محتاج — سارہ عمر

”نل میں پانی نہیں آ رہا۔ کیا مصیبت ہے؟ اب منہ کیسے دھوؤں؟”
ریحان نے سنک پر کھڑے ہو کر شور مچایا تھا۔چہرے پر صابن ملے وہ بے زار سا کھڑا تھا جب شہلا بالٹی جھولاتی پہنچ گئی۔
”کیا مسئلہ ہے، روز کا تماشا ہے۔”ریحان نے منہ پر پانی ڈالتے شہلا پر غصہ اتارا تھا۔
”پتا ہے روز کا تماشا ہے پھر بھی کبھی جلدی مت اٹھنا۔”شہلا نے بھی دو بدو سنائی تھیں آخر بہن کس کی تھی۔
”جلدی اٹھ کر کیا کروں؟ رات کو موٹر چلایا کرو۔” وہ تولیے سے منہ پونچھ رہا تھا۔
”چلاتے تو ہیں روز مگر فرحان، نعمان اور ابا کے جانے کے بعد فوراً لائٹ چلی جاتی ہے۔اس لیے تمہارے نصیب میں بس بالٹی کا پانی ہی آتا ہے۔”
شہلا نے ہنستے ہوئے کہا تو ریحان نے تولیا ٹانگتے اسے دیکھا۔
”جب میرے نصیب میں بالٹی کا پانی ہی ہے تو جلدی اٹھ کر کیا کروں ؟” ریحان نے آنکھیں دکھائیں ۔
” بالٹی میں منہ دیکھ لو۔”
شہلا نے شرارت سے کہتے ہوئے بالٹی میں بچا پانی ریحان پر پھینک دیا تھا اور تیزی سے اندر بھاگی۔
”شہلا کی بچی۔”
وہ دہاڑتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا۔
”ابھی نہیں ہوئی۔ بچی کے ماموں۔”وہ بھی منہ چڑاتی ہوئی جلدی سے کمرے میں گھس گئی جبکہ ریحان دروازہ بجاتا رہ گیا تھا ۔
٭…٭…٭
شکیل احمد کے چار بچے تھے۔تین بیٹے اور ایک بیٹی ۔ ریحان جاب کرتا تھا۔جبکہ شہلا نے والدہ کی وفات کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ وہ ایف اے کا امتحان دے کر فارغ ہوئی تھی جب خانگی حالات دیکھتے ہوئے اس نے گھر رہنے کو ہی ترجیح دی ۔ فرحان اور نعمان اسکول سے واپس آتے تو کھانے کے لیے شور مچا دیتے۔شکیل صاحب اور ریحان شام کو دفتر سے لوٹتے تھے۔شہلا نے ایک سلیقہ مند لڑکی کی طرح سارا گھر سنبھال لیا تھا۔والد اور بھائیوں کو وقت پہ کھانا پکا ہوا ملتا۔گھر صاف ستھرا اور کپڑے دھلے ہوئے ۔
جس علاقے میں شکیل صاحب رہائش پذیر تھے وہاں پانی کی بندش کا مسئلہ رہتا تھا۔صبح صبح ریحان اور شہلا کی نوک جھوک بھی چلتی رہتی۔
دن مہینوں میں بدلے اور مہینے سالوں میں۔
شہلا بیاہ کر اپنے گھر رخصت ہو گئی تھی۔ریحان کی بھی ترقی ہو گئی تھی۔ریحان کے آفس کی ایک کولیگ شمائلہ اس میں دلچسپی لینے لگی تھی۔ریحان کتنے عرصے بے خبر رہا، مگر جب اسے معلوم ہوا تو وہ کچھ پریشان ہوا تھا۔
شمائلہ کا تعلق امیر گھرانے سے تھا اور وہ جاب شوقیہ کر رہی تھی۔اور ریحان ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔وہ ہمیشہ سے یہی چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کی ماں اور بہن کی طرح سادہ اور گھر کو بنانے والی ہو۔شمائلہ دیکھنے سے ہی بہت ماڈرن لگتی تھی۔سونے پہ سہاگا اس نے بلاجھجک ریحان کو شادی کی پیشکش کردی۔ ریحان اس اظہار پر حیران و پریشان رہ گیا ۔ اس نے بغیر سوچے سمجھے بہت سلیقے سے شمائلہ کو انکار کر دیا تھا۔
ریحان کے انکار نے شمائلہ کو شدید اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ ان امیر لڑکیوں میں سے تھی جن کے ماں باپ ان کی کوئی فرمائش رد نہیں کرتے تبھی ان کے نزدیک انسان بھی ایک چیز کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ریحان ایک خوش شکل، ہینڈسم اور اپنے کام سے کام رکھنے والا لڑکا تھا۔ اُس کے اِس لیے رویے نے شمائلہ کو بہت متاثر کیا تھا۔وہ جتنا اس کے قریب جاتی وہ اتنا ہی دور چلا جاتا، مگر اس کے انکار نے شمائلہ کو مزید سرکش بنا دیا تھا۔اُس نے بھی سوچ لیا کہ ریحان کو حاصل کر کے رہے گی۔
٭…٭…٭




شمائلہ نے آہستہ آہستہ ریحان سے دوستی کرنے کی کوشش کی تھی۔دھیرے دھیرے وہ اس کے حواسوں پر چھانے لگی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔جانتی تھی وہ جہاں کہے گی اس کے ماں باپ شادی کے لیے مان جائیں گے۔ شمائلہ نے اسے احساس دلایا تھا کہ پیسہ اس زندگی کے لیے بہت ضروری ہے ۔ اس دنیا میں عزت صرف پیسے والوں کی ہے۔تمہیں اگر دولت اور محبت ایک ساتھ ہی نصیب ہو رہی ہے، تو اسے موقع کو مت گنواؤ ۔ قسمت بار بار مہربان نہیں ہوتی۔
شمائلہ کی باتوں نے ریحان کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔وہ کبھی اتنا مادیت پرست نہ تھا جتنا بنتا جا رہا تھا۔شمائلہ کی صحبت نے بہت بدل دیا تھا۔شمائلہ کی ضد کے باعث اس کے والدین خود ہی رشتہ لے آئے ۔اس کے والد کا اپنا بزنس تھا اور شمائلہ بھی صرف شوق کے باعث ان کے دوست کی کمپنی میں جاب کر رہی تھی۔وہ اپنی بیٹی کی خوشی کی خاطر آ تو گئے مگر انہیں گھر دیکھ کر انتہائی مایوسی ہوئی تھی ۔ شکیل صاحب اور ان کے تینوں بیٹے سادہ طبیعت اور ملنسار تھے، مگر گھر شہلا کے جانے کے بعد سے کافی توجہ طلب حالت میں تھا۔ ایک کام والی تو آتی تھی جو برائے نام صفائی کر کے چلی جاتی، لیکن گھر کو گھر بنانے والی موجود نہ تھی۔ریحان کو لگا تھا کہ شاید شمائلہ شادی کے بعد اس گھر کو گھر بنا دے، مگر اس کے والد نے تو انہیں مزید الجھن میں ڈال دیا تھا۔
”دیکھیں شکیل صاحب ریحان کو دیکھ کر مجھے کافی تسلی ہو گئی ہے اور ہمیں اس رشتے پر اعتراض نہیں، مگر معذرت کے ساتھ میری بیٹی شادی کے بعد اس گھر میں نہیں آ سکتی۔”
”مگر شبیر صاحب لڑکیاں تو رخصت ہو کر سسرال میں ہی آتی ہیں۔” شکیل صاحب نے جواب دیا۔
”جی آپ کی بات بجا ہے، مگر میں نے اپنی بیٹی کو بہت نازوں سے پالا ہے۔ وہ کبھی اتنے چھوٹے اور پرانے گھر میں نہیں رہ سکے گی، مگر میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیٹی کی خواہش رد نہ کروں۔”
شبیر صاحب پہلو بدل کر بولے وہ کچھ کہتے ہوئے جھجھک رہے تھے۔
”مگر کیسے؟ کیا کوئی حل ہے؟”
” حل تو ہے اگر آپ قبول کریں۔”
شبیر صاحب کی بات نے ان سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
٭…٭…٭
”ابو پلیز ہمارے ساتھ چلیں۔”
ریحان نے دسویں دفعہ التجا کی تھی، مگر شکیل صاحب گھر چھوڑنے پر رضا مند نہ تھے۔
”تم دونوں ہی کچھ بولو۔ابو کو منا لو۔”ریحان فرحان اور نعمان سے کہنے لگا۔
شبیر صاحب نے شمائلہ کو جہیز میں گھر دینے کی آفر کی تھی۔وہ چاہتے تھے وہ سب لوگ ہی ادھر شفٹ ہو جائیں ۔ ریحان کے خواب تو لمحوں میں پورے ہو گئے ۔ سب کچھ بن مانگے مل گیا۔ خوبصورت امیر بیوی، بنا بنایا گھر، نوکر چاکر اور شبیر صاحب نے مستقبل میں اسے اپنا بزنس سنبھالنے کی بھی آفر کی تھی۔
شکیل صاحب شادی کے لیے تو مان گئے تھے اور انہوں نے ریحان کو کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہے، مگر وہ اسی گھر میں بہت خوش اور مطمئن ہیں کیونکہ یہاں ان کی شریک حیات کی یادیں ہیں۔
”ریحان بھائی ابو صحیح کہہ رہے ہیں ۔ ہم ادھر بہت خوش ہیں بس آپ بھابھی کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کریں۔بس ملنے آتے رہیے گا ۔”
فرحان کی بات پر وہ بے اختیار بھائیوں کے گلے لگ گیا۔وہ ایسا چاہتا تو نہ تھا، مگر پیسے کی چمک نے اسے اپنے پیارے رشتوں سے دور کر دیا تھا۔پہلے پہل تو وہ مستقل آتا جاتا رہتا، مگر پھر یہ آنا کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
چھے سال بعد:
ریحان نے شبیر صاحب کا بزنس سنبھال لیا تھا۔ان کے تین بچے تھے۔شمائلہ اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی مگر بہت سی باتوں میں ابھی تک وہ خود سر اور ضدی ہی تھی۔
آج کل ان کے علاقے میں نئی پائپ لائن بچھائی جارہی تھی تبھی صبح سے بجلی بند تھی۔ پانی ہلکا ہلکا آرہا تھا جب اس نے بے ساختہ ہی شمائلہ کو آواز دی تھی۔
”پانی نہیں آ رہا، منہ دھلا دو۔”
”بالٹی میں پانی رکھا ہے، خود ہی منہ دھو لیں بچے نہیں ہیں جو میں منہ دلاؤں۔ بہت شوق ہو رہا تو کسی ملازم کو بھیجتی ہوں۔”
”نہیں رہنے دو۔” اس نے جلدی جلدی منہ دھویا اور باہر نکل آیا۔ کوئی بہت شدت سے یاد آیا تھا۔وہ ناشتا کر کے ٹیرس پر کھڑا ہو گیا ۔آس پاس گھروں سے جنریٹر چلنے کی آواز آ رہی تھی۔ان کا جنریٹر خراب تھا جسے ٹھیک کرنے کوئی آدمی آیا تھا۔
اس کے والد بھی کتنی چیزیں خود ہی ٹھیک کر لیتے تھے۔وہ ٹیرس سے نیچے جھانک کر دیکھنے لگا۔فرصت ملی تو بے سبب پرانے دن یاد آئے تھے۔اپنا گھر اپنے لوگ۔بھائیوں کا پیار، ان کی نوک جھوک۔
”نل میں پانی نہیں آ رہا۔”
ایک آواز اسے ماضی سے حال میں واپس کھینچ لائی تھی۔
وہ آواز اِس کے گھر کے سرونٹ کوارٹر سے سنائی دی تھی جس کے صحن کا کچھ حصہ اُس کے ٹیرس سے دکھ رہا تھا۔ اس کا چوکیدار منہ پر صابن لگائے زور زور سے بول رہا تھا۔
”نل میں پانی نہیں آرہا۔ اب لے بھی آؤ۔”
چوکیدار کی بیوی بالٹی اٹھائے آئی تو چھم سے اسے شہلا یاد آئی تھی۔ وہ اب ڈونگے سے پانی ڈال کر اس کا ہاتھ منہ دھلا رہی تھی۔ جیسے ہی شوہر کا منہ دھلا تو بیوی نے ڈونگے میں بچا ہوا تھوڑا سا پانی اس کے منہ پہ اچھال دیا تھا اور دونوں میاں بیوی کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔
اس لمحے اسے ادراک ہوا تھا کہ محبت پیسے اور حالات کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ جہاں ہو اس چھوٹے سے گھر کو منور کر دیتی ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نالائق — نورالسعد

Read Next

پراسرار محبت — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!