو؟” انا نے پھر پوچھا۔
”میرے ماموں کی شادی نہیں ہوئی ان کے کوئی بچے نہیں اور خالہ میری کوئی ہیں نہیں، اس لیے میں بہت کم انجوائے کرتی ہوں۔” اس نے کلاس میں قدم بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
”اس دفعہ ہم کتنے دن کے لیے جا رہیں ہیں امی؟” سنعیہ بیگ پیک کر رہی تھی جب منال نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
”دس دن کے لئے، تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” سنعیہ اپنا بیگ پیک کرتے ہوئے ہی بولی تھی۔
”امی! مجھے نہیں جانا، میں یہیں رہوں گی اپنے گھر میں دادی کے پاس۔” منال نے ڈرتے ڈرتے اپنی ماں سے کہا۔
”بالکل نہیں! تمہارے کپڑے میں پیک کر چکی ہوں اور تمہاری دادی کو میں موقع نہیں دینا چاہتی کہ وہ یہ سوچیں تمہیں وہاں کوئی تکلیف ہے جو تم جانا نہیں چاہتیں۔”
”ماموں نے پتا نہیں کیوں ڈانٹا تھا کہ میں چھت پر جائوں گی تو وہ میری ٹانگیں توڑ دیں گے۔” منال اب باقاعدہ سہمی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔
”ارے ماموں ہے بیٹا، مزاق کررہا ہوگا۔” سنعیہ نے اسے مُسکرا کر کہا اور پھرے سامان پیک کرنے لگی۔
٭…٭…٭
”منال ذرا کپڑا گیلا کرکے ڈرائنگ روم کے قالین پر پونچھا لگا دو۔”
شام کا وقت تھا اور وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ نانا ابھی ابھی کام سے واپس آئے تھے اور آتے ہی اسے صفائی کا کہا تھا۔ حالاں کہ کام والی صفائی کرکے جاچکی تھی۔
”جی ابھی کرتی ہوں۔” وہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کرسکی۔
”ذرا ہاتھ دھو کر ایک گلاس پانی پلادو۔” وہ پونچھا لگا کر اُٹھی ہی تھی کہ نانا کے کہنے پر پانی لینے چلی گئی۔
”مجھے بھی ایک گلاس پانی پلادو منال۔” کمرے سے کامل نے آواز لگائی۔
اور وہ بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلتی یہ سوچنے لگی کہ پہلے پانی کس کو دے۔
”میرے پیر دبادو بیٹا ذرا۔” نانا نے اسے خالی گلاس پکڑاتے ہوئے کہا۔
”جی اچھا!!!” یہ کہہ کر وہ ان کے پائوں دبانا شروع ہوچکی تھی۔ لوگ اپنی نانو کے گھر جاکر انجوائے کرتے ہیں اور میں زیادہ پریشان اس وقت ہوتی ہوں جب نانا اور ماموں ایک ساتھ پانی لانے کا کہتے ہیں یا پھر پیر دبانے کا کہتے ہیں۔
کتنا مختلف ماحول ہے یہاں کا۔ گھر میں پاپا نے کبھی مجھے پانی لانے کا حکم نہیں دیا۔ مجھ سے کبھی اپنے جوتے پالش نہیں کروائے، پیر نہیں دبوائے، نہ امی سے کبھی یہ سب کام کروایا۔ پاپا کی اور میرے گھر میں سب لوگوں کی یہ عادت اچھی ہے سب اپنا کام خود کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبیۖ بھی تو اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے۔ کتنا اچھا ہوجائے اگر دنیا میں سب نبی ۖ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنا اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کرنے لگ جائیں۔ کسی کو کسی سے شکایت بھی نہ رہے۔ ویسے پانی پلانا اور پیر دبانا تو ثواب کا کام ہے لیکن جوتے صاف کرانا اور صفائی کرانا، یہ سب کام کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا یا پھر مجھے پسند ہی نہیں۔
”منال… منال” کوئی اسے دھیرے سے آواز دے رہا تھا۔ یہ نانی تھیں جو نانا کے سوجانے پر دھیرے سے اسے آواز دے کر اٹھا دیا کرتی تھیں۔ نانا پیر دبواتے دبواتے سوچکے تھے۔
٭…٭…٭
”امی! اسکول والے پکنک پر ہاکس بے جارہے ہیں -ٹیچر نے یہ نوٹس دیا ہے جو بچہ پکنک پر جانا چاہتا ہے وہ اس پیپر پر والدین سے سائن کرواکے دو دن بعد ٹیچر کے پاس جمع کروادے۔ ”منال جو اب نویں کلاس میں تھی، ایک دن گھر آکر سنعیہ سے کہا۔
”ٹھیک ہے منال! تم یہ نوٹس کچن کاؤنٹر پر رکھ دو تمہارے پاپا آئیں گے تو پھر وہ دیکھ کے بتائیں گے۔” سنعیہ نے کڑی پر بھگار لگاتے کہا۔
موبائل بجنے پر وہ مُڑی، فریج کے اوپر سے موبائل اٹھایا۔ کامل کی کال تھی، بھگار لگ چکا تھا اور کڑھی تیار تھی۔ وہ کچن سے نکل کر بات کرتے ہوئے بیڈ روم میں آگئی۔




Loading

Read Previous

میری پری میری جان — اقراء عابد

Read Next

مارو گولی — سارہ قیوم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!