جنریشن گیپ — ثناء شبیر سندھو

’’فارگاڈسیک مام۔۔۔ مجھے ٹھیک سے ریڈی تو ہونے دیں۔۔ آپ کے لیکچر کے لیے میں الگ سے ٹائم نکال لوں گی جانے سے پہلے۔۔‘‘ بلش آن لگاتی ماہم پلٹ کر غصے سے بولی۔
’’بیٹا میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔ صرف یہی تو کہا ہے کہ اتنے میک اپ کی آخر ضرورت کیا ہے۔۔۔ سالگرہ کی تقریب ہی تو ہے کون سا شادی میں جارہی ہو۔۔۔؟‘‘ نسیم نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔
’’گاڈ۔۔‘‘ ماہم نے برش ڈریسنگ ٹیبل پر پٹخا۔
’’آپ کا پرابلم کیا ہے۔۔؟ یہ رات کا فنکشن ہے اور مجھے اس کے مطابق تیار ہونا ہے۔ مجھے وہاں ماسی نہیں لگنا۔‘‘ اُس نے پلٹ کر فرصت سے جواب دیا۔
’’میں سمجھتی ہوں لیکن۔۔ ارے یہ۔۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتیں اُن کی نظر اُس کی ٹانگوں پر پڑی۔
’’ماہم یہ پاجامہ زیادہ ٹائٹ نہیں ہوگیا؟ بیٹا آپ کی شرٹ بھی کافی اونچی ہے۔۔۔ پلیز کچھ بہتر پہن لو۔۔۔ کچھ اور ۔۔۔۔‘‘
’’مما۔۔۔‘‘ ماہم کی پکار کسی شیخ سے کم نہ تھی۔
’’آپ کو ہوتا کیا جارہا ہے۔۔۔؟ اتنا میک اپ مت کرو۔ شرٹ اونچی ہے۔ فٹنگ زیادہ ہے۔۔ آپ کی روک ٹوک کی عادت کچھ زیادہ نہیں ہوگئی؟۔ ماہم نے اُکتا کر جواب دیا۔
’’لیکن۔۔۔
’’واٹ لیکن۔۔۔؟ آپ کو پتا بھی ہے آج کل کیا فیشن چل رہا ہے۔۔۔؟ باہر کیا ہورہا ہے فارمل وئیر میں کیا چل رہا ہے اینڈ ان فارمل میں کیا۔۔۔؟
’’مام یہ 2016ء ہے۔۔۔ 1970ء نہیں۔۔۔ میرا ایک سوشل سرکل ہے۔۔ ایک کلاس ہے۔۔۔ میں آپ کے مطابق ڈریسنگ کرکے اپنا مذاق نہیں بنوا سکتی۔۔۔‘‘ ماہم نے بدتمیزی سے جو اب دیا۔ ’’ماہم۔۔۔ اتنا سیخ پا ہونے والی کون سی بات کردی میں نے۔۔؟ میں تمہاری ماں ہوں۔۔ تمہارا براتو نہیں چاہوں گی نا۔۔۔؟ نہ ہی مجھے یہ اچھا لگے گا کہ تم کسی فنکشن میں بری لگو۔۔ لیکن بیٹا سادگی کا اپنا ایک حسن ہوتا ہے۔‘‘ نسیم کا لہجہ نجانے کیوں آزردہ ہوگیا۔۔
’’مما۔۔ مجھے پتا ہے کہ آپ میرے لیے اتنی فکر مند کیوں ہورہی ہیں مگر میں ایسا کچھ نہیں کررہی۔ جو دوسرے کرتے ہیں، بس وہی کرتی ہوں۔ آپ جا کر دیکھیں باہر آج کل کیسے تیار ہوکر آتی ہیں لڑکیاں۔ سب ایسا ہی لباس پہنتی ہیں، تو میں کیوں نہ پہنوں‘‘؟ اس دفعہ ماہم کا لہجہ قدرے نرم تھا۔ اُس نے ماں کو کندھوں سے پکڑ کر سمجھایا۔
’’ماما، میں گریجویشن کرچکی ہوں اور میری اپنی بھی کوئی پہچان اور رائے ہے۔ یہ روک ٹوک اور پابندیاں مجھے بالکل اچھی نہیں لگتیں۔۔۔ مجھے میری لائف انجوائے کرنے دیں اینڈ ڈونٹ وری۔۔۔ میں ایسا کچھ نہیں کررہی جو آپ کی پریشانی کا سبب بنے۔۔۔‘‘ اُس نے نسیم کو بیڈ پر بٹھا کر مزید سمجھایا۔۔۔ اسی اثنا میں باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔
’’اوہ مائی گاڈ لگتا ہے کہ سام مجھے لینے آگیا ہے۔‘‘ وہ فوراً اُٹھی۔۔ آئینے کے سامنے خود پر تنقیدی اور تفصیلی نظر ڈالی۔۔ ہئیر برش سے اپنے بال ٹھیک کیے اور اپنا نازک سا کلچ اُٹھا کر دروازے کی جانب بھاگی۔ ’’اینڈ مام۔۔ پلیز۔۔ مجھے بار بار کال کرنے کی ضرورت نہیں۔۔ میں جلد واپس آجاؤں گی۔۔ سام مجھے چھوڑ دے گا۔ میرے لیے جاگنے کی ضرورت نہیں۔۔ آپ بار بار کال کرتی ہیں تو میں بہت شرمندہ ہوجاتی ہوں فرینڈز کے سامنے۔۔ آپ کو تو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوگا۔‘‘ ماہم بالآخراب جاچکی تھی۔۔ ’’میرا فون کرنا اسے شرمندگی لگتا ہے؟ کیوں؟‘‘ نسیم نے اپنا سر تھام لیا۔
انہوں نے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا۔۔ بال اُڑے سے تھے، چہرے پر جھریاں ان کی عمرعیاں کرنے لگی تھیں۔۔ نیلے رنگ کے سوٹ کے ساتھ اُنہوں نے کسی اور رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔۔ وہ اتنی بوڑھی تھیں نہیں جتنی پچھلے کچھ عرصے سے خود کو محسوس کرنے لگی تھیں۔
اچانک ہی کچھ ہوا تھا۔
کچھ دن پہلے کی بات تھی جب وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر لان کا جائزہ لے رہی تھیں کہ ماہم کو کسی لڑکے نے ڈراپ کیا۔ ماہم نے گاڑی سے اُتر کے باقاعدہ اُس سے ہاتھ ملایا اور پھر اتراتی ہوئی لاؤنج کی طرف بڑھنے لگی۔ انہیں یاد آیا کہ یہ پوچھنے پر کہ وہ لڑکا کون تھا؟ ماہم نے کیسا طوفان اُٹھایا تھا کہ وہ روایتی اور پرانی ماؤں کی طرح اُس سے سوال جواب کررہی ہیں۔۔ اُس پر شک کررہی ہیں۔۔۔ اُس کی حدود اور آزادی پر انگلی اٹھا رہی ہیں۔
’’حدود۔۔۔ آزادی۔۔۔‘‘ نسیم طنزیہ ہنسیں۔ ان کی آنکھوں میں ماضی کی پرچھائیاں سر اُٹھانے لگیں۔ ’’اوہوامی۔۔۔ کیا ہوگیا ہے اگر عمر نے مجھے فون کر لیا تو۔۔ وہ میرا کو لیگ ہے۔۔ ہم ساتھ کام کرتے ہیں۔ اُسے کچھ پوچھنا تھا مجھ سے تو اُس نے فون کرلیا اور لڑکے لڑکی کا صرف ایک ہی رشتہ نہیں ہوتا۔۔ تھوڑا سا دماغ کھولیں اپنا۔۔‘‘ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔
’’بس بس۔۔ مجھے سکھانے کی ضرورت نہیں۔۔ اُس کو منع کر دو کہ آئندہ ہمارے گھر فون نہ کرے۔۔
دفتر کا کام دفتر تک ہی رہے تو اچھا ہے۔۔ تمہاری ضد تھی کہ تمہیں دفتر میں کام کرنا ہے ورنہ ہم نے کون سا تمہاری کمائیاں کھانی ہیں۔۔‘‘ ماں نے اُسے اچھا خاصا لتاڑ کررکھ دیا تھا۔
’’آپ بات کو سمجھتی نہیں ہیں اماں۔۔ اس میں کمائیوں والی کون سی بات ہے۔ میں نے بی اے بی ایڈ گھر بیٹھنے کے لیے نہیں کیا تھا۔‘‘ وہ دھپ کرکے کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’پتر میری اور تیری سمجھ میں بہت فرق ہے۔۔ میں تیری طرح چیزوں کو نہیں سمجھ سکتی۔۔ جو ان بیٹیوں کی ماں ہوں۔۔‘‘ وہ سلائی مشین پر بیٹھ چکی تھیں۔ مشین پر دھاگا چڑھانے کے لیے انہوں نے نلکیوں والا ڈبہ کھولا۔
’’جوان بیٹیوں کی ماں ہونا کوئی ایسا گناہ نہیں کہ جس کے بوجھ تلے دب کر آپ خود بھی گھٹ گھٹ کر جئیں اور بیٹیوں کی آزادی بھی چھین لیں۔۔‘‘ اُس نے غصے سے بال جھٹکے۔۔ جو اُس نے تازہ تازہ کٹوائے تھے۔
’’آ۔۔ زا۔۔دی‘‘ اُس کے ماں نے ہونق بن کر اُسے دیکھا۔
’’ماں۔۔۔‘‘ نسیم کے لبوں سے ایک آہ نکلی تھی۔
’’اچھا اماں میں جارہی ہوں اب، مہوش کے کتنے ہی فون آچکے ہیں۔۔ میری سب سے اچھی سہیلی ہے اور آج اُس کی مہندی پر میں ہی لیٹ ہوں۔۔‘‘ وہ تیار ہوکر باہر نکلنے کو تھی کہ برآمدے میں رکھے تخت پر بیٹھی اپنی ماں کو سلائی مشین کے ساتھ مصروف دیکھا۔
’’ٹھیک ہے‘‘ اُس کی ماں نے لمحے بھر کو سر اُٹھایا۔
’’اے بات سُن۔‘‘ وہ ٹھٹکی۔۔۔
’’اب کیا ہے اماں۔۔‘‘ وہ تپ کر پلٹی۔
’’یہ اتنی تیز رنگ کی لپ اسٹک کیوں تھوپ لی چہرے پر۔۔۔ تجھے کتنی دفعہ منع کیا ہے۔۔۔ کہ۔۔‘‘
’’اماں بس کردو۔۔ شادی ہے۔۔ مہندی پر جارہی ہوں اگر وہی پرانے زمانوں کی ایک تبت سنو اور ہلکی سی یہ لپ اسٹک لگا لی تو کون سی قیامت آگئی۔۔ جارہی ہوں میں۔۔‘‘ وہ بات کاٹ کر چیخ کر بولی۔
’’تو اور تجھے کسی بیوٹی پارلر جانا تھا منہ سجانے۔۔۔ ستر دفعہ سمجھایا ہے کہ کنواری لڑکیوں کو لپ اسٹک لگانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اماں نے ماتھا پیٹ لیا۔
’’ہونہہ۔۔ بھیج ہی نہ دیتیں پارلر۔۔ ویسے اماں مشین کی سوئی میں دھاگا تو ڈالا نہیں جاتا آپ سے اور اتنی دور سے میری لپ اسٹک خوب نظر آئی۔۔‘‘ نسیم چمک کر بولی۔۔
’’اماں اپنی اولاد کے قدم دیکھ کر بتا دیتی ہے کہ کسی کام کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔۔ تیری لپ اسٹک تو چھوٹی بات ہے۔۔‘‘ اماں طنزیہ ہنسی تھی۔
’’ہونہہ۔۔ آپ اور آپ کی فلاسفیاں۔۔ میری سمجھ سے تو باہر ہیں۔۔۔‘‘ وہ پراندہ ہلاتی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ آج اُس نے اور اُس کی سب سہیلیوں نے رنگ برنگے پراندے باندھے تھے۔
’’سمجھ جائے گی بیٹا۔۔۔ جب ماں بنے گی، سب سمجھیں آجائیں گی۔۔‘‘ دروازہ پار کرتے کرتے اُس کے کانوں نے اماں کی بڑُ بڑُاہٹ سنی۔
فون کی چنگھاڑتی بیل نے نسیم کو واپس حال میں لاپٹخا تھا۔
’’آپ نے کتنا صحیح کہا تھا اماں۔۔ آج میں بھی جوان بیٹی کی ماں ہوں۔۔ جس نے آپ کی روک ٹوک سے عاجز آکر دل میں ہمیشہ یہی عزم کیا کہ اپنی اولاد کو آزادی دوں گی۔۔ کوئی روک ٹوک نہیں کروں گی۔۔ وہ جو پہننا چاہیں۔ پہنیں۔۔ جیسا رواج ہو ویسا ہی لباس پہنیں گے۔ جہاں جانا چاہیں جائیں۔۔ اُن پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔۔ کیوں کہ جو خواہشیں مجھے اپنے دل میں دبانی پڑیں وہ میرے بچوں کو نہ دبانی پڑیں اور وہ اپنی زندگی اصل میں جئیں۔۔ پھر آج مجھے کیا ہورہا ہے۔۔ میں کیوں اپنی اماں کا ہی پر تو بنتی جارہی ہوں۔۔
کیا میں نے ماہم کو آزادی دے کر غلط کیا۔۔۔؟
کیا مجھے شروع سے ہی اُس پر روک ٹوک کرنی چاہئے تھی۔۔۔؟
کیا ہمیشہ اُس کی مان کر اُس کی زندگی میں اُس کو پورا اختیار دینا میری غلطی ٹھہری۔۔؟
یا پھر یہ ہر دور کی ماں کا المیہ ہے۔۔۔؟ وہ زمانے کی دوڑ میں بھاگتی بھاگتی ہانپ جاتی ہے اور زمانے کا ساتھ نہیں دے پاتی۔۔ تھک ٹوٹ کر بیٹھ جاتی ہے اور پھر اُس کے بچے اُس کو بتاتے ہیں۔۔ کہ وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔ ارے ہاں۔۔
’’جنریشن گیپ‘‘ بی اے، بی ایڈ نسیم کو ذہن پر زور دے کر یاد کرنا پڑا۔۔ یہ وہ دو لفظ تھے جن کا مطلب وہ اپنی ماں کو دن رات سمجھاتی تھی اور آج۔۔۔ نسیم نے اپنی آنکھیں مسلیں اور آگے بڑھ کر تیز آواز میں چیختے فون کا ریسیور اُٹھا لیا۔




Loading

Read Previous

کچھ باتیں دل کی — شاکر مکرم

Read Next

خلا — ایم اے ایقان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!