اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

’’یہ مقیت کون ہے؟‘‘
حور عین نے اپنا جھکا ہوا سر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں دروازے کے عین درمیان میں کھڑا سعدی اُس سے جواب طلب کررہا تھا۔
’’میرا کلاس فیلو ہے۔‘‘ سامنے پھیلے کاغذ سمیٹتے ہوئے حور عین نے جواب دیا۔ اس کا انداز بالکل نارمل تھا۔
’’تم یونیورسٹی سے کلاسز بَنک کرکے اُس کے ساتھ باہر جاتی ہو۔‘‘
’’بَنک کرکے‘‘وہ حیرت سے سعدی کی جانب پلٹی۔
’’ایکس کیوز می میں کوئی اسکول یا کالج گرل نہیں ہوں جو بَنک کرکے لڑکوں کے ساتھ گھوموں اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو میں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔‘‘ اس دفعہ اس کا جواب دینے کا انداز کچھ تیکھا تھا جسے سعدی نے شاید محسوس ہی نہیں کیا تھا۔
’’تو کل اس کی گاڑی میں کہاں گئی تھی؟‘‘
’’کم آن سعدی! آخر مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ۔‘‘
اس بار کیے جانے والے سعدی کے سوال نے اُسے قدرے چڑا دیا۔
’’ میری بات کا جواب دو تم کل مقیت کے ساتھ گاڑی میں کہاں گئی تھیں؟‘‘
’’صرف میں نہیں بلکہ ہم پانچ دوست باہر لنچ کرنے گئے تھے۔‘‘
’’تمہارے ساتھ اور کون گیا تھا مجھے اُس سے کوئی مطلب نہیں، میرا مسئلہ صرف تم ہو اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ مجھے لڑکیوں کا اس طرح غیر لڑکوں کے ساتھ گاڑیوں میں گھومنا پھرنا قطعی پسند نہیں لہٰذا آئندہ احتیاط کرنا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ دروازے سے واپس پلٹ گیا جب کہ اُس کے اندازِ گفتگو نے اچھی بھلی حور عین کا پارہ ہائی کردیا۔
’’یہ اتنے غصے میں کیوں واپس گیا ہے؟‘‘
سعدی کے باہر نکلتے ہی فرزین دروازے میں آکر کھڑی ہوگئی۔ ایک بار پھر وہی جواب طلبی جس نے حورعین کو مزید تپا دیا۔
’’پتا نہیں مجھے لگتا ہے کچھ پاگل ہوگیا ہے بلاوجہ ہی فضول بولے جارہا ہے۔‘‘
سعدی کی باتوں نے اُس کے دماغ کو برُی طرح گھما دیا تھا۔’’ برُی بات ہے حورعین ایسے نہیں کہتے وہ تمہارا ہونے والا منگیتر ہے۔‘‘ فرزین نے چھوٹی بہن کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں تو منگیتر ہی رہے نا کیا ضرورت ہے میرے باپ کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی میں کس کے ساتھ کہاں جارہی ہوں، کیوں جارہی ہوں؟ یہ اُس کا مسئلہ نہیں ہے ابھی میں اپنے گھر پر ہوں اور یہ ذمہ داری میرے ماں باپ کی ہے عجیب فالتو آدمی…‘‘اُس نے برُی طرح غُصے سے بڑبڑاتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔
’’اچھا یار ریلیکس ہوجاؤ کیوں بلاوجہ اتنی ٹینشن لے رہی ہو۔‘‘
’’آؤ مووی دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘ فرزین نے اُسے کندھوں سے تھامتے ہوئے اُس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’میرا موڈ نہیں ہے۔‘‘ حورعین نے غصے سے کہا۔
’’موڈ بنا لو میں تیار ہونے جارہی ہوں اور تم بھی ہوجاؤ ابھی جان محمد گھر پر ہی ہے ہمیں سینما چھوڑ دے گا اور واپسی میں بابا پک کر لیں گے اگر وہ فیکٹری چلا گیا تو بہت مسئلہ ہوگا۔‘‘
اُسے آرڈر دے کر فرزین باہر نکل گئی جب کہ اُس کے باہر جاتے ہی حورعین وہیں بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کا دماغ سوچ سوچ کر شل ہوگیا تھا کہ آخری سعدی میں اتنی بے اعتباری کیسے پیدا ہوگئی کہ وہ حورعین کی محبت پر شک کرنے لگا تھا اور اس بات نے اُسے بے چین کر دیا تھا۔
٭…٭…٭





’’تم گھر نہیں گئی ابھی تک؟‘‘
وہ پچھلے ایک گھنٹہ سے گاڑی کے انتظار میں بیٹھی تھی ۔ مقیت اُسے تنہا بیٹھا دیکھ کر اُس کے پاس آگیا۔
’’گاڑی نہیں آئی۔‘‘
’’تو فون کرکے پتا کرو کیوں نہیں آئی۔‘‘ اس کے انداز میں فکر مندی در آئی۔
’’کیا تھا فون جان محمد کسی کام سے شیرشاہ گیا تھا واپسی میں ٹریفک میں پھنس گیا ہے اور کہہ رہا ہے ابھی بھی ٹائم لگے گا۔‘‘
’’اچھا! اگر تمہیں برُا نہ لگے تو آجاؤ میں چھوڑ دوں تمہارا گھر میرے راستہ میں ہی آتا ہے۔‘‘ مقیت نے کہا۔
’’شکریہ مقیت تم جاؤ میں بیٹھی ہوں جان محمد آجائے تو چلی جاؤں گی۔‘‘
’’ضد مت کرو حورعین تم اچھی طرح جانتی ہو میں تمہیں اس طرح تنہا بیٹھا چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔‘‘
حورعین جانتی تھی کہ وہ ایسا ہی ہے، مخلص اور ہر وقت لوگوں کے کام آنے والا۔
’’میں سعدی سے پوچھ لیتی ہوں اگر وہ فارغ ہے تو مجھے پک کرلے۔‘‘
یہ کہہ کر حورعین نے جلدی سے اُس کا نمبر ملا لیا جب کہ مقیت بنا کوئی جواب دیے اُس کے قریب بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ شاید ابھی تک ناراض تھا یہی وجہ تھی جو حورعین کے کئی بار فون کرنے پر بھی اُس نے کال ریسیو نہ کی اور اب تو جان محمد بھی فون ریسیو نہیں کررہا تھا وہ بے زار ہوکر اُٹھ گئی۔
’’تم مجھے گھر چھوڑ دو کیوں کہ اب تو میں انتظار کرکے بھی تھک گئی ہوں۔‘‘ وہ جانتی تھی کہ اُس کا گھر جس پوش علاقے میں ہے وہاں کسی کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ کوئی لڑکی کس کے ساتھ آتی ہے یا جاتی ہے بلکہ وہاں کے رہائشی تو آس پاس رہنے والوں سے بھی مکمل طور پر واقف نہ تھے اور جہاں تک اُس کے گھر کا معاملہ تھا تو اُس کی ممی اور دونوں بہنیں مقیت سے اچھی طرح واقف تھیں اور مقیت کی امی سے اُن کی ملاقات بھی ہوچکی تھی اس لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔
’’آجاؤ…‘‘
اُس کے اُٹھتے ہی مقیت بھی اُٹھ گیا اور پھر اگلے پندرہ منٹ میں وہ سہولت سے اپنے گھر پہنچ گئی جب کہ جان محمد کو ٹریفک سے نکل کر گھر آنے میں رات کے نو بج گئے۔ اُس نے شکر ادا کیا جو اُسے مقیت جیسا پرخلوص دوست میسر تھا جو ہمیشہ وقت پڑنے پر اُس کے کام آیا کرتا تھا ورنہ وہ نو بجے تک یونیورسٹی میں ہی خوار ہوتی رہتی۔
٭…٭…٭
’’ارے یہ ہینڈسم کون ہے؟‘‘
راشیل نے پلٹ کر اُس سمت دیکھا جہاں دانیہ نے اشارہ کیا تھا۔
’’میرا کزن ہے اچھا اب تم جاؤ کل کالج میں ملاقات ہوگی اور ہاں پلیز میرا سوٹ یاد سے لے آنا کیوں کہ مجھے پہننا ہے۔‘‘ صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس لمحے دانیہ سے جان چھڑوانا چاہ رہی ہے۔
’’لے آؤں گی سوٹ، میں کون سا کھانے لگی ہوں۔‘‘
جواب وہ راشیل کو دے رہی تھی مگر اس کی ساری توجہ کا مرکز گیٹ کے باہر کھڑا راشیل کا کزن تھا اور اس کی یہ دل چسپی چوں کہ راشیل محسوس کرچکی تھی اس لیے اُسے دانیہ کا اُس طرح سے تاڑنا سخت ناگوار محسوس ہورہا تھا۔
’’پلیز دانیہ اب تم جاؤ اگر کسی کو پتا لگ گیا نا کہ تم کو چنگ بَنک کرکے یہاں آئی ہو تو سچ جانو میری ماں نے مجھے ہی جان سے مار دینا ہے کہ یہ کیسی لڑکیاں تم نے دوست بنا رکھی ہیں۔‘‘
’’اوکم آن یار تم تو بہت ہی ڈرپوک ہو میں نے عبداللہ کو میسج کیا ہے وہ ٹریفک میں پھنس گیا ہے بس پندرہ منٹ میں پہنچ جائے گا تو میں نکلتی ہوں۔‘‘
عبداللہ اس کا نیا بوائے فرینڈ تھا جس سے وہ چار ماہ قبل ملی تھی اور آج کل وہ اپنے وڈیرے باپ کی کمائی دونوں ہاتھوں سے دانیہ پر لٹا رہا تھا جب کہ دانیہ کا تو یہ معمول تھا۔ وہ اس طرح کے لڑکوں کو بے وقوف بناتے ہوئے ذرا نہ ڈرتی تھی۔
’’ویسے راشیل تم بڑی لکی ہو جس کا اتنا خوبصورت اور اسمارٹ کزن ہے۔ مجھے اب سمجھ آیا کہ تم لڑکوں سے دوستی کیوں نہیں کرتی، صحیح بات ہے یار جب گھر میں ایسا مال موجود ہو تو باہر کون منہ مارتا ہے۔‘‘
’’بکواس نہیں کرو، میرے لیے بھائیوں جیسا ہے۔‘‘ راشیل نے غصے سے جواب دیا۔
راشیل نے کھڑکی سے باہر جھانکا اب وہ جگہ خالی تھی جہاں کچھ دیر قبل مقیت کھڑا تھا اُس کے حلق سے ایک گہری سانس خارج ہوئی ایسے جیسے وہ مطمئن ہوگئی ہو۔
’’چلو عبداللہ آگیا میں چلتی ہوں۔‘‘
باہر سے سنائی دینے والے ہارن کی آواز سنتے ہی دانیہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’کوئی اچھا سا پرفیوم تو دو ایسا جس کی خوشبو عبداللہ کو مزید میرا دیوانہ بنا دے‘‘ وہ ایک گہرا سانس خارج کرتے ہوئے بولی۔ کچھ دیر قبل مقیت کی پرسنیلٹی میں گم دانیہ نے ایک دم ہی اپنا زاویہ تبدیل کرلیا اور اُس کی اس تبدیلی پر بھی راشیل کو کوئی حیرت نہ ہوئی، اُس نے خاموشی سے اُٹھ کر اپنے ڈریسنگ ٹیبل پر موجود پرفیوم کی بوتل دانیہ کی جانب بڑھا دی جسے بڑی فراخ دلی سے خود پر انڈیلنے کے بعد اُس نے بوتل بند کرکے اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لی۔
’’بہت اچھی خوشبو ہے میں کل تمہیں کالج میں ہی واپس کردوں گی تمہیں برُا تو نہیں لگا۔‘‘
’’نہیں…‘‘




Loading

Read Previous

سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

Read Next

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!