”اس آسمان پر تمہیں سب سے خوب صورت اور روشن کیا چیز نظر آرہی ہے؟” اسے باہر عقبی باغیچے میں لے جاتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا جہاں چاند
عبدالعلی کیاری میں ایک چھوٹا سا پودا لگا رہے تھے۔ اتنے انہماک اور احتیاط سے کہ انہیں قلبِ مومن کے آنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ وہ ان کے عقب میں کھڑا ان ننھے ننھے
”اس شہرت سے میں نے کچھ نہیں کمایا۔ جہانگیر کے علاج کے پیسوں کے علاوہ، تم مجھے جانتے ہو پھر بھی یہ کہہ رہے ہو۔” ”میں نہیں کہتا یار۔ میرے ماں باپ کہتے ہیں۔ انہیں
”نیہا آجاتی ہے تو اُس سے بھی کاسٹیومز اور وارڈ روب کا بجٹ ڈسکس کر لو۔ پچھلی دفعہ اوور بجٹ ہو گئی تھی ہماری وارڈ روب۔” قلبِ مومن نے ٹینا اور دائود سے کہا۔ وہ
داؤد نے اس کے لیے اسٹوڈیو کا دروازہ کھولا اور وہ اندر داخل ہو گئی۔ پہلی نظر میں اندر داخل ہونے پر اسے قلبِ مومن نظر نہیں آیا تھا جو اس وقت ایک ٹیبل پر
’’سیدھی مانگ نکالو ، سیدھا میاں ملے گا۔‘‘ میرے گھنگھریالے بالوں میں چنبیلی کے تیل کی چمپی کرتے ہوئے میری معصوم سی ماں کی معصومانہ التجا ہوتی ۔ پلنگ پر بیٹھی میری ماں مجھے اپنے