وہم — حنا اشرف

”مما جانی… آپ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں؟”
گول مٹول سے ریان نے سکول سے واپسی پہ اپنی پیاری ماں سے پوچھا۔
اس کے اس سوال پہ مناہل کے چہرے پہ بے ساختہ مسکان درآئی۔
”مما کی جان! مما آپ سے بہت زیادہ پیار کرتی ہیں…”
زیان کو گلے سے لگاتے اسے پیار کرتے مناہل نے جواب دیا۔
”زیان سے بھی زیادہ پیار آپ مجھ سے کرتی ہیں نا؟”
اس نے پھر تصدیق چاہی…!




”مما سب سے زیادہ پیار آپ سے ہی کرتی ہیں ڈھیر سارا پیار، آپ میں تو مما کی جان ہے میرے شہزادے…!” اسے خود سے لپٹائے ہوئے، اس کے سر پہ بوسہ دے کر اس نے جواب دیا…
”ویسے آج کیسے خیال آگیا یہ پوچھنے کا؟”
مناہل نے شرارت سے کہا جواباً ریان کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی میں ہلکی سے مسکان نے جھلک دکھلائی…
”مما جانی بہت بھوک لگی ہے بس جلدی سے کھانا دیں…”
”اچھا میری جان… آپ بھائی کو بلا کے لاؤ، میں کھانا لگاتی ہوں اور ہاں پہلے یونی فارم تبدیل کرلیں…” زیان کے جانے کے بعد وہ دسترخوان پہ کھانا لگانے لگی۔
٭…٭…٭
مناہل اور ارمغان کی شادی کو دس سال ہوچکے تھے۔ ان کے دو بیٹے تھے بڑا بیٹا زیان آٹھ سال کا جب کہ اس سے چھوٹا ریان سات سال کا تھا۔ مناہل کو اپنے دونوں بیٹوں سے بے حد پیار تھا مگر چھوٹے ریان میں تو اس کی جان تھی… جب کہ زیان اپنے بابا کا لاڈلا تھا… ویک اینڈ پر دونوں بھائیوں کی ضد کی وجہ سے مناہل انہیں قریبی پارک میں لے آئی تھی، نئے ایریا میں شفٹ ہوئے انہیں ابھی کچھ ہی ماہ ہوئے تھے۔ مناہل فی الحال دونوں کو اکیلے باہر کہیں آنے جانے نہ دیتی تھی۔ بڑی وجہ شہر کے حالات تھے، جو کسی بھی وقت خراب ہوسکتے تھے اور وہ کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔ ارمغان کو اپنی نیند زیادہ پیاری تھی، زیان کے اسرار کے باوجود وہ ان کے ساتھ نہ آیا تھا۔ ان دنوں بہت زیادہ کام کی وجہ سے اسے ایک پل بھی سکون کا نصیب نہ ہورہا تھا، سارا دن مصروفیت میں گزرتا…!!
٭…٭…٭
”مما جان… یہ دیکھیں اتنی پیاری پیاری تتلیاں ہیں… میں انہیں ڈبیا میں بند کرلوں؟” مناہل نے جو اردگرد کے مناظر میں مگن تھی ریان کی آواز پہ چونک کر اسے دیکھا…
”نہیں ریان انہیں مت پکڑنا، یہ تو بہت چھوٹی ہیں… چُھونے سے ان کے پر ٹوٹ جائیں گے…” زیان نے اس کے قریب آکر اسے منع کیا…
”میں انہیں پکڑ کر پیار کروں گا یہ بہت بیوٹی فل ہیں…”
ریان ضد کیے جارہا تھا… زیان اسے سمجھا رہا تھا ان کی اس تکرار پر مناہل مسکراتی رہی…
زیان کے منع کرنے کے باوجود ریان تتلی پکڑ چکا تھا اور اس ننھی تتلی کو مٹھی میں بند کرلیا کچھ ہی دیر میں اس کی مٹھی کی سختی کے باعث وہ چھوٹی سی پیاری تتلی نے دم توڑ دیا…




”دیکھا میں نے منع کیا تھا ناکہ اسے مت پکڑو مر جائے گی… زیان کے غصہ ہونے پر اس کے آنسو بے ساختہ بہ نکلے اور پھر وہ زور زور سے رونے لگا… مناہل نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ ”بری بات زیان… بھائی کو پیار سے سمجھاتے ہیں…”
”کوئی بات نہیں اگر اس سے غلطی ہوگئی ہے تو آئندہ یہ ایسا ہرگز نہیں کرے گا۔ پرامس کرو بھائی سے آئندہ آپ تتلیوں کو نہیں پکڑو گے…!!” زیان سے کہنے کے بعد اس نے ریان سے وعدہ لیا…
”پکا پرامس آئندہ کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا سوری بھائی…” دونوں کان پکڑ کر اس نے سوری بولا تو زیان کے ساتھ مناہل بھی مسکرادی…
تینوں کافی دیر انجوائے کرنے کے بعد واپس آئے…
٭…٭…٭
”یہ حادثہ بہت خطر ناک تھا اس میں کئی معصوم بچے جاں بحق ہوگئے ہیں…
زخمی بچوں کو قریبی ہسپتال میں شفٹ کردیا گیا ہے…”
ناظرین ہم آپ کو پھر بتاتے چلیں یہ جو سامنے آپ کو بچوں کا پرائیویٹ سکول نظر آرہا ہے یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر، سکول کی وین کا تیز رفتار ٹرالر سے خطرناک حادثہ ہوا ہے…
وہ کسی چینل کا نمائندہ تھا… جواب حادثے والی جگہ اور وین کو قریب سے دکھا رہا تھا… جہاں لوگ خوف سے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ پولیس اور ایمبولینس کی بڑی تعداد موجود تھی…
مناہل کی آنکھیں ٹی وی کے یہ مناظر دیکھ کر پھٹی جارہی تھیں…
مناہل صبح کے وقت ٹی وی پہ کوئی نہ کوئی نیوز چینل لگالیتی… کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ نیوز بھی سُن لیتی۔ ابھی اس نے ٹی وی آن ہی کیا تھا کہ یہ خبر سننے کو ملی…
کانپتے ہاتھوں سے بہ مشکل اس نے ارمغان کو کال ملائی…
”غنی… وہ… وہ…” اس سے بات بھی نہ ہو پا رہی تھی بس روئے جارہی تھی…
”مناہل کیا ہوا ہے ایسے کیوں رو رہی ہو؟” ارمغان کی آواز سنتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی…
”ارمغان بچوں کی وین کا سکول کے سامنے ایکسی ڈنٹ ہوگیا ہے پلیز آپ جلدی آئیں… میری جان نکلی جارہی ہے۔”
”اوکے میں ابھی آتا ہوں تم پریشان نہ ہو… اللہ پاک سے دعا مانگو سب خیریت سے ہوں گے…” اس نے جلدی سے بات ختم کرکے کال کاٹ دی… ارمغان کی تسلی کے باوجود بھی اسے ایک پل کا چین نہ آیا تھا…
اگلے بیس منٹ بعد سکول کے سامنے تھے… جہاں بہت زیادہ افراتفری مچی ہوئی تھی… پولیس انہیں وین کے قریب بھی نہ جانے دے رہی تھی۔
”مناہل خود کو سنبھالو… اس طرح سے حوصلہ مت ہارو میرا دل کہتا ہے ہمارے بچے بالکل خیریت سے ہوں گے… اس کے آنسو صاف کرکے ارمغان نے اسے سمجھایا…
”مناہل…” اپنے نام کی پکار پر اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں زیان کی ٹیچر کھڑی تھیں… جن سے مناہل کی اچھی خاصی دوستی بھی تھی۔
”رملہ… میرے بچے ٹھیک تو ہیں نا؟؟”
”ابھی کچھ خبر نہیں ہے بہت سے بچے زخمی ہوئے ہیں کچھ کی ڈیتھ بھی ہوگئی ہے…” مس رملہ نے آنکھوں سے آنسو صاف کرتے اسے اطلاع دی… ”نہ ہمیں کوئی ہسپتال کے اندر جانے دے رہا ہے اور نہ ہی یہاں کوئی کچھ بتا رہا ہے آخر ہم کہاں جائیں…” ارمغان نے بے بسی سے کہا…




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۱

Read Next

یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!