محرمِ دل — نفیسہ عبدالرزاق

چلو بھئی عینل تمھارا مسئلہ تو حل ہوگیا۔” ثنا کی چہکتی ہوئی صدا سن کر وہ فوراً کھڑی ہوگئی مگر اس کے پیچھے عماد کو آتے دیکھ کر، جو گاڑی کو چابی کی چین سمیت گھماتا ان کی طرف آرہا تھا، عینل جس بے ساختگی سے کھڑی ہوئی تھی اسی طرح پھر سے بیٹھ گئی۔
آج منگنی کے بعد وہ پہلی بار سسرال آئی تھی۔ اپنی ساس کے بے حد اصرار پر وہ آ تو گئی، پر اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے گھر والے اسے یہاں بھیج کر یہ تو نہیں سمجھ بیٹھے کہ وہ باقاعدہ رخصت ہو کر یہاں آئی ہے اور اب عماد کو دیکھ کر اسے سمجھ آرہی تھی یہ یقینا ثنا کی شرارت ہوگی جو سمیع اب تک اسے لینے نہیں آیا ہے۔
“افوہ پیاری بھابھی آپ اکیلے نہیں جارہیں، میں بھی آپ کے ساتھ چل رہی ہوں۔ پورا اندازہ ہے ہمیں آپ کی مشرقیت کا۔” اسے پھر سے بیٹھتے دیکھ کر ثنا نے شرارت سے کہا۔
عماد تو بے نیاز بنا وہاں کھڑا تھا جیسے موجود ہی نہ ہو جبکہ عینل نے صرف اسے گھورنے پر اکتفا کیا۔ عماد کے سامنے اب تک اس کی بولتی بند ہی رہی تھی۔
“آپ کی پریس کانفرنس ختم ہو گئی ہو تو چلیں ہم؟” عماد نے چلتے ہوئے کہا تو ثنا اس کے ساتھ قدم ملانے لگی، جبکہ عینل سست روی سے ان کے پیچھے چل پڑی، حالاں کہ ثنا ساتھ تھی لیکن پھر بھی اسے منگیتر کے ساتھ اس طرح جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
٭…٭…٭





“ثنا! یہ کیا؟ پہلے مجھے گھر چھوڑ دیتے پھر تم آسکتی تھیں یہاں” عینل اس وقت سخت جھنجھلاہٹ کا شکار تھی جب اس نے ان کی نانی کے گھر کے سامنے ثنا کو گاڑی سے اترتے دیکھا۔
“یار وہاں سے بھائی کو آگے کام سے جانا تھا پھر وہ دوبارہ مجھے چھوڑنے آتے تو کتنا وقت ضائع ہوجاتا”ثنا معصومیت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہی تھی۔
“اگر ایسا تھا تو مجھے بتا دیتیں میں سمیع کا اور انتظار کرلیتی۔” اب عینل سے مروت نہیں رکھی گئی اور نا ہی غصہ چھپایا گیا، پر آواز اتنی آہستہ تھی کہ بہ مشکل عماد سن پاتا، پر کچھ بھی سمجھنے کے لئے اس کے چہرے کے تاثرات ہی کافی تھے۔
“کم آن! منگیتر ہیں وہ تمھارے کوئی غیر تو نہیں ہیں۔” ثنا کہتی ہوئی عماد کی طرف متوجہ ہوئی۔
“بھائی میں نے آپ کا کام کردیا اب آپ نے میرا کرنا ہے، میں نے دوستوں کے ساتھ پکنک پر جانا ہے اور آپ نے مما کو منانا ہے، تو پھر میں ہاں سمجھوں؟”
“اوہ! میں یہی سوچوں کہ ثنا بیگم کے دل میں میرے لئے اتنا پیار کہاں سے جاگ گیا؟” عماد نے تاسف سے کہا اور ثنا، عینل کو آنکھ مارتی ہوئی نانی کے گھر میں غائب ہو گئی۔
عینل اسی طرح گم صم تھی جب عماد نے اسے آگے آکر بیٹھنے کو کہا۔ عماد نے اس کی ہچکچاہٹ محسوس کر کے نرمی سے کہا:
“پلیز” تو وہ خاموشی سے اس کے ساتھ والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔
گاڑی میں مکمل سکوت طاری تھا۔ وہ باہر کے نظارے دیکھنے میں مصروف تھی جب کہ عماد گاہِ بہ گاہ اس پر ایک نظر ڈال لیتا۔ گھر اب ذیادہ دور نہیں تھا مگر اس وقت اس کے اوسان خطا ہو گئے جب عماد نے کار ایک ریسٹورنٹ کے آگے پارک کی۔
شدتِ ضبط سے اس کا چہرہ سُرخ ہوگیا تھا۔ جب کہ عماد کار کا دروازہ کھولے اس کے نیچے اترنے کا منتظر تھا۔
“اب موقع ملا ہے تو تھوڑا وقت مل کربیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔”
وہ عینل جو اپنی دوستوں کو نصیحتیں کرتی تھی، ڈیٹ وغیرہ سے ان کو بچانے کے لئے لیکچرز دیا کرتی تھی، آج خود اس صورتِ حال کا شکار ہوگئی تھی مگر اس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ انکار کر پاتی۔
“آپ سمجھ رہی ہیں ڈیٹ وغیرہ، استغفار کیا میں آپ کو ایسا بندہ لگتا ہوں؟” عماد اس کے بتائے بغیر اس کی پریشانی بھانپ گیا تھا۔
وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگی۔ اس قدر بے بسی تھی کہ قدم سے قدم ملانا مشکل ہوگیا۔
بہت غرور تھا نا اپنی پارسائی کا۔ آج تم بھی ان ہی لڑکیوں میں شامل ہوگئی ہو۔
عماد کب سے اس کے چہرے پر کشمکش کے آثار دیکھ رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اس میں ایسی کون سی بری بات ہوگئی میں اس کا بوائے فرینڈ تو نہیں، منگیتر ہوں جو اس کے والدین کی رضامندی سے چنا گیا ہوں۔ چلو فون یا میسج پر بات نہیں کرتی تو کوئی بات نہیں۔ اس بارے میں ثنا اسے بتا چکی تھی۔ منگنی عینل کے نزدیک کچا رشتہ ہے، بہ قول اس کے منگیتر بھی نامحرم ہوتا ہے پر اگر ابھی اتفاقاً ملاقات ہو ہی گئی ہے تو اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے؟
کیا یہ کسی اور سے؟؟





نہیں۔ میں بھی کیسی باتیں سوچ رہا ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو ثنا کو ضرور معلوم ہوتا، آخر دونوں بیسٹ فرینڈز ہیں۔
دونوں اپنی جگہ سوچوں میں غرق تھے کہ عماد نے ہی خاموشی کو توڑا۔
“عینل آپ کھانا نوش فرما لیں اور اگر آپ گھر والوں کی طرف سے پریشان ہیں تو بے فکر ہو جائیں، ثنا نے انہیں فون۔۔۔” عماد کی بات پوری ہونے سے قبل ہی ایک طنزیہ لہجہ سنائی دیا تو دونوں نے چونک کر سر اٹھا کر مخاطب کو دیکھا۔
“اچھا تو یہاں یہ گُل چھرے اُڑائے جارہے ہیں اپنے محرم منگیتر کے ساتھ۔” ایک دم ہی عینل کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا تھا جو عماد کی نظر سے چھپ نہ سکا۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے مسٹر کون ہیں آپ ؟؟”
“یہ بدتمیزی ہے؟؟ حیرت ہے!” مخاطب کے طنز ہی ختم نہیں ہورہے تھے۔
“چلیں! میں خود ہی اپنا تعارف کروا دیتا ہوں۔ میں سلمان ہوں اور باقی کا تعارف یہ زیادہ بہتر کرواسکتی ہیں۔”
“اوہ،” عماد کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ کیوں کہ وہ سلمان نام سن کر ہی سمجھ گیا تھا کہ قصہ کیا ہے۔ اب اس نے سلمان کی بدتمیزی کو نظرانداز کرکے اسے بیٹھنے کی دعوت دی، جو اس نے بنا کسی پس و پیش قبول کرلی۔
“بیٹھ جاتا ہوں جناب! ان سے بڑے حساب نکلتے ہیں میرے” سلمان نے عینل کے سامنے کرسی سنبھال لی۔
“ریلکس عینل” عماد نے اسے سر جھکائے اور اس قدر ہراساں دیکھا تو تسلی دی۔
“واہ! کیا محبت ہے؟ مطلب میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا نا عینل صاحبہ، مجھے نظر انداز کرنے کے لئے بڑے ڈرامے کرتی تھیں کہ منگنی کوئی پائیدار بندھن نہیں ہے اس لیے روز آپ سے بات نہیں کرسکتی۔ جب تک نکاح نہیں ہوجاتا آپ نامحرم ہیں میرے لئے۔۔اور ملنے کا کہا تو تم نے کیا جواب دیا تھا؟ کہ کبھی کسی مرد کے ساتھ باہر گئی تو وہ میرا شوہر ہوگا۔ تو اب یہ کون سا شوہر ہے تمہارا؟؟ یقین تو اس وقت سے تھا کہ مسئلہ کوئی اور ہی ہے اور آج مسئلہ نظر بھی آگیا۔” سلمان نے عماد کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“اسی کے چکر میں تھیں نا تم، چلو آج یہ پچھتاوا بھی ختم ہوگیا کہ میں نے غلط الزام لگا کر منگنی توڑی تھی۔”
“ہاں تو اس سے نکاح کب ہوا تمہارا؟؟”
عینل کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں نے عماد کو بے چین کردیا تھا۔
“کیا بکواس ہے یہ؟؟” عماد کی برداشت کی حد ختم ہو چکی تھی ۔
“سچ بکواس لگتا ہے تمہیں؟؟ پوچھو اس سے، کتنا چاہتا تھا اور اب بھی چاہتا ہوں پر اپنی محبت پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہوں، جب کہ دیکھ لو اسے، شرم و حیا کے پردے میں اپنی بے غیرتی چھپا رہی تھی یہ، اب بھی وقت ہے تم بھی سوچ لو۔ “عماد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ وہ تیزی سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور دوسرے پل عینل کا ہاتھ تھام کر باہر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر بھی کچھ نہ بولا، عینل کے آنسو مسلسل بہ رہے تھے جب کہ وہ اسے نظر انداز کیے پوری توجہ سے ڈرائیونگ کررہا تھا، جیسے اس سے زیادہ ضروری اور کوئی کام نہ ہو۔
عینل کو لگا ایک بار پھر اس کے والدین کی رسوائی ہوگی، پھر منگنی توڑ دی جائے گی۔ یہ کہہ کر کہ وہ مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی کیوں کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے۔
“نہیں اب میرا خاموش رہنا مجھے مجرم ثابت کرے گا، اگر وہ نہیں پوچھ رہا تو مجھے خود بات کلئیر کرنی چاہیے۔”
“مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔” آخر اس نے ہمت کر کے پہلی بار بات کا آغاز کیا۔
“میں جانتا ہوں، آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔” اور عماد کے اس طرح خاموش کروانے پر بڑی مشکل سے جمع کی جانے والی ہمت پھر دم توڑ گئی، اس کے بعد اس سے ایک لفظ بھی نہ بولا گیا۔ اس کے گھر کے سامنے گاڑی روکی اور اسے اتار کر فوراً گاڑی آگے بڑھا دی۔ وہ اس کے اس رویے سے اس قدر خائف تھی کہ اسے اندر آنے کی دعوت بھی نہ دے سکی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

حصار —- نورالصباء

Read Next

لیپ ٹاپ — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!