عکس — قسط نمبر ۱۱

آئینے پر ایک اور نظر ڈالتے ہوئے اندر جانے سے پہلے چڑیا نے پلٹ کر ایک نظر بر آمدے کے سامنے پھیلے ہوئے لان کو دیکھا ۔وہ اب اس کا گھر تھا۔ کم از کم تب تک جب تک۔” سرکار” اسے وہاں رکھتی اور اس گھر میں موجود ہر چیز بھی اس کی سرکاری تحویل اور تصرف میں تھی۔
چڑیا نے سامنے لان میں لگے فلیگ پول پر لہراتا جھنڈا دیکھا جو اس گھر کے مالک کی اپنی رہائش گا ہ میں موجود ہونے کا اعلان کررہا تھا۔اس لان میں اس نے سارا بچپن کھیلتے ہوئے گزارہ تھا۔ اس فلیگ پول کی اہمیت یا ضرورت سے واقف ہوئے بغیر اس کے گرد گھومتے چکر کاٹتے ہوئے… یادیں اس گھر کے چپے چپے پر بکھری ہوئی تھیں… وہ ساری یادیں اچھی تھیں… اس ایک رات کے علاوہ جو اس کی پوری زندگی پر پھیل گئی تھی۔اس گھر میں اس نے بہت اچھا وقت گزاراہ تھا ۔اس نے، حلیمہ نے اور خیر دین نے۔




چند منٹ پہلے اسی پورچ میں اسٹاف کار سے اترتے ہوئے اس کے عملے نے اس کا استقبال کیا تھا۔ وہ اس شہر میں تعینات ہونے والی پہلی ڈپٹی کمشنر تھی اور اس کی ذات میں اس کے عملے کا تجسس اور دلچسپی ایک لازم سی بات تھی۔ وہیں پورچ میں اس گھر میں کام کرنے والے عملے سے چڑیا کی پہلی ملاقات اور تعارف ہوا تھا ۔خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی ایسا چہرہ یا نام نہیں تھا جو چڑیا کے ماضی سے وابستہ تھا۔ وہ سب زیادہ سے زیادہ دس پندرہ سال سے وہاں کام کررہے تھے۔ گھر کا سب سے پرانا ملازم 18 سال سے وہاں تھا۔ کوئی پرانا چہرہ پہچاننے کی کوئی خواہش لے کر وہ وہاں آئی بھی نہیں تھی۔
اس کا ماتحت عملہ اس گھر کی پہلی خاتون آفیسر کو بے حد مرعوبیت کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ ان میں سے کوئی اس کی ذہنی کیفیت اور اضطراب سے واقف نہیں تھا۔ واقف ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ چڑیا کو اپنے چہرے کے تاثرات اور اعصاب پر قابو رکھنا آتا تھا۔اپنے ماتحت عملے کی رہنمائی میں گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے وہ بالآخر اس ہال کمرے میں آگئی تھی۔ زندگی میں اس سے زیادہ تذلیل اور بے بسی کے احساس سے وہ کہیں دو چار نہیں ہوئی تھی۔ اس جگہ نے اس کی رسوائی کا تماشا دیکھا تھا… وہ سیڑھیاں …جن سے بھاگتے ہوئے اس نے اپنی زندگی بچانے کی جدوجہد کی تھی اور وہ گیلری جہاں کھڑے ایبک کے حلق سے نکلنے والی ہذیانی چیخوں نے اس کی زندگی بچائی تھی۔ اسے اپنے حلق پر کسی کے ہاتھوں کی جان لیواگرفت محسوس ہوئی اور پھر اس نے پل بھر میں اس گرفت کو ڈھیلا پڑتا دیکھا۔ اس پر جھکا اس کا گلا دباتا شہباز حسین نے کرنٹ کھا کر اوپر گیلری میں کھڑے لکڑی کی ریلنگ پکڑے پاگلوں کی طرح روتے اور چلاتے ہوئے ایبک کو خوف اور بے بسی سے دیکھا تھا۔وہ اس سے اتنا دور تھاکہ وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا نہ اس کو روک سکتا تھا اور بالکل اس لمحے چڑیا نے بھی ایبک کو دیکھا تھا۔ زمین پر پڑی چند لمحے پہلے سانس لینے کی جدوجہد کرتی بے دم چڑیا نے …اور پھر وہ یک دم اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ شہباز حسین اسے دوبارہ پکڑاور گرا نہیں سکا تھا۔ کچن کے دروازے سے تب تک ہڑ بڑایا ہوا خیر دین اس ہال کمرے میں آگیا تھا۔
”میڈم اوپر چلیں؟” ایڈمن آفیسر نے اس کو بالکل ٹھیک وقت پر ٹوکا تھا۔ سر ہلاتے ہوئے اس نے اپنی آنکھوں میں آئے پانی کو پلکیں جھپکاتے ہوئے روکا تھا۔
ڈاکٹر عکس فاطمہ اس گھر میں آنے سے پہلے یہاں آکر نہ رونے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ وہ یہاں چڑیا بن کر رہنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ یہاں” عکس مراد علی” بن کر آنا اور رہنا چاہتی تھی۔ اس شہر کی طاقتور ترین عورت۔
……٭……
”تم طاقت حاصل کرنا چاہتی ہو؟” خیر دین نے عجیب افسردگی کے عالم میں چڑیا کو دیکھا اور اس کا جملہ دہراتے ہوئے کہا۔ چڑیا نے کچھ کہے بغیر سر ہلادیا۔ اس نے کچھ دیر پہلے خیر دین کو یہ بتایا تھا کہ وہ میڈیسن پریکٹس نہیں کرے گی وہ سول سروس جوائن کرنا چاہتی تھی۔ اس کا فیصلہ خیر دین کے لیے اتنا غیر متوقع تھا کہ اگلے کئی منٹ وہ کچھ بول ہی نہیں سکا تھا۔ وہ جس کیفیت کا شکار تھا چڑیا اس کا اندازہ کرسکتی تھی۔ اس گھر سے نکل آنے کے بعد سے اب تک اس نے خیر دین کو کبھی بھولے سے بھی کسی سے یہ ذکر کرتے نہیں سنا تھا کہ وہ کبھی کسی ڈی سی ہاؤس میں سرکاری ملازم کے طور پر کئی دہائیاں کام کرتا رہا تھا۔ خیر دین نے گاؤں میں اپنے گھر کے باہر سے اپنی نیم پلیٹ کے ساتھ ہی اپنی زندگی میں سے اپنے ماضی کے اس حصے کو بھی اتار پھینکا تھا۔
چڑیا نے نو سال کی عمر تک خیر دین کو ہر جگہ اور ہر شخص کو بے حد فخریہ طور پر اپنی اس سرکاری ملازمت کے بارے میں بتاتے سنا تھا۔ خیر دین کو اپنی ذات اور زندگی کے اس حوالے پر عجیب فخر تھا، عجیب مان تھا اور ایک نو سال کی بچی کے طور پر بھی چڑیا اس اثاثے کی قدروقیمت سے واقف تھی جو خیر دین نے اس کی وجہ سے گنوادیا تھا۔ لیکن زندگی میں اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ خیر دین کا یہ اثاثہ لوٹانے کے لیے کبھی کچھ کرپائے گی۔
کئی سالوں سے خیر دین اپنی دال کی وجہ سے اس سارے علاقے میں مشہور تھا۔ اس کے نام کا حوالہ اس علاقے کی بہترین دال کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی زبان پر تھا۔ ایسی شہرت اس نے ڈی سی ہاؤس میں کام کر کے حاصل نہیں کی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس نے ڈی سی ہاؤس سے نکل آنے کے بعد خیر دین نے زندگی میں بڑی ترقی کی تھی۔ چند سو روپے سے ایک ریڑھی پر شروع ہونے والا بزنس بارہ سالوں میں شہر کے ایک گنجان آباد اور بے حد مہنگے کاروباری علاقے میں ایک دکان میں تبدیل ہوچکا تھا جس کی مالیت تقریبا 50 لاکھ روپے تھی۔ اس کے پاس اپنا ڈبل اسٹوری گھر تھا، گاڑی تھی۔ اس کی دکان پر آنے والے بڑے بڑے لوگوں سے اس کی اچھی سلام دعا تھی۔ ایک دال والا ہونے کے باوجود اس کا اٹھنا بیٹھنا بہت اچھے لوگوں میں تھا لیکن اس کے باوجود چڑیا جانتی تھی کہ خیر دین کی زندگی کا سب سے بڑا رنج اس گھر سے اس بے عزتی کے ساتھ بے دخلی اور اس غیر منصفانہ انداز میں نوکری سے برخاستگی کا تھا جو یک طرفہ شنوائی کے نتیجے کے طور پر کی گئی تھی۔ اسے یقین تھا اس کی طرح اس کے نانا نے بھی اپنی زندگی کی ان تمام یادوں پر مینٹل بلاک لگا دیا تھا۔کوئی اپنی بے بسی اور ذلت کے احساس کو بار بار relive نہیں کرنا چاہتا۔
اور اب اتنے سالوں بعد چڑیا کے فیصلے نے اسے جس طرح ہلا یا ہوگا وہ چڑیا کے لیے سمجھنا مشکل نہیں تھا۔
”میری زندگی کا خواب تھا کہ تم ایک ڈاکٹر بنو۔” خیر دین نے اس سے نظریں ملائے بغیر کہا تھا۔ وہ چڑیا کی آنکھوں میں کون سی شے دیکھنے سے گریزاں تھا وہ یہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
”میں نے آپ کا خواب پورا کردیا۔ ڈاکٹر تو بن چکی ہوں میں۔” چڑیا نے سنجیدگی اور اطمینان سے کہا۔
”میری خواہش تھی کہ تم انسانیت کی خدمت کرو۔” خیر دین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا وہ چڑیا کے سامنے کتنا گھسا پٹا جملہ دہرارہا تھا، وہ جو صدیوں سے اخباروں میں پڑھتا اور لوگوں کی زبان سے سنتا آرہا تھا۔
”انسانیت کی خدمت صرف ڈاکٹر بن کے ہی تو نہیں ہوتی مجھے لگتا ہے میں سول سروس کے طور پر انسانیت کی زیادہ خدمت کروں گی خاص طور پر اس معاشرے میں۔” خیر دین جانتا تھا وہ چڑیا کو لاجواب نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے چڑیا کو logic کی گھٹی دے کر پالا تھا اور اب وہ اس کے منہ سے logic ہی سن رہا تھا۔
”انسانیت کی خدمت سرکار اور اس کے عہدے داروں کی خدمت سے بہتر ہوتی ہے۔” پتا نہیں خیر دین کے اندر درد کا کون سا آبلہ پھوٹ کر بہا تھا جس کی ٹیس چڑیا تک بھی نہیں پہنچی تھی۔ اس چھوٹے سے جملے میں خیر دین کی زندگی کا نچوڑ نہیں تھا اس کی درد بھری کتھا تھی۔ اس کا رنج، تکلیف، اس طبقاتی اور غیر مساواتی نظام کے سامنے اس کی بے بسی اور مایوسی جہاں نچلے طبقے کا کوئی شخص انصاف کے لیے پکار سکتا تھا لیکن حق نہیں لے سکتا تھا۔ اس جملے میں بے بسی اور تذلیل کی جو تاریخ چھپی تھی چڑیا بھی اس کا ایک باب تھی وہ اسے پہچانتی تھی۔
”آپ ٹھیک کہتے ہیں نانا۔” خیر دین نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اپنی نواسی کو کہتے سنا۔” لیکن سرکار اور حکومتی مشینری میں ہماری نمائندگی ہونی چاہیے تا کہ وہاں بھی ”انسان”نظر آئیں”خدا” نہیں۔”
”ایک فرد پورے نظام کو نہیں بدل سکتا۔”
”پھر ایک مچھلی پورے جل کو گندہ کرنے کی طاقت کیسے رکھتی ہے؟”
”چیزیں تبدیل کرتے کرتے زندگی گزر جاتی ہے انسان کی۔”




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۰

Read Next

وہم — حنا اشرف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!