’’اماں کھاؤ اللہ کی قسم۔‘‘ مما نے یقین نہ آنے والے انداز میں کہا۔ ’’مجھے اللہ کی قسم ہے سامی، میں اپنے سوہنے نبی پاکﷺ کے دیس میں بیٹھی ہوں۔ تمہارے اس مشکل وقت میں
توبہ ہے یار ۔۔۔ ابھی تک تم سے ایک فیصلہ نہی ہو پا رہا ۔۔۔؟ اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے ۔۔۔ موبائل سکرین پہ تراشیدہ لمبے ناخنوں والی انگلیاں چلاتے ہوئے نازش
باہر محلے میں شور کی آواز آنے لگی، تو امی بھی بڑ بڑانے لگیں۔ ’’ شروع ہو جاتی ہیں صبح صبح ۔‘‘ امی کھانا لگاتے ہوئے غصے سے بول رہی تھیں،باہر گلی میں بھی خواتین
تعلیم کی اہمیت پر ابا جی کے بہت لیکچر سنے، اماں کی صلواتیں بھی سنیں مگر اپنی ازلی ڈھٹائی کی بہ دولت ہم نے مانا اور نہ ہی پڑھا ۔اماں اٹھتے بیٹھتے یہی بولتیں۔ ارے
’’امی!‘‘ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’جی بیٹا؟‘‘ وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ’’میں آجاؤں؟‘‘ ’’آجاؤ پوچھ کیوں رہے ہو؟‘‘ ’’لائٹ جلا دوں؟‘‘ وہ اب کمرے میں
وہ بڑا ہلکا وجود لئے امریکہ واپس آئی تھی اور امریکہ پہنچ کر اس نے اپنا نمبر آن کیا تھا اور اس کا فون یک دم سارے رشتوں سے جاگنے لگا تھا۔ پیغامات کا انبار