خواب زادی — ابنِ عبداللہ

یہ ایک خواب زادی کی کہانی ہے۔
داستان گو نے لمبا سانس کھینچا اور پھر سامنے بیٹھی لڑکی کی بھیدوں بھری آنکھوں میں جھانکا ۔
اس نے بچپن سے ہی اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں بہت سے چھوٹے چھوٹے خواب پال رکھے تھے۔
اس کی آنکھوں کے آسمان میں ڈھیر سارے خوابوں کے تارے جھلملاتے تھے ۔
اس کی ماں بچپن میں ہی چل بسی تھی جب وہ سات سال کی تھی۔




جب اس کی ماں اس کی نھنی آنکھوں میں بجھی تو کچھ خواب ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے تھے۔۔جیسے آسمان میں کوئی تارا ٹوٹ کر روشنی پیدا کرتا ہوا فضا کے ایک نا ختم ہونے والے خلا میں گم ہوجائے ۔
سامنے بیٹھی لڑکی کے چہرے پر دکھ کی ایک لہر نے جنم لیا اور وہ بولی۔
وہ کس کے ساتھ رہتی تھی کیا اس کے بہن بھائی تھے باپ تھا، داد دادی یا اس کی بانو؟
داستان گو نے اس کی بات سن کر اپنے چہرے پر یوں ہاتھ پھیرا جیسے جھریوں میں سے بہتی کہانی کا سرا پکڑ رہا ہو۔
اس کی ماں اس کی زندگی کا واحد رشتہ تھی اس کا باپ اس کی پیدائش سے کچھ دن قبل ہی کسی امیر زادے کی گاڑی کی زد میں آکر دم توڑ گیا تھا۔
یتیم پیدا ہونے کا دکھ بڑا گہرا ہوتا ہے میری بچی ۔
بوڑھے کی سال خوردہ آنکھوں میں وقت کی دیمک کچھ گہری ہوئی تھی۔
اوہ۔۔۔۔۔لڑکی اتنا ہی کہ سکی۔اس کی آنکھوں میں اس خواب زادی کا درد کچھ نمکین آنسو تشکیل دے رہا تھا۔
پھر اس نے کیا کیا؟
جب وہ بولی تو اس کی آواز میں اداسی کی گہری پرچھائیاں تھیں۔
زندگی جینے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں دیتی ہے ۔
وہ بھی ماں کی گودھ سے اتر کر دنیا کی گودھ میں سوال ہوئی ۔
بوڑھے نے جیب سے مڑا تڑا سگریٹ نکالا اور منہ میں دیتے ہوئے مسالے پر آخر بچی ہوئی تیلی کو رگڑا۔
وہ ساری زندگی رشتوں کے احساس سے خالی رہی ۔یتیم خانے کی دیواروں کو دیکھتے ہوئے اور اپنے ساتھ رہنے والے بچوں کی آنکھوں میں یتیمی کے ہولناک سائیوں کو چلتے دیکھتے ہوئی وہ بھی سانس لیتی تھی۔
پر خالی سانس لینے کا نام زندگی بھی تو نہیں ہوتا۔۔وہ اپنا کردار نبھا رہی تھی بس ۔
بوڑھے نے دھواں اگلا۔
پھر کیا ہوا ؟




لڑکی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پوچھا ۔
پھر ۔۔۔داستان گو ایک لمحے کو رکا ۔
پھر اس نے خواب دیکھنے چھوڑ دیئے ۔
خواب پرندوں کی طرح اس کی آنکھوں کے گھونسلوں سے اڑ گئے۔
جب وہ پندرہ سال کی ہوئی تو اس کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی اس کے خوابوں کی طرح۔۔
کہانی سننے والی لڑکی کی آنکھوں میں تاریکی پھیل گئی تھی۔
لوگوں نے تب جانا کہ اس کی دنیا میں اندھیرا ہو چکا ہے حالنکہ ایسا نہیں تھا وہ بہت پہلے ہی سے اپنی آنکھیں اور روشنی چھوڑ چکی تھی ۔
اس کی زندگی کے شمع دان میں موم بہت کم تھی۔جو تھی اس میں سے زیادہ جل چکی تھی۔
کیا اس کی زندگی میں کوئی ایسا نا تھا جو اس کی مدد کر سکتا؟
لڑکی نے پریشانی سے بوڑھے کو دیکھتے ہوئے سوال پوچھا۔
اس سماج مدد کی رویات اب پرانی ہو چکی اس کے آسمان کا سورج گہن لگا تھا۔
سب غرض رکھتے تھے۔۔
لوگوں کو اس کا عورت ہونا ہی نظر آتا تھا انسان ہونا نہیں۔
وہ اندھی ضرور تھی لیکن لوگوں کی آنکھیں پڑھ سکتی تھی۔ان میں ہوس کی آگ جلتے ہوئے دیکھ لیتی تھی اور اس آگ کی تپش وہ بدن پر روز محسوس کرتی تھی۔
وہ ڈری ہوئی رہتی تھی ۔ایک خوف اس کی بے نور آنکھوں میں دبے پاں چلتا رہتا تھا اس کی آہٹ سے وہ نیند میں بھی سینکڑوں بار ڈری۔
بوڑھے کی آواز میں جلے ہوئے خشک پھولوں کی خوشبو تھی۔
لڑکی نے اس خوشبو کو سونگھ لیا تھا تبھی اس کی آنکھوں میں تاسف کی تتلیاں اڑنے لگی تھیں۔
کیا وہ ہمیشہ ایسے ہی رہی؟
اس نے دکھ بھرے لہجے میں بوڑھے کو مخاطب کیا۔
اس کاگناہ ناقابل معافی تھا۔
وہ لڑکی یتیم تھی نابینا تھی۔
یہ معاشرا سب کچھ معاف کر سکتا ہے لیکن عورت کا عورت ہونا کبھی معاف نہیں کر سکتا۔
وہ لڑکی تنہائی کی گہری دھند میں کھڑی تھی جہاں وہ خود تو دیکھ سکتی تھی لیکن لوگوں کو نہیں۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۳

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!