پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

گاڑی اس بڑی سڑک پر دوڑ رہی تھی جو تقریباً سنسان تھی۔ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔
اسٹیئرنگ پر دایاں ہاتھ رکھے اس نے بائیں ہاتھ کو منہ کے سامنے رکھ کر جماہی روکی اور نیند کے غلبے کو بھگانے کی کوشش کی۔ اس کے برابر کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی امامہ بے آواز رو رہی تھی اور سالار اس بات سے باخبر تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ہاتھ میں پکڑے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھتی اور ناک رگڑ لیتی… اور پھر سامنے ونڈ اسکرین سے باہر سڑک پر نظریں جما کر رونا شروع کردیتی۔
سالار وقفے وقفے سے اس پر اچٹتی نظر ڈالتا رہا۔ اس نے امامہ کو کوئی تسلی دینے یا چپ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ خود ہی کچھ دیر آنسو بہا کر خاموش ہوجائے گی، مگر جب آدھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اسی رفتار سے روتی رہی تو وہ کچھ اکتانے لگا۔
”اگر تمہیں گھر سے اس طرح بھاگ آنے پر اتنا پچھتاوا ہونا تھا تو پھر تمہیں گھر سے بھاگنا ہی نہیں چاہئے تھا۔”
سالار نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
”ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، ابھی تو شاید تمہارے گھر میں کسی کو تمہاری غیر موجودگی کا پتا بھی نہیں چلا ہوگا۔” اس نے کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد اسے مشورہ دیا۔
”مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔” اس بار اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد قدرے بھرائی ہوئی مگر مستحکم آواز میں کہا۔
”تو پھر تم رو کیوں رہی ہو؟” سالار نے فوراً پوچھا۔
”تمہیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔” وہ ایک بار پھر آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی۔ سالار نے گردن موڑ کر اسے غور سے دیکھا اور پھر گردن سیدھی کرلی۔
”لاہور میں کس کے پاس جاؤگی؟”
”پتا نہیں۔” امامہ کے جواب پر سالار نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیا مطلب… تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کہاں جا رہی ہو؟”
”فی الحال تو نہیں۔”
”تو پھر تم آخر لاہور جا کیوں رہی ہو؟”
”تو پھر اور کہاں جاؤں؟”
”تم اسلام آباد میں ہی رہ سکتی تھیں۔”
”کس کے پاس؟”
”لاہور میں بھی تو کوئی نہیں ہے جس کے پاس تم رہ سکو… اور وہ بھی مستقل… جلال کے علاوہ۔” سالار نے آخری تین لفظوں پر زور دیتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”اس کے پاس جا رہی ہو تم۔” کچھ دیر بعد اس نے قدرے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”نہیں، جلال میری زندگی سے نکل چکا ہے۔” سالار اندازہ نہیں کرسکا کہ اس کی آواز میں مایوسی زیادہ تھی یا افسردگی۔ ”اس کے پاس کیسے جاسکتی ہوں میں۔”
”تو پھر اور کہاں جاؤگی؟” سالار نے ایک بار پھر تجسس کے عالم میں پوچھا۔
”یہ تو میں لاہور جانے پر ہی طے کروں گی کہ مجھے کہاں جانا ہے، کس کے پاس جانا ہے۔” امامہ نے کہا۔
سالار نے کچھ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھا۔ کیا واقعی وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کہاں جانا تھا یا پھر وہ اسے بتانا نہیں چاہتی تھی۔ گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔




”تمہارا فیانسی… کیا نام ہے اس کا… ہاں اسجد… کافی اچھا، ہینڈسم آدمی ہے۔” ایک بار پھر سالار نے ہی اس خاموشی کو توڑا۔ ”اور یہ جو دوسرا آدمی تھا… جلال… اس کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں ہے… کچھ زیادتی نہیں کردی تم نے اسجد کے ساتھ؟”
اِمامہ نے اس کے سوال کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ صرف سامنے سڑک کو دیکھتی رہی۔ سالار کچھ دیر گردن موڑ کر اس کے جواب کے انتظار میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا مگر پھر اسے احساس ہوگیا کہ وہ جواب دینا نہیں چاہتی۔
”میں تمہیں سمجھ نہیں پایا… جو کچھ تم کر رہی ہو، اسے بھی نہیں… تمہاری حرکتیں بہت … بہت عجیب ہیں… اور تم اپنی حرکتوں سے زیادہ عجیب ہو۔” سالار نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
اس بار امامہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”کیا تمہاری حرکتوں سے زیادہ عجیب ہیں میری حرکتیں… اور کیا میں تم سے زیادہ عجیب ہوں…” بڑے دھیمے مگر مستحکم لہجے میں پوچھے گئے اس سوال نے چند لمحوں کے لیے سالار کو لاجواب کر دیا تھا۔
”میری کون سی حرکتیں عجیب ہیں… اور میں کس طرح عجیب ہوں؟” چند لمحے خاموش رہنے کے بعد سالار نے کہا۔
”تم جانتے ہو، تمہاری کون سی حرکتیں عجیب ہیں۔” امامہ نے واپس ونڈاسکرین کی طرف گردن موڑتے ہوئے کہا۔
”یقینا میری خود کشی کی ہی بات کر رہی ہو تم۔” سالار نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ”حالاں کہ میں خود کشی نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی میں خود کشی کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں تو صرف ایک تجربہ کرنا چاہتا تھا۔”
”کیسا تجربہ؟”
”میں ہمیشہ لوگوں سے ایک سوال پوچھتا ہوں، مگر کوئی بھی مجھے اس کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا، اس لیے میں اس سوال کا جواب خود ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔” وہ بولتا رہا۔
”کیا پوچھتے ہو تم لوگوں سے؟”
”بہت آسان سا سوال ہے مگر ہر ایک کو مشکل لگتا ہے۔” What is next to ecstasy? اس نے گردن موڑ کر امامہ سے پوچھا۔
وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔ ”Pain”
”And what is next to pain?” سالار نے بلا توقف ایک اور سوال کیا۔
“Nothingness”۔
“What is next to nothingness?” سالار نے اسی انداز میں ایک اور سوال کیا۔
”Hell” امامہ نے کہا۔
”And what is next to hell?”اس بار امامہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”What is next to hell?” سالار نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
”تمہیں خوف نہیں آتا۔” سالار نے امامہ کو قدرے عجیب سے انداز میں پوچھتے سنا۔
”کس چیز سے۔” سالار حیران ہوا۔
”Hellسے… اس جگہ سے جس کے آگے اور کچھ بھی نہیں ہوتا… سب کچھ اس کے پیچھے ہی رہ جاتا ہے… معتوب اور مغضوب ہوجانے کے بعد باقی بچتا کیا ہے جسے جاننے کا تمہیں تجسس ہے۔” امامہ نے قدرے افسوس سے کہا۔
”میں تمہاری بات سمجھ نہیں سکا… سب کچھ میرے سر کے اوپر سے گزرا ہے۔” سالار نے جیسے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”فکر مت کرو… آجائے گی… ایک وقت آئے گا… جب تمہیں ہر چیز کی سمجھ آجائے گی پھر تمہاری ہنسی ختم ہوجائے گی… تب تمہیں خوف آنے لگے گا… موت سے بھی اور دوزخ سے بھی… اللہ تمہیں سب کچھ دکھا اور بتادے گا… پھر تم کسی سے یہ کبھی نہیں پوچھا کروگے۔ “What is next to ecstasy?” امامہ نے بہت رسانیت سے کہا۔
”یہ تمہاری پیش گوئی ہے؟” سالار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”نہیں۔؛؛ امامہ نے اسی انداز میں کہا۔
”تجربہ؟” سالار نے گردن سیدھی کرلی۔
”ہاں، یہ تمہارا تجربہ ہی ہوسکتا ہے… کی تو تم نے بھی خود کشی ہی ہے… میرا مطلب ہے کرنے کی کوشش کی ہے… میں نے اپنے طریقے سے یہ کوشش کی تھی… تم نے اپنے طریقے سے کی ہے۔” سالار نے سرد مہری سے کہا۔
”امامہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آگئے۔ گردن موڑ کر اس نے سالار کو دیکھا۔
”میں نے کوئی خود کشی نہیں کی ہے۔”
“کسی لڑکے کے لیے گھر سے بھاگنا ایک لڑکی کے لیے خود کشی ہی ہوتی ہے… وہ بھی اس صورت میں جب وہ لڑکا شادی پر تیار ہی نہ ہو… دیکھو، میں خود ایک لڑکا ہوں… بہت بڑاڈ مائنڈڈ اور لبرل ہوں اور میں بالکل برا نہیں سمجھتا اگر ایک لڑکی گھر سے بھاگ کر کسی لڑکے کے ساتھ کورٹ میرج یا شادی کرلے… مگر وہ لڑکا اس کا ساتھ تو دے، ایک ایسے لڑکے کے لیے گھر سے بھاگ جانا جو شادی کر چکا ہو … چچ چچ… میری سمجھ میں نہیں آتا اور پھر تمہاری عمر میں بھاگنا… بالکل حماقت ہے۔”
”میں کسی لڑکے کے لیے نہیں بھاگی ہوں۔”
”جلال انصر!” سالار نے اس کی بات کاٹ کر اسے یاد دلایا۔
”میں اس کے لیے نہیں بھاگی ہوں۔” وہ بے اختیار آواز میں چلائی۔ سالار کا پاؤں بے اختیار بریک پر جا پڑا۔ اس نے حیرانی سے امامہ کو دیکھا۔
”تو مجھ پر کیوں چلا رہی ہو، مجھ پر چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔” سالار نے ناراضی سے کہا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”یہ جو تمہاری مذہب والی تھیوری یا فلاسفی یا پوائنٹ یا جو بھی ہے I don’t get it کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر کوئی کسی اور پیغمبر کو ماننا شروع ہوگیا ہے… زندگی ان فضول بحثوں کے علاوہ بھی کچھ ہے… مذہب، عقیدے یا فرقے پر لڑنا … What rubbish”
امامہ نے گردن موڑ کر ناراضی کے عالم میں اسے دیکھا۔ ”جو چیزیں تمہارے لیے فضول ہیں، ضروری نہیں وہ ہر ایک کے لیے فضول ہوں۔ میں اپنے مذہب پر قائم رہنا نہیں چاہتی اور نہ ہی اس مذہب کے کسی شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تو یہ میرا حق ہے کہ میں ایسا کروں، میں تم سے ایسی چیزوں کے بارے میں بحث نہیں کرنا چاہتی جسے تم نہیں سمجھتے… اس لیے تم ان معاملات کے بارے میں اس طرح کے تبصرے مت کرو۔”
”مجھے حق ہے کہ میں جو چاہے کہوں Freedom of expression (اظہار کی آزادی)” سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ امامہ نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ سالار بھی خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔
یہ جلال انصر … میں اس کی بات کر رہا تھا۔” وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر اپنے اسی موضوع کی طرف آگیا۔
”اس میں کیا خاص بات ہے؟”اس نے گردن موڑ کر امامہ کو دیکھا۔ وہ اب ونڈاسکرین سے باہر سڑک کو دیکھ رہی تھی۔
”جلال انصر اور تمہارا کوئی جوڑ نہیں ہے… وہ بالکل بھی ہینڈسم نہیں ہے۔ تم ایک خوب صورت لڑکی ہو، میں حیران ہوں، تم اس میں کیسے دلچسپی لینے لگیں… کیا وہ بہت زیادہ intelligent ہے؟” اس نے امامہ سے پوچھا۔
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ intelligent…” کیا مطلب؟”
”دیکھو یا تو کسی کی شکل اچھی لگتی ہے… میں نہیں سمجھتا تمہیں جلال کی شکل اچھی لگی ہوگی یا پھر کسی کا فیملی بیک گراؤنڈ… پیسہ وغیرہ کسی میں دلچسپی کا باعث بنتا ہے… اب جلال کا فیملی بیک گراؤنڈ یا مالی حالت کے بارے میں، میں نہیں جانتا مگر خود تمہارا فیملی بیک گراؤنڈ جتنا ساؤنڈ ہے، یہ بھی تمہارے لیے اس میں دلچسپی کا باعث نہیں بن سکتا… واحد بچ جانے والی وجہ کسی کی ذہانت، قابلیت وغیرہ ہے… اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ کیا وہ بہت intelligentہے… کیا بہت آؤٹ اسٹینڈنگ اور brilliant ہے؟”
”نہیں۔” امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
سالار کو مایوسی ہوئی۔ ”تو پھر… تم اس کی طرف متوجہ کیسے ہوئی امامہ ونڈاسکرین سے باہر ہیڈ لائٹس کی روشنی میں نظر آنے والی سڑک دیکھتی رہی۔ سالار نے اپنا سوال دوبارہ نہیں دہرایا۔ صرف کندھے اچکاتے ہوئے وہ دوبارہ ڈرائیونگ پر توجہ دینے لگا۔ گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
”وہ نعت بہت اچھی پڑھتا ہے۔” تقریبا پانچ منٹ بعد خاموشی ٹوٹی تھی۔ ونڈاسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں امامہ یوں بڑبڑائی تھی جیسے خود کلامی کر رہی ہو۔ سالار نے اس کا جملہ سن لیا تھا مگر اسے وہ ناقابل یقین لگا۔
”کیا؟” اس نے جیسے تصدیق چاہی۔
”جلال نعت بہت اچھی پڑھتا ہے۔” اسی طرح ونڈاسکرین سے باہر جھانکتے ہوئے کہا مگر اس بار اس کی آواز کچھ بلند تھی۔
”بس آواز کی وجہ سے… سنگر ہے؟” سالار نے تبصرہ کیا۔




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!