پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۲

یہ سب کچھ اسکول میں ہونے والے ایک واقعے سے شروع ہوا تھا۔ اِمامہ اس وقت میٹرک کی اسٹوڈنٹ تھی اور تحریم اس کی اچھی دوستوں میں سے ایک تھی۔ وہ لوگ کئی سال سے اکٹھے تھے اور نہ صرف ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے بلکہ ان کی فیملیز بھی ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ اپنی فرینڈز میں سے امامہ کی سب سے زیادہ دوستی تحریم اور جویریہ سے تھی مگر اسے حیرت ہوتی تھی کہ اتنی گہری دوستی ہونے کے باوجود بھی جویریہ اور تحریم اس کے گھر آنے سے کتراتی تھیں۔ امامہ ہر سال اپنی سال گرہ پر انہیں انوائٹ کرتی اور اکثر وہ اپنے گھر پر ہونے والی دوسری تقریبات میں بھی انہیں مدعو کرتی، وہ گھر سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ بنا دیتیں۔ چند بار امامہ نے خود ان دونوں کے والدین سے اجازت لینے کے لیے بات کی، لیکن اس کے بے تحاشا اصرار کے باوجود ان دونوں کے والدین انہیں اس کے گھر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ ان کے اس رویے پر کچھ شاکی ہوکر اس نے اپنے والدین سے شکایت کی۔
”تمہاری یہ دونوں فرینڈز سید ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر ہمارے فرقہ کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لیے ان دونوں کے والدین انہیں ہمارے گھر آنے نہیں دیتے۔”
ایک بار اس کی امی نے اس کی شکایت پر کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی… ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے…” امامہ کو ان کی بات پر تعجب ہوا۔
”اب یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے… یہ تو ہمیں غیر مسلم بھی کہتے ہیں۔” اس کی امی نے کہا۔
”کیوں غیر مسلم کہتے ہیں۔ ہم تو غیر مسلم نہیں ہیں۔” امامہ نے کچھ الجھ کر کہا۔
”ہاں بالکل۔ ہم مسلمان ہیں… مگر یہ لوگ ہمارے نبی پر یقین نہیں رکھتے۔” اس کی امی نے کہا۔
”کیوں…؟”
”اب اس کیوں کا میں کیا جواب دے سکتی ہوں۔ بس یہ لوگ یقین نہیں رکھتے۔ کٹر ہیں بڑے، یہ تو انہیں قیامت کے دن ہی پتہ چلے گا کہ کون سیدھے رستے پر تھا۔ ہم یا یہ۔۔۔۔”
”مگر امی! مجھ سے تو انہوں نے کبھی مذہب پر بات نہیں کی۔ پھر مذہب مسئلہ کیسے بن گیا… اس سے کیا فرق پڑتا ہے، پھر دوسرے کے گھر آنے جانے سے کیا ہوتا ہے۔” امامہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔
”یہ بات انہیں کون سمجھائے… یہ لوگ ہمیں جھوٹا کہتے ہیں، حالاں کہ خود انہیں ہمارے بارے میں کچھ پتا نہیں… بس مولویوں کے کہنے میں آکر ہم پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ انہیں ہمارے بارے میں اورہمارے نبی کی تعلیمات کے بارے میں کچھ پتا ہو تو یہ لوگ اس طرح نہ کہیں۔ شاید پھر انہیں کچھ شعور آجائے… اوریہ لوگ بھی ہماری طرح راہِ ہدایت پر آجائیں۔ تمہاری فرینڈز اگر تمہارے گھر نہیں آتیں تو تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ان کے گھر مت جایا کرو۔”
”مگر امی! ان کی غلط فہمیاں تو دور ہونی چاہئیں میرے بارے میں۔” اِمامہ نے ایک با رپھر کہا۔
”یہ کام تم نہیں کرسکتیں۔ ان لوگوں کے ماں باپ مسلسل اپنے بچوں کی ہمارے خلاف برین واشنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہمارے خلاف زہر بھرتے رہتے ہیں۔”
”نہیں امی! وہ میری بیسٹ فرینڈز ہیں۔ ان کو میرے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ میں ان لوگوں کو اپنی کتابیں پڑھنے کے لیے دوں گی، تاکہ ان کے دل سے میرے بارے میں یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں، پھر ہوسکتا ہے یہ ہمارے نبی کو بھی مان جائیں۔” امامہ نے کہا۔اس کی امی کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔
”آپ کو میری تجویز پسند نہیں آئی؟”
”ایسا نہیں ہے… تم ضرور انہیں اپنی کتابیں دو… مگر اس طریقے سے نہیں کہ انہیں یہ لگے کہ تم اپنے فرقہ کی ترویج کے لیے انہیں یہ کتابیں دے رہی ہو۔ تم انہیں یہ کہہ کر کتابیں دینا کہ تم چاہتی ہو وہ ہمارے بارے میں جانیں۔ ہم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اوران سے یہ بھی کہنا کہ ان کتابوں کا ذکر وہ اپنے گھر والوں سے نہ کریں… ورنہ وہ لوگ زیادہ ناراض ہوجائیں گے۔” امامہ نے ان کی بات پر سر ہلا دیا۔
٭…٭…٭





اس کے چند دنوں بعد اِمامہ اسکول میں کچھ کتابیں لے گئی تھی۔ بریک کے دوران وہ جب گراؤنڈ میں آکر بیٹھیں توامامہ اپنے ساتھ وہ کتابیں بھی لے آئی۔
”میں تمہارے اور جویریہ کے لیے کچھ لے کر آئی ہوں۔”
”کیا لائی ہو دکھاؤ؟” اِمامہ نے شا پر سے دو کتابیں نکال لیں اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں ان کتابوں پر ایک نظر ڈالتے ہی کچھ چپ سی ہوگئیں۔ جویریہ نے امامہ سے کچھ نہیں کہا مگر تحریم یک دم کچھ اکھڑ گئی۔
”یہ کیا ہے؟” اس نے سر دمہری سے پوچھا۔
”یہ کتابیں ہیں تمہارے لیے لائی ہوں۔” امامہ نے کہا۔
”کیوں…؟”
”تاکہ تم لوگوں کی غلط فہمیاں دورہوسکیں۔”
”کس طرح کی غلط فہمیاں؟”
”وہی غلط فہمیاں جو تمہارے دل میں، ہمارے فرقے کے بارے میں ہیں۔” اِمامہ نے کہا۔
”تم سے کس نے کہا کہ ہمیں تمھارے ”مذہب” یا تمہارے نبی کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں؟ تحریم نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
”میں خود اندازہ کرسکتی ہوں۔ صرف اسی وجہ سے تو تم لوگ ہمارے گھر نہیں آتے۔ تم لوگ شاید سمجھتے ہو کہ ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں یا ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے یا ہم لوگ محمدﷺکو پیغمبر نہیں مانتے حالاں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے… ہم لوگ ان سب چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ محمدﷺکے بعد ہمارا ایک امتی نبی ہے اور وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح محمدۖ۔” اِمامہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
تحریم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں اسے واپس تھما دیں۔ ”ہمیں تمہارے اور تمہارے مذہب کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے… ہم تمہارے مذہب کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے تم کو کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے بڑے روکھے لہجے میں اِمامہ سے کہا۔ ”اورجہاں تک ان کتابوں کا تعلق ہے تو میرے اورجویریہ کے پاس اتنا بے کار وقت نہیں ہے کہ ان احمقانہ دعووں، خوش فہمیوں اور گمراہی کے اس پلندے پر ضائع کریں جسے تم اپنی کتابیں کہہ رہی ہو۔” تحریم نے ایک جھٹکے کے ساتھ رابعہ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں کھینچ کر انہیں بھی اِمامہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اِمامہ کا چہرہ خفت اورشرمندگی سے سرخ پڑ گیا۔ اسے تحریم سے اس طرح کے تبصرے کی توقع نہیں تھی اگر ہوتی تو وہ کبھی اسے وہ کتابیں دینے کی حماقت ہی نہ کرتی۔
”اور جہاں تک اس احترام کا تعلق ہے تو اس نبی میں جس پر نبوت کا نزول ہوتا ہے اوراس نبی میں جو خود بخود نبی ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے زمین اورآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تم لوگوں کو اگر قرآن پر واقعی یقین ہوتا تو تمہیں اس کے ایک ایک حرف پر یقین ہوتا۔ نبی ہونے میں اورنبی بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔”
”تحریم! تم میری اورمیرے فرقہ کی بے عزتی کر رہی ہو۔” امامہ نے آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہا۔
”میں کسی کی بے عزتی نہیں کر رہی۔ میں صرف حقیقت بیان کر رہی ہوں، وہ اگر تمہیں بے عزتی لگتی ہے تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی…” تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”روزہ رکھنے میں اوربھوکے رہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے اور اس پر ایمان لانے میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔ بہت سارے عیسائی اور ہندو بھی اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے قرآن پاک پڑھتے ہیں تو کیا انہیں مسلمان مان لیا جاتا ہے اوربہت سے مسلمان بھی دوسرے مذہب کے بارے میں جاننے کے لیے دوسری الہامی کتابیں پڑھتے ہیں تو کیا وہ غیر مسلم ہوجاتے ہیں اورتم لوگ اگر حضورﷺکوپیغمبر مانتے ہو تو کوئی احسان نہیں کرتے۔ تم ان کی نبوت کو جھٹلاؤگے تو اور کیا کیا جھٹلاؤگے، پھر تو انجیل کو بھی جھٹلانا پڑے گا، جس میں حضورﷺکی نبوت کی خوش خبری دی گئی ہے، پھر تو توریت کو بھی جھٹلانا پڑے گا، جس میں ان کی نبوت کی بات کی گئی ہے، پھر قرآن پاک کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو محمدﷺکو آخری نبی قرار دیتا ہے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر تمہارا نبی محمدﷺکی نبوت کو جھٹلاتا تو وہ ان مناظروں کی کیا توجیہہ پیش کرتا جو وہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کئی سال عیسائی پادریوں سے محمدﷺ کی نبوت اور اسلام کے آخری دین ہونے پر کرتا رہا تھا۔ اس لیے امامہ ہاشم! تم ان چیزوں کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش مت کرو، جن کے بارے میں تمہیں سرے سے کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ تمہیں نہ اس مذہب کے بارے میں پتا ہے، جس پر تم چل رہی ہو اورنہ اس کے بارے میں جس پر تم بات کر رہی ہو۔”
تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”اورمیں ایک چیز بتادوں تمہیں… دین میں کوئی جبر نہیں ہوتا… تم لوگ محمد ﷺ کی نبوت کے حتمی ہونے کا انکار کرتے ہو تو ہمارے پیغمبر محمد ﷺ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
”مگر ہم محمدﷺکی نبو ت پر یقین رکھتے ہیں۔” اِمامہ نے اس با ت پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تو پھرہم بھی انجیل پر یقین رکھتے ہیں، اسے الہامی کتاب مانتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو کیا ہم کرسچن ہیں…؟ اور ہم تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اورحضرت داؤد علیہ السلام کی نبوت پر بھی یقین رکھتے ہیں تو کیا پھر ہم یہودی ہیں؟ “تحریم نے کچھ تمسخر سے کہا ”لیکن ہمارا دین اسلام ہے، کیوں کہ ہم محمد ﷺ کے پیروکا رہیں، اورہم ان پیغمبروں پر یقین رکھنے کے باوجود نہ عیسائیت کا حصہ ہیں نہ یہودیت کا، بالکل اسی طرح تم لوگوں کا نبی ہے کیوں کہ تم اس کے پیروکار ہو۔ ویسے تم لوگ تو ہمیں بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ ابھی تم اصرار کر رہی ہو کہ تم اسلام کا ایک فرقہ ہو… جب کہ تمہارے نبی اوراس کے بعد آنے والے تمہاری جماعت کے تمام لیڈرز کا دعویٰ ہے کہ جو مرزا کی نبوت پریقین نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے… تو اسلام سے تو تم لوگ تمام مسلمانوں کو پہلے ہی خارج کر چکے ہو۔۔۔”
”ایسا کچھ بھی نہیں ہے… میں نے ایسا کب کہا ہے؟” امامہ نے قدرے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تو پھر تم اپنے والد صاحب سے ذرا اس معاملے کو ڈسکس کرنا… وہ تمہیں خاص اپ ٹو ڈیٹ انفارمیشن دیں گے، اس بارے میں … تمہارے مذہب کے خاصے سرکردہ رہ نما ہیں وہ …” تحریم نے کہا ”اور یہ جو کتابیں تم ہمیں پیش کر رہی ہو… انہیں خود پڑھا ہے تم نے … نہیں پڑھا ہوگا۔ ورنہ تمہیں پتا ہوتا ان سرکردہ رہ نماؤں کے بارے میں۔”
جویریہ تحریم کی اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہی تھی، وہ صرف کن اکھیوں سے امامہ کو دیکھتی رہی تھی۔” اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمدﷺا س کے آخری نبی ہیں اورمیرے پیغمبرﷺاس پر گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں اورمیری کتاب مجھ تک یہ دونوں باتیں بہت صاف واضح اور دو ٹوک انداز میں پہنچا دیتی ہے تو پھر مجھے کسی اورشخص کے ثبوت اور اعلان کی ضرورت نہیں ہے… سمجھیں۔”
تحریم نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”بہتر ہے تم اپنے مذہب کو یا میرے مذہب کو زیر بحث لانے کی کوشش نہ کرو۔ اتنے سالوں سے دو ستی چل رہی ہے، چلنے دو۔۔۔”
”جہاں تک تمہارے گھر نہ آنے کا تعلق ہے تو ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ میرے والدین کو تمہارے گھر آنا پسند نہیں ہے۔ یہاں اسکول میں تم سے دوستی اور بات ہے۔ بہت سے لوگوں سے دوستی ہوتی ہے ہماری اور دوستی میں عام طورپر مذہب آڑے نہیں آتا لیکن گھر میں آنا جانا … کچھ مختلف چیز ہے… انہیں شاید میری کسی عیسائی یا یہودی یا ہندو دوست کے گھر جانے پر اعتراض نہ ہو لیکن تمہارے گھر جانے پر ہے… کیوں کہ وہ لوگ اپنے مذہب کو مانتے ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے، جس مذہب سے تعلق ہوتا ہے وہی بتاتے ہیں، اوریہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تم لوگوں کو ناپسند کیا جاتاہے اتنا ان لوگوں کو نہیں کیا جاتا کیوں کہ تم لوگ صرف پیسے کے حصول اوراچھے مستقبل کے لیے یہ نیا مذہب اختیار کر کے ہمارے دین میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہو، مگر کرسچن، ہندو یا یہودی ایسا نہیں کرتے۔”
امامہ نے بے اختیا رٹوکا ”کس پیسے کی بات کر رہی ہو تم…؟ تم ہماری فیملی کو جانتی ہو… ہم لوگ شروع سے ہی بہت امیر ہیں۔ ہمیں کون سا روپیہ مل رہا ہے اس مذہب پر رہنے کے لیے۔”
”ہاں تم لوگ اب بڑے خوش حال ہو، مگر شروع سے تو ایسے نہیں تھے تمہارے دادا مسلمان مگر غریب آدمی تھے۔ وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے اورایک چھوٹے سے کاشت کار تھے۔ ربوہ سے کچھ فاصلے پر ان کی تھوڑی بہت زمین تھی پھر تمہارے تایا نے اپنے کسی دوست کے توسط سے وہاں جانا شروع کردیا اور یہ مذہب اختیار کرلیا اور بے تحاشا امیر ہوگئے کیوں کہ انہیں وہاں سے بہت زیادہ پیسہ ملا پھر آہستہ آہستہ تمہارے والد اورتمہارے چچا نے بھی اپنا مذہب بدل لیا پھر تم لوگوں کا خاندان اس ملک کے متمول ترین خاندانوں میں شما رہونے لگا اوریہ کام کرنے والے تم لوگ واحد نہیں ہو زیادہ تر اسی طریقے سے لوگوں کو اس مذہب کا پیرو کار بنایا جا رہا ہے۔”
امامہ نے کچھ بھڑکتے ہوئے اس کی بات کو کاٹا ”تم جھوٹ بول رہی ہو۔”
”تمہیں یقین نہیں آرہا تو تم اپنے گھر والوں سے پوچھ لینا کہ اس قدر دولت کس طرح آئی ان کے پاس… اورابھی بھی کس طرح آرہی ہے۔ تمہارے والد اس مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں ڈالرز آتے ہیں، انہیں غیر ملکی مشنریز اوراین جی اوز سے …” تحریم نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
”یہ جھوٹ ہے، سفید جھوٹ۔” امامہ نے بے اختیار کہا۔ ”میرے بابا کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ وہ اگر اس فرقہ کے لیے کام کرتے ہیں، تو غلط کیا ہے۔ کیا دوسرے فرقوں کے لیے کام نہیں کیا جاتا۔ دوسرے فرقوں کے بھی تو علماء ہوتے ہیں یا ایسے لوگ جو انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔”
”دوسرے فرقوں کو یورپی مشنریز سے روپیہ نہیں ملتا۔”
”میرے بابا کو کہیں سے کچھ نہیں ملتا۔” امامہ نے ایک با رپھر کہا۔ تحریم نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
اِمامہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر گردن موڑ کر اپنے پاس بیٹھی جویریہ کی طرف دیکھا۔
”کیا تم بھی میرے بارے میں ایسا ہی سوچتی ہو؟”
”تحریم نے غصہ میں آکر تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ تم اس کی باتوں کا برا مت مانو۔” جویریہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”تم ان سب باتوں کو چھوڑو… آؤ کلاس میں چلتے ہیں، بریک ختم ہونے والی ہے۔” جویریہ نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

Read Next

سراب — زارا رضوان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!