جزدان میں لپٹی دعائیں — آدم شیر

تین گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے بعد میری باری آنے والی تھی مگر بڑی اماں کب سے آگے کھڑی شناختی کارڈ کا فارم وصول کرنے والی خاتون سے بحث میں مصروف تھیں ۔بڑی اماں کے یہ الفاظ میرے کانوں سے کئی بار ٹکرائے۔
’’بیٹا! مجھے حج پر جانا ہے۔ دن بڑے تھوڑے ہیں۔ بار بار چکر نہ لگوائو۔‘‘
’’تصدیق کرنے والی کا شناختی کارڈ نمبر صحیح نہیں۔ ٹھیک کرا کے لائیں تو فارم جمع ہوگا۔‘‘ بڑی اماں کو کائونٹر والی کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی اور کائونٹر والی انہیں ہٹا کر باقی لوگوں کو بھگتانا چاہتی تھی۔ اس نے بڑی اماں کو انتہائی بے زاری سے ایک طرف ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا اور مجھے فارم پکڑانے کا اشارہ کیا مگر بڑی اماں آگے بڑھنے کی بہ جائے تھوڑا سا کھسک کر ایک جانب کھڑی گئیں اور میں نے بازو دوسری طرف سے گھما کر فارم پکڑا دیا۔ کائونٹر والی خاتون نے فارم اور اس سے منسلک نقول دیکھ کر اصل بھی مانگیں اور تھوڑی سی نکتہ چینی کے بعد میرا فارم جمع کر لیا جس پر مجھ سے پیچھے کھڑے دو افراد نے مبارک باد دی۔ بڑی اماں وہیں ایک طرف کھڑی فارم کو تکے جا رہی تھیں۔ میں نے واپس جانے کے لئے مڑتے ہوئے انہیں دیکھا تو وہ مجھے متوجہ پا کر جھٹ سے بولیں۔
’’بیٹا!ایک فون کر دو گے؟‘‘
’’جی ماں جی۔‘‘ میں اپنی جیب سے فون نکال رہا تھا کہ اتنی دیر میں بڑی اماں نے اپنا سمارٹ فون مجھے پکڑا دیا جو کافی قیمتی معلوم دیا۔
’’بیٹا! میڈم ناصرہ کا نمبر ڈھونڈ کر فون ملا دو۔ ‘‘
تین بار نمبر ملایا مگر ہر بار گھنٹی بجتی رہی، کسی نے فون اُٹھایا نہیں۔ بڑی اماں کو بتایا تو انہوں نے خودکلامی کی کہ اب فلاں سکول جانا پڑے گا۔ سکول کا نام سُن کر چونکا کیوں کہ وہ میرے راستے میں پڑتا تھا۔ میں نے بڑی اماں کو سفری خدمت کی پیشکش کی تو وہ خوشی خوشی دعائیں دیتی ساتھ چل پڑیں۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ مختلف سوالات کرنے لگیں اور میں بے زاری سے جواب دیتا رہا۔
جب سکول پہنچے تو بڑی اماں مجھے تھوڑی دیر رکنے کا کہہ کر اندر چلی گئیں لیکن جلد ہی واپس آگئیں کہ میڈم ناصرہ جا چکی تھیں۔ بڑی اماں نے بتایا: ’’پاس ہی میرا گھر ہے۔ وہاں چھوڑ دو۔کل بھانجے کے ساتھ سکول آئوں گی۔‘‘
میں نے بڑی اماں کی ناک پر ٹکے موٹے شیشوں والے چشمے میں سے ان کی آنکھوں کو دیکھا جو ملتجی تھیںاور اثبات میں سر ہلادیالیکن خود کو کوسا کہ نیکی کے چکر میں کہاں پھنس گیا۔ ایک تسلی بھی تھی کہ کچھ دیر سکون سے بیٹھوں گا۔ تھکاوٹ سے برُا حال ہے۔ گھر گیا تو بیگم کے احکامات کی بجاآوری سے فرصت نہ ملے گی۔ جب ہم سکول سے تھوڑا آگے جا کر ایک گھر کے سامنے رُکے تو میں نے ایک نظر بڑی اماں پر ڈالی اور دوسری جدید طرز تعمیر سے بنے مکان پر… کوئی میل نظر نہ آیا۔ بڑی اماں نے جس کمرے میں بٹھایا، اس کی مدت سے کسی نے جھاڑ پونچھ نہ کی تھی۔ میں نے صوفہ نما کرسی پر بیٹھنے سے پہلے اس کی نشست اور پشت پر خود ہی ہاتھ پھیر کر تسلی کر لی تھی کہ دوسرے صوفے شان دار نظر آنے کے باوجود مٹی سے اٹے نظر آ رہے تھے۔ پورے کمرے میں بس ایل سی ڈی کی سکرین صاف تھی یا ایک طرف جدت سے بھرپور آڑے ترچھے شیلف پر شیشے کے فریم میں سجی تصویرچمک رہی، جس میں کئی چہرے قید تھے۔
دیواروں پر لکڑی کا کام کیا گیا تھا جو اب تک جاذب نظر تھا گو غبار نے کچھ دھندلا دیا تھا۔ چھت کے چاروں کونے مکڑی کی بے مثال کاری گری کے نمونے پیش کر رہے تھے۔ فانوس کی چار لڑیوں کے درمیان بھی مکڑیوں نے جال کسا ہوا تھا۔ میز پر رکھے شیشے کے کناروں میں مٹی اور بھی نمایاں تھی۔ گل دان میں رکھے مصنوعی آرائشی پھولوں کا رنگ بڑی اماں کے بالوں کی طرح بدل چکا تھا۔ بڑی اماں کی عینک کے شیشوں کے پیچھے نظر آنے والے سیاہ حلقوں کی پرچھائیں نرم و ملائم سُرخ قالین پر پڑ رہی تھیں اور میں ان میں کھویا ہوا تھا کہ بڑی اماں شیشے کا جگ اور گلاس لئے آئیں۔ میں ٹھنڈے مشروب سے پیاس بجھانے لگا اور وہ یادوں کے چراغ جلانے لگیں۔
بڑی اماں نے آغاز مرحوم شوہر کے آخری ایام کی بپتا سے کیا، جو پیسوں اور دوائوں کی فراوانی کے باوجود کسی کے انتظار میں روتے روتے کٹے تھے۔ پھر پوتوں کی شرارتوں اور پوتیوں کے لاڈ بھرے قصے سنا سنا کر ہنسنے لگیں۔ کبھی دبئی میں رہنے والے بڑے بیٹے کی کہانی چھیڑدیتیں تو کبھی جاپان میں مقیم لاڈلے کی… اس کی ختم ہوتی تو امریکا میں بسے منجھلے کی باری آجاتی۔ بھانجے کی خوب تعریف سنی کہ کہیں آنا جانا ہو، وہ گاڑی لے آتا ہے۔ گھر کا سودا سلف بھی وہی لاتا ہے۔ بڑی اماں کو بھانجی سے شکوہ تھا کہ اس نے کبھی گھر کی صفائی میں حصّہ نہیں لیا۔ اب وہ بوڑھے ہاتھوں سے کتنی گرد جھاڑ سکتی ہیں۔ بھانجی کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ کبھی کچھ پکا کر دے جائے حالاں کہ قریب ہی رہتی ہے البتہ اسی بھانجی کی اماں کا ذکر کرکے نہال ہوتی رہیں کہ جب کبھی آتی ہے، کچھ نہ کچھ کر جاتی ہے اور بہت کچھ اپنی ملازمہ سے کرا دیتی ہے۔ میں نے کہا: ’’آپ بھی ایک کام والی رکھ لیں۔‘‘ تو بڑی اماں بولیں: ’’اس عمر میں کہاں نوکروں پر نظر رکھتی پھروں گی۔ ‘‘ اور لگے ہاتھ انہوں نے دو سابق ملازموں کی کہانیاں بڑی تفصیل سے سُنا دیں جن میں سے ملازمہ کا ذکر زیادہ دلچسپ تھا۔ میں حیران تھا کہ بڑی اماں نے پوتے پوتیوں سے لے کر بہن بھائیوں کے نام تک گنوا دیئے ہیں مگر اپنی بہوئوں کے متعلق کچھ بھی نہیں کہہ رہیں، تعریف تو دور کی بات… ایک آدھ جلی کٹی ہی ہو جائے لیکن ان کی باتیں گھوم پھر کر بیٹوں کے نیک و صالح ہونے پر آجاتیں ۔ میں نے تنگ آ کر بڑی اماں سے پوچھا: ’’آپ کے فرماں بردار بچے کبھی پاکستان نہیں آتے؟‘‘
بڑی اماں کچھ دیر کے لئے فانوس میں بنے جال میں جھولنے لگیں، پھر ہولے سے بولیں: ’’آتے تھے۔ جب سے بیوی بچوں کے ساتھ گئے ہیں، واپس نہیں لوٹے۔ اب پیسے آتے ہیں یا کبھی فون آ جاتا ہے۔ تسلی مل جاتی ہے مگر … ‘‘
’’تو آپ ان کے پاس چلی جائیں۔‘‘ میرے منہ سے یہ بات برملا نکل گئی جو بڑی اماں کو گولی کی طرح اندر سے چھلنی کر گئی۔ وہ دو گھنٹے سے لگا تار باتیں کئے جا رہی تھیں، اب اچانک خاموش ہو کررہ گئیں اور قالین سے چپکی پرچھائیاں دیکھنے میں ایسے کھو گئیں کہ مجھے محسوس ہوا جیسے ہم دونوں میں سے کوئی ایک وہاں موجود نہیں گو ان کے پاس کہنے کے لئے ڈھیر ساری باتیں تھیں جنہیں سنتے سنتے شام ہو سکتی تھی اور رات کا سحر توڑتا سویرا ہو سکتا تھا مگر انہیں چُپ لگ گئی تھی۔ وہ نظریں جھکائے پرچھائیوں میں روشنی ڈھونڈ رہی تھیں۔ میں اور کچھ دیر بیٹھ سکتا تھا مگر اون سے بُنے قالین پربل کھاتی سیاہی جیسی خاموشی مجھے ڈسنے لگی اور میں بوجھل دل کے ساتھ کرسی سے اٹھ گیا۔
بڑی اماں مجھے چھوڑنے دروازے تک آئیں۔ وہ کواڑ کھولے اندر اور میں باہر کھڑا تھا۔ ان کے لب مسلسل ہل رہے تھے اور میری نگاہیں متحرک تھیں۔ جب دعائوں کی گٹھڑی کافی بھاری ہو گئی تو میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ بڑی اماں پر آخری نگاہ ڈالی اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ میرا دھیان کہیں اور تھا اور میں جا کہیں اور رہا تھا۔ تھوڑا آگے جا کر موڑ کاٹ ہی رہا تھا کہ ایک سائیکل سوار سامنے آگیا ۔ میں نے بروقت بریک لگائی لیکن سائیکل سوار ڈر کر توازن کھو بیٹھا اور پیچھے بیٹھی خاتون سمیت گر گیا۔ گاڑی سے نکل کر دیکھا تو اچھی قامت مگر بری صحت کا مالک نوجوان اپنی اماں کو سنبھال رہا تھا۔ چند راہ گیر بھی رک گئے تھے اور غصیلی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں ۔ میں شش و پنچ کے بعد گاڑی کا دروازہ بند کر کے آگے بڑھا اور بھیڑ میں راستہ بناتے ہوئے پوچھا۔
’’کسی کو چوٹ تو نہیں لگی۔‘‘
’’بائو تُو کسر تے کوئی نئیں سی چھڈی۔‘‘کسی کی آواز آئی اور میرے ماتھے پرپسینے کے اٹھکھلیاں کرتے قطرے ناک سے ہوتے ہوئے ہونٹ تر کرنے لگے، جو اس وقت زیادہ ہی خشک ہو رہے تھے۔ میں معذرت کے لیے الفاظ ٹٹول رہا تھا مگر دوسری طرف سے کچھ آنکھیں اور زبانیں چھید پر چھید کئے جا رہی تھیں۔ سائیکل سوار ابھی اپنی اماں کو ایک راہ گیر سے ملی پانی کی بوتل سے پانی پلا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ جب اس کا دھیان میری طرف جائے گا تو کیا ہوگا گو میرے سامنے اس کی کیا حیثیت … لیکن موقع پر کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔میرا خدشہ صحیح ثابت ہوا کہ نوجوان پانی پلا کر جونہی پلٹا، اس نے میرا گریبان پکڑ لیا اور میں نے اس کی کلائیوں پر ہاتھ جما دیئے۔ وہ گریبان بھنبھوڑتے ہوئے ایسے الفاظ سے نوازنے لگا جولڑائی کے دوران میں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ راہ گیروں نے ہم دونوں کو پیچھے سے پکڑ لیا اور اس سے پہلے کہ وہ مجھے گھونسا مارتا یا میں اس کی پسلی میں مکا رسید کرتا ، بڑی اماں چیختی ہوئی آگے آئیں اور اسے کھینچ کر پیچھے لے گئیں۔
’’چھڈ پُت ، نہ لڑ، رہن دے ، اے گڈیاں والے تے ہندے ای انھے نیں۔‘‘
ایک بڑی اماں سے رخصت ہوا تھا تو کسی شاعر کا مصرع بھٹکا رہا تھا ۔دوسری نے وداع کیا تو تھپڑ جُھلسا رہا تھا۔




Loading

Read Previous

سراب — زارا رضوان

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!