عکس — قسط نمبر ۱۳

چند لمحے پہلے آئینے میں نظر آنے والے اپنے عکس کو اس بار اس نے خیردین کی آنکھوں میں منعکس ہوتے دیکھا تھا۔
ایک سرخ اور سنہرے کامدار دوپٹے کے ہالے میں دلہن کا روپ لیے چمکتا ہوا اس کا چہرہ… ماتھے کے بیچوں بیچ تاج کی طرح ٹکا اس کے لباس کے ہم رنگ سرخ پتھروں سے مرصع بیضوی شکل کا ایک ٹیکا… اس کے کانوں میں ہلکورے لیتے لمبے لمبے جھمکے جن کے نچلے حصے پر لٹکتے سرخ باریک موتی اس کی قمیص کے گہرے گول گلے سے ہمیشہ کی طرح نمایاں کالر بون کو گردن کے ذرا سے خم پر چومنے لگتے تھے اور اس کی باریک صراحی دار گردن کے گرد موجود سرخ پتھروں کا وہ نیکلس جس کا نیچے کو نکلا ہوا سنہری بیضوی حصہ اس کی سرخ قمیص کے سرے کو چھو رہا تھا۔ وہ آئینے میں اپنے شفاف اور واضح اس عکس کو دیکھ کر مبہوت نہیں ہوئی تھی۔ خیردین کی آنکھوں میں اپنے دھند لائے ہوئے عکس کو دیکھ کر ہوگئی تھی۔ وہ اپنے نانا کی آنکھوں کی نمی میں ہلکورے لے رہی تھی یا شاید وہ اس کی اپنی آنکھوں کی نمی تھی جس نے خیردین کی آنکھوں کی نمی میں دھند لاتے اس کے عکس کو کچھ اور دھند لا کر دیا تھا۔




لیکن خیردین اور وہ پھر بھی ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ… بے یقینی کے ایک عجیب سے جہاں میں پہنچے ہوئے۔
اس کے چہرے سے بالا خر نظریں پہلے خیردین نے ہی ہٹائی تھیں۔ وہ اپنی چڑیا کو اپنی نظر لگنے سے بھی بچانا چاہتا تھا۔ یہ اس کا وہ روپ تھا جس کو دیکھنے کے لیے وہ کئی سالوں سے متمنی تھا اور آج اس روپ میں چڑیا کو دیکھتے ہوئے اس کا دل عجیب سی خوشی اور طمانیت کے ساتھ ساتھ بڑی عجیب سی کسک محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کی چڑیا کو اپنا جیون ساتھی مل گیا تھا وہ اس کے ساتھ اب ایک نئے سفر پر اڑجانے والی تھی۔
عکس نے خیردین کو خود سے نظریں چراتے ہوئے آگے بڑھتے اور اسے اپنے ساتھ لپٹاتے دیکھا۔ وہ جذباتی نہیں تھی لیکن وہ اس لمحے رودی تھی۔
وہ چند منٹ پہلے بیوٹی پارلر سے نکاح کی اس سادہ تقریب میں شرکت کے لیے پہنچی تھی جو اسی گھر کے لان میں منعقد کی گئی تھی اور دروازے پر اس کا استقبال خیردین نے ہی کیا تھا۔ وہ چڑیا کے چند گھنٹے پہلے پارلر جانے کے بعد سے وہاں مہمانوں کا استقبال کرتا وہاں سے ہلا نہیں تھا۔ اسے اپنی چڑیا کی واپسی کا انتظار تھا۔ دلہن کے روپ میں اس پر پہلی نظر ڈالنے کی بے قراری… خیردین کی نظریں مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اور انہیں پائیں باغ کی طرف بھیجتے ہوئے بھی گیٹ پر جمی رہی تھیں۔
اور اب جب وہ گھر کے اندرونی دروازے کے سامنے گھر کے اندر جانے کے لیے اپنی چند دوستوں کے ساتھ کھڑی تھی تو خیردین کا دل عجیب طرح سے بوجھل تھا۔ وہ عام لڑکی نہیں تھی نہ خیردین نے اسے عام طرح سے پالا تھا پھر بھی وہ ایک لڑکی تھی اور خیردین کا دل ویسے ہی اندیشوں اور خدشات سے دوچار تھا جیسے اندیشے کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کو ایک انجان آدمی کے ساتھ ایک انجان سفر پر رخصت کرتے ہوئے رکھتا…چاہے وہ انجان آدمی جیون ساتھی ہی کیوں نہ ہوتا۔ چاہے وہ انجان سفر زندگی کا سفر ہی کیوں نہیں ہوتا۔
خیردین نے اسے کندھوں سے تھامے ہوئے اس کے جھکے ہوئے سر کو پھر ماتھے کو چوما ،عکس نے ایک بار پھر سر اٹھا کر اپنے نانا کو دیکھا وہ کتنی خوب صورت لگ رہی تھی اس نے خیردین کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا۔ وہ اس کے لیے کیا دعائیں کررہا تھا وہ اس کے ساکت ہونٹ سے بھی سن سکتی تھی۔ عکس مراد علی نے اپنی ساری زندگی میں ایسا مرد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ شفیق تھا، رہبر تھا، دوست تھا، غم خوار تھا، اس پر جان چھڑکنے والا تھا اوروہ اس کے لیے اپنی انا اور عزت کو ہر بار کی طرح اس بار بھی کہیں بہت پیچھے رکھ آیا تھا۔ ایسا کون ملے گا اسے جو اسے خیردین کی طرح چاہے گا… کبھی کوئی نہیں مل سکتا، کوئی اس جیسا ہو ہی نہیں سکتا ،کوئی اس کے لیے اپنے دل میں ویسی غیر مشروط محبت رکھ ہی نہیں سکتا۔ چڑیا نے اپنے نانا کی آنکھوں میںیہ سب پڑھا تھا۔ کھلی کتاب کی طرح جس کا ایک ایک لفظ خود بول رہا تھا۔
بنا کچھ کہے اس نے خیردین کا ہاتھ تھام لیاتھا۔ اس ہاتھ کے لمس میں وہ تشکر جھلک رہا تھاجو عکس کے دل میں تھا اور جو اس کے نرم ہاتھ کی سخت گرفت میں تھا۔
”میں تمہارے بغیر بہت اداس ہوجاؤں گا چڑیا۔”خیردین نے اپنی نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”نانا میں آپ کی زندگی سے کہیں جاؤں گی تو اداس ہوں گے نا آپ۔ میں کہیں نہیں جارہی ، میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہی رہوں گی۔” خیردین رنجیدگی سے اس کی تسلی سنتے ہوئے مسکرادیا تھا۔ وہ اسے بچوں کی طرح بہلا رہی تھی۔
”رک کیوں گئیں؟” خیردین نے اسے گھر کے اندرونی دروازے میں رکتے دیکھ کر کہا۔
”نہیں… ایسے ہی۔” وہ چونکی تھی اور اس نے اپنے ان سات ساتھیوں سے نظریں ہٹا لی تھیں جو ایک بار پھر اس کا استقبال کرنے کے لیے وہاں موجود تھے اور جنہیں وہ ہمیشہ اس گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہیں نہ کہیں دیکھتی رہی تھی۔ وہ سات اس کی زندگی کے اس نئے سفر پر اسے رخصت کرنے کے لیے ایک بار پھر وہاں موجود تھے۔
ٹوفو اس کے رو پہلی چوڑی دار پاجامے کی چوڑیوں کے ساتھ لٹکا اپنا توازن برقرار رکھنے کی جدو جہد میں مصروف تھا۔ کنٹا اس کی پینسل ہیل والے جوتے کے اسٹرپ سے چپکا اس کے پیروں پر بنے مہندی کے نقش ونگار پر غور فرمانے میں مصروف تھا۔ منٹا ایک باجا پکڑے گھر کی دہلیز پر ادھر سے ادھر جاتے ہوئے اسے بجانے میں لگا تھا۔ ڈیڈو اچھل اچھل کر اس کے ٹخنوں تک پہنچتی سرخ قمیص کے سنہری کامدار دامن کو پکڑنے کی کوشش میں لگا تھا۔ ٹوکو اس کے زمین تک لٹکنے والے دوپٹے کے پلو سے لٹکا ہوا تھا اور کٹو اور ٹنٹو خوشی سے بے قابو سر پر سالگرہ والی نوکدار لمبی ٹوپیاں پہنے پھر کی کی طرح گول گول گھومتے چکراتے پھر رہے تھے۔ وہ سب اس کی خوشیوں کو سیلیبریٹ کررہے تھے۔ چڑیا نے اس غیر مرئی دنیا کو مسکراتے ہوئے دیکھا جو صرف اسے نظر آتی تھی اور جہاں کی ملکہ وہ تھی۔
ایلس آج اپنے اس ونڈر لینڈ کو چھوڑ کر اپنے جیون ساتھی کے ساتھ ایک نئے ونڈر لینڈ کو آباد کرنے جارہی تھی۔
……٭……
ان دونوں نے بہت دور سے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تھا۔ شیردل چند لمحے پہلے ہی ہاسپٹل کے اس کوریڈور میں داخل ہوا تھا جہاں خیردین کا کمرا تھا اور عکس ابھی ابھی ہاسپٹل سے کسی کام کے لیے باہر نکل رہی تھی۔ شیردل کو آتے دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی تھی۔ بہت دور سے بھی دونوں نے ایک دوسرے کو ایک خیرمقدمی مسکراہٹ دی تھی۔
”کب آئے؟” عکس نے اس کے قریب آنے پر علیک سلیک کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”ابھی، ابھی۔” شیردل نے جواب دیتے ہوئے اس کے چہرے کو جیسے کھوجنے کی کوشش کی، وہ ہمیشہ کی طرح ناکام رہا تھا۔ وہاں ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملا تھا۔ ایک انتہائی اطمینان بھری مسکراہٹ جس میں کسی قسم کا کوئی اضطراب نہیں تھا۔
”کیا ضرورت تھی اتنی جلدی یہاں آنے کی؟ ریسٹ کرتے… کل پرسوں آجاتے یا فون پر حال پوچھ لیتے۔” عکس نے اسے کہا۔
”انکل کیسے ہیں؟” شیردل نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”اللہ کا شکر ہے پہلے سے بہت بہتر ہیں۔” عکس نے جواباً کہا۔ ”تمہاری فلائٹ کیسی رہی؟”
”ٹھیک تھی، تم نے مجھے اپنی suspensionکے بارے میں نہیں بتایا۔” شیردل نے چھوٹتے ہی وہ سوال کیا جو ہاسپٹل تک آنے کے پورے راستے میں اسے پریشان کرتا رہا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی پھر اس نے اسی اطمینان سے کہا۔
”کیا بتاتی؟”ایک لمحے کے لیے اس کے سوال نے شیردل کو لاجواب کیا۔
”انفارم کرتیں مجھے، کل میری اور تمہاری بات ہوئی ہے تم نے ذکر تک نہیں کیا۔” وہ بات کرتے کرتے شکایت کرگیا۔
”فائدہ کیا ہوتا؟” اس کا اطمینان برقرار تھا۔
نقصان بھی کوئی نہیں تھا۔” شیردل نے جتایا۔
”میں نے نہیں بتایا تو بھی پتا تو چل ہی گیا نا تمہیں… ایسا کوئی راز تو نہیں تھا کہ پتا نہ چلتا۔ نانا سے ملوگے؟” اس نے اس کی شکایت کو بے پروائی سے نظر انداز کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”ہاں۔” شیردل نے مختصراً کہا اور قدم آگے بڑھادیے۔ عکس بھی اس کے ساتھ واپس پلٹ گئی تھی۔
”suspensionکیوں ہوئی؟” شیردل نے ساتھ چلتے ہوئے اس سے پوچھا، وہ گردن موڑ کر اس کو دیکھتے ہوئے مسکرائی۔
”پوری چارج شیٹ سناؤں یا صرف بنیادی وجہ بتاؤں؟” اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جس سے شیردل پر گھڑوں پانی پڑا تھا۔
”میں نے تمہیں منع کیا تھا۔” شیردل نے اس سے نظریں چراتے ہوئے خفگی سے کہا۔ ”اسی سب سے بچانا چاہتا تھا تمہیں، اسی سب سے بچانے کے لیے وارن کررہا تھا تمہیں۔”
”میں نے تم سے کوئی شکایت کی ہے؟” اس نے شیردل کی بات بڑے تحمل سے کاٹ دی تھی۔ ”اب تمہیں پتا چلا میں نے تمہیں کیوں نہیں بتایا تھا اپنی سسپینشن کے بارے میں۔”
”تم اپنا سروس ریکارڈ خراب کررہی ہو عکس۔” شیردل چلتے چلتے رک گیا تھا۔
”شیردل وہ میرا مسئلہ ہے تم اس کے بارے میں پریشان نہ ہو۔ مجھے چارج کیا گیا ہے میں انہیں explanation دے لوں گی۔ اور میرے لیے یہ سب غیر متوقع نہیں ہے۔ جس دن میں نے کیس فائل کیا تھا مجھے اندازہ تھا کہ میں کون سا پینڈورہ باکس کھولنے جارہی ہوں۔ اس لیے تم پریشان مت ہو۔ تم اپنی فیملی اور اپنے انکل کو defend کرو… مجھے کیس لڑنے کے لیے جو کرنا پڑا میں وہ کروں گی لیکن ہم پھر بھی دوست رہیں گے۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔ زندگی میں پہلی بار اسے عکس مراد علی بے وقوف لگی تھی۔
”تم عقل سے پیدل ہو۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
”اچھا؟”وہ بے اختیار ہنس دی تھی۔
”تم اتنا آسان سمجھ رہی ہو یہ سب کچھ… تمہارا خیال ہے کہ تمہیں اگر suspend کیا گیا ہے تو پھر تمہاری explanationلے کرتم سے معذرت کرتے ہوئے تمہیں بحال کردیا جائے گا۔” وہ طنزیہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”شیردل میں کیس واپس نہیں لوں گی اور اب تو بالکل بھی نہیں۔ تم نانا کی عیادت کرنا چاہتے ہو یا ویسے ہی واپس جانا چاہتے ہو؟” اس نے شیردل کی بات کاٹ کر اسے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”جہنم میں جاؤ تم۔” شیردل اس کے جملے پر بری طرح جھنجلایا… وہ دوبارہ قدم اٹھاتے ہوئے مسکرائی۔
”میں وہاں سے گزر کر آئی ہوں۔ دوبارہ بھی جانا پڑا تو باہر نکلنے کا راستہ جانتی ہوں۔” اس کا اطمینان قا بل داد تھا اوروہ داد دیتا اگر کیس اس کے اپنے خلاف نہ ہوا ہوتا۔
”اور اب نانا سے میری suspension کا قصہ لے کر مت بیٹھنا۔” اس نے ساتھ چلتے ہوئے اسے ہدایت کی۔
”انہیں کچھ بتانا ہوتا تو سب سے پہلے اس کیس کے بارے میں بتاتا۔” وہ ساتھ چلتے ہوئے خفگی سے بولا۔
”عقل مند ہوگئے ہو۔” وہ داد نہیں تھی راز کو راز رکھے رکھنے کی ترغیب تھی اور شیردل یہ بات جانتا تھا۔
خیردین بستر پہ لیٹے ہوئے دروازے میں داخل ہوتے شیردل کو دیکھ کر مدھم انداز میں ہلکا سا مسکرایا تھا۔ شیردل بھی جواباً مسکرایا۔ وہ عکس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تھا اور اس سے کچھ بات کرتے کرتے وہ خیردین کے بستر کے قریب آگیا۔ خیردین پر ذرا سا جھکتے ہوئے اس نے خیردین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بڑی نرم آواز میں آس سے پوچھا۔
”آپ کی طبیعت اب کیسی ہے انکل؟” خیردین مسکرایا تھا۔




Loading

Read Previous

جواز — امایہ خان

Read Next

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!