یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

دنیا میں سات ارب سے زیادہ انسان ہیں ،آپ ان سات ارب سے زیادہ انسانوں میں سے دو ایسے انسان بہ مشکل ہی ڈھونڈ پائیں گے، جو فطرت اور سوچ میں یکتا ہوں ،جن کی خوشی اور غمی کی وجوہات مشترک ہوں ،جن کی پسند ،ناپسند ایک ہو۔الغرض دو ایسے جسم جن میں اللہ نے ایک ہی روح کو دو مرتبہ بنا کر پھونک دیا ہو،آپ کہیں نہ پا سکیں گے۔دنیا کا کوئی تاریخ دان آپ کو انسانی تاریخ میں دو یکساں انسان ڈھونڈ کر نہیں دکھا سکتا۔ہر دو انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں چاہے وہ جڑواں بھائی ،جڑواں بہنیں یا جڑواں بہن بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔ہم جب فیملی کی بات کرتے ہیں تو ہم کم از کم دو افراد کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔فیملی کا مختصر ترین وجود بھی دو انسانوں سے مل کر بنتا ہے اور ان دو افراد میں بھی صرف ایک ہی بات مشترک ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ،اس کے علاوہ ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ہوتی۔یہ وہ حقیقت ہے جسے اکثریت قبول کرنے سے انکاری ہے ۔




ہم پاکستانی معاشرت پہ آتے ہیں ،ہمارے ہاں آج بھی جوائنٹ فیملی سسٹم مروّج ہے۔ خاندان اور برادری ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔آج بھی خاندان میں شادیاں کرنے کا عام رواج ہے جسے لوگ نسل در نسل منتقل کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ہمارے گھروں میں سربراہ کی حیثیت سے کوئی نہ کوئی ہستی موجود ہوتی ہے جس کے فیصلوں پہ ہم آنکھیں بند کر کے چلتے ہیں۔ اگر جوائنٹ سسٹم سے ہٹ کر بات کی جائے تب بھی ہمارے ہاں فیملی سسٹم رائج ہے۔جو میاں ،بیوی اور بچوں پہ مشتمل ہوتا ہے، لیکن یہاں بھی انفرادی فیصلے نہیں کیے جاتے۔بچے والدین کے پابند ہوتے ہیں اور والدین آپس میں ایک دوسرے کے ……پاکستان میں بہت کم ایسے گھرانے ہوں گے جہاں ہر شخص اپنے فیصلے خود کرنے کے لئے سوفیصد آزاد ہو ورنہ اکثریت فیملی سسٹم کی ہی پابند ہے۔یہی وجہ ہے ہمارے ہاں آج بھی لحاظ اور مروّت جیسے رویئے روا ہیں ،ہم آج بھی رشتوں کے تقدس کو اہمیت دیتے ہیں اور زبان کی پاس داری کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ہمارے فیملی سسٹم نے ہمیں ان مادر پدر آزاد معاشروں میں پلنے والے انسانوں سے الگ شناخت دی ہے جو قانونی اور انفرادی آزادی کے باعث سدھائے ہوئے جانور بن چکے ہیں۔ ہم اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے مگر اس وقت ہمارا معاشرہ ایک بہت بڑے مسئلے کا شکار ہے ،اور وہ ہے ناکام شادیاں ….
ہمارے معاشرے میں شادی جیسے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط برتنے کے باوجود ان کے ٹوٹنے کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہاں میں صرف ارینج میرج کی بات کر رہا ہوں کیوںکہ اکثریت ارینج میرج کو ہی ترجیح دیتی ہے جس میں دو خاندانوں کے بڑے یا ایک ہی خاندان کے دو دھڑے آپس میں متفقہ طور پہ لڑکا اور لڑکی کی رضامندی اور بعض اوقات رضامندی کے بغیر بھی شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر والدین تمام معاملات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں مگر پھر بھی یہ ارینج میرج اس وقت مسائل کا شکار ہے۔ پچھلے چھے ماہ میں میری جان پہچان کے کم از کم دس لوگ شادی کی ناکامی جیسے ناخوش گوار مرحلے سے گزر چکے ہیں اور ناراضیوں اور علیحدگیوں کا سلسلہ بھی طویل ہے۔ شائد یہ اب ہر دوسرے گھر کا مسئلہ ہے ………….ایسا کیوں ہے ؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ایک چھوٹی سی کہانی ملاحظہ کیجیے۔
میرے ایک دوست ہیں۔ کم پڑھے لکھے مگر حد درجہ ٹھنڈے دماغ کے اور سلجھے ہوئے انسان، حافظ قرآن بھی ہیں ، کھاریاں میں کسی سرکاری افسر کی جیپ چلاتے ہیں۔ اُنتیس فروری کو ان کی شادی ہوئی اورآج مجھے انہوں نے فون کر کے بتایا کہ وہ ایک بار پھر ”چھڑے ” بن چکے ہیں …..ان کی شادی ناکام ہو گئی ہے ……میں چوںکہ ان کا پرانا دوست اور کسی حد تک شاگرد بھی ہوں اس لیے مجھے انہوں نے اپنی شادی کی ناکامی کی اصل وجہ بھی بتا دی اور وہ ہے ……ایک دن کی مزید چھٹی …..وہ کہتے ہیں کہ انہیں 19مارچ تک شادی کی چھٹی ملی تھی۔ چھٹی ختم ہونے پر جب وہ واپس ملازمت پر جانے کی تیاری کر رہے تھے تو ان کی نئی نویلی دلہن نے کہا :
”آپ ایک دن اور رک جائیں ۔”
وہ رک گئے ……اگلے دن ان کی بیوی نے پھر فرمائش کی:




”آپ آج بھی مت جائیں ۔”
وہ دوسرے دن بھی رک گئے۔
بائیس مارچ کو ان کے افسر کا فون آیا اور انہیں سختی سے واپس آنے کا حکم دیا۔یہ واپسی کی تیاری کرنے لگے تو بیوی نے پھر کہا:
”آپ ایک دن کی مزید چھٹی لے لیں ۔”
ان کے بہ قول انہوں نے نرمی سے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ایسا ممکن نہیں۔ جلد دوبارہ چھٹی لینے کا وعدہ کیا اور شام کی گاڑی سے واپس کھاریاں چلے گئے۔
یہ ابھی راستے میں ہی تھے کہ انہیں والدہ کی کال موصول ہوئی ۔ان کا کہنا تھا :
”تمہاری ساس آئی تھیں ،خوب جھگڑنے کے بعد تمہاری بیوی کو ساتھ لے کر چلی گئی ہیں۔”
میرے دوست نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ ان کی ساس کا مؤقف تھا ….
”نئی نویلی بیوی کو چھوڑ کر نوکری پہ چلا گیا ہے اور اس کے منع کرنے کے باوجود نہیںرکا۔ اس کا مطلب اسے بیوی کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس لئے اب اگر وہ کل ہی واپس آ جائے اور اپنی بیوی سے معافی مانگ لے ،تو میں اپنی بیٹی کو اس کے ساتھ بھیج دوں گی ورنہ نہیں۔”
میرے دوست نے والدہ سے بات کرنے کے بعد بیوی کو فون کیا ۔ بہ قول ان کے، بار بار فون کرنے کے باوجود ان کی بیوی نے فون اٹھانا تو درکنار اُلٹا بند ہیکر دیا۔ میرے دوست اگرچہ بہت نرم خو اور صلح جو قسم کے آدمی ہیں مگر اس وقت ان کا پارہ ایک دم سے آسمان پہ جا پہنچا۔انہوں نے دوبارہ ماں سے بات کی اور کہا:
”اگر وہ کل تک گھر نہ آئی تو میں اسے طلاق دے دوں گا یہ بات اسے بھی بتا دیجیے گا۔”
ان کی ماں بیٹے کے غصے کے پیشِ نظر اسی وقت اس کے سسرال پہنچیں اور اپنی بہو اور اس کی ماں کی منت سماجت کرنے لگیں، مگر ان لوگوں نے بات سننے کی بجائے ان سے جھگڑا شروع کر دیا۔ لہٰذا وہ ناکام واپس آگئیں ۔چھبیس مارچ کو میرے دوست نے ایک دن کی چھٹی لی اور سیدھا سسرال جا پہنچا……اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں ۔
گھریلو مسائل کمرے میں جنم لیتے ہیں ،یہ جب تک کمرے تک محدود رہتے ہیں ،قابل حل ہوتے ہیں جیسے ہی کمرے سے نکل کر گھر کی چار دیواری تک پہنچتے ہیں ،پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور جب یہ گھر کی چار دیواری پھلانگ کر گلی ،محلے، خاندان اور برادری تک پہنچ جاتے ہیں تو بالکل ہی ناقابل حل ہو جاتے ہیں۔پھر آپ ان مسائل کو جتنا سلجھانا چاہیں گے یہ اتنا ہی الجھتے جائیں گے ۔میں نے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک، کوئی گھریلو مسئلہ ،جو عوامی بن چکا ہو …حل ہوتے نہیں دیکھا ۔ہم جب تک مسائل کو ذاتی رکھیں گے ،کمرے تک محدود رکھیں گے ،اسے سلجھانا بہت آسان ہو گا۔ گھریلو مسائل جب عوامی بن جائیں ،تب آپ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ صرف اپنے کانوں سے اپنے گھر کی باتیں گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلتے بچوں کے منہ سے سنتے ہیں اور بے بسی سے کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ۔
آپ ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجئے ،ایک کامیاب شادی کے پیچھے صرف دو لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر ایک ناکام شادی کے پیچھے ان گنت لوگ ہوتے ہیں جو آپ کے گھر والے،خاندان والے، دوست ، رشتہ دار اور محلے دار ہو سکتے ہیں۔آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہو گا ،آپ اور آپ کا شریک حیات دو مختلف مزاج کے افراد ہیں جن کے اندر اللہ نے دو الگ الگ روحیں پھونکی ہیں ،جو سوچنے، سمجھنے ،دیکھنے اور سننے کی اپنی انفرادی صلاحیت رکھتی ہیں ۔آپ ایک دوسرے کی سو فیصد تقلید کر سکتے ہیں نہ متفق ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اختلافات کی گنجائش ہر حالت میں رہے گی۔ لیکن مناسب ترین عمل یہ ہے کہ اپنے اختلافات کو آپ خود ہی حل کریں، انہیں گھریلو اور اس کے بعد عوامی نہ بننے دیں۔یہ مسئلہ اس وقت ہر طبقے کے فرد کا دردِسر بن چکا ہے، چاہے وہ مزدور ہو ،منیجر ہو یا مالک …. . مگر اُس کا ذاتی مسئلہ عوامی بننے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا۔
اپنے دوست کے ساتھ پیش آنے والے ان افسوس ناک حالات کو جانے مجھے کچھ گھنٹے ہی ہوئے ہیں۔ لیکن ان چند گھنٹوں میں مجھے اس سنگین اور مشکل مسئلے کے تین بے حد مؤثر حل سوجھے ہیں:
نمبر ایک سمجھوتہ
نمبر دو سمجھوتہ
نمبر تین سمجھوتہ
ان کے علاوہ اگر کوئی چوتھا حل آپ کے پاس ہے تو مجھے ضرور مطلع کیجئے گا۔میں تا حیات آپ کا شکر گزار رہوں گا۔




Loading

Read Previous

وہم — حنا اشرف

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!