وہ اپنی سی ۔۔۔ تنزیلہ احمد

آئیے! میں آپ کو اس پری پیکر سے متعارف کرواتا ہوں۔ میری اجلی صبح کا آغاز اس نازنین کے دیدار سے ہوتا ہے۔ سورج کی مندی آنکھوں اور پرندوں کی انگڑائیوں کے دوران منہ اندھیرے وہ سفید یونیفارم میں ملبوس دو بچیوں کو ساتھ لیے گھر سے نمودار ہوتی ہے اور تب تک پکی روش پہ کھڑی رہتی ہے جب تک بچیاں پہلے سے ان کے انتظار میں کھڑے تانگے میں سوار ہو کر نظروں سے اوجھل نہیںہوجاتیں۔
بچیوں کو رخصت کرنے کے بعد گھر میں واپس داخل ہونے سے پہلے وہ گردوپیش پہ ایک تفصیلی نظر ڈالتی ہے اور اپنے کندھوں پہ شال کی مانند لپیٹا دوپٹا درست کرتی اندر چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے میں وہ یونیفارم میں ملبوس ایک اور چھوٹی بچی کو لیے گھر سے وارد ہو گی اور اندر چلے جانے کے بعد کئی گھنٹوں کے لیے اپنا چہرہ نہیںں دکھائے گی۔
بہت قلیل عرصے میں ہی وہ مجھے بہت پیاری، اپنی اپنی اور دل کے نزدیک لگنے لگی ہے۔ مجھے اس کا انتظار رہنے لگا ہے کہ کب دھوپ ڈھلے، کب جھولے پہ چھاؤں آئے اور وہ اپنا موبائل اور ہینڈز فری سنبھالے اینڑرنس کا ڈور کھولے خوشی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتی لان میں نصب لکڑی کے بڑے سے جھولے پہ آبیٹھے۔
٭…٭…٭





میرے چہار سو سب کچھ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اجاڑ، ویران، بیابان جنگل آہستہ آہستہ زندگی، رنگوں اور پھول بوٹوں سے آباد ہوا ہے۔ ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگوں کو میں نے یہاں آ کے بستا اور پھر جاتا دیکھا ہے۔
کچھ جگہوں کی قسمت میں مستقل مکین نہیں ہوتے۔ اس بنگلے کا ظاہری رنگ و روغن اور تزئین و آرائش بہت بار بدلا ہے۔ جو یہاں رہنے آتا ہے اپنی مرضی کے رنگ بھر دیتا ہے مگر اس کی ہیئت آج بھی ویسی کی ویسی ہے جیسے میرے سامنے تعمیر کی گئی تھی۔
وہ حسین دن میرے حافظے میں اچھے سے محفوظ ہے۔ جب وہ بہار کے پہلے جھونکے کی مانند خوش باش سی گاڑی سے اتری تھی اور ہر سو شگوفے چٹخنے لگے تھے۔ اسے دیکھتے ہی میری آنکھوں میں شناسائی کی چمک لہرائی کہ کوئی سال بھر پہلے بھی وہ چند دنوں کی مہمان بن کے آئی تھی اور جب گھر میں داخل ہونے سے پہلے دلچسپی سے ایک بھرپور نگاہ اس نے ہم سب پہ ڈالی تو شناسائی اس کی روشن آنکھوں سے بھی بخوبی چھلکی تھی۔
سچ پوچھیے تو میں نے ایک صدی کی طویل مدت میں کیا کیا نہیں دیکھا ہے مگر خدا کو حاضر ناظر جان کے کہتا ہوں کہ میں نے اس کے جیسی اللہ پاک کی خوبصورت تخلیق پہلے نہیں دیکھی یا شاید پہلے کوئی مجھے اتنی منفرد لگی ہی نہیں۔
٭…٭…٭
ادھر ڈھلتی دھوپ آہستہ آہستہ جھولے سے سرکنا شروع ہوتی ہے، ادھر وہ ہاتھوں میں گولڈن کلر کا موبائل، سفید ہینڈز فری اور کالے کور کی ڈائری تھامے سیدھی گارڈن میں نصب جھولے پہ کھنچی چلی آتی ہے۔
جھولا جھولتے ہوئے اس کے لمبے کالے کھلے بال ہوا کے دوش پہ بے تحاشا سرگوشیاں کرتے جھولا آگے آتا تو اس کی ریشمی زلفیں کالی ناگن کی طرح سفید گالوں سے لپٹ لپٹ جاتیں۔
میں جان گیا ہوں کہ اس کا پسندیدہ وقت وہ ہوتا ہے جو وہ اکیلی اپنی ذات کے ساتھ جھولے پہ بِتاتی ہے۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتی، بس چپ چاپ جھولا جھولتی ہے۔ جب اس کی سیدھی نگاہ مجھ پہ ٹھہرتی ہے تو وہ میرے لیے دن کا سب سے بہترین وقت ہوتا ہے اور پورے دن میں اسی خوش قسمت گھڑی کا مجھے شدت سے انتظار رہتا ہے کہ بہرکیف اتنی توجہ سے تو آج تک ہمیں کسی نے نوازا ہی نہیں جتنی وہ دیتی ہے۔
اپنی پرتجسس آنکھوں سے وہ ہر سو دیکھتے ہوئے حصار باندھتی جاتی ہے۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ لان کے بیچوں بیچ پوری شان و شوکت سے کھڑے درویش درخت پہ اڑتے طوطے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بچوں کی سی چمک اور خوشی جھلکتی ہے۔
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ کانوں میں ہینڈز فری لگائے کچھ نا کچھ سنتے اور دھیمے سروں میں گنگناتے ہوئے بھی وہ کیسے اپنے گردوپیش سے اتنی باخبر رہتی ہے۔ درویش درخت سے گرتے بے جان خزاں رسیدہ پتے، آزادی سے اڑتے طوطے، شاخوں سے جھولتی عقاب کے سائز کی چمگاڈریں، دور درخت پہ کوکتی کوئل، گارڈن اور گردوپیش کا ہر پھول بوٹا وہ اتنے دھیان اور لگاوٹ سے دیکھتی ہے جیسے اس کے سوا اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں۔
گلاب اور موتیے کے پھولوں پہ اس کی پرشوق نگاہیں پلٹ پلٹ کر آتی ہیں۔ خوبصورتی اور رنگینی کسے نہیں بھاتی۔ اب تو آپ سمجھ لیں کہ وہ مجھے اتنا کیوں بھاتی ہے۔’’وہ سر تا پا زندگی اور رنگین ہے۔‘‘
٭…٭…٭
ویک اینڈ پہ بچوں کی اسکول کی چھٹی ہونے کے باعث لان میں بہت رونق ہوتی ہے اور اس کی وجہ بلاشبہ وہی ہے۔ جب تک وہ گھر کے اندر ہوتی ہے، کوئی بچہ باہر نہیں دکھتا اور ادھر وہ لکڑی کے پھٹوں سے بنے جھولے پہ آ کے بیٹھتی ہے اور کچھ ہی دیر میں ایک ایک کر کے بچیاں اینٹرینس کا دروازہ کھول کر باہر جھانکتی ہیں اور سیدھی اس کے پاس جھولے پہ بھاگی چلی آتی ہیں۔ وہ بیچ میں اور دو بچیاں اس کے دائیں بائیں بیٹھ کر جھولا جھولتے ہوئے نجانے کون کون سے قصے زیرِ بحث لاتی ہیں۔
ان کی باتوں اور قہقہوں میں بچیوں کی ضد کرنے اور جھگڑنے کی آوازیں تب شامل ہو جاتی ہیں جب اندر سے بھاگ کے باہر آئی ہوئی تیسری بچی بھی جھولے پہ بیٹھنے کی ضد کرتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ بخوشی ہتھیار ڈال کے اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اپنی جگہ تیسری بچی کو دے دیتی ہے مگر آہ! یہ کیسی بات ہے کہ تھوڑی دیر میں ایک ایک کر کے اس کے پیچھے تینوں بچیاں بھاگتی چلی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ کوئی نا کوئی گیم کھیلنے میں مگن ہو جاتی ہیں اور خالی جھولا میری طرح انہیں دلجمعی سے تکتا رہتا ہے۔ اسے دیکھ کے میں نے جانا ہے کہ کچھ لوگوں کو واقعی انسانوں کو جوڑے رکھنے کا ہنر آتا ہے۔
وسیع و عریض گارڈن میں وہ بچیوں کے ساتھ بھاگتی دوڑتی رہتی ہے۔ بیڈمنٹن کی کئی باریاں کھیلتی اور جیتتی بھی ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اسے بچپن کے بعد سے بھولی سائیکلنگ بھی آگئی ہے۔ جس دن اسے سائیکل بیلنس کرنی اور چلانی آئی، اس دن اس کے چہرے پہ بچوں کی سی خوشی تھی جیسے اس نے کوئی معرکہ سرانجام دیا ہو۔
انسان بھی کتنی دلچسپ مخلوق ہے۔ ہر وقت کسی نا کسی جستجو میں جتا رہتا ہے۔ کچھ سیکھنے کی جستجو، کچھ پانے کی، حاصل کرنے کی یا کسی کو تسخیر کرنے کی جستجو اور جب جستجو پوری ہو جاتی ہے تو خوشی سے نہال ہو جاتا ہے اور یوں اتراتا ہے جیسے اس نے دنیا فتح کرلی۔
اب اسے ایک اور ایکٹیویٹی مل گئی ہے۔ وہ بچوں کے ساتھ آزادانہ سائیکل ریس لگاتی ہے۔ کبھی پکی روش پہ تو کبھی گھوڑوں کے اصطبل کے اطراف۔ ان کی آوازوں اور چیخوں سے کتنی رونق لگی رہتی ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

وادان — خدیجہ شہوار

Read Next

عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!